26 ویں ترمیم کی خوبصورتی عدلیہ کا احتساب، جو ججز کیسز نہیں سن سکتے گھر جائیں: وزیر قانون
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کی خوبصورت بات عدلیہ کا احتساب ہے، یہ شاہی دربار نہیں، آئینی عدالتیں ہیں، جو ججز کیسز نہیں سن سکتے گھر جائیں۔
ڈان نیوز کے مطابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ بعض جج دن میں 2 سے 3 کیس ہی سنتے ہیں، جبکہ بعض اللہ کو حاضر ناظر جان کر دن میں 20 کیسوں کی سماعت کرتے ہیں، ان سائلین کا کیا قصور ہے، جن کے مقدمات سنے نہیں جاتے؟ جو ججز کیسز سننا نہیں چاہتے وہ گھر جائیں۔وزیر قانون نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق اور موجودہ چیف جسٹس کا شکر گزار ہوں، انہوں نے وکلا کے لئے قانون کے مطابق فیصلے کئے، وکلا کے احتجاج سے دہشت گردی ایکٹ کا کیا تعلق ہے، ایسا تو کبھی مشرف دور میں بھی نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ان شااللہ آئندہ آنے والے دنوں میں مزید اچھی خبریں آئیں گی، میں نے کبھی کسی بار سے بیک ڈور سے حمایت حاصل نہیں کی، میں یہ سمجھتا ہوں حکومت کو کسی بھی بار میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حکومت کا وکلا کے ساتھ جو معاہدہ ہے، اس میں کبھی دھوکا نہیں ہو گا، جوڈیشل کونسل کا خیال میرا نہیں تھا۔
وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلوچستان اور سندھ سے ججز آئے ہیں، اس سے ہائیکورٹ میں مزید رنگینی آئی ہے، ہم سب 1973کا آئین مانتے ہیں، 1973کا آئین سب سیاسی جماعتیں مانتی ہیں، ججز کے تبادلے کے حوالے سے چیف جسٹس فیصلہ لیں گے، ان کے منتخب کرنے کے بعد وزیر اعظم اسے دیکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ بعد ازاں صدر مملکت کے دستخط سے دوسرے صوبوں سے ججز وفاق میں تعینات ہوں گے، یہ کہنا ہرگز درست نہیں کہ دوسرے صوبوں سے اسلام آباد میں ججز تعینات نہیں ہوسکتے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جب بھی کوئی وکیل دوست مجھے ملنے آئے، میں ان سے ضرور ملتا ہوں، وکلا کا میگا سینٹر پروجیکٹ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، ہمارا مقصد عوام کی خدمت کرنا ہے، ہم آنے والے وقت میں مزید استقامت سے ملک و قوم کی خدمت کرتے رہیں گے۔
دھرنا ختم کرنےکا مطالبہ لیکر جانیوالی خواتین پارلیمینٹرین کو اختر مینگل نے کیا جواب دیا ۔۔۔؟ تفصیلات سامنے آ گئیں
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: اعظم نذیر تارڑ نے کہا اسلام آباد نے کہا کہ
پڑھیں:
خیبر پختونخوا احتساب کمیٹی: کیا پارٹی میں مخالفیں کو دبانے کی کمیٹی ہے؟
عمران خان کی ہدایت پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی جانب سے تشکیل کردہ احتساب کمیٹی نے صوبائی وزرا، معاونین اور مشیروں کو کرپشن کے الزمات پر طلب کرکے احتساب کا عمل تیز کر دیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت میں کابینہ میں شامل کابینہ ممبران، سابق وزرا اور دیگر کے احتساب کے عمل میں اس وقت تیزی دیکھنے میں آئی ہے جبکہ پارٹی کے اندر سابق صوبائی صدر اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے خلاف گروپ بندی ہو رہی ہے اور ان پر پارٹی کے اہم رہنماؤں کی جانب سے ‘pro establishment’ ہونے کے الزمات لگنے لگے ہیں جبکہ پارٹی کی کچھ رہنما احتساب کے عمل کو یک طرفہ اور مخالفیں کو دبانے کی کوشش بھی قرار دے رہے ہیں۔
احتساب کمیٹیوزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے عمران خان کی ہدایت پر اپنی حکومتی کارکردگی کو بہتر بنانے اور کرپشن کی روک تھام اور احتساب کے لئے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ پی ٹی آئی کے ذرائع بتاتے ہیں کہ عمران خان نے موجودہ صدر خیبر پختونخوا اور چئیرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی جنید اکبر کو کمیٹی میں شامل کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم ان کا نام نکال دیا گیا۔ پی ٹی آئی کی احتساب کمیٹی، 3 ارکان، وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے احتساب مصدق عباسی، سابق گورنر شاہ فرمان اور سینیئر قانون دان قاضی انور پر مشتمل ہے۔
کمیٹی کو اختیار دیا گیا ہے کہ عوامی شکایت پر کسی وزیر یا رہنما کو طلب کیا جا سکتا ہے اور کمیٹی ان کی تفصیلی رپورٹ عمران خان کو پیش کرے گی۔ کمیٹی نے تشکیل کے بعد کئی کابینہ ممبران کو طلب کیا اور کمیٹی کی سفارش پر ہی پارٹی کے دیرینہ رہنما شکیل خان کو کابینہ سے فارغ کر دیا گیا جبکہ کمیٹی کی سفارشات پر کابینہ قلمدان بھی تبدیل کیے گئے۔
کمیٹی پر پی ٹی آئی رہنماؤں کے اعتراضات کیوں؟احتساب کمیٹی بننے کے بعد سے ہی متنازع ہوئی ہے اور اعتراضات اس وقت سامنے آئے جب جنید اکبر کو کمیٹی میں شامل نہیں کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے ایک سینیئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پی ٹی آئی اس وقت سخت اندرونی گروپنگ کا شکار ہے اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے اختلافات شدید ہو گئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ علی امین نے ہمیشہ مخالف گروپس کو دبانے کی کوشش کی ہے اور جنید اکبر کو اسی وجہ اسی کمیٹی میں شامل نہیں کیا کیونکہ وہ عاطف خان گروپ کے حامی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ احتساب کمیٹی نے سب سے پہلے شکیل خان کو نشانہ بنایا جو ہمیشہ منہ پر بات کرتے ہیں اور ان کا دامن کرپشن سے پاک ہے۔ ‘جس وقت شکیل خان کور ہیڈکورٹر نہیں گئے اور اختلافات شروع ہوئے تو علی امین نے کمیٹی تشکیل دی اور شکیل خان کو نشانہ بنایا اور کابینہ سے نکال دیا۔’
انھوں نے کہا کہ اگر شکیل خان کرپشن میں ملوث ہیں تو ان کی انسداد کرپشن یا نیب سے تحقیقات ہونی چاہئے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ شکیل خان کے ساتھ دیگر ممبران کو بھی طلب کیا گیا تھا ان کے خلاف کچھ نہیں ہوا اور شکیل خان کو خاموش کیا گیا۔
‘دس کروڑ اثاثے اور 75 کروڑ تقسیم، احتساب سب کا ہونا چاہئے’پی ٹی آئی کی احتساب کمیٹی نے سابق صوبائی وزیر تیمور جھگڑا اور اسپیکر صوبائی اسمبلی بابر سلیم سواتی سے کرپشن کے الزمات پر جواب طلب کیا اور 2نوں رہنماؤں نے تحریری جواب جمع کیا ہے۔ احتساب کمیشن کو تحریری جواب جمع کرنے کے بعد تیمور جھگڑا نے سوال اٹھایا کہ انھوں نے اپنا جواب دے دیا اب 2سروں کی باری ہے۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا ان کے دس کروڑ اثاثے ہیں انھوں نے ورکرز میں 75 کروڑ تقسیم کیے پیسے کہاں سے آئے جواب سب کو دینا پڑے گا۔ ‘عوام کو معلوم ہے کون ملا ہوا ہے۔’
تیمور جھگڑا اور بابر سلیم سواتی کو نوٹس پر پارٹی میں شدید بے چینی پیدا ہوئی ہے اور کچھ رہنما اسے ذاتی انتقام قرار دے رہے ہیں۔
اندرونی ذرائع بتاتے ہیں کہ پارٹی کے اندر بھی اس حوالے سے شدید تحفظات سامنے آئے ہیں اور علی امین مخالف گروپ اس حوالے سے حقائق عمران خان کے سامنے رکھنا چاہتا ہے۔ تاہم ان کو عمران خان تک رسائی نہیں ہے۔ پارٹی کے ایک رہنما نے بتایا کہ عمران خان سے ان لوگوں کو ملنے کی اجازت دے جا رہی ہے جو مقتدر حلقوں کے گڈ بک پر ہیں اور وہی لوگ اپنی بات خان تک پہنچاتے ہیں۔
‘احتساب کمیٹی نہیں علی امین کمیٹی ہے’
پشاور کے سنئیر صحافی علی اکبر سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی احتساب کمیٹی نہیں بلکہ علی امین کمیٹی ہے جو مبینہ طور پر پارٹی میں مخالف آواز کو دبانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ علی اکبر نے کہا کہ احتساب کمیٹی بالکل بھی آزاد نہیں ہے اور جو کمیٹی آزاد نہ ہو وہ احتساب کیسے کر سکتی ہے۔ انھوں نے کہا احتساب کمیٹی کا سربراہ وزیر اعلیٰ علی امین کے مشیر ہیں اور ایک مشیر وزیر اعلیٰ کی مرضی کے خلاف کیسے جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا ابھی تک جن کو احتساب کے نام پر طلب کیا گیا ہے یا کاروائی ہوئی ہے وہ علی امین مخالف گروپ کے ہیں جبکہ ان کے اپنے بن2ں کے خلاف کچھ نہیں ہو رہا۔ ‘اس آپ black mailing کمیٹی کہہ سکتے ہیں۔ جو حمایتی یافتہ اور مراعات یافتہ اس میں شامل ہیں۔’
علی اکبر نے کہا صوبائی حکومت میں احتساب کی ضرورت ہے لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں ہے جبکہ علی امین مخالفین کو دبانے پر مصروف ہیں۔
کابینہ ممبران سے پوچھ رہے ہیں کہ ایک سال میں کیا گیا؟پی ٹی آئی انٹرنل احتساب کمیٹی کے ممبر قاضی انور نے احتساب کمیٹی کے حوالے سے گزشتہ روز پشاور میں میڈیا سے بات کی اور بتایا کہ کابینہ ممبران کا احتساب جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ روزانہ 2 ممبران کو طلب کیا جاتا ہے اور وہ کمیٹی کو ایک سالہ کارکردگی پر بریفننگ دیتے ہیں۔ ‘کابینہ ممبران اپنے اسٹاف کے ساتھ آتے ہیں اور ملٹی میڈیا پر بریفننگ دیتے ہیں کہ سال میں کیا کیا اور سوالات کے جواب بھی دیتے ہیں۔ ‘
قاضی انور نے کہا ان کی کوشش ہے کہ عمران خان سے ملاقات ہو لیکن اجازت نہیں مل رہی ہے۔
احتساب کمیٹی کے حوالے سے انھوں نے کہا وہ کابینہ ممبران کی کارکردگی رپورٹ تیار کر رہے ہیں۔ جبکہ سابق صوبائی وزیر تیمور جھگڑا نے 2 ممبران پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ قاضی انور نے بتایا کہ تیمور جھگڑا نے مصدق عباسی اور شاہ فرمان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے جبکہ ایڈکیٹ جنرل آفس میں لا افسران کی تعنیاتیوں پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
پی ٹی آئی کے مطابق احتساب کمیٹی تمام ممبران کی کارکردگی رپورٹ اگلے ماہ عمران خان کو پیش کرے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احتساب کمیٹی پی ٹی آئی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور