اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اپریل 2025ء) دوسری عالمی جنگ کے بعد جب ایشیا اور افریقہ کے ممالک آزاد ہوئے تو یہ توقع کی گئی کہ کلونیل عہد کے اداروں اور روایات کا خاتمہ کر کے نئے مُلک کی بنیاد ڈالی جائے گی۔ اس سلسلے میں سابق محکوم قوموں کے ذہن کو بھی بدلن بھی ضروری خیال کیا گیا۔کیونکہ یورپی سامراج کے دور میں اُنہوں نے اس کا مقابلہ ماضی کی اپنی شان و شوکت اور عظمت کو اُبھار کر کیا تھا۔
لیکن آزادی کے بعد ماضی کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ اب قوموں کو ترقی کے لیے مستقبل کی جانب دیکھنا تھا۔ ماضی اب اُن کے لیے رکاوٹ کا باعث تھا۔ اس لیے ایک نئی تاریخ لکھنے کی ضرورت تھی، جس میں کلونیل دور کے اُن غلطیوں اور کمزوریوں کا تجزیہ کرتے ہوئے اسے سمجھنے کی کوشش کرنا تھا جن کی وجہ سے اُنہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔(جاری ہے)
آزادی کے بعد ایشیا اور افریقہ کے مُلکوں نے آمریت کے نظام کو نافذ کیا۔
وہ راہنما جنہوں نے آزادی کی تحریک کی حمایت کی تھی۔ وہ قوم کے ہیرو بن گئے، لیکن عام لوگوں کی جدوجہد اور قربانیوں کو نظرانداز کیا گیا۔ کیونکہ آمروں کو کلونیل دور کا سیاسی نظام پسند تھا۔ اس لیے اُنہوں نے سابق ریاستی اداروں کو جن میں فوج، نوکر شاہی، پولیس اور خفیہ ادارے شامل تھے، اُنہیں اپنے اقتدار کے لیے باقی رکھا۔جن افریقی اور ایشیائی مُلکوں میں جمہوریت کی ابتداء ہوئی تھی اُسے آمرانہ قوتوں نے ختم کر دیا اور آمر با اختیار ہو کر طاقت کا سرچشمہ بن گئے۔
انتخابات کی جگہ ریفرنڈم کی روایت شروع ہوئی تا کہ حکمراں پارٹی کو انتخابات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اگر الیکشن کرانا پڑے تو اُنہیں محدود کر دیا گیا۔ جیسا کہ پاکستان میں بھی ہو چکا ہے۔جب آمر اور حکمراں طبقہ بااختیار ہو جائے تو اس کے نتیجے میں خوشامد کی پالیسی پروان چڑھتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بدعنوانی اور رشوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ کسی تنقید کو برداشت نہیں کیا جاتا۔
طالبعلموں، مزدوروں اور خواتین کی تحریکوں پر پابندیاں لگا دی جاتیں ہیں۔ تعلیمی نصاب کو بدل دیا جاتا ہے۔ تاریخ کو مسخ کر کے قومی راہنماؤں کو ہیروز کا درجہ دے کر اُن پر ہر قسم کی تنقید ممنوع کر دی جاتی ہے۔ اَدب، آرٹ، تھیٹر اور موسیقی بے جان ہو کر سطحی ہو جاتی ہے۔ جب کسی بھی سوسائٹی میں طبقاتی فرق بڑھ جائے، تو اس کے نتیجے میں اشرافیہ نہ صرف دولت اکٹھی کرتی ہے بلکہ مراعات یافتہ بھی بن جاتی ہے۔ جبکہ عوام اپنی عزت اور وقار سے محروم ہو کر غربت اور عسرت کی زندگی گزارتے ہیں۔ اس لیے اُن میں کبھی کبھی یہ سوال پیدا ہوتا کہ کیا یورپی سامراج کی غلامی اچھی تھی یا اپنوں کی۔Howard university کے ایک پروفیسر Nile Ferguson کا کہنا ہے کہ ایشیا اور افریقہ کے نو آزاد ممالک اپنی حالت کو بدلنے کے اہل نہیں ہیںٰ اس لیے مغربی سامراج کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوبارہ ان پر قبضہ کر کے ان کی اصلاح کریں، اور اِنہیں جدید دور میں داخل کریں۔
لیکن کچھ ناکام ریاستوں نے کامیاب ہو کر مغرب کی بہت سی غلط فہمیوں کو دُور کیا ہے۔ مثلاً سنگاپور جو ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے اُس نے کلونیل دور کے تمام نشانات کو مِٹا کر اپنا ایک ایسا نظام قائم کیا، جو بہت سے یورپی مُلکوں سے بہتر ہے۔ جنوبی کوریا نے اپنی تبدیلی کا آغاز آمریت سے کیا تھا مگر پھر اسے جمہوریت میں بدلا اور صنعتی ترقی نے اسے خوشحال بنایا۔
ملائیشیا نے بھی اصلاحات کے ذریعے اپنی ناکامی کو ختم کیا۔اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کو کامیاب ہونے کے لیے کونسی پالیسی اختیار کرنا ہو گی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قوم کی ترقی کے لے ضروری ہے کہ اُسے ماضی کی زنجیروں کو توڑنا ہو گا اور ماضی کا حصہ ہوں یا کلونیل دور کی پیداوار ان سب کا خاتمہ کر کے موجودہ حالات کے مطابق سیاسی اور معاشی اور سماجی نظام کو تشکیل کرنا ہو گا۔
جدید روایات اُسی وقت معاشرے میں آئیں گی جب اُن کے لیے خالی جگہ ہو گی۔ قدیم اور جدید مِل کر ساتھ نہیں رہ سکتے ہیں۔دونوں امریکی مصنفین نے قوموں کی ناکامی کا جو تجزیہ کیا ہے اُسے پاکستان کی اشرافیہ اور سیاسی جماعتوں کے لیے پڑھنا ضروری ہے تا کہ وہ مُلک کو بحرانوں سے نکال سکیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کلونیل دور ا نہیں کے لیے اس لیے
پڑھیں:
اپوزیشن اپنے لیڈر کیلیے امریکا میں لابنگ کرسکتی ہے تو اسرائیل کیخلاف لابنگ کیوں نہیں کرتی، حافظ نعیم
جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ فلسطین میں اسرائیل امریکا کی آشیرباد سے نسل کشی کررہا ہے اور اسلامی ممالک خاموش ہیں، اگر اسلامی ممالک ملکر پیش قدمی کا اعلان کریں تو پھر غزہ جنگ رک سکتی ہے۔
کراچی میں فلسطین سے متعلق مارچ سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ کراچی نے ایک بار پھر ثابت کہ جیتا جاگتا شہر ہے، اہل غزہ جس تکلیف مصیبت میں ہیں بیان سے باہر ہے، 60 سے 70 ہزار سے زائد افراد شہید ہوچکے جس میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کا کوئی کردار نہیں بلکہ غزہ میں طاقت اور دہشت گردی کا راج ہے، اقوام متحدہ کا چارٹر ان طاقتوں نے پھاڑ کر پھینک دیا، مسلم حکمران سمجھتے ہیں کہ صیہونی عالم عرب کو چھوڑ دیں گے۔
حافظ نعیم نے کہا کہ یہ یہودیوں کی تاریخ ہے احسان کرنے والوں کو نہیں چھوڑتے، نبیوں کو چھوڑنے والے عرب حکمرانوں کو بھی نہیں چھوڑیں گے، عرب حکمران ڈٹ کر کھڑے ہوگئے تو تاریخ میں ان کا نام ہوگا اور اگر یہودیوں کے سہولت کار بن کر خاموش رہے تو ان کی داستان بھی نہیں ہوگی داستانوں میں۔
انہوں نے کہا کہ مسلم افواج کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے، 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل اور اس کی ٹیکنالوجی شکست کھا چکی ہے، اسرائیل اب بچوں سے انتقام لے رہا ہے، اسرائیل نسل کشی کررہا ہے۔
حافظ نعیم نے کہا کہ اسرائیل آج بھی القسام برگیڈ کامقابلہ نہیں کرسکتا، اگر مسلمان حکومت کے ایٹمی ہتھیار اور میزائل سامنے آئیں تو بچوں کی شہادت رک جائیں گی، پاکستانی وزیر اعظم اور آرمی چیف عالمی کانفرنس مدعو کریں اور مشترکہ اعلامیہ جاری کریں کہ بہت ہوچکا اب پیش قدمی ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ جس روز یہ سب کچھ ہوا تو اسی دن جنگ بند ہو جائیگی اور ٹرمپ خود جنگ بند کروائے گا، اسرائیل اور امریکا سے نفرت کرنے والے باضمیر افراد پر جگہ سڑکوں پر ہیں۔
حافظ نعیم نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ جاری رکھنے پر زور دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ سرکاری سطح پر اس پالیسی کا اعلان کرے کیونکہ اس کے ذریعے بھی فلسطینیوں کو کچھ ریلیف مل سکے گا۔
امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ آج کی ریلی میں لاکھوں کی تعداد میں شرکا موجود ہیں جس سے اہل غزہ کو نیا جذبہ ملے گا، اسماعیل ہانیہ کا خاندان مسلسل قربانیاں دے رہا ہے اور حماس کی تحریک اب کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔
انہوں نے کہا کہ پوری دنیا میں اہل فلسطین اور اہل غزہ سے اظہار یک جہتی کیا جارہا ہے، امریکا میں پچاس فیصد رائے دہندگان حماس کے حامی ہوچکے ہیں، حماس کی جدوجہد اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق آئینی ہے اور وہ ایک جمہوری قوت ہے۔
حافظ نعیم نے کہا کہ مفتی تقی عثمانی اور مفتی منیب کے فتوے پر تکلیف یہودیوں کے ایجنٹ کو ہورہی ہے، پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن سے پوچھتا ہوں امریکا کی مذمت کیوں نہیں کرتے اور اسرائیل کے خلاف کھل کر کیوں کھڑے نہیں ہوتے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اپوزیشن (پی ٹی آئی) اپنے لیڈر کے لیے لابنگ کرسکتی ہے تو اسرائیلی کے خلاف امریکا میں لابنگ کیوں نہیں کرتی۔ حافظ نعیم نے دعویٰ کیا کہ لیاقت علی خان کو کہا گیا کہ اسرائیل کو مان لو بہت کچھ دیں گے مگر لیاقت علی خان نے قوم کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا کہ ہماری روح قابل فروخت نہیں اس کے نتیجے میں پاکستان کو عزت ملی تھی۔
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ مسلم لیگ پیپلز پارٹی تحریک انصاف سے کہہ رہا ہوں اہل غزہ کے لیے آواز اٹھائیں اسرائیل کی مذمت کریں، سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں سے کہتا ہوں جہاد کے فتوے اور مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک پر ان پارٹیوں کی اہم شخصیات نے اس کے خلاف مہم شروع کردیں۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنی پارٹی پالیسی واضح کریں۔
اُن کا کہنا تھا کہ طاغوت کا ہتھیار ان کے خلاف استعمال کریں گے لیکن ان کی تجارت کا بائیکاٹ کریں گے، ان کی مصنوعات کی طاقت سے ہی یہ ہمارے بچوں کو شہید کررہے ہیں، جہاد کا فتویٰ مسلم ممالک اور افواج کے لیے دیا گیا، کروڑوں لوگ غزہ کے بچوں کے لیے جان دینے کو تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جذبہ جہاد کو سازشوں سے کم نہیں کیا جاسکتا۔
حافظ نعیم نے کہا کہ عوام ایک بڑی جدوجہد کے لیے تیار رہیں، ہماری ترجمانی کرنے والی حکومتیں ہمارے پاس نہیں ہیں، ہمیں حق و انصاف کی بالا دستی کے لیے آواز اٹھانا ہوگئی۔
اگلے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے حافظ نعیم نے کہا کہ اگلے مرحلے میں بچوں کا ایک الگ مارچ کیا جائے گا، 18 اپریل کو ملتان 20 اپریل کو اسلام آباد میں غزہ مارچ ہوگا، اسلام آباد میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع ہوگا۔
انہوں نے اعلان کیا کہ 22 اپریل کو پورے ملک میں شٹر ڈاؤن ہڑتال ہوگی، جس کی فلسطینی قیادت سے بھی توثیق کرلی ہے۔ عالم اسلام کی دیگر تنظیموں سے بھی اس روز ہڑتال کی بات کریں گے۔
حافظ نعیم نے کہا کہ 22 اپریل کو پورے ملک میں کاروبار بند کرکے غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی ملکوں کے سربراہان اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی خطوط لکھ رہا ہوں، پوری دنیا میں امریکا کی غلاموں کے خلاف تحریک شروع کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا کے غلاموں کے خلاف تحریک کی قیادت کراچی کرے گا اور ہم کامیابی حاصل کریں گے۔ حافظ نعیم نے آخر میں مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم افواج پاکستان کے سربراہان کا اجلاس بلائیں اور غزہ کے حوالے سے پالیسی بنائیں، پیشقدمی سے ہی محاصرے کو توڑ سکیں گے۔