Express News:
2025-04-17@19:43:06 GMT

اس کا حل کیا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT

’’ابھی میں کسی سے سن رہا تھا کہ کراچی میں ایک دن کی ہڑتال سے پتا نہیں کتنے ارب روپے میرے ذہن سے تعداد نکل گئی، نقصان ہوا۔ تو آپ مجھے بتائیے کہ فلسطین کے لیے اس طرح کی ہڑتال کرنے کا فائدہ کسے ہوا، کسی کو نہیں ہوا بلکہ آپ کو الٹا نقصان ہی ہوا ہے۔‘‘

’’بالکل درست فرمایا، اس طرح تو بھئی! ہماری قوم ہی کا نقصان ہوا ہے، میں تو کہتی ہوں کہ اس سے بہتر یہ تھا کہ آپ کام کرتے اور ایک دن کی کمائی جو بھی بنتی وہ ان کو پہنچا دی جاتی تو کم ازکم ان کا بھلا تو ہوتا۔‘‘

’’میں کہتا ہوں کہ اگر ہم صرف یہاں چند ایک لائن کی دکانوں سے بھی جمع کرتے تو کم از کم پچیس لاکھ تو جمع ہو جاتے اور اس طرح صرف اس علاقے سے کم از کم ایک کروڑ اور تخمینہ لگائیں تو اور بھی بلکہ کروڑوں روپے جمع ہو سکتے تھے کم از کم ان فلسطینیوں کے لیے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں کچھ تو بھلا ہو سکتا تھا لیکن نہیں، الٹا اپنا نقصان کر دیا۔ یہ کام دراصل کسی اور کا ہے اور کر عوام رہے ہیں۔‘‘

’’ان کی پروڈکٹس خریدنا بند کردیں یہ تو کر سکتے ہیں بھئی۔‘‘

’’دیکھیں ان کی پروڈکٹس جو امپورٹ ہوتی ہیں وہ چلیں بائیکاٹ کی بات سمجھ آتی ہے، پر وہ جو کہتے ہیں ان کی یہ اشیا نہ کھاؤ، وہ نہ کھاؤ۔ تو ایک بات سمجھ لیں کہ یہ ان کی فرنچائز ہیں، یہ ان کی ملکیت نہیں ہے، یہ دراصل ان کی بنی بنائی مشہور پروڈکٹس کا نام جو آپ کے ملک میں خریدے گئے یہ آپ کے اپنے پاکستانی بھائیوں کی ہیں بلکہ پہلے تو ان فرنچائز میں چیزیں امپورٹ ہو کر آتی تھیں لیکن اب سب کچھ یہاں پاکستان میں بنتا ہے۔

وہ لوگ تو اپنا نام بیچتے ہیں کہ جی آپ یہاں کتنی فرنچائز کھول سکتے ہیں، لیکن ہمارے یہاں تاثر یہ ہے کہ اس طرح ہم اسرائیل کو نقصان پہنچائیں گے، درحقیقت نقصان تو ہمارا بھی ہے ناں، یہاں ہمارے کتنے لوگ کام کرتے ہیں، وہاں نقصان تو ہمارا بھی ہوا ہے، لوگوں کی تنخواہیں کیسے نکالیں گے۔۔۔ ان کا کیا فائدہ؟‘‘

’’نہیں، نقصان تو ہو سکتا ہے ناں، پیسے تو ان تک پہنچتے ہی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ لوگ پھر کام ہی بند کردیں، اس طرح اسرائیل کو تو نقصان ہوا ناں۔‘‘

اسرائیل کی فلسطینی عوام پر دوبارہ بمباری نے دنیا کی آزمائش شروع کر دی ہے، کون کیا سوچتا ہے؟ کیا کرنا چاہتا ہے؟ اور کس کے حق میں ہے۔ دو واضح پلیٹ فارم ہیں ایک مضبوط، بظاہر طاقتور اور اتحادیوں کے نرغے میں جب کہ دوسرا شکستہ، زبوں حال، خون سے رنگا۔ ایک ظالم ہے اور ایک مظلوم کہ آج کی دنیا لاکھوں سال پہلے پتھر کے دور میں پہنچ چکی ہے۔ ایسا وقت جب انسانوں کے دل بھی شاید پتھر کے تھے اور آج بھی ایسا ہی ہے۔

بڑے بڑے طاقتور اور انصاف کے علم بردار آج فرعون کے ساتھ ہیں۔ فرعون سے خوب یاد آیا کہ اس مغرور اور ظالم و جابر کی بھی بس ہوگئی تھی، اس کا وقت مقرر تھا اور اس مدت تک پہنچنے کے لیے تو تماشا خون و آگ کا تو ظالموں کے لیے چلتا ہی رہے گا۔

ادھر ٹرمپ اسرائیلی وزیر اعظم سے ملنے کے پروگرام بناتے ہیں اور وہاں غزہ میں ان زخمیوں کے کیمپوں پر حملے کیے گئے جنھیں عارضی طور پر اسپتالوں کے باہر قائم کیا گیا تھا۔ اسرائیلی فوجی دعوے کرتے ہیں کہ وہ شہریوں کو نقصان پہنچانے سے گریز کرتے ہیں لیکن منظر عام پر ان کی وحشت میں ڈوبی وڈیوز آ چکی ہیں جو مسلمانوں کی نفرت میں اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ دیوانوں کی مانند مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کر رہے تھے جب کہ وہ نہ صرف خیموں میں قائم عارضی کیمپوں پر بلکہ گھروں پر بھی حملے کر رہے ہیں۔

دو سو اکیاون اسرائیلی شہریوں کے عوض جو دہشت گردی اور بربریت کا بازار غزہ میں بپا کیا گیا ہے،کیا اسے انصاف کی عالمی عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے،کیا نیتن یاہو کا مظلوم فلسطینیوں کی رضاکارانہ ہجرت کا پلان مکمل ہو سکتا ہے،کیا واقعی بچے کچھے فلسطینی دنیا کے دوسرے ممالک میں منتقل ہو جائیں گے؟

یہ حقیقت ہے کہ فلسطین کی سنہری انبیا کی زمین پر قبضے کا خواب تو دیکھنے والے کب سے دیکھ رہے ہیں لیکن 19 جنوری کو طے کیا جانے والا جنگ بندی کا وہ معاہدہ جس کے ثالث امریکا، قطر اور مصر تھے گو اس کے مراحل تو تین تھے پر وہ سب تین تیرہ ہوکر رہ گئے۔

کیا جنگ بندی کے بعد تھکے ہارے اپنوں کے دکھوں میں کھوئے جنگ ختم کی فلم چلا دینے سے اصل مقصد کیا تھا؟ باقی ماندہ مظلوموں کو بھی ٹھکانے لگانا یا کچھ اور؟ یہ بھی تو کسی منصوبے کا حصہ ہو سکتا ہے لیکن اس پوری حقیقت کا سرا کس کے ہاتھ میں ہے کہ اب ڈونلڈ ٹرمپ تو اسرائیل کی پارٹی کا مضبوط حصہ بن چکے ہیں۔

پھر دنیا کے ٹھیکے داران اب کیا کر سکتے ہیں، منصوبہ کیا ہے، اس کے اصل مقاصد سے کون کون واقف ہے، کون کون اس منصوبے کا حصہ ہے؟ وائرل وڈیوز میں مظلوموں پر ظلم کرنے والوں کی وردیوں پر اتحادیوں کے جھنڈوں کے نشانات واضح ہیں۔ ایک کھلا جرم جو سینہ تان کر کیا گیا۔ پاکستان ایٹمی طاقت کا مالک مختلف مسائل میں گھرا اپنوں سے ڈسا فلسطین کے مسئلے کو کس نظر سے دیکھ رہا ہے یا آزمائش کے مراحل میں ہے۔ہمارا مذہب ہمیں سکھاتا ہے کہ:

’’ہر شخص اپنے عمل کے ساتھ وابستہ ہے۔‘‘

سورۃ الطور کی آیت نمبر اکیس میں یہی بیان کیا جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ان کی عطا کردہ صلاحیتوں سے کام لینے کی تلقین کرتا ہے اور النفس و آفاق کی آیات پر غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسان کو عقل دی گئی ہے لیکن وہ غور و فکر سے کام نہیں لیتا، رب العزت نے عمل اور سعی کو بہت اہمیت دی ہے۔

انسان کا عمل ہی اسے ترقی کی جانب لے جاتا ہے لیکن ہم تنزلی کی جانب جا رہے ہیں۔ ہمارے پاس عقل و شعور تو ہے لیکن نفسانی خواہشات نے بحیثیت قوم ہمیں گھٹنوں پر بٹھا دیا ہے، ہمیں خوف ہے کہ اگر ہم کسی بھی سپر پاورکے خلاف ری ایکٹ کرتے ہیں تو پکڑے جائیں گے بالکل ایسا ہی دیگر مسلم طاقت بھی سوچ رہی ہیں۔

بہت ساری عداوتیں کمزوری کو جنم دیتی ہیں اور یہ کمزوری ہمارے تعصب، اقربا پروری اور نفس کی کمزوری جیسی بیماریاں ابھارتی ہے۔ امت مسلمہ ان بیماریوں میں ڈوب چکی ہے۔ ہماری تقدیر کا فیصلہ کاتب نے لکھ دیا ہے۔ جیت، ہار یا بے عزتی اور شرمندگی اب ہم کس جانب بہتے چلے جاتے ہیں کون جانے۔عالمی عدالت نے تو اسرائیل کو غیر قانونی ریاست قرار دے دیا ہے جس کے مطابق دنیا بھر میں اسرائیل کو ایک خود مختار قوم کے طور پر تسلیم نہیں کرنا چاہیے لیکن اس عدالت کے فیصلے پر عمل ہو سکتا ہے یا نہیں یا یہ بھی جنگ بندی کے معاملے کی مانند اوپر سے میٹھا اور اندر سے کڑوا ہو، پر ہم اپنے رب پر یقین رکھتے ہیں کہ مایوسی کفر ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسرائیل کو ہو سکتا ہے کرتے ہیں رہے ہیں ہے لیکن کے لیے

پڑھیں:

ہم بوڑھے ہوگئے ہیں! لیکن 43، 45 سالہ کرکٹرز پی ایس ایل کا حصہ ہیں

قومی ٹیم کے مڈل آرڈر بیٹر عمل اکمل نے بھی پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے 10ویں ایڈیشن میں 43 سالہ کرکٹر کو کھلانے پر پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو شدید تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔

اپنے یوٹیوب چینل پر عمر اکمل نے شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی جانب سے ہمیں بتایا جاتا ہےکہ ہم بہت بوڑھے ہوگئے ہیں، نہ کھیل سکتے ہیں اور نہ ہی مینٹور بننے کے قابل ہیں لیکن 43، 45 سال کے کھلاڑی اب بھی کھیل رہے ہیں، ایسے میں ہم کیا کریں خودکو گولی مارلیں؟

انہوں نے کہا کہ مجھ سمیت احمد شہزاد اور صہیب مقصود کو صرف اس وجہ سے نظرانداز کیا جا رہا ہے کیونکہ وہ 34 سال کے قریب ہیں جب کہ اس سے بڑی عمر کے کھلاڑی اب بھی کھیل رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: عمر میں فرق 6 سال؛ ملک پھر بھی پلئیر لیکن سرفراز ٹیم ڈائریکٹر! کیوں؟

عمر اکمل نے بورڈ پر الزام عائد کیا کہ ہمارے ساتھ کھلاڑیوں کے انتخاب میں عمر کی بنیاد پر امتیاز برتا جا رہا ہے۔

مزید پڑھیں: پی ایس ایل؛ 43 سالہ شعیب ملک کے کھیلنے پر سابق کرکٹر نے سوال اُٹھادیا

انہوں نے فٹنس ٹیسٹ کے معیار پر بھی تنقید کرتے ہوئےکہا کہ کچھ سینئر کھلاڑی اور کوچز نے کبھی فٹنس ٹیسٹ دیے ہی نہیں، کچھ سینئرز کرکٹرز صرف پی ایس ایل کھیلنے کے لیے خود کو تیار کرتے ہیں اور نوجوان ٹیلنٹ کو موقع نہیں ملتا۔

مزید پڑھیں: بابراعظم کی ناقص فارم؛ پشاور زلمی کی "کپتانی" بھی لینےکا مطالبہ

ان کا کہنا تھا کہ پی ایس ایل میں جب معروف کھلاڑیوں کو نہیں کھلایا جائے گا تو شائقین کیوں اسٹیڈیم آئیں گے؟۔

قبل ازیں سابق کرکٹر و قومی ٹیم کے بیٹنگ کنسلٹنٹ محمد یوسف نے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے 10ویں ایڈیشن میں 43 سالہ شعیب ملک کے کھیلنے پر سوال اٹھایا تھا اور آڑے ہاتھوں لیا تھا۔

سابق کرکٹر کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو عمر رسیدہ کرکٹرز کو کھلانے اور انہیں سلیکٹ کرنے کے حوالے سے پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعظم شہباز شریف پٹرول کی قیمتیں کیوں کم نہیں کر رہے؟
  • شاہ رخ خان ڈان 3 سے آؤٹ کیوں ہوئے؛ وجہ سامنے آگئی
  • چین لڑنا نہیں چاہتا لیکن کسی سے ڈرتا بھی نہیں، چینی وزارت خارجہ
  • ہم بوڑھے ہوگئے ہیں! لیکن 43، 45 سالہ کرکٹرز پی ایس ایل کا حصہ ہیں
  • بابراعظم کی ناقص فارم؛ پشاور زلمی کی کپتانی» بھی لینےکا مطالبہ
  • کیا وہ واقعی پاگل تھا؟
  • پنجاب نے بڑا بھائی ہونے کا بہت نقصان اٹھایا، لیکن اف نہیں کی، سعد رفیق
  • پنجاب نے بڑا بھائی ہونے کا بہت نقصان اٹھایا، لیکن اف نہیں کی، خواجہ سعد رفیق
  • ایسا کوئی قانون پاس نہیں کریں گے جس سے صوبے کو نقصان ہو: شہرام ترکئی
  • وفاقی حکومت کی کینال منصوبہ ختم کرنیکی پیشکش لیکن پیپلزپارٹی نے کیا جواب دیا؟ تہلکہ خیز دعویٰ