24 قومی اداروں کی نجکاری، تنخواہ داروں پر ٹیکس کا بوجھ کم کریں گے؛ وزیر خزانہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT
لاہور:
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ 24 قومی اداروں کی نجکاری ہوگی۔ ٹیکس کا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر زیادہ ہے، انہیں ریلیف دیں گے۔
چیمبر آف کامرس میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ ہم پبلک سرونٹ ہیں ، چیمبرز کے پاس آکر مسائل سن رہے ہیں اور انہیں حل بھی کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فنانسنگ کاسٹ، بجلی کی قیمت اور ٹیکسیشن میں بہتری آئے گی تو انڈسٹری چلے گی۔ وزیراعظم خود معیشت کو لیڈ کررہے ہیں، آپ جلد نتائج دیکھیں گے۔ معدنیات اور آئی ٹی سیکٹر ملک کے لیے گیم چینجر ثابت ہونے جارہے ہیں۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ کاپر ہمیں وہی فائدہ دے سکتا ہے جو نکل سنگاپور کو دے رہا ہے۔ سنگاپور اس مد میں 22 ارب ڈالر کی برآمدات کررہا ہے۔ حکومت نے بیرونی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے منافع کی وطن واپسی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کردی ہیں، جس سے فارن انویسٹر کا اعتماد بڑھا ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم یقینی بنارہے ہیں کہ مہنگائی میں کمی کا فائدہ عام آدمی کو ہو۔ مڈل مین کو فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ پاکستانی مصنوعات بہترین اور گلوبل برانڈز بن سکتی ہیں۔ جی سی سی ، ایتھوپیا اور دیگر ممالک پاکستان سے برآمدات میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ٹیکس کا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر زیادہ ہے، تنخواہ اکاؤنٹ میں آتے ہی ٹیکس کٹ جاتا ہے، انہیں ریلیف دیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 24 قومی ادارے پرائیویٹائز کرنے کو کہہ دیا ہے۔ ہیومن انٹرایکشن کم کیے بغیر مسائل حل کرنا ممکن نہیں۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح 13فیصد تک بڑھا کر دیگر سیکٹرز کو ریلیف دیا جاسکتا ہے۔
لاہور چیمبر کے صدر میاں ابوذر شاد نے اس موقع پر کہا کہ صنعتی لاگت میں کمی، ٹیکس ریفارمز اور تجارتی حکمت عملی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انڈسٹری کی بحالی کے لیے حکومت اور چیمبرز کے قریبی روابط ناگزیر ہیں۔ سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے ریگولیٹری رکاوٹیں ختم کی جائیں ۔
انہوں نے کہا کہ صنعتی ترقی کے لیے طویل المدتی پالیسی کی ضرورت ہے ۔ پالیسی سازی میں پرائیویٹ سیکٹر کو شامل کیا جائے۔ روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ برآمد کنندگان کے لیے ٹیکس ریفنڈز کی بروقت ادائیگی یقینی بنائی جائے۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان نے کہا کہ انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
مہنگائی کی شرح میں کمی کے ثمرات عوام تک نہ پہنچیں تو کیا فائدہ، صوبوں سے ملکر قیمتیں کنٹرول کرینگے: وزیر خزانہ
لاہور (کامرس رپورٹر + آئی این پی) وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ آنے والے مہینوں میں وزیراعظم کی جانب سے مزید خوشخبریاں سنائی جائیں گی۔ اگلے کچھ ماہ میں مزید ریلیف کا اعلان کریں گے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے بزنس کمیونٹی کو رشوت ستانی سے بچانے کے لئے ایف بی آر کو ایک ہیلپ لائن قائم کرنے کی ہدایت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کمپلینٹ سیل ٹیکنالوجی بیسڈ ہو گا، سٹاک مارکیٹ اوپر نیچے ہوتی رہے گی۔ ایمنسٹی سکیم کا آئی ایم ایف سے کوئی تعلق نہیں، میں خود اس کے خلاف ہوں، ماضی میں بھی یہ سکیمیں آئیں اور ان کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ پی آئی اے کے یورپی روٹ کھل گئے ہیں، امید ہے انگلینڈ کے روٹس بھی کھل جائیں گے، صنعتکاروں اور تاجروں کا ملکی ترقی میں کلیدی کردار ہے۔ ہمارا اصل مقصد عام آدمی کو فائدہ پہنچانا ہے، پاکستان میں سیلف سسٹین ایبلٹی آئے گی تو یہ عالمی مالیاتی ادارے کا آخری قرض پروگرام ہوگا۔ اس سال ڈیٹ مینجمنٹ سے ہم نے ایک ٹریلین روپے بچائے ہیں، سرکاری کاروباری ادارے 800 ارب سے ایک کھرب روپے کا مجموعی نقصان کرتے ہیں۔ 24 ایس او ایز کی نجکاری کا کہہ دیا گیا ہے۔ لاہور چیمبر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چیمبرز کے مسائل کا ادراک ہے۔ مشکلات حل کرنے کی کوشش کریں گے، چیمبرز کے جائز مطالبات کو مانا جائے گا، تاجروں کے جائز مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ انڈسٹری کو درپیش مسائل کا جائزہ لے رہے ہیں، صنعت کی ترقی ملکی ترقی کا باعث ہے۔ ہمیں صنعتی ترقی کیلئے مل کر کام کرنا ہوگا، ملک میں معاشی استحکام کے لیے کام کر رہے ہیں۔ سرمایہ کاروں کو سہولیات کی فراہمی‘ مہنگائی کی شرح میں کمی ہو رہی ہے۔ شرح سود 22 فیصد سے 12 فیصد ہو چکی ہے، پالیسی ریٹ میں کمی سے کاروبار میں استحکام آرہا ہے۔ ہمارا اصل مقصد عام آدمی کو فائدہ پہنچانا ہے، ہم درست سمت کی جانب گامزن ہیں لیکن ہر سیکٹر کو برآمدات کرنا ہوں گی، ہمیں اپنی برآمدات میں اضافے کے لیے کام کرنا ہے۔ ہم روز کی بنیاد پر دالوں، چینی اور دیگر اشیاء کی قیمتوں کو دیکھ رہے ہیں۔ افراط زر نیچے آنے کا فائدہ عام آدمی کو ہونا چاہیے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ریکوڈک ایک اہم پراجیکٹ ہے۔ بلوچستان میں ریکوڈک پراجیکٹ ہمارا خواب ہے، انڈونیشیا میں پچھلے سال نِکل کی ایکسپورٹ 22 ارب ڈالر رہی۔ 2028ء کے بعد ہماری ایکسپورٹ میں اضافہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ چوری اور رشوت خوری کی شکایات کو ایک زاویے سے نہ دیکھا جائے، تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے۔ سرکاری افسر رشوت لے رہے ہیں، تو کوئی رشوت دے بھی تو رہا ہے۔ بزنس کمیونٹی سے کہتا ہوں آپ کی مدد کی ضرورت ہے، آپ لوگ رشوت دینا بند کریں، فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں ایسے افسر لائیں گے جن کی ساکھ اور شہرت اچھی ہو گی۔ کسٹمز میں فیس لیس ٹیکنالوجی متعارف کرائی گئی، مقصد ہے چوری یا رشوت بازاری نہ ہو سکے، اگر ہم اس عمل سے انسانی مداخلت کا خاتمہ نہیں کرتے اور کسی افلاطون کو بھی لگا دیں گے تو مسئلہ نہیں حل ہو گا۔ تنخواہ دار طبقہ اپنے گوشوارے اب خود بھر سکتا ہے۔ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کو بخوبی سمجھتا ہوں، ایسا طبقہ جس کی جائیداد یہاں ہے نہ وہاں اس کو بھی پیچیدہ ٹیکس نظام میں الجھایا ہوا ہے۔ ٹیکس نظام کو انتہائی سادہ بنانے جا رہے ہیں، ہم ایف بی آر میں فارم کو 25 چیزوں پر لے کر جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 80 فیصد انکم ٹیکس دینے والے سیلری کلاس کی انکم اکائونٹ میں گرتے ہی ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے، پھر بھی انہیں دفاتر میں جانا پڑتا ہے۔ انہیں مشورہ دیا جاتا ہے کہ نان ایپلی کیبل لکھ دیں، کلائمیٹ چینج کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب کے پروگرام کے حوالے سے آپ لوگ تعاون کیجئے تاکہ مسائل کم سے کم سطح پر لائے جا سکیں۔ سرکاری کاروباری ادارے 800 ارب سے سے ایک کھرب روپے کا مجموعی نقصان کرتے ہیں۔ 24 ایس او ایز کی نجکاری کا کہہ دیا گیا ہے، صحت اور تعلیم پر کیا خرچ کیا جا رہا ہے، بجٹ کہیں اور جا رہا ہے، یہی اس کا جواب ہے، جب یہاں سے پیسہ بچنا شروع ہو گا تو صحت اور تعلیم پر مزید خرچ کیا جائے گا۔ زرعی اجناس کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ ہونی چاہئیں، زرعی اجناس کی خریداری نہیں ہو نی چاہیے، مکئی اور چاول کی برآمد ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ 19اپریل کو واشنگٹن جائوں گا، وہاں آئی ایم ایف سے مذاکرات ہوں گے۔ امریکہ کی جانب سے ٹیرف عائد کئے جانے کے معاملے پر 90دن کا ریلیف مل گیا ہے لیکن 10فیصد ڈیوٹی کا نفاذ ہو چکا ہے ، اس حوالے سے امریکی حکومت سے مذاکرات کے لئے پاکستان سے وفد جائے گا جس سے نجی شعبے کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔ انہوں نے یورپی یونین کی جانب سے جی ایس پی پلس کے ریویو کے حوالے سے کہا کہ یہ درست ہے، میں نے یورپی یونین کے سفیر سے بات کی ہے، وزیر اعظم کی ہدایت پر اس حوالے سے ایک کمیٹی بھی بنا دی گئی ہے جس میں وزیر قانون سمیت دیگر متعلقہ افراد شامل ہیں۔ پاکستان کی یورپی یونین کو برآمدات 10فیصد بڑھی ہیں۔ ٹیکس پالیسی کو ایف بی آر سے نکال لیا گیا ہے، معدنیات اور آئی ٹی سیکٹر ملک کے لیے گیم چینجر ثابت ہونے جا رہے ہیں، غیرملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھا ہے، یقینی بنا رہے ہیں مہنگائی میں کمی کا فائدہ عام آدمی کو ہو، مڈل مین کو فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کرپٹو کرنسی کے حوالے سے کرپٹو کونسل بنا دی ہے، اس کے علاوہ بیرون ممالک کے ماہرین کو بھی بلایا ہے تاکہ اس کو ریگولیٹ کرنے اور ٹیکسیشن سمیت معاملات کو دیکھا جا سکے۔ 24 قومی اداروں کی نجکاری ہوگی، ٹیکس کا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر زیادہ ہے۔ انہیں ریلیف دیں گے، صنعتکاروں اور تاجروں کا ملکی ترقی میں کلیدی کردار ہے، ہمارا اصل مقصد عام آدمی کو فائدہ پہنچانا ہے۔ پاکستان میں سیلف سسٹین ایبلٹی آئے گی، تو یہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کا آخری قرض پروگرام ہو گا۔ بزنس کمیونٹی رشوت دینا بند کر دے، ایف بی آر میں اچھے افسر لگائیں گے۔ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف ٹیکسیشن کے معاملات کو براہ راست لیڈ کر رہے ہیں، اگر ہم اپنے محصولات اور توانائی کے مسائل حل کر لیں، تو معیشت بہتری کی جانب چلی جائے گی۔ ان شاء اللہ قومی ایئرلائن پی آئی اے کی نجکاری جلد دوبارہ شروع کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی مسائل کی وجہ سے لاہور میں رہنا مشکل ہوگیا ہے، تو یہ سب ہم پر اور آپ پر منحصر ہے، لاہور چیمبر کے صدر میاں ابوذر شاد نے اس موقع پر کہا کہ صنعتی لاگت میں کمی، ٹیکس ریفارمز اور تجارتی حکمت عملی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انڈسٹری کی بحالی کے لیے حکومت اور چیمبرز کے قریبی روابط ناگزیر ہیں۔ سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے ریگولیٹری رکاوٹیں ختم کی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ صنعتی ترقی کے لیے طویل المدتی پالیسی کی ضرورت ہے۔ پالیسی سازی میں پرائیویٹ سیکٹر کو شامل کیا جائے۔ روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ برآمد کنندگان کے لیے ٹیکس ریفنڈز کی بروقت ادائیگی یقینی بنائی جائے۔ وزیر خزانہ نے مہنگائی کی شرح میں کمی کا فائدہ عوام کو نہ پہنچنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر مہنگائی میں کمی کے اعداد و شمار کا اثر اور ثمر عوام تک نہیں پہنچ رہا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ عالمی قیمتوں میں کمی کے باوجود یہاں قیمتیں اوپر جا رہی ہیں۔ مڈل مین من مانی کر رہے ہیں‘ صوبائی حکومتوں اور انتظامیہ سے مل کر یقینی بنائیں گے کہ قیمتیں کنٹرول ہوں۔