پائیدار ترقی کو آگے بڑھانے کے لیے آبادی میں اضافے کو مربوط کرناناگزیر ہے. ویلتھ پاک
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 اپریل ۔2025 )پاکستان کی آبادی 2050 تک 40 کروڑتک پہنچنے کی توقع ہے جو مواقع اور چیلنجز دونوں پیش کرتی ہے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ سٹریٹجک لیبر مارکیٹ کے انضمام کے بغیربے روزگاری اور معاشی جمود بڑھ سکتا ہے تاہم موثر پالیسیاں اس ترقی کو پائیدار ترقی کے محرک میں تبدیل کر سکتی ہیں.
(جاری ہے)
ویلتھ پاک کے ساتھ بات کرتے ہوئے سرکردہ ماہر معاشیات اور سابق ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن ڈاکٹر ندیم الحق کہتے ہیں کہ پاکستان ایک ایسے نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں اس کی بڑھتی ہوئی افرادی قوت یا تو معاشی ترقی کو آگے بڑھا سکتی ہے یا ذمہ داری بن سکتی ہے پاکستان دنیا کی سب سے کم عمر آبادیوں میں سے ایک ہے اگر نوجوانوں کی یہ بڑی تعداد روزگار کے قابل ہنر سے لیس نہ ہوئی تو معیشت کو بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے. انہوں نے کہا کہ چین اور جنوبی کوریا جیسے ممالک نے انسانی سرمائے میں سرمایہ کاری کے ذریعے اپنے ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ کو موثر طریقے سے استعمال کیا پاکستان کو بھی اسی طرح کے نقطہ نظر کی ضرورت ہے پاکستان کی موجودہ بے روزگاری کی شرح 8 فیصد کے لگ بھگ ہے، نوجوانوں کی بے روزگاری اس سے بھی زیادہ ہے ایک بنیادی مسئلہ ہنر کی مماثلت ہے . وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت کے شعبے کو وسعت دینا پیشہ ورانہ پروگراموں کو صنعت کی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ کر کے اس فرق کو پر کرنے کے لیے ضروری ہے وہ ایک ایسی صنعتی پالیسی کی ضرورت پر بھی زور دیتے ہیں جو محنت کرنے والے شعبوں کو پروان چڑھائے وہ بتاتے ہیں کہ متضاد پالیسیوں کی وجہ سے مینوفیکچرنگ سیکٹر جمود کا شکار ہے ہمیں محنت سے کام کرنے والی صنعتوں جیسے ٹیکسٹائل، زرعی پروسیسنگ اور تعمیرات کے لیے مراعات کی ضرورت ہے اگر صنعتی ترقی کو سہارا دیا جائے تو روزگار کے مواقع بڑھیں گے. پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے ریسرچ اکانومسٹ ڈاکٹر احمد فراز کہتے ہیں کہ پاکستان کا ڈیموگرافک ڈیویڈنڈ صرف اسی صورت میں حاصل کیا جا سکتا ہے جب نوجوان آبادی کو متعلقہ ہنر اور روزگار کے مواقع سے آراستہ کیا جائے وہ تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کی اہم ضرورت پر زور دیتے ہیں تاکہ افرادی قوت کی قابلیت کو مارکیٹ کے بدلتے ہوئے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے ہمارے تعلیمی نظام کی ایک جامع تبدیلی، مہارت کی نشوونما پر زور دینے کے ساتھ ناگزیر ہے. ڈاکٹر فراز زور دیتے ہیں کہ آئی ٹی سیکٹر کو روزگار اور معاشی ترقی کے ایک اہم محرک کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ آئی ٹی خدمات کی بڑھتی ہوئی عالمی مانگ کے ساتھ پاکستان کے پاس اپنی نوجوان افرادی قوت کو بین الاقوامی مارکیٹ میں مسابقتی ملک کے طور پر پوزیشن دینے کا ایک منفرد موقع ہے اگر صحیح تربیت اور وسائل فراہم کیے جائیں تو پاکستان کے نوجوان آئی ٹی کی عالمی صنعت میں توسیع کرتے ہوئے ملک کی جی ڈی پی میں نمایاں حصہ ڈال سکتے ہیں ہندوستان کے آئی ٹی سیکٹر کے ساتھ موازنہ کرتے ہوئے جو اس کی معیشت کا سنگ بنیاد بن چکا ہے. انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ایک فروغ پزیر ڈیجیٹل اکانومی کو فروغ دینے کے لیے ایسی ہی اسٹریٹجک پالیسیاں اپنانی چاہئیں آئی ٹی تعلیم میں سرمایہ کاری کرکے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو بڑھا کر اور ٹیک اسٹارٹ اپس کو سپورٹ کرکے پاکستان اپنے نوجوان ٹیلنٹ کی مکمل صلاحیت کو کھول سکتا ہے اور پائیدار اقتصادی ترقی کو آگے بڑھا سکتا ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے زور دیتے ہیں سکتا ہے ترقی کو کے ساتھ آئی ٹی ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
ٹیرف وار: کیا چین براستہ پاکستان امریکا سے تجارت کر سکتا ہے؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی درآمدات پر عائد کردہ مزید 50 فیصد ٹیرف سے چینی مصنوعات پر مجموعی محصولات اب 104 فیصد تک پہنچ گئی ہیں، اس بھاری ٹیرف کے بعد اب چین اور امریکا کے درمیان ہونے والی تجارت میں بڑی کمی ہوگی، کہا یہ جا رہا ہے کہ چین اب امریکا کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے کسی اور ملک خصوصاً پاکستان کا سہارا لے سکتا ہے۔
وی نیوز نے معاشی ماہرین سے گفتگو کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا چین پاکستان کے ذریعے امریکا کے ساتھ تجارت کر سکتا ہے؟
یہ بھی پڑھیں امریکا کا چین پر 104 فیصد ٹیرف کے نفاذ کا اعلان، چین نے متبادل منڈیوں کی تلاش شروع کردی
موجودہ حالات میں کوئی ملک پاکستان میں کاروبار کے لیے نہیں آئےگا، شہباز رانامعاشی ماہر شہباز رانا نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اس وقت جو پاکستان کے معاشی، سیاسی اور امن و امان کے حالات ہیں اس کے باعث کوئی بھی ملک یہاں پر کاروبار کے لیے نہیں آئے گا، پاکستان میں سیاسی استحکام بھی نہیں ہے جبکہ یہاں پر کاروباری لاگت اور اخراجات بہت زیادہ ہیں۔
انہوں نے کہاکہ وزیراعظم کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں جو ریلیف دیا گیا ہے وہ بھی صرف 3 ماہ کے لیے ہی ہے، اس کے بعد جون میں پھر سے اس کا جائزہ لیا جائے گا، ان عوامل کے باعث کسی بھی ملک کے لیے پاکستان میں آکر فیکٹری لگانا اور پھر یہاں پر اشیا تیار کرکے باہر کسی اور دوسرے ملک کو ایکسپورٹ کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔
شہباز رانا نے کہاکہ اگر چین اپنے ملک سے نکل کر کسی اور ملک میں صنعتیں یا فیکٹریاں لگائے گا تو وہ کسی ایسے ملک کا چناؤ کرے گا جس میں معاشی اور سیاسی استحکام ہو۔ جبکہ پیداواری لاگت، شرح سود اور ایکسچینج ریٹ بھی کم ہو۔
’میرا نہیں خیال کہ چین کے لیے پاکستان کوئی ایسا سازگار ملک ہے کہ وہ یہاں پر آکر صنعتیں لگائے، پاکستان میں سی پیک پراجیکٹ کے تحت چین نے جو صنعتیں لگانی تھیں وہ بھی ابھی تک مکمل نہیں ہو سکیں۔‘
چین کی انڈسٹری کو پاکستان لانے کا اچھا موقع ہے، شعیب نظامیسینیئر صحافی شعیب نظامی نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اس وقت پاکستان کے لیے بڑا اچھا موقع ہے کہ وہ چین کی انڈسٹری کو پاکستان میں لگانے کے لیے مواقع فراہم کرے، یہ پالیسیوں کے عدم تسلسل کا نتیجہ ہے کہ سی پیک کے تحت چین کی 18-2017 میں لگائی جانے والی انڈسٹری آج تک مکمل نہیں ہو سکی۔
انہوں نے کہاکہ سی پیک سے منسلک صنعتوں کے لیے ملک میں 10 ہزار میگا واٹ اضافی بجلی کا بندوبست کیا گیا تھا، پاکستان میں حکومتوں کی پالیسیوں میں عدم تسلسل کی وجہ سے سی پیک کے سیکنڈ فیز میں صنعتیں بروقت نہ لگائی جا سکیں۔
شعیب نظامی نے کہاکہ اب پاکستان کے لیے موقع ہے کہ وہ چین کی انڈسٹری جو اسپیشل اکنامک زونز میں زیر تعمیر ہے، اسے جلد از جلد مکمل کرے، چین کی مہارت اور پاکستانیوں کی سستی لیبر مل کر امریکی منڈیوں تک سامان پہنچا سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے ہنگامی طور پر اقدامات کرنا ہوں گے۔
ہو سکتا ہے کہ جلد چینی کمپنیاں اپنی اشیا کی پاکستان میں پیداوار شروع کریں، شکیل احمدمعاشی تجزیہ کار شکیل احمد نے ’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان میں سے پیک منصوبہ کے تحت چینی صنعتیں لگنا تھیں جس کے بعد چینی مشینری پاکستان منتقل ہونے کے بعد یہاں پر چینی اشیا کی پیداوار شروع ہونا ہے، ہو سکتا ہے کہ جلد چینی کمپنیاں اپنی اشیا کی پاکستان میں پیداوار شروع کریں اور یہاں سے مختلف ممالک کو ایکسپورٹ کریں۔
انہوں نے کہاکہ اس طرح یہ اشیا ’میڈ ان پاکستان‘ اشیا کہلائیں گی ناکہ میڈ ان چین، لیکن اس وقت ایسا کوئی سلسلہ نظر نہیں آرہا، ابھی چینی اشیا کی چین میں ہی پیداوار کی جا رہی ہے اور وہاں سے ہی پوری دنیا کو منتقلی جاری ہے۔
’امریکا اچھے سے جانتا ہے کہ پاکستان میں کون سے اشیا پیدا کی جارہی ہیں‘شکیل احمد نے کہاکہ پاکستان پر بھی امریکا نے 29 فیصد ٹیرف نافذ کیا ہوا ہے، امریکا اچھے سے جانتا ہے کہ پاکستان میں کون سی اشیا پیدا کی جا رہی ہیں اور ان کا حجم کتنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں کیا پاکستان امریکا سے ٹیرف پر کامیاب مذاکرات کر پائےگا؟
انہوں نے کہاکہ اگر چین پاکستان میں مختلف اشیا کی پیداوار کرکے انہیں کسی اور ملک درآمد کرےگا تو امریکا جیسے ملک کو فوری معلوم ہو جائے گا کہ یہ اشیا پاکستانی نہیں بلکہ کسی اور ملک کی ہیں اور پاکستان سے ایکسپورٹ کی جا رہی ہے۔ اور امریکا نے چین کے ساتھ ٹریڈ وار کا آغاز کر رکھا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews امریکا امریکی منڈیاں برآمدات پاکستان تجارتی جنگ ٹیرف وار چین سی پیک فیز ٹو میڈ ان پاکستان میڈ ان چائنا وی نیوز