Express News:
2025-04-13@13:03:47 GMT

عمر رواں، ایک عہد کی داستان

اشاعت کی تاریخ: 13th, April 2025 GMT

’’ عمرِ رواں‘‘ یہ ایک عہدکی داستان ہے۔ ایسی داستان کہ جس میں دل ہے ، خرد ہے، روح رواں ہے، شعور ہے۔ داستانِ حیات، آٹو بائیو گرافی،آپ بیتی، یہ ایسے مشہور شخصیات کی ہوتی ہیں، جن سے ایک زمانہ وابستہ رہا ہو۔ ایسی ہی شخصیات میں سے ڈاکٹر فرید احمد پراچہ ایک ہیں جنھوں نے ’’عمرِ رواں‘‘ کی صورت میں حالات و زندگی پر ایک خوبصورت کتاب تحریر کی ہے۔

 ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی ذاتی زندگی پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک درویش منش اور سفید پوش انسان ہیں جنھوں نے ساری زندگی مخلوقِ خدا کی خدمت اور فلاح انسانیت کو اپنی زندگی کا مشن سمجھا۔

ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، مولانا گلزار احمد مظاہریؒ کے صاحبزادے اور جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر ہیں۔ وہ زمانہ طالب علمی میں اسلامی تحریک سے وابستہ ہوئے اور پھر تمام عمر پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ ان کا سفرِ زندگی روشن ستارے کے مانند،کامیابیوں کی راہوں میں ساری زندگی چراغ جلاتے منزلوں کو پانے کی جستجو میں مگن رہے۔

ان کی دلکش گفتگو، انتھک محنت، موثر دعوت و تبلیغی اسلوب اور اعلیٰ سیرت و کردار نے ان کی شخصیت کو اس قدر اعتبار بخشا کہ آج وہ عوام الناس کے ہر دلعزیز رہنما سمجھے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے خورشید رضوی لکھتے ہیں کہ’’ فرید احمد کو میں نے گفتار سے زیادہ کردار کا غازی پایا مگر مائیک سامنے ہو تو گل افشانی گفتار بھی دیدنی اور شنیدنی ہوتی ہے۔

ان کی ایک قابلِ رشک صلاحیت ماضی کی یادوں اور مستقبل کے ارادوں سے کٹ کر لمحہ موجود کو ڈھنگ سے بسرکرنے کی صلاحیت ہے۔ وہ میدانِ عمل کے آدمی ہیں لیکن زندگی کی ریل پیل یا بسا اوقات جیل میں جہاں چند لمحوں کی فرصت میسر آئی وہ کمال یکسوئی سے کتاب، قلم یا مُوقلم سے رشتہ جوڑ لینے میں کامیاب رہے۔‘‘

ڈاکٹر فرید احمد پراچہ بے شمار صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ ان کی ہر صلاحیت ایک سے بڑھ کر ایک ہے، جس میں سے ’’ عمرِ رواں‘‘ بھی ان کی صلاحیت کا ایک بھرپور عکس ہے جس میں انھوں نے خود کو بڑی دیانتداری سے اپنے ناقدین کے سامنے پیش کیا ہے۔

ان کی یہ کتاب بہت جاندار اور اس کی جانداری میں ان کی پختہ نثر کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان کی زندگی میں جہاں کامیابیاں حصے آئی وہیں ناکامیاں بھی راہ کا پتھر بنیں۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق اپنی رائے میں لکھتے ہیں کہ’’ ان کی کتاب ’’ عمرِ رواں‘‘ نہایت عمدہ انداز و اسلوب اور خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ ترتیب دی گئی ہے جس سے ہماری قومی و ملی تاریخ کے نہ صرف نمایاں بلکہ بعض خفیہ گوشے بھی سامنے آتے ہیں۔

تحریکی یاد داشتوں کا یہ ایک دلکش اور عمدہ مجموعہ ہے جو اپنے قاری کو مطالعہ مکمل کیے بغیر کتاب رکھنے نہیں دیتا۔‘‘ اس کتاب میں بہت سی علمی، ادبی، سیاسی اور مذہبی شخصیات کا ذکر بھی پڑھنے کو ملتا ہے۔ جن میں میراں شاہ، مولانا مودودی، کوثر نیازی، ڈاکٹر اسعد گیلانی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن، مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر خورشید احمد، ڈاکٹر انوار احمد اور ڈاکٹر خورشید رضوی ودیگر اہم چہروں کی کہکشاں موجود ہے۔

ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کی باتیں اور یادیں محض قصے کہانیاں نہیں بلکہ دعوت فکر دینے والی اور سبق آموز باتیں ہیں۔ ان کی سوانح عمری سدا بہار موسم کی طرح ہے جو انسان کو مطالعہ کے دوران اکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیتی۔ ڈاکٹر صاحب اپنی کتاب کی انفرادیت کے حوالے سے اپنے ابتدائیہ میں رقم طراز ہے کہ’’ کتاب میں بعض واقعات کو اتنا ہی کھول کر بیان کیا ہے جتنی ضرورت اور اجازت تھی، واقعات میں تاریخی تسلسل پوری طرح مدنظر نہیں رکھا جا سکا۔‘‘

’’عمرِ رواں‘‘ یہ ایک خود دار اور بااصول انسان کی داستان ہے جس نے افلاس اور تنگدستی کا استقلال اور جوانمردی سے مقابلہ کیا اور محض ذاتی کوشش و جانفشانی سے کامیابی کی منزل تک پہنچا۔ اس کتاب کے مطالعے کے دوران کئی دہائیوں کی یادیں ایک ایک کر کے یاد آنے لگتی ہیں، جن میں الفاظ یادِ ماضی اور عصرِ حاضرکی جدت طرازی کے چٹکے ہوئے پھول بھی اپنی نکہتیں لٹاتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ بقول شاعر

کیسے گزری زندگانی لکھ رہا ہوں

میں محبت کی کہانی لکھ رہا ہوں

ایک دن تجھ کو بڑھاپا دیکھنا ہے

یہ جوانی آنی جانی لکھ رہا ہوں

اس کتاب کا انتساب انھوں نے سید مودودیؒ ، اپنے ابا جی گلزار احمد مظاہریؒ اور اپنی اماں جی مرحومہ ودیگر عزیزو اقارب، احباب و رفقا کے نام کیا ہے۔ 400 صفحات پر مبنی یہ ضخیم کتاب ان کی 71 سال کے شب ور وز اور ان کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔اس سے قبل بھی ان کی ایک کتاب ’’میرے رہنما میرے ہم نوا‘‘ کے نام سے شایع ہوچکی ہے، جب کہ ’’عمرِ رواں‘‘ دلکش نقوش اور دلی تاثرات پر مشتمل ہونے کے باعث ایک تاریخی داستان بن گئی ہے ۔

اس کتاب کو لاہور کے معروف اشاعتی ادارے ’’ قلم فاؤنڈیشن‘‘ نے شایع کیا ہے۔ جس کے روحِ رواں علامہ عبدالستار عاصم ہے جو خود بھی بہت خوبصورت نثر لکھنے کے باوصف ایک کتاب دوست شخصیت کے مالک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے بھی اپنے حرفِ آغاز میں انھیں ایک کرشماتی شخصیت کے لقب سے نوازا ہے۔ آخر میں یہی کہوں گا کہ :

یہ نصف صدی کا قصہ ہے

دو چار برس کی بات نہیں

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اس کتاب کیا ہے

پڑھیں:

ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا (آخری حصہ)

حکومت انسانیت کا زریں سبق بھول چکی ہے۔ آنکھوں کے آگے پڑنے والا پردہ ہٹنے کا نام نہیں لیتا ہے۔گویا یہ پردہ آنکھ کے موتیا اور بصارت سے محرومی سے زیادہ خطرناک ہے، ذمے داران حکومت کی غفلت نے لوگوں کو برباد اور ملک کی اساس کو کمزور کر دیا ہے اسی وجہ سے سپر پاور طاقتوں کی نظر ہمارے ملک پر ہے۔

چونکہ ہمارا ملک اتنا کمزور ہے کہ جہاں آئی ایم ایف اپنے فیصلے سناتا اور اپنی بات منواتا ہے۔ جہاں امرا و وزرا کی تنخواہوں میں لاکھوں کا اضافہ کیا جاتا ہے اور بے چارہ محنت کش صرف اور صرف پچیس تیس ہزار سے زیادہ تنخواہ وصول نہیں کرتا۔

اس قدر مہنگائی میں کس طرح وہ اپنے خاندان کی کفالت کر سکتا ہے؟ حکومت کا تحفظ اور خوشحالی کے لیے اقدامات کرنا تو دور کی بات ہے بلکہ اس کی دکھ بیماری اور عید بقر عید کے مواقعوں پر مدد بھی نہیں کی جاتی ہے۔

محنت کشوں کی عید اور رمضان مشکلات اور دکھوں کا باعث ہوتے ہیں، ان کے معصوم بچے عید کے کپڑوں کے لیے ترستے ہیں، نئی چپل خریدنے کا خواب دیکھتے ہیں لیکن ان کے خوابوں کی تعبیر اکثر اوقات اس قدر بھیانک ہوتی ہے کہ دل صدمے سے تڑپ کر رہ جاتا ہے،کبھی یہ بے چارے بلند و بالا عمارات سے مستری یا مزدوری کا کام کرتے ہوئے تو کبھی بجلی کے پول سے گر کر ہلاک ہو جاتے ہیں اور بے شمار مزدور آئے دن کوئلے کی کانوں میں پھنس جاتے ہیں اور واپسی کی کوئی راہ نظر نہیں آتی ہے تب وہ اسی راہ پر جانے پر مجبور ہیں، جہاں سب کو ایک دن جانا ہے۔

ان کے یتیم بچے اور بیوائیں عید، بقرعید منانے کی تو دورکی بات ہے دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ غزہ کے مظلوم اور بے سہارا مسلمان اپنے مسلم بھائیوں سے مدد کے طالب ہیں، چھوٹے چھوٹے معصوم بچے تنہا رہ گئے ہیں۔

وہ ملبے کے ڈھیر یا پھر ٹوٹے پھوٹے راستوں پر اپنے تباہ و برباد علاقوں میں بیٹھے فریاد کناں ہیں کہ کوئی آئے اور انھیں ان کے نرم وگرم بستروں میں پہنچا دے، جہاں ماں باپ اور بہن بھائی ہوں، رسوئی سے گرم گرم کھانے پکنے کی خوشبوئیں ان کی بھوک کو بڑھا رہی ہوں، اس کے ساتھ ہی ماں پکوان کی تھالی ان کے سامنے لے آئے، اپنے ہاتھوں سے نوالے بنا کر کھلائے اور باپ اپنے کاندھوں پر بٹھا کر دنیا کا نظارہ کرانے باہر لے جائے، وہ کھلونوں سے کھیلیں، چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے فضا میں ہاتھ پھیلائے، پنچھی کی تصویر بنائیں۔ کیا وہ اپنے گھروں میں دوبارہ آباد ہوسکتے ہیں؟ ان کے مرحوم والدین اپنے گھروں کو اور اپنے بچوں کو اپنی آغوش میں چھپانے کے لیے آسکتے ہیں، نہیں ناں!

یہ ہو سکتا ہے اور ہوتا ہی رہتا ہے کہ غزہ کے بے کس و مجبور بچے اپنی ماؤں کے پاس زمانے کی ٹھوکروں کے بعد پہنچ سکتے ہیں، ان مسلمان بچوں کو دوسرے ملکوں میں فروخت یا پھر بے اولاد جوڑے گود لے سکتے ہیں، انھیں بے دردی کے ساتھ مارا جا سکتا ہے، جیساکہ ہو رہا ہے۔ مسلم ممالک کو اس بات کی ذرہ برابر پرواہ نہیں ہے، بس انھیں تو اپنے آپ کو اور اپنے ملک کو بچانا ہے۔

اسی بچانے کی مہم نے امت مسلمہ کو کمزور کر دیا ہے، اتنا کمزور کہ وہ اپنے دشمن کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتے ہیں، اتنی تاب ہی نہیں ہے کہ ایمان کمزور ہو چکا ہے، ان کی اس بزدلی نے ان کے لیے جہنم کے راستوں کو کھول دیا ہے، وہ جہاد جیسے عظیم مقصد اور اللہ کے حکم اور غزوات کو بھلا چکے ہیں۔

انھیں حضرت خالد بن ولید اور جرنیل طارق بن زیاد کی فتوحات اور جنگی مہم یاد نہیں، ایرانیوں کے ہاتھوں رومیوں کی شکست کو بھی فراموش کر دیا ہے کہ کس طرح ایک بڑی طاقت کو زیر کیا گیا، لیکن وہ وقت دور نہیں ہے جب مسلم اتحاد و اخوت کی فضا پروان چڑھے گی اور حق کو فتح حاصل ہوگی۔ حکمرانوں کی حقائق سے چشم پوشی کی بنا پر ملک کا شیرازہ بکھر چکا ہے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ محض آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کے لیے پاکستان کے اہم اداروں کو فروخت کیا جا رہا ہے، اس بات کی وضاحت حکومت نے ببانگ دہل خود کی ہے۔

حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو پی آئی اے سمیت پانچ سے سات سرکاری ادارے بیچنے کی یقین دہانی کروا دی ہے، وہ بھی بڑے کروفر کے ساتھ، بلا جھجک قومی اداروں کے نام اور مہینوں کے نام بھی بتا دیے ہیں کہ یہ عمل کن مہینوں میں انجام پائے گا۔

حکومت متعدد ادارے بیچنے کی خواہاںہے۔ ملک میں بجلی و گیس کا بحران قدرتی وسائل ہونے کے باوجود موجود ہے، اب جب کہ حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ بجلی کمپنیوں کو فروخت کردیا جائے تاکہ مزید قرضہ ملے اور ملک آگے بڑھے بلکہ حکومت کا خیال ہے کہ بس ملک کسی نہ کسی طرح چلتا رہے، بنا سوچے سمجھے اور بغیر دور اندیشی کے کیے ہوئے فیصلے اکثر اوقات بڑی تباہی و بربادی کا باعث ہوتے ہیں اور آزادی کو قید میں بدلنے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے جب پرانے قرضے چکانے کے لیے رقم نہیں ہے تو آیندہ لینے والے قرضوں کے لیے کس طرح ادائیگی ممکن ہے؟

حکومت کی نظر صرف اپنے پیروں تک ہے جس پر وہ کھڑی ہے، وہ آگے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے، اسے نظر نہیں آ رہا ہے کہ تاحد نگاہ ناکامیوں اور مایوسیوں کا جنگل آباد ہے اور قدموں کے نیچے پاتال ہے، کروڑوں پاکستانیوں کی آزادی سلب کرنے اور انھیں برے انجام تک پہنچانے کی اہم ذمے داری حکومت نے اپنے کاندھوں پر اٹھا لی ہے لیکن وہ یہ بات بھول گئی ہے کہ یہ ملک ان کا بھی ہے، انھیں بھی شکست و ریخت سے گزرنا ہوگا۔ 

کفار نے کبھی بغیر مطلب کے کسی کا ساتھ نہیں دیا ہے، چونکہ وہ جانتے ہیں جو اپنے وطن سے مخلص نہیں ہوتے وہ کسی دوسرے کے لیے بھی وفادار نہیں ہوسکتے ہیں۔

موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے بے شمار پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ان کے آبا و اجداد نے گھر بار چھوڑا، زمینوں و جائیدادوں سے محروم ہوئے ، اپنے والدین، عزیز و اقارب اور بے شمار مہاجرین کو اپنی آنکھوں کے سامنے شہید ہوتے دیکھا، ان کے ایثار و قربانی کا یہ صلہ کہ آج اپنے ہی وطن میں امان حاصل نہیں، نفرت و تعصب کو دانستہ ہوا دینے والے اپنے ملک سے مخلص ہرگز نہیں ہو سکتے۔

ملک میں انتشار پھیلانا دانائی کی علامت ہرگز نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا اپنے ہی ملک اور صوبوں سے نفرت کرنے کے بجائے ان کے حقوق کی ادائیگی لازم ہے۔

نوجوانوں کے لیے تعلیم و ہنر کے مواقع فراہم کرنا اور انھیں ملازمت ان کی صلاحیت کے مطابق فراہم کرنا کسی دوسرے ملک کے حاکموں کا نہیں بلکہ اپنے ہی ملک کے حکمرانوں کا فرض ہے کہ ان کی تعلیم اور ہنر سے فائدہ اٹھا کر ملک کو مضبوط بنانا ناگزیر ہو چکا ہے تاکہ کشکول ٹوٹے اور آئی ایم ایف کی غلامی سے نجات حاصل ہو، اگر ایسا ہو جاتا ہے تب پاکستان میں امن کی فاختہ دوبارہ لوٹ آئے گی اور کوئی بھی پاکستانی محض عید کی خوشیوں سے محرومی کے باعث خودکشی نہیں کرسکے گا (انشا اللہ) اور پھر یہ سوچ جنم لے گی۔

اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں

ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

متعلقہ مضامین

  • وقت گزر جاتا ہے
  • ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا (آخری حصہ)
  • پی آئی اے طیارہ حادثے میں معجزانہ طور پر بچ جانیوالے ظفر مسعود نے حادثے کے بعد کے تجربات پر کتاب لکھ دی
  • امریکا میں رواں ماہ ہزار سالہ تاریخ کا بدترین سیلاب آ سکتا ہے، ناسا
  • امریکا میں رواں ماہ ہزار سال کا بد ترین سیلاب آنے کا امکان ہے، ناسا
  • امریکا میں رواں ماہ ہزار سال کا بد ترین سیلاب آنے کا امکان ہے: ناسا
  • سفرِ زیست
  • مذہبی سیاحت کیلئے سردار رمیش سنگھ کا بڑا اعلان،رواں سال 50 ہزار سکھ یاتری پاکستان آئیں گے
  • آج کا دن کیسا رہے گا؟