شدید بیمار پاکستانی بچے کا چین میں کامیاب علاج
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
ہیفے(شِنہوا) چین کے مشرقی صوبے آنہوئی کے دارالحکومت ہیفے میں سیپٹک جھٹکے سے بگڑنے والے سالمونیلا ٹائیفی سے ہونے والے میعادی بخار کا شکار 2 سالہ پاکستانی بچے کو زندگی بچانے والے علاج کے بعد صحت یاب ہونے پر آنہوئی پراونشل چلڈرن ہسپتال سے فارغ کردیا گیا ہے۔
بچے کو مسلسل تیز بخار کے باعث21 مارچ کو ہسپتال داخل کرایا گیا۔ ابتدائی ٹیسٹوں میں سی ری ایکٹو پروٹین کی خطرناک حد تک بلند مقدار سامنے آئی جو کہ اہم انفیکشن کی علامت ہے۔ ہسپتال کے ہیماٹولوجی اور آنکولوجی شعبے کے ایسوسی ایٹ چیف فزیشن وانگ چھینگ جن نے کہا کہ غیر مستحکم علامات اور بخار میں مسلسل رونے کے باعث بچے کی حالت نازک تھی۔ اس کے والدین انتہائی پریشان تھے۔
ہسپتال میں داخلے کے دوران بچے کی حالت تیزی سے بگڑنے لگ گئی جس نےانیمیا اور تھرومبوسائٹوپینیا کو ظاہر کیا۔ ڈاکٹروں کو ہیموفیگوسائٹک لمفوہسٹوسائٹوسس(ایچ ایل ایچ) کی تشخیص کا شبہ تھا جو کہ ایک نایاب اور جان لیوا حالت ہے۔ وانگ نے سمجھایا کہ ایچ ایل ایچ کی تشخیص کے لئے 8میں سے 5معیار پورے کرنا ضروری ہیں۔ بچہ پہلے ہی 4 معیار پورے کر چکا تھا جس سے اس کی حالت بہت سنگین ہوگئی تھی۔
چین میں ایک دہائی تک قیام کرنے والےبچے کے والد محمد نصر احمد نے اس مشکل وقت کو اذیت ناک قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے بیٹے کو تکلیف میں دیکھ کر بے بس ہوگئے تھے۔ میری بیوی، ہمارے خاندان اور میں نے دن رات اس کی صحت یابی کے لئے دعا کی۔
ہسپتال نے علاج کا موزوں منصوبہ تیار کرنے کے لئے کثیر جہتی طبی ٹیم کو متحرک کیا۔ درست اینٹی انفیکشن تھراپی اور انتہائی نگہداشت کے ذریعے بچے کی حالت مستحکم ہوگئی۔ وانگ نے کہا کہ یہ ایک خطرناک معاملہ تھا۔ خوش قسمتی سے بیماری ایچ ایل ایچ کی جانب نہیں بڑھی۔
نصر نے کہا کہ میں اپنے بچے کو بچانے پر چینی داکٹروں کا انتہائی شکر گزارہوں۔ انہوں نے کہا کہ طبی ٹیم نے نہ صرف ماہرانہ علاج فراہم کیا بلکہ انہیں بیٹے کی حالت اور علاج کے منصوبے پر آگاہ رکھنے کے لئے انگریزی زبان کا وی چیٹ گروپ بھی بنایا۔
طبی ٹیم نے ہمدردانہ دیکھ بھال پر بھی توجہ دی۔ نرسوں نے بچے کو نئے کپڑے تحفے میں دئیے اور نصر کے لئے رات گزارنے کے لئے ایک فولڈ ہونے والے پلنگ کا انتظام کیا۔نصر نے کہا کہ نرسوں کی مہربانی نے ہماری تشویش کم کرنے میں مدد دی۔
نصر نے14 دن ہسپتال میں قیام کو اجاگر کرتے ہوئےبھرپور شکریہ ادا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ چینی ڈاکٹروں اور نرسوں کی پیشہ ورانہ صلاحیت اور ہمدردی نے میرے بیٹے کی جان بچائی۔ پاکستان اور چین آہنی بھائی ہیں۔ انہوں نے مقامی دوستوں اور پاکستان میں خاندان سے ملنے والے تعاون کا بھی حوالہ دیا۔
آنہوئی ایگریکلچر یونیورسٹی میں زرعی ریموٹ سینسنگ میں پوسٹ ڈاکٹرل محقق نصر حال ہی میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہیفے منتقل ہوئے۔ان کا معاملہ بالخصوص زراعت میں چین اور پاکستان کے گہرے تعلقات کو ظاہر کرتا ہے جو پاکستان کی معیشت کا ستون ہے۔
یونیورسٹی کے بین الاقوامی دفتر کے ڈپٹی ڈائریکٹر ژانگ ہوا جیان نے کہا کہ بہت سے پاکستانی طلبہ یہاں جدید زرعی ٹیکنالوجیز سیکھنے آتے ہیں جس سے دوطرفہ تعاون کو فروغ ملتا ہے۔
ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد نصر نے ڈاکٹر وانگ کو اپنے گھر روایتی پاکستانی کھانے کی دعوت دی۔ وانگ نے کہا کہ بچوں کو صحت یاب ہوتے دیکھنا اور ان کے خاندانوں کا اعتماد حاصل کرنا ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے۔
یہ کامیاب علاج چین کی بچوں کی نگہداشت کی صلاحیتوں میں ترقی اور صحت کے عالمی شعبے میں اس کے کردار کو اجاگر کرتا ہے۔
ہسپتال کے نائب صدر لیو ہونگ جن نے مساوی علاج کے عزم پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس سنگین حالت میں مبتلا بچوں کے علاج کے طریقہ کار موجود ہیں جس سے تشخیص اور علاج کو یقینی بنایا جا سکے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: نے کہا کہ علاج کے کی حالت بچے کو کے لئے
پڑھیں:
افغانستان: غذائی قلت کا شکار بچے امریکی امداد کے بغیر موت کے خطرے سے دوچار
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 اپریل 2025ء) افغانستان کے دارالحکومت میں غذائی قلت کے علاج کے ایک مرکز میں بچوں کے رونے کی آوازیں اب نہیں آتیں کیونکہ امریکی امداد میں کٹوتی کی وجہ سے مریضوں کو واپس بھیج دیا گیا ہے اور طبی عملے کو فارغ کر دیا گیا ہے۔
مکمل طور پر واشنگٹن کی مالی اعانت سے چلنے والے اس منصوبے کو اس وقت بند کرنا پڑا جب امریکہ نے تمام غیر ملکی امداد منجمد کردی، ، جو حال ہی میں افغانستان میں سب سے زیادہ امداد فراہم کرنے والا ملک تھا۔
کابل کے مغرب میں کلینک کا انتظام سنبھالنے والی غیر سرکاری تنظیم ایکشن اگینسٹ ہنگر (اے سی ایف) کی کنٹری ڈائریکٹر کوبی رِیٹویلڈ نے کہا کہ اس مرکز میں بچوں کا اب علاج نہیں کیا جائے گا۔
(جاری ہے)
انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''اگر ان کا علاج نہیں ہوا تو ان کی موت کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔‘‘
نئی فنڈنگ کے بغیر، بچوں کے لیے کھلونوں اور دیگر اشیا کو ہٹا دیا گیا اور مارچ میں آخری مریض کے چلے جانے کے بعد فارمیسی کو بھی تالا لگا دیا گیا۔
چیف ڈاکٹر فرید احمد بارکزئی کے بقول، ''جب غذائی قلت کے مریض ہمارے کلینک میں آتے ہیں تو ہمارے عملے کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے کہ وہ انہیں صورتحال کی وضاحت کریں اور انہیں بتائیں کہ انہیں مناسب علاج کے لیے کہیں اور جانا پڑے گا۔‘‘
اقوام متحدہ کے مطابق چار دہائیوں کی جنگ اور بحرانوں کے بعد افغانستان کو جنگ زدہ سوڈان کے بعد دنیا کے دوسرے سب سے بڑے انسانی بحران کا سامنا ہے۔
کلینک میں ہر ماہ اوسطاﹰ 65 بچوں کا علاج کیا جاتا تھا جو شدید غذائی قلت اور صحت کی پیچیدگیوں کا شکار ہوتے تھے۔
وہ اپنی ماؤں کے ساتھ کئی دنوں تک وہاں رہتے تاکہ نہ صرف انہیں کھانا کھلایا جا سکے بلکہ انہیں بیماری میں مبتلا ہونے سے بچایا جا سکے۔
ریٹویلڈ کے مطابق ''ہر انفیکشن جو ایک بچے کو ہو سکتا ہے، غذائی قلت کا شکار بچہ بھی اس کا شکار ہو جائے گا، جس سے مرنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔
‘‘ریٹویلڈ نے مزید کہا کہ عملے کے لیے، جو اپنے کام کے آخری دن مکمل کر رہا ہے''تکلیف دہ‘‘ ہے کہ ''انہیں ایسے مریضوں کو کہیں اور بھیجنا پڑتا ہے جہاں ان کے لیے خصوصی علاج موجود نہیں ہے۔‘‘
افغان آبادی غذائی قلت اور قحط کے دہانے پرافغانستان میں، جہاں 45 فیصد آبادی 14 سال سے کم عمر ہے، بچوں کی غذائی قلت سب سے اہم چیلنجوں میں سے ایک ہے کیونکہ یہ طویل مدت میں پوری نسل کو متاثر کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے تقریبا 35 لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔
بالغ افراد بھی غذائی متاثر ہوئے ہیں اور 15 ملین افغان اس وقت غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں، جن میں سے 3.1 ملین پہلے ہی قحط جیسی صورتحال سے دو چار ہیں۔
گزشتہ ہفتے ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا تھا کہ امریکہ نے افغانستان میں اپنے کام کے لیے فنڈنگ بند کر دی ہے۔
(اے سی ایف) کی کنٹری ڈائریکٹر ریٹویلڈ کے مطابق، ''میرے دفتر میں لوگ رو رہے ہیں… ہم سنتے ہیں، مدد کی پیشکش کرتے ہیں، لیکن ہم انہیں نوکری نہیں دلا سکتے۔‘‘
ریٹویلڈ نے کہا کہ امریکی فنڈنگ کی بندش کے بعد، جو اے سی ایف کے مقامی بجٹ کا 30 فیصد بنتا ہے، یہ تنظیم ''تجاویز لکھنے کے عمل میں ہے‘‘ اور ''عطیہ دہندگان کے ساتھ تبادلہ خیال‘‘ کر رہی ہے: ''لیکن مجھے نہیں لگتا کہ دوسرے عطیہ دہندگان اس خلا کو پر کر سکتے ہیں۔‘‘
ادارت: شکور رحیم