ککڑ خاندان میں دراڑ، سونو ککڑ نے نیہا اور ٹونی سے تعلقات ختم کردیے؟
اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT
موسیقی کی دنیا کا مشہور ککڑ خاندان آج ایک المناک موڑ پر کھڑا ہے۔ سونو ککڑ، جو نیہا ککڑ اور ٹونی ککڑ کی بڑی بہن ہیں، نے اچانک اپنے سوشل میڈیا پر ایک دل دکھانے والا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اب ان کا اپنے بہن بھائیوں سے کوئی تعلق نہیں۔
سونو ککڑ کی جانب سے اپنی بہن نیہا اور بھائی ٹونی ککڑ سے لاتعلقی کا یہ اعلان ان کے مداحوں کےلیے پریشان کن ثابت ہوا ہے۔
12 اپریل 2025 کی شام کو سونو ککڑ نے اپنے مداحوں کے نام ایک جذباتی پیغام میں لکھا: ’’میں انتہائی دل گرفتگی کے ساتھ یہ اطلاع دے رہی ہوں کہ میں اب دو باصلاحیت سپر اسٹارز ٹونی ککڑ اور نیہا ککڑ کی بہن نہیں رہی۔ یہ فیصلہ میں نے گہرے جذباتی درد کے تحت کیا ہے۔‘‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ سونو نے اس فیصلے کی کوئی واضح وجہ بیان نہیں کی، جس نے سب کو حیران کردیا۔
سوشل میڈیا پر اس اعلان کے بعد ہلچل مچ گئی۔ کچھ مداحوں نے سونو کے فیصلے کو سراہا تو کچھ نے اسے خاندانی ڈرامے کا حصہ قرار دیا۔ ایک صارف نے لکھا: ’’یہ پی آر اسٹنٹ ہوسکتا ہے، ککڑ فیملی ڈراموں کےلیے مشہور ہے‘‘، جبکہ دوسرے نے کہا: ’’ٹونی کو سپر اسٹار کون کہتا ہے سوائے بہن کے؟‘‘
یہ بات قابل ذکر ہے کہ نیہا ککڑ اور ٹونی ککڑ نے اب تک اس معاملے پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ سونو ککڑ، جنہیں ’’سن بالیے‘‘ گانے کی وجہ سے شہرت ملی، نے متعدد زبانوں میں اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ محض ایک عارضی جذباتی ردعمل ہے یا پھر ککڑ خاندان میں واقعی کوئی گہری دراڑ پڑگئی ہے؟ کیا یہ تعلقات دوبارہ بحال ہوں گے یا پھر یہ خاندان ہمیشہ کےلیے بکھر جائے گا؟ فی الحال تو یہ راز سونو کے دل میں دفن ہے، اور تمام مداحوں کی نظریں اس خاندان کے اگلے قدم پر لگی ہوئی ہیں۔
Post Views: 4.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: سونو ککڑ
پڑھیں:
ججز تبادلہ، سنیارٹی کیس: سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کے 3 ججز کو نوٹس جاری کردیے
سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلے اور سینیارٹی سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ہائی کورٹ کے تین ججز، اٹارنی جنرل پاکستان اور جوڈیشل کمیشن کو نوٹسز جاری کردیے۔
سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلے اور سنیارٹی سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس معاملے پر ہمارے سامنے سات درخواستیں آئی ہیں، سنیارٹی کیس میں پانچوں جج بھی ہمارے سامنے درخواست لائے، کیوں نہ ہم ججز کی درخواست کو ہی پہلے سنیں۔
بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ سینیر ہیں پہلے ان کو سن لیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ رائٹ آف آرڈیننس منیر اے ملک کو دیا جاتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل شروع کیے اور مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر ہونے والے ججز کے معاملے کو عدلیہ کی آزادی کے آرٹیکل 175 کے ساتھ دیکھنا چاہیے، ججز ٹرانسفر، فیڈرل ازم اور انتظامی کمیٹی کی تشکیل سے متعلق دلائل دونگا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ججز ٹرانسفر آرٹیکل 200 کے تحت ہوئی، بہتر ہے دلائل کا آغاز بھی یہی سے کریں، ہم ججز کو سول سرونٹ کے طور پر تو نہیں دیکھ سکتے۔
منیر اے ملک نے کہا کہ اصغر اعوان کیس میں سینارٹی کے اصول کو سول سرونٹ کے طور اجاگر کیا گیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایک جج کا ٹرانسفر چار درجات پر رضامندی کے اظہار کے بعد ہوتا ہے، جس جج نے ٹرانسفر ہونا ہوتا ہے اس کی رضامندی، جس ہائی کورٹ سے ٹرانسفر ہونا ہوتی ہے اس کے چیف جسٹس سے رضامندی معلوم کی جاتی ہے، پھر جس ہائی کورٹ میں آنا ہوتا ہے اس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی رضامندی لی جاتی ہے، آخر میں چیف جسٹس پاکستان کی رضامندی کے بعد صدر مملکت ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ہائی کورٹ کے پانچ ججز کے وکیل منیر اے سے استفسار کیا کہ آپ کو اعتراض ٹرانسفر پر ہے، یا سینارٹی پر، منیر اے ملک نے جواب دیا کہ ہمارا اعتراض دونوں پر ہے۔
دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر اور پانچ ججوں کے وکیل منیر اے ملک کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔
وکیل نے کہا کہ جج کا ٹرانسفر عارضی طور پر ہو سکتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ایسا کہیں زکر نہیں ہے، صدر مملکت نے نوٹیفکیشن میں اضافی مراعات کا بھی کہیں زکر نہیں کیا، یہاں عدم توازن مراعات کا معاملہ نہیں ہے، وہ الفاظ جو آئین کا حصہ نہیں ہیں وہ عدالتی فیصلے کے زریعے آئین میں شامل نہیں کر سکتے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے مزید کہا کہ آپ ہم نے نئے الفاظ آئین میں شامل کروانے کی بات کر رہے ہیں، آرٹیکل 62 ون ایف نااہلی کیس میں آئین میں نئے الفاظ شامل کیے گئے، آئین میں نئے الفاظ شامل کرتے ہوئے نااہلی تاحیات کر دی گئی، اس فیصلے پر شدید تنقید ہوئی جسے نظرثانی میں تبدیل کیا گیا۔
منیر اے ملک نے کہا کہ میں آئین میں نئے الفاظ شامل کرنے کی بات نہیں کر رہا، اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے
ہائی کورٹ کے تین ججز جسٹس سرفراز ڈوگر ،جسٹس خادم سومرو اور جسٹس محمد آصف کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت 17اپریل تک ملتوی کردی۔
عدالت عظمیٰ نےججز کو کام کرنے سے روکنے کی استعدعا مسترد کر دی، عدالت نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کو بھی نوٹس جاری کر دیا، مزید ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کے علاوہ چاروں ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس کردیے۔
سپریم کورٹ نے جوڈیشل کمیشن کو بھی نوٹس جاری کیا، چاروں ہائی کورٹس کے رجسٹرار آفسز کو بھی نوٹس جاری کیے گئے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن الگ سے وکیل کرنا چاہیے تو کر سکتا ہے،
آئینی بینچ نے جوڈیشل کمیشن کو ہائیکورٹس کے مستقل چیف جسٹس صاحبان تعینات کرنے سے روکنے کی استدعا مسترد کردی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس کب ہے، منیر اے ملک نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن اجلاس 18 اپریل کو بلایا گیا ہے، ٹھیک ہے ہم کیس سترہ اپریل کو سنیں گے۔
آئینی بنچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ ججز کی نئی سینارٹی لسٹ معطل کرنے کی استدعا مسترد کی، عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ٹرانسفر ہونے والے ججز کو کام سے روکنے کی استدعا بھی مسترد کردی۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا قیام ایکٹ کے ذریعے ہوا ہے، کیا ایکٹ میں ججز کو تبادلہ کر کے لانے کا اسکوپ موجودہے؟
منیر اے ملک نے مؤقف اپنایا کہ ایکٹ میں ججز کو تبادلہ کر کے لانے کی گنجائش نہیں ہے، ایکٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں صرف نئے ججز کی تعیناتی کا زکر ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ جب ججز کی آسامیاں خالی تھیں تو ٹرانسفر کے بجائے انہی صوبوں سے نئے جج کیوں تعینات نہ کئے گئے؟ کیا حلف میں زکر ہوتا ہے کہ کون سی ہائیکورٹ کا حلف اٹھا رہے ہیں؟
منیر اے ملک نے استدلال کیا کہ حلف کے ڈرافٹ میں صوبے کا زکر ہوتا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا حلف اٹھاتے" اسلام آباد کیپیٹل ٹیراٹری" کا زکر آتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سنیارٹی ہماری اس حلف سے گنی جاتی ہے جو ہم نے بطور عارضی جج لیا ہوتا ہے، دیکھنا یہ ہے اگر دوبارہ حلف ہو بھی تو کیا سنیارٹی سابقہ حلف سے نہیں چلے گی؟ نئے حلف سے سنیارٹی گنی جائے تو تبادلے سے پہلے والی سروس تو صفر ہوجائے گی۔
منیر اے ملک نے مؤقف اختیار کیا کہ اسی لئے آئین میں کہا گیا ہے جج کو اس کی مرضی لیکر ہی ٹرانسفر کیا جائے۔