لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 12 اپریل 2025ء ) پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء میاں اسلم قبال نے مقتدرہ کو مشورہ دیا ہے کہ آپ مان کیوں نہیں لیتے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ تمام ٹی وی چینلز پر اینکرز روزانہ بیٹھ کر "پی ٹی آئی ٹوٹ گئی، پی ٹی آئی کا شیرازہ بکھر گیا" جیسی باتیں کرتے ہیں، پچھلے ڈھائی سال سے جو کچھ پی ٹی آئی کے ساتھ ہو چکا ہے، ہر طرح کا جبر، فسطائیت، گولیاں، بندوقیں سب کر کے دیکھ لیا، آپ نے زور لگا کر تحریک انصاف کی لیڈر شپ کو جیلوں میں ڈالا، اغواء کیا سب کچھ کر کے دیکھا، زبردستی پارٹی بھی چھڑوائی لیکن مقتدرہ جواب دے یہ سب کچھ کرنے کے بعد 8 فروری کو عوام نے آپ کے ساتھ کیا کیا؟ 8 فروری کے بعد کیا عمران خان کی مقبولیت میں کمی ہوئی ہے یا اضافہ؟ آپ مان کیوں نہیں لیتے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے اور آپ سیاسی نظریات سے مقابلہ کر ہی نہیں سکتے۔

(جاری ہے)

پی ٹی آئی رہنماء نے کہا میرا سوال یہ ہے کہ کیا ملک کے تمام معاشی معاملات درست ہو گئے ہیں؟ بڑے بڑے ٹی وی چینلز پر بیٹھے اینکرز جو میرے لیے قابل احترام ہیں وہ یہ موضوع گفتگو کیوں نہیں بناتے کہ کسان کی کمر ٹوٹ چکی ہے، گندم کھلے آسمان تلے پڑی ہے اس کو حکومت خریدنے کو تیار نہیں اور کسان 2200 روپے پر بیچنے پر مجبور ہے، پچھلے سال بھی یہی ہوا، گنے کی فصل کے ساتھ بھی یہی ہوا اور اب بھی یہی ہو رہا ہے، شوگر مل مافیا کو تو سب فائدہ ہے، اسحاق ڈار ٹی وی پر بیٹھ کر چینی کی قیمت بڑھا دیتے ہیں اور اپنی رشتہ داری نبھاتے ہیں، اپنے لیے اربوں روپے کے منافع ہیں اور کسان کا استحصال ہی استحصال ہے۔

سابق صوبائی وزیر کا کہنا ہے کہ یہ تحریک انصاف کی حکومت ہی تھی جس نے کسان کو پوری ادائیگی کرکے زراعت کو کھڑا کیا مگر ان موضوعات پر بات کرنے کا کسی چینل کے پاس وقت ہی نہیں، یہی حال صنعت کا بھی ہے، صنعت بند پڑی ہے، گروتھ ریٹ منفی ہے، بے شرمی سے "ہم نے کر دکھایا" کی محفل سجا کر عوام کا کروڑوں روپیہ خرچ کیا گیا، بجلی سستی کرنے کے جھوٹے دعوے کیے گئے، توانائی اتنی ہی سستی ہوتی تو ملک میں یوں صنعتی بحران نہ ہوتا، ملک سے brain drain تاریخی سطح پر نہ ہوتا۔

میاں اسلم اقبال کہتے ہیں کہ اس کا کسی کو احساس نہیں کہ عوام پس رہی ہے، لوگوں کے پاس قوت خرید ہی نہیں ہے، دنیا میں تیل کی قیمت 60 سے 65 ڈالر فی بیرل تک گر چکی ہے جو ہمارے دور میں 117 ڈالر فی بیرل تھی اس کے باوجود ہمارے دور میں پیٹرول 150 روپے فی لیٹر تھا جو اب 255 روپے فی لیٹر ہے، ڈیزل 145 روپے تھا، چینی جو ہمارے دور میں 70 روپے کلو تھی آج 170 روپے پر ہے اور پھر بھی کچھ سائنسدان کہتے ہیں کہ مہنگائی کم ہو گئی ہے، میرا پھر سے دانشوروں اور اینکرز سے یہی سوال ہے کہ ضرور تحریک انصاف پر تنقید کریں آپ کا حق ہے مگر کیا آپ کو یہ بھی منع کر دیا گیا ہے کہ آپ نے غریب آدمی کے ساتھ کھڑے نہیں ہونا؟۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھی ٹی وی پر جاتے ہیں تو ان سے سے پارٹی کے اندرونی معاملات سے متعلق سوالات کرتے رہتے ہیں اور عوام کے متعلق کوئی سوال ہوتا ہی نہیں، جنہوں نے اس حکومت پر تنقید کی اور بہادری سے اس میک اپ زدہ حکومت پر بات کی انہوں نے اپنی نوکریاں بھی گنوائیں، خدا سے ڈریں اور جو اس ملک کو یہاں تک پہنچانے والے ہیں تیس سال سے اس ملک کو چوس رہے ہیں ان کے بارے میں بھی سوال کریں غریب آدمی کے ساتھ کھڑے ہوں۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے تحریک انصاف کیوں نہیں پی ٹی آئی کے ساتھ ہی نہیں ہیں اور

پڑھیں:

پی ایس ایل سیزن 10 کا آج سے آغاز، مگر اتنی خاموشی کیوں ہے؟

تو آج سے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے 10ویں سیزن کا باقاعدہ آغاز ہورہا ہے، مگر شاید یہ پہلا سیزن ہے جس کے شروع ہونے سے پہلے ہی متعدد تنازعات نے جنم لیا اور اب تک لے رہے ہیں۔ مگر ان تمام تر تنازعات کے باوجود مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس بار لیگ کا وہ ماحول نہیں بن سکا جو اس سے پہلے بنتا چلا جارہا تھا، حالانکہ تنازعات تو بنائے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ خوب ماحول بنے۔

تو چلیے ایک ایک کرکے تنازعات پر بات کرتے ہیں۔ سب سے پہلے تو غیر ملکی کھلاڑیوں کی دستیابی پر باتیں بنیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جن کھلاڑیوں کو انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) میں منتخب نہیں کیا گیا وہ پاکستان آگئے۔

بالکل ایسا ہی ہوا ہے اور میرا خیال ہے کہ نہ اس میں شرمندہ ہونے کی ضرورت ہے اور نہ احساس کمتری کا شکار ہونے کی، کہ ہمارا جو سائز ہے، ہمارا جو بجٹ ہے اس کے مطابق ہی کھلاڑی اس لیگ کا انتخاب کریں گے۔ دوسری بات یہ کہ یہ باتیں اس لیے بھی ہوتی ہیں کہ ہم غیر ضروری طور پر آئی پی ایل سے متاثر ہیں اور ہر چیز کا اسی سے مقابلے کرتے ہیں، حالانکہ دنیا بھر کی دیگر لیگز دیکھ لیں آپ کو کہیں بھی صف اول کے کھلاڑی نظر نہیں آئیں گے مگر اس کے باوجود بگ بیش لیگ بھی چل رہی ہے اور دی ہنڈریڈ بھی۔

ہمارے لوگوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمیشہ دوسروں سے مرعوب رہتے ہیں، حالانکہ یہ ایک عام فطرت ہے کہ جس کھلاڑی کو جہاں زیادہ پیسے ملیں گے وہ وہیں جائے گا، تو جب تک ہم آئی پی ایل سے زیادہ بجٹ نہیں بناسکتے تب تک یہ صورتحال رہے گی اور اسی کے مطابق ہمیں آگے بڑھنا پڑے گا۔ پھر ایک اور معاملہ بھی ہے جس پر ہم توجہ نہیں دیتے۔

یہ جو غیر ملکی کھلاڑی ہیں انہیں ایک ایسا ماحول بھی چاہیے ہوتا ہے جس میں وہ خود کو اجنبی محسوس نہ کریں، اگر آپ کا آئی پی ایل دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ وہاں ہر کھلاڑی انگریزی میں بات کرسکتا ہے اور غیر ملکی کھلاڑی خود کو ان سے الگ محسوس نہیں کرتے، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں معاملہ مختلف ہے۔ حتیٰ کہ 5 ٹیموں کے کپتان بھی غیر ملکی کھلاڑیوں سے کمیونیکیشن نہیں کرپاتے بلکہ ٹیم میٹنگ بھی اردو زبان میں ہورہی ہوتی ہے، تو یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں غیر ملکی کھلاڑی خود کو الگ الگ محسوس کرتے ہیں۔

جب میں یہ کہہ رہا ہوں کہ جس کھلاڑی کو جہاں زیادہ پیسے ملیں گے وہ وہیں جائے گا تو اس کو ثابت کرنے کے لیے میرے پاس مثالیں بھی ہیں۔ سب سے پہلے ہیری بروک کی مثال لے لیتے ہیں۔ ہیری بروک کو دہلی کیپیٹل نے خریدلیا مگر جب بروک کو یہ لگا کہ جن پیسوں میں انہیں خریدا گیا وہ کم ہیں تو انہوں نے آئی پی ایل نہ کھیلنے کا فیصلہ کیا اور اس بات پر آئی پی ایل نے ایکشن لیتے ہوئے ہیری بروک پر 2 سال کی پابندی لگادی۔

بالکل اسی طرح جنوبی افریقی کھلاڑی کاربن بوش پر پی ایس ایل نے پابندی لگائی کیونکہ پشاور زلمی نے انہیں ڈائمنڈ کیٹیگری میں منتخب کیا تھا، مگر بعد میں آئی پی ایل میں ممبئی انڈینز نے ایک کھلاڑی کے انجرڈ ہونے کی صورت میں بوش کو پک کرلیا اور یوں انہوں نے پی ایس ایل چھوڑ کر آئی پی ایل کا انتخاب کرلیا۔

یہ دونوں مثالیں بتاتی ہیں کہ اب کھلاڑی کے لیے سب سے بڑھ کر اہمیت پیسوں کی ہے، جو زیادہ پیسے دے گا وہ کھلاڑی اسی کا ہوجائے گا پھر چاہے وہ لیگ چھوٹی ہو یا بڑی، یہ غیر اہم بات ہوگئی ہے۔

دوسرا تنازعہ علی ترین کے بیان کے بعد پیدا ہوا جس میں انہوں نے اس بات پر اعتراض اٹھایا کہ پی ایس ایل 10 کس طرح ماضی سے بڑی اور بہتر لیگ ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسے کھوکھلے دعوؤں سے بچنا چاہیے کہ اس بار نہ ٹیموں میں اضافہ ہوا، نہ اسٹیڈیمز میں اور نہ کسی بھی دیگر پہلو میں کوئی بہتری دیکھنے میں نظر آئی۔

علی ترین کے اس بیان کے فوری بعد سلمان اقبال کا جوابی بیان آیا اور انہوں نے علی ترین کے بیان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ایس ایل پاکستان کی پہچان ہے اور اس بارے میں ایسے بیانات افسوسناک ہیں، حالانکہ میری نظر میں علی ترین کی بات بالکل ٹھیک ہی تھی۔

علی ترین نے تنقید سے زیادہ لیگ انتظامیہ کو جگانے کی کوشش کی کہ جناب بتدریج پی ایس ایل نیچے کی طرف آرہی ہے، اس میں وہ کلر اب نظر نہیں آرہا جو ماضی میں آتا تھا، اس میں عوام کی وہ دلچسپی بھی نظر نہیں آرہی جو پہلے آتی تھی، اور جب تک اس بات کو تسلیم نہیں کیا جائے گا تب تک چیزیں بہتر بھی نہیں ہوسکیں گے۔

اب آپ خود دیکھیے کہ گزشتہ 9 سالوں میں ہم اب تک ہوم اور اوے میچز نہیں کروا سکے۔ پشاور اور کوئٹہ کے اسٹیڈیمز اب تک بحال نہیں ہوسکے، یعنی جب تک 2 صوبے اس پورے معاملے سے الگ رہیں گے تب تک عوامی مقبولیت میں اضافہ کیسے ہوگا؟

ان تمام تر حالات کی موجودگی میں لیگ بائیکاٹ کی مہم نے بھی پریشانی میں اضافہ کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اب لوگ دھڑلے سے کہہ رہے ہیں کہ جب تک غیر ملکی مصنوعات کے اشتہارات ختم نہیں کیے جائیں گے تب تک وہ لیگ نہیں دیکھیں گے۔

اس بائیکاٹ مہم کا اثر کتنا ہوتا ہے یہ تو آنے والے دنوں میں معلوم چلے گا مگر اس مہم کی وجہ سے لوگوں میں تقسیم واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔

یہ وہ سارے پہلو ہیں جس پر پی ایس ایل انتظامیہ کو غور کرنا چاہیے، ہم محض یہ بات کہہ کر لوگوں کو توجہ حاصل نہیں کرسکتے کہ پی ایس ایل پاکستان کی پہچان ہے، بلکہ اسے بہتر اور دلچسپ بنانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے، اگر ایسا کچھ نہیں ہوا تو صورتحال مزید خراب بھی ہوسکتی ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

فہیم پٹیل

گزشتہ 15 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں، اس وقت وی نیوز میں بطور نیوز ایڈیٹر منسلک ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • جنید اکبر کا گولیوں اور جیلوں سے ڈرنے والے کارکنان کو گھر بیٹھنے کا مشورہ
  • عاطف اسلم کی فیملی کے ساتھ ریل نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی
  • وقف قانون پر سیاست کے بجائے ایک جٹ ہوکر لڑیں، ممبر پارلیمنٹ میاں الطاف
  • پی ایس ایل سیزن 10 کا آج سے آغاز، مگر اتنی خاموشی کیوں ہے؟
  • مائننگ اینڈ منرلز بل میں ایسا کچھ نہیں جس سے صوبے کو نقصان ہو، مزمل اسلم
  • ہم نے دہشت گردی کا جواب پاکستان کی معیشت کو بہتر کرکے دینا ہے:گورنر سندھ
  • امریکا کی تیز رفتار ٹیرف تبدیلیاں دیکھ رہے ہیں: ترجمان دفترِ خارجہ
  • ایسا کیوں ؟
  • کپل شرما کے وزن میں اچانک تبدیلی دیکھ کر مداح حیران