بالی ووڈ کے سنہری دور کی دو عظیم اداکاراؤں مدھوبالا اور مینا کماری کی دوستی کب دشمنی میں بدل گئی؟ یہ کہانی محبت، رقابت اور المیے سے بھری ہوئی ہے۔

1940 اور 50 کی دہائی میں جب بالی ووڈ اپنے عروج پر تھا، مدھوبالا اپنی دلکشی اور مسکراہٹ سے دلوں پر راج کرتی تھیں تو مینا کماری اپنی درد بھری اداکاری سے ’’ٹریجڈی کوئین‘‘ کہلائیں۔

یہ دونوں ہیروئنز نہ صرف فلمی دنیا کی چمکتا ستارہ تھیں بلکہ ایک وقت میں گہری دوست بھی ہوتی تھیں۔ فلم فیئر میگزین میں شائع ہونے والی ایک نایاب تصویر میں دونوں اداکاراؤں کو سفید ساڑھی میں ہنستے مسکراتے دیکھا جاسکتا ہے۔

لیکن یہ دوستی اس وقت دشمنی میں بدل گئی جب کمال امروہی کا معاملہ درمیان میں آگیا۔ فلم ’’محل‘‘ کی شوٹنگ کے دوران مدھوبالا اور کمال امروہی قریب آ گئے۔ مسئلہ یہ تھا کہ کمال امروہی پہلے ہی شادی شدہ تھے اور ان کی بیوی کوئی اور نہیں بلکہ مینا کماری تھیں!

مدھوبالا کے کمال امروہی سے شادی کے ارادے نے دونوں اداکاراؤں کے درمیان ناقابل عبور خلیج پیدا کردی اور ایک وقت میں سہیلی کا رشتہ رکھنے والی دونوں اداکارائیں ایک دوسرے کی دشمن بن گئیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں اداکاراؤں کی زندگیاں کئی لحاظ سے ایک جیسی تھیں۔ دونوں نے شہرت کی بلندیوں کو چھوا، دونوں کی زندگیاں بیماریوں سے جوجھتی رہیں، اور دونوں ہی کم عمری میں اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ مدھوبالا صرف 36 سال کی عمر میں جبکہ مینا کماری 39 سال کی عمر میں انتقال کرگئیں۔

یہ کہانی محبت اور رقابت کے جذبات سے بھرپور ہے جو فلمی دنیا کی چکاچوند کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں۔ آج بھی جب ہم بالی ووڈ کی سنہری تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو مدھوبالا کی مسکراہٹ اور مینا کماری کے آنسو ہمیں اس دور کی یاد دلاتے ہیں جب فنکاروں کی ذاتی زندگیاں بھی اتنی ہی ڈرامائی ہوا کرتی تھیں جتنی کہ وہ پردۂ سیمیں پر پیش کرتے تھے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کمال امروہی

پڑھیں:

اسرائیل مخالف سوشل میڈیا صارفین امریکی ویزہ حاصل نہیں کر سکیں گے

محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کی سیکرٹری کرسٹی نوم نے کہا کہ کوئی بھی جو یہ سوچتا ہے کہ وہ امریکا آسکتا ہے اور یہود دشمن تشدد اور دہشت گردی کی وکالت کے لیے آئین کی پہلی ترمیم کے پیچھے چھپ سکتا ہے تو وہ دوبارہ سوچ لے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی امیگریشن حکام نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر یہود مخالف پوسٹ کرنے والے افراد کو ویزے اور رہائشی اجازت نامے جاری نہیں کیے جائیں گے۔ عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی امیگریشن حکام نے کہا ہے کہ وہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا جائزہ لیں گے اور ان لوگوں کو ویزے یا رہائشی اجازت نامے دینے سے انکار کر دیں گے جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے یہود دشمن مواد پوسٹ کرتے ہوئے پائے جائیں گے۔ یہود مخالف کے طور پر بیان کی جانے والی پوسٹس میں ان گروہوں کی حمایت میں سوشل میڈیا کی سرگرمیاں شامل ہوں گی جنہیں امریکا نے دہشت گرد قرار دیا ہے، جن میں مزاحمتی تحریک حماس، حزب اللہ اور یمن کے حوثی مجاہدین شامل ہیں۔

یہ اقدام ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے امریکا میں موجود طلبا کے ویزے متنازعہ طور پر منسوخ کرنے کے بعد سامنے آیا ہے، جہاں آئین کی پہلی ترمیم آزادی اظہار کی ضمانت دیتی ہے۔ محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کی سیکرٹری کرسٹی نوم نے ایک بیان میں محکمہ کی ترجمان ٹریشیا میک لافلن کے حوالے سے کہا کہ یہ واضح کر دیا ہے کہ کوئی بھی جو یہ سوچتا ہے کہ وہ امریکا آسکتا ہے اور یہود دشمن تشدد اور دہشت گردی کی وکالت کے لیے آئین کی پہلی ترمیم کے پیچھے چھپ سکتا ہے تو وہ دوبارہ سوچ لے، اسے یہاں خوش آمدید نہیں کیا جائے گا۔ 

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی شہریت اور امیگریشن سروسز سوشل میڈیا کے اس مواد پر غور کرے گی جو کسی غیر ملکی کی جانب سے یہود دشمن دہشت گردی، یہود دشمن دہشت گرد تنظیموں یا دیگر یہود دشمن سرگرمیوں کی تائید، حمایت، فروغ یا پشت پناہی کی نشاندہی کرتا ہے اور اس مواد کو فوائد کا تعین کرنے میں ایک منفی عنصر کے طور پر شمار کرے گی۔ محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے کہا ہے کہ یہ پالیسی فوری طور پر نافذ العمل ہوگی اور طلبا کے ویزوں اور امریکا میں مستقل رہائشی گرین کارڈز کے لیے درخواستوں پر لاگو ہوگی۔ سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو نے گزشتہ ماہ کے اواخر میں کہا تھا کہ انہوں نے تقریباً 300 افراد کے ویزے منسوخ کر دیے ہیں اور وہ روزانہ کی بنیاد پر ایسا کر رہے ہیں۔

مارکو روبیو نے کہا کہ غیر امریکی شہریوں کو امریکیوں جیسے حقوق حاصل نہیں ہیں اور ویزے جاری کرنا یا مسترد کرنا ججوں کا نہیں بلکہ ان کا صوابدیدی اختیار ہے۔ متعدد افراد جن کے ویزے منسوخ کیے گئے، کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے کبھی یہودیوں کے لیے نفرت کا اظہار نہیں کیا، اور کچھ کا کہنا ہے کہ انہیں اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ وہاں موجود تھے جہاں احتجاج ہورہا تھا۔ اس سلسلے میں سب سے نمایاں ملک بدری کا کیس نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں احتجاج کی قیادت کرنے والے محمود خلیل کا ہے، امریکا کا مستقل رہائشی ہونے کے باوجود انہیں ملک بدر کردیا گیا تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے سرکردہ یونیورسٹیوں کو لاکھوں ڈالر کی وفاقی فنڈنگ سے بھی محروم کر دیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • خاتون کا انوکھا کارنامہ، دنیا کا سب سے بڑا مُنہ کھولنے کا عالمی ریکارڈ بنا ڈالا
  • پاکستان اور بیلاروس کی حکومتیں تجارتی رکاوٹیں دور کرنے کیلئے پر عزم: جام کمال 
  • امریکی خاتون اونیجا اینڈریو نے سندھ پولیس کی خاتون افسر سے اظہارِ محبت کردیا
  • سندھ بلڈنگ ،ڈی جی اسحاق کھوڑو نے شہریوں کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا
  • فیملی نہ پہنچی، اڈیالہ جیل میں بانی سے ملاقات کا وقت ختم ہو گیا
  • امریکہ اور صیہونی رژیم سے مقابلے کا واحد راستہ جہاد فی سبیل اللہ ہے، قائد انصاراللہ یمن
  • بیلاروس کے ساتھ صنعت و تجارت میں اشتراک کے خواہاں ہیں، جام کمال
  • غزہ انسانیت کی قتل گاہ اور پیغام فضل الرحمن
  • اسرائیل مخالف سوشل میڈیا صارفین امریکی ویزہ حاصل نہیں کر سکیں گے