ریاست لوزیانا میں امیگریشن جج نے کولمبیا یونیورسٹی کے محمود خلیل کو ملک بدر کرنے کا حکم سنادیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
نیویارک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 اپریل ۔2025 )امریکی ریاست لوزیانا میں امیگریشن جج کی طرف سے سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کولمبیا یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے والے محمود خلیل کو ملک سے نکالا جا سکتا ہے کیوں کہ انہیں امریکی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے. قبل ازیں وکلا نے فلسطین کی حمایت میں کیے جانے والے مظاہروں میں شرکت کرنے والے طالب علم محمود خلیل کی ملک بدری کی قانونی حیثیت پر دلائل دیے تھے امیگریشن جج جیمی ای کومینز نے جینا میں ہونے والی سماعت کے دوران کہا کہ حکومت کا یہ مو¿قف کہ خلیل کی امریکہ میں موجودگی سے ممکنہ طور پر سنگین خارجہ پالیسی کے نتائج پیدا ہو سکتے ہیں ان کی ملک بدری کے لیے درکار قانونی شرائط پوری کرتا ہے.
(جاری ہے)
جج کا کہنا تھا کہ حکومت نے واضح اور قائل کر والے شواہد کے ذریعے یہ ثابت کر دیا کہ انہیں ملک سے نکالا جا سکتا ہے امیگریشن عدالت میں سماعت کے بعد محمود خلیل کے وکیل مارک وین ڈر ہاﺅٹ نے نیو جرسی کے ایک وفاقی جج کو بتایا کہ محمود خلیل چند ہفتے میں امیگریشن اپیلز بورڈ میں اپیل دائر کریں گے ان کا کہنا تھا کہ فوری طور پر کچھ ہونے والا نہیں. مقدمے کی سماعت کے اختتام پر جج سے مخاطب ہوتے ہوئے محمود خلیل نے یاد دلایا کہ قبل ازیں رواں ہفتے شروع ہونے والی سماعت کے دوران انہوں نے کہا تھا کہ اس عدالت کے لیے اس سے زیادہ کچھ اہم نہیں کہ کسی کو اس کے قانونی حقوق اور بنیادی انصاف فراہم کیے جائیں . خلیل محمود نے کہا کہ جو کچھ ہم نے آج دیکھا اس میں نہ تو وہ اصول موجود تھے اور نہ ہی پورے عمل میں ایسا کچھ نظر آیایہی وجہ ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے مجھے عدالت میں پیش ہونے کے لیے میرے خاندان سے ایک ہزار میل دور بھیجا محمود خلیل جو امریکہ میں قانونی طور پر مقیم ہیں کو8مارچ کو وفاقی امیگریشن اہلکاروں نے ان کے یونیورسٹی کی ملکیت والے اپارٹمنٹ کی لابی سے گرفتار کیا. یہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے تحت پہلی گرفتاری تھی جس کا انہوں نے وعدہ کیا یہ کارروائی ان طلبہ کے خلاف کی جا رہی ہے جنہوں نے غزہ میں جارحیت کے خلاف یونیورسٹیوں میں ہونے والے احتجاج میں حصہ لیا.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے محمود خلیل سماعت کے کے لیے
پڑھیں:
کینال منصوبہ نہ کھپے
کراچی میں 85 فیصد پانی دھابیجی کے کنوؤں سے آتا ہے۔ دھابیجی میں پانی دریائے سندھ سے آتا ہے۔ جب چولستان کے لیے نہری منصوبہ پر عمل درآمد ہوا تو کراچی میں پانی کا قحط پڑجائے گا۔ یہی صورتحال حیدرآباد اور سکھرکی ہوگی۔ جب زراعت پانی کی بناء پر تباہ ہوگئی تو برے شہروں میں خوراک ، دودھ اور دہی نایاب ہوجائیں گے۔
دریائے سندھ پر تحقیق کرنے والے سول سوسائٹی کے رکن نصیر میمن کا بیانیہ ہے کہ جب دریا کا صاف پانی سمندر میں نہیں جائے گا تو بحیرہ عرب کے کناروں پر لگے منگروز کے جنگل ختم ہوجائیں گے۔ پھر جب بحیرہ عرب میں طغیانی آئے گی اور سونامی جیسا طوفان سمندر میں برپا ہوگا تو کراچی کو بچانے والے منگروز کے درخت موجود نہیں ہونگے اور یہ طوفان اسی طرح کراچی کو تباہ کردے گا جس طرح کئی سو سال قبل کراچی، ٹھٹہ اور اطراف کے علاقوں میں سمندری پانی نے تباہی مچاہی تھی۔ اس صورتحال میں ضروری ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کے عوام کو دریائے سندھ کی خشک سالی کا ادراک ہونا چاہیے۔
چولستان کینال منصوبہ کی گزشتہ سال صدر آصف علی زرداری کی قیادت میں ہونے والے اعلیٰ سطح اجلاس میں منظوری دی گئی تھی۔ اس منصوبے کے تحت دریائے بیاس کے سیلابی پانی کو استعمال کرنے کے لیے یہ 6 نہریں تعمیر کی جائیں گی، یوں اس خبر نے سندھ میں بھونچال پیدا کردیا۔ جب ماہرین نے ایوانِ صدر میں ہونے والے اجلاس کی روداد کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ تعمیر ہونے والی نہروں کا Status تبدیل کردیا گیا۔ اب ان میں سے ایک نہر پورے سال کھلی رہے گی۔
سابق صدر ایوب خان کے دور میں بھارت سے ہونے والے سندھ طاس منصوبے کے تحت مشرقی دریا راوی، بیاس اور ستلج کو بھارت کے کنٹرول میں دیدیا گیا تھا اور تین مغربی دریا سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت بھارت کو اس بات کا پابند کیا گیا تھا کہ جب دریائے راوی، بیاس اور ستلج میں طغیانی آئے یا سیلاب آئے تو ان دریاؤں میں پانی چھوڑ دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ جب موسم گرما میں بھارت میں سیلابی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو ان مشرقی دریاؤں میں پانی آتا ہے۔ جب وہاں خشک سالی ہوتی ہے تو پاکستان کے علاقے میں آنے والے دریا خشک رہتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ اربوں روپوں کے منصوبے کو محض سیلابی پانی پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ پھر یہ نکتہ بھی توجہ کا مرکز بن گیا کہ چولستان پروجیکٹ کی نہروں کا Status تبدیل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دریائے سندھ کا پانی ان شہروں کو سیراب کرے گا۔ دریائے سندھ اس سال خشک سالی کا شکار ہے۔ دریاؤں کے پانی کو مینیج کرنے والے ادارے ارسا نے پانی کے تحفظ کے لیے سخت وارننگ جاری کی ہے۔ اس بناء پر اس منصوبے کے خلاف رائے عامہ ہموار ہونے لگی۔ پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت نے معاملے کی سنگینی کو محسوس نہیں کیا مگر جب احتجاج زیادہ بڑھا تو سندھ کی حکومت کو معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا۔
حکومت نے دریاؤں کے پانی کی کنٹرولنگ اتھارٹی میں اعتراض داخل کیا مگر ارسا کے بیوروکریٹس نے سندھ حکومت کے احتجاج کو نظرانداز کرتے ہوئے اس منصوبے کے قابلِ عمل ہونے کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا۔ جب اخبارات میں یہ خبریں شایع ہوئیں اور سندھ حکومت نے یہ قانونی نکتہ اٹھایا کہ اس منصوبے کو منظوری کے لیے صوبوں کے معاملات کا تصفیہ کرنے والے آئینی ادارہ مشترکہ مفاد کونسل (Council of Common Interests) میں لے جانا چاہیے۔
جب سے موجودہ حکومت برسرِ اقتدار آئی ہے مشترکہ مفاد کونسل کا اجلاس ہی نہیں ہوا ہے۔ ذرایع ابلاغ نے اس خبر کو بھرپور کوریج دی کہ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے چولستان میں اس منصوبے کا افتتاح کیا۔ اس خبر نے سندھ بھر میں چولستان نہری پروجیکٹ کے خلاف تحریک کو تیز کردیا۔ کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے علاوہ چھوٹے شہروں اور گوٹھوں میں احتجاج شروع ہوا۔ جب اس احتجاج میں وسعت آئی تو یہ سوال اہم ہوگیا کہ اس منصوبے کی منظوری ایوانِ صدر میں ہونے والے اجلاس میں دی گئی تھی، یوں اب پیپلز پارٹی بھی تنقید کا نشانہ بننے لگی۔ یہی دباؤ تھا کہ صدر زرداری نے پارلیمنٹ کے نئے سال کے آغاز پر اپنی تقریر میں اس منصوبے کو ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے اس بات کی تردید کی ہے کہ ایوانِ صدر میں ہونے والے اجلاس میں اس منصوبے کی منظوری دی گئی تھی۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس اجلاس کی روداد میں تبدیلی کی گئی ہے، مگر اہم ترین بات یہ ہے کہ ایوانِ صدر کی جانب سے اس بارے میں کوئی تردیدی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ بھر میں بے چینی بڑھتی جارہی ہے اور پیپلز پارٹی کو بھی اس منصوبے کے خاتمے کی تحریک میں شامل ہونا پڑگیا ہے۔ سندھ میں اس معاملہ پر رائے عامہ اتنی ہموار ہوئی کہ عید الفطر کے تہوار کے موقع پر ہر تعلقہ میں جلوس نکالے گئے۔ ان جلوسوں میں خواتین اور نوجوانوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ایک طرف تو پیپلز پارٹی مشکل میں آئی تو دوسری طرف کراچی کی نمایندگی کرنے والی جماعتوں جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم نے بھی خاموشی اختیارکیے رکھی۔ جماعت اسلامی کے سندھی رہنما تو احتجاجی تحریک میں شامل ہیں مگر کراچی کے مفادات کی ترجمانی کرنے والی جماعت اسلامی کی قیادت کی خاموشی معنیٰ خیز ہے۔ ایم کیو ایم کی قیادت پیپلز پارٹی سے اختلافات کی بناء پر کوئی مؤقف اختیار نہیں کرسکی۔
پیپلزپارٹی کی بانی ذوالفقار علی بھٹو کی برسی 4 اپریل کو منائی جاتی ہے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن اس موقع پر اہم تقریر کیا کرتے ہیں۔ جب بلاول بھٹو زرداری نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی ذمے داری سنبھال لی تو وہ بھی اس موقعے پر اہم تقریر کرنے والوں میں شامل ہوگئے۔ صدر زرداری کورونا میں مبتلا ہونے کی بناء پر اس دفعہ اس جلسے میں شرکت نہ کرسکے مگر چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریر میں واضح طور پر کہا کہ ’’ شہباز شریف صاحب سندھ کے عوام کو یہ منصوبہ قابلِ قبول نہیں ہے اور ہم سندھ کے عوام کے ساتھ ہیں۔‘‘ مگر انھوں نے سندھ میں اس منصوبے کی مخالفت کرنے والی سیاسی جماعتوں کو ’’پاکستان نہ کھپے ‘‘کا نعرہ لگانے والا قرار دیا ۔ بلاول بھٹو کے اس الزام پر خاصی تنقید ہورہی ہے۔ سندھ کی معروف دانشور نور الہدیٰ شاہ نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر لکھا ہے کہ کینال منصوبہ کی مخالفت کرنے والے غدار نہیں ہیں۔ تمام تر واقعات کے جائزے کے بعد یہ حقیقت واضح ہوچکی ہے کہ یہ منصوبہ فوری طور پر منسوخ ہونا چاہیے اور سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس منصوبے کی مخالفت کرنی چاہیے۔