Islam Times:
2025-04-12@23:19:11 GMT

فلسطین اورغزہ ہمارا تھا، ہے اور رہے گا، طاہر اشرفی

اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT

فلسطین اورغزہ ہمارا تھا، ہے اور رہے گا، طاہر اشرفی

پی یو سی کے چیئرمین نے لاہور میں تقریب سے خطاب میں کہا کہ اہل فلسطین کیلئے حکومت اور مختلف تنظیمیں امداد بھیج رہی ہیں، ہم اپنے احتجاجی مظاہروں میں پُرامن رہے، اس وقت امت مسلمہ کو ایک کرنے کی ضرورت ہے، تمام اہل اسلام سے دعا کی اپیل کرتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ لاہور میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب میں پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ فلسطین اہل فلسطین کا ہے، اہل غزہ کو ان کی سرزمین سے نکالنے کی کسی سازش کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ طاہر اشرفی نے کہا کہ کل ملک بھر میں یکجہتی فلسطین کے عنوان پر خطبات جمعہ دیئے گئے، اسرائیل کی جارحیت کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اہل فلسطین کیلئے حکومت اور مختلف تنظیمیں امداد بھیج رہی ہیں، ہم اپنے احتجاجی مظاہروں میں پُرامن رہے، اس وقت امت مسلمہ کو ایک کرنے کی ضرورت ہے، تمام اہل اسلام سے دعا کی اپیل کرتے ہیں۔
 
حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ ہمیں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، ہم ایک آزاد فلسطینی ریاست چاہتے ہیں، تمام مسلم دنیا کے اکابرین کو مکہ مکرمہ میں جمع کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں، پاکستان کی فوج، حکومت اور عوام اہل فلسطین کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین اورغزہ ہمارا ہے، تھا اور رہے گا۔ حافظ طاہر اشرفی نے کہا کہ ہمارے دل اہل فلسطین کیساتھ دھڑکتے ہیں، اللہ اہل فلسطین اور کشمیر کو آزادی نصیب کرے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اہل فلسطین طاہر اشرفی نے کہا کہ

پڑھیں:

فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر (حصہ دوم)

آج امریکا اور برطانیہ سمیت اکثر مغربی ممالک اسرائیل کے مامے بنے ہوئے ہیں۔جرمنی تو خیر اپنے وجود کا اخلاقی و آئینی جواز ہی اسرائیل کے وجود کو قرار دیتا ہے۔مگر اب سے نوے برس پہلے ان میں سے ہر کوئی یہودیوں کو بوجھ سمجھ کر جان چھڑانا چاہتا تھا۔

گزشتہ مضمون میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح تیس جنوری انیس سو تینتیس کو ہٹلر کے چانسلر بننے کے بعد یہودیوں سمیت جرمن اقلیتوں اور سیاسی مخالفین کا گھیرا تنگ ہونا شروع ہوا۔شہری حقوق بتدریج ضبط ہوتے چلے گئے۔ایک ہی راستہ کھلا رکھا گیا کہ وہ ملک چھوڑ دیں۔انیس سو تینتیس تا یکم ستمبر انیس سو انتالیس ( دوسری عالمی جنگ کا پہلا دن ) ساڑھے پانچ لاکھ جرمن یہودیوں میں سے نصف ملک چھوڑ کر ہمسایہ ممالک یا امریکا تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔لیکن انیس سو اڑتیس میں آسٹریا اور پھر چیکوسلوواکیہ پر نازی قبضے کے بعد اتنے ہی اور یہودی ہٹلر کی گرفت میں آ چکے تھے۔

انیس سو انتیس میں امریکا سے شروع ہونے والی صنعتی کساد بازاری نے رفتہ رفتہ پوری دنیا بالخصوص سرمایہ دار ممالک کو بری طرح لپیٹ میں لے لیا۔ ہزاروں صنعتیں اور کاروبار سڑک پر آ گئے۔کروڑوں بے روزگار ہو گئے۔ایسے ماحول میں کوئی بھی ملک نئے پناہ گزین لینے پر آمادہ نہیں تھا۔ تراسی فیصد امریکی شہری امیگریشن کو محدود کرنے کے حق میں تھے حالانکہ وہ سب بھی مہاجر یا مہاجروں کی اولاد تھے۔

عظیم کساد بازاری سے پانچ برس پہلے ہی انیس سو چوبیس میں امریکا نے نئے پناہ گزینوں کے لیے کوٹہ سسٹم لاگو کر دیا تھا۔یعنی اب ہر ہما شما منہ اٹھائے نیویارک یا سان فرانسسکو کے ساحل پر نہیں اتر سکتا تھا۔

اور پھر جرمنی میں نازی اور اٹلی میں فاشسٹ برسرِ اقتدار آ گئے۔سوویت یونین کی سرحدیں پہلے ہی ہر طرح کے پناہ گزینوں کے لیے بند تھیں۔ایشیا اور افریقہ کے بیشتر علاقے مغرب کی نوآبادیاتی غلامی میں تھے۔

اس پس منظر میں چھ تا پندرہ جولائی انیس سو اڑتیس فرانسیسی قصبے ایویان میں بتیس ممالک کی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں نسل پرست حکومتوں کی امتیازی پالیسیوں کے نتیجے میں پناہ گزینوں کے نئے بحران سے نمٹنے کے لیے عملی تجاویز مرتب کرنا تھا۔اس کانفرنس میں چوبیس رضاکار تنظیمیں بھی بطور مبصر شریک تھیں۔انھی میں فلسطینی یہودی آبادکاروں کی نمایندہ گولڈا مائر بھی تھیں۔

توقع تھی کہ امریکی وزیرِ خارجہ کانفرنس میں شریک ہوں گے۔مگر صدر روزویلٹ نے اپنے ایک کاروباری دوست مائرون ٹیلر اور سفارت کار جیمز میکڈونلڈ کو بطور نمایندہ بھیجا۔نو روز تک ہر مندوب پناہ گزینوں سے یکجہتی اور نسل پرست حکومتوں کے رویے پر اظہارِ افسوس کرتا رہا مگر کوئی ٹھوس پالیسی اعلامیہ جاری نہ ہو سکا۔

امریکا نے عذر پیش کیا کہ وہ انیس سو چوبیس کے امیگریشن ایکٹ کے ہاتھوں مجبور ہے اور فی الحال جرمنی اور آسٹریا سے سالانہ صرف تیس ہزار پناہ گزینوں کو قبول کر سکتا ہے۔برطانیہ نے بھی کم و بیش اتنی ہی تعداد میں سالانہ کوٹے پر اتفاق کیا۔جب کہ مقامی عرب اکثریت کی پرتشدد مزاحمت کے بعد برطانیہ نے فلسطین میں یورپی یہودیوں کی بے مہار منتقلی روک کر پندرہ ہزار نفوس فی سال کا کوٹہ مقرر کر دیا۔

ایویان کانفرنس میں شریک آسٹریلیا کے پاس اگرچہ کروڑوں ایکڑ خالی زمین پڑی تھی مگر اس نے بھی پانچ ہزار پناہ گزین سالانہ کھپانے کی پیش کش کی۔ آسٹریلوی مندوب ٹی ڈبلیو وائٹ نے تاویل دی کہ پناہ گزینوں کی غیر معمولی تعداد آسٹریلوی سماج کو بے چین کر سکتی ہے۔جنوبی افریقہ نے کہا کہ وہ انھی پناہ گزینوں کو قبول کرے گا جن کے عزیز رشتے دار پہلے سے جنوبی افریقہ میں مقیم ہیں۔کینیڈا نے کہا کہ وہ سوچ کر بتائے گا۔جرمنی کے ہمسائے اور کانفرنس کے میزبان فرانس نے کہا کہ وہ پہلے ہی گنجائش سے زائد پناہ گزین قبول کر چکا ہے اور مزید کی سکت نہیں۔

صرف ڈومنیکن ریپبلک کے آمر ٹروجیلو نے پیش کش کی کہ وہ ایک لاکھ تک یہودی پناہ گزین قبول کر سکتا ہے۔ان کے لیے چھبیس ہزار ایکڑ زرعی زمین بھی مختص کی گئی۔ عملاً آٹھ سو یہودی ہی وہاں پہنچے اور وہ بھی رفتہ رفتہ امریکا منتقل ہو گئے۔ٹروجیلو بھی دودھ کا دھلا نہیں تھا۔اس سفید فام آمر کی ’’انسان دوستی ’’ کے پیچھے یہ نئیت تھی کہ وہ ملک کی سیاہ فام اکثریت کے مقابلے میں یورپی سفید فاموں کی مزید آبادکاری چاہتا تھا۔ یورپی یہودی آبادی کا آنا ٹروجیلو کے نسلی ایجنڈے کے لیے فائدہ مند تھا۔

کہا جاتا ہے کہ صدر روزویلٹ کو یورپ سے جو تشویش ناک اطلاعات مل رہی تھیں ان کے سبب وہ امیگریشن کوٹہ سسٹم میں عارضی نرمی لانے کے حق میں تھے۔مگر ایک تو امریکی ووٹر کساد بازاری کے ہاتھوں بڑھتی غربت سے تنگ تھا۔چنانچہ خود روز ویلٹ کی ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکانِ کانگریس کا رویہ بھی ہمدردانہ نہیں تھا۔روزویلٹ تیسری بار صدارتی امیدوار بننے میں بھی سنجیدہ تھے۔

متعدد امریکی صیہونی رہنما اور لابی گروپ بھی شدید معاشی بحران کے سبب نئے یہودی پناہ گزینوں کی آمد کے بارے میں سمجھتے تھے کہ یہ عمل امریکا میں یہود مخالف لہر اٹھا سکتا ہے۔امیگریشن کے مخالفوں میں امریکن جیوش کمیٹی کے سیکریٹری مورس والڈمین، صدارتی تقریر نویس اور روزویلٹ کی ’’نیوڈیل معاشی پالیسی ’’ کے معمار سیموئل روزنمین اور سینیر مذہبی عالم جوناتھن وائز کے علاوہ پانچ سرکردہ یہودی تنظیمیں بھی شامل تھیں۔ جوناتھن وائیز نے امریکی امیگریشن کوٹے میں نرمی کے مطالبے کے بجائے الٹا برطانیہ پر کڑی تنقید کی کہ وہ یورپ میں بقائی خطرے سے دوچار یہودیوں کی فلسطین منتقلی میں روڑے اٹکا کر سنگدلی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

بے نتیجہ ایویان کانفرنس کے دو ماہ بعد ستمبر انیس سو اڑتیس میں برطانیہ اور فرانس نے چیکوسلوواکیہ کے صوبے سوڈیٹنز لینڈ پر جرمن قبضے کو خاموشی سے تسلیم کر لیا۔

ہٹلر نے ایویان کانفرنس کی ناکامی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’ مجھے امید تھی کہ وہ لوگ جنھیں ان مجرموں ( یہودی ) کے ساتھ گہری ہمدردی ہے وہ اس ہمدردی کو عملی اقدامات کی شکل دیں گے۔حالانکہ ہم ان مجرموں کو ان کے ہمدرد ممالک میں آرام دہ جہازوں میں بھر کے بھیجنے کو بھی تیار ہیں ‘‘۔

جولائی انیس سو اناسی میں امریکی نائب صدر والٹر مونڈیل نے کہا کہ ’’ ایویان کانفرنس عالمی ضمیر اور تہذیب کی آزمائش تھی۔اگر ہر ملک سترہ سترہ ہزار یہودی لے لیتا تو ہٹلر کے ہاتھوں ان کی نسل کشی نہ ہوتی۔مگر اس وقت انسانی اقدار ہار گئیں ‘‘۔

جب نازیوں کو یقین ہو گیا کہ باقی دنیا کسی عملی قدم کے بجائے زبانی جمع خرچ پر ہی گذارہ کرے گی تو انھوں نے ’’ یہودی مسئلے ‘‘ کے حل کے لیے دیگر طریقوں پر غور کرنا شروع کیا۔اس بابت تفصیل اگلی قسط میں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • ملتان سلطانز کا فلسطین کے بچوں کے لیے بڑا فیصلہ
  • اہل غزہ کو ان کی سرزمین سے نکالنے کی کسی سازش کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا، طاہر اشرفی
  • ہماری حکومت سمیت تمام اسلامی حکومتوں پر جہاد اب فرض ہوچکا ہے، مفتی تقی عثمانی
  • فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر (حصہ دوم)
  • گریٹر اسرائیل منصوبے کی آخری منزل مدینہ اور مکہ ہے، طاہر اشرفی
  • فضل الرحمان کا حکومت پر طنز اور فلسطین سے یکجہتی کا اعلان: کراچی میں اسرائیل مردہ باد مارچ ہوگا
  • پاکستان، قرآن اور ہمارا امتحان
  • ہمارے ملک کی حکومت پھٹی ہوئی قمیض کی طرح ہے، مولانا فضل الرحمن
  • اہل فلسطین کی عملی، جانی اور مالی مدد امت مسلمہ پر فرض ہے، مفتی تقی عثمانی