جنگ کا نتیجہ کچھ بھی ہوسکتا ہے!
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
29مئی 1453کو قسطنطنیہ فتح کر لیا گیا۔ 55دن کا محاصرہ چھ اپریل کو شروع ہوا تھا۔ سلطان محمد فاتح کے پاس اسی ہزار فوج تھی جس میں جانثاران بھی شامل تھے۔ یہ سپاہی آج کے کمانڈو بھی کہے جا سکتے ہیں۔ سلطان محمد فاتح اکیس برس کی عمر میں کرہ ارض کا ہمیشہ یاد رکھنے والا کردار بن گیا۔ اس وقت قسطنطنیہ کا شہنشاہ ‘ کنسٹنٹائن دوئم تھا۔
اس جنگ کو غور سے دیکھیں تو انسانی رویوں کے حیرت انگیز پہلو سامنے آ جاتے ہیں۔حکومتیں ‘ ریاستیں اور رعایا کیسے ترقی کرتی ہیں اور کس طرح کی وجوہات کی بنیاد پر خس وخاشاک بن جاتی ہیں ۔سلطان محمد فاتح جب تخت نشین ہوا تو اس کا وزیراعظم خلیل پاشا تھا۔ یہ ایک لحاظ سے فوج کا سپہ سالار بھی تھا۔ حد درجہ دانا اور سنجیدہ سوچ کا حامل انسان ۔سلطان محمد بچپن سے لے کر بادشاہ بننے تک اس کا شاگرد رہا تھا۔ جب سلطان فاتح بادشاہ بنا تو وزیراعظم اسے ہمیشہ دانائی کے مشورے دیتا تھا۔
دراصل یہ نوجوان گرم خون اور سنجیدہ عمر کی مدلل سوچ کا ٹکراؤ تھا ۔ جب فاتح نے قسطنطنیہ پر لشکر کشی کا ارادہ کیا تو وزیراعظم نے اسے جنگ نہ کرنے کی درخواست کی۔ کہا ‘ کہ یورپ کے بادشاہ ترکی کے خلاف لڑنے کے لیے فوجیں اکٹھی کررہے ہیں اور وہ کسی بھی وقت حملہ کر سکتے ہیں۔ ساتھ ساتھ اندرونی خطرات کا بھی تذکرہ کیا ۔ مگر سلطان محمد فاتح نے اس کی کوئی بات نہیں مانی اور قسطنطنیہ پر حملہ آور ہو گیا۔ پچپن دن پر محیط یہ آگ ‘ موت اور زندگی کا کھیل تاریخ کا ایک بہت اہم باب تو تھا۔ مگر اس میں فکر اور غور کرنے کے بہت سے نکات پوشیدہ ہیں ۔
محاصرے کے دوران سلطان محمد فاتح کا مقابلہ ایک حد درجہ بہادر جرنیل سے تھا جس کا تعلق اٹلی سے تھا ۔ اس کا نام Giovanni Giustiniani تھا ۔ محاصرے کے درمیان اس بہادر جرنیل نے ہمیشہ کم فوجیوں کے ساتھ سلطان فاتح کی افواج کا مقابلہ کیا اور ہمیشہ ان کو شکست فاش دی ۔ اس وقت قسطنطنیہ کا امیر ترین شخص Loukas Notaras تھا۔ وہ مسیحی بادشاہ کو تمام سرمایہ فراہم کر رہا تھا تاکہ شہر کو بچایا جا سکے۔سلطان کا وزیراعظم اورقسطنطنیہ کا امیر ترین شخص ہم خیال تھے۔
دونوں کا خیال تھا کہ جنگ ختم ہونی چاہیے اور یہ معاملہ باہمی رضا مندی سے مذاکرات کے ذریعے ختم ہونا چاہیے۔ قسطنطنیہ پرحملوں کی آٹھ سو سال کی تاریخ تھی ۔ مختلف ادوار میں 23افواج نے اس عظیم شہر پر حملہ کیا لیکن کامیاب نہ ہوسکیں۔اس کی بہت بڑی وجہ میلوں لمبی وہ فصیلیں تھیں جنھوں نے اس شہر کو ناقابل تسخیر بنا دیا تھا۔ بنیادی طور پر یہ طاقتور فصیلیں چار ٹھوس دیواریں تھیں جو تہہ در تہہ بنائی گئی تھیں ۔دنیا کی کوئی فوج ان فصیلوں کو عبور نہیں کر سکی تھی۔
سلطان فاتح نے اس کا علاج اپنی طرف سے کر رکھا تھا۔ اس نے ہنگری سے تعلق رکھنے والے ایک توپ ساز شخص کی خدمات لی تھیں ۔ جس نے اسے اس وقت کی سب سے طاقتور اور لمبی توپ بنا کر دی تھی جس کا نام بلسکہ تھا۔ان میں ڈھائی میٹر کا بارود سے بھرا ہو ا گولا داغا جاتا تھا۔ اس طرح کی بیس توپیں تیار کر کے ترک فوج کے حوالے کی گئی تھیں۔ محاصرے کے دوران یہ نیا اور جدید ہتھیار ‘ قسطنطنیہ کی افواج کے لیے بالکل انوکھا تھا۔ شروع شروع میں ان توپوں نے فصیلوں کو بہت نقصان پہنچایا ۔ مگر جیسے ہی مخالف لشکر کو وقت ملتا تھا وہ اسی جگہ ‘ مزید طاقتور فصیل کھڑی کر دیتے تھے ۔ترک بحری بیڑا بھی شکست سے دو چار تھا ۔اس کے تقریباً ڈھائی سو بحری جہاز مسیحی بحریہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے ۔
سلطان نے امیر البحر کو بلا کر اسے قتل کرنے کا حکم دیا لیکن وزیراعظم کے کہنے پر اسے اسی کوڑے لگا کر زندہ رہنے دیا گیا۔ تقریباً ڈیڑھ مہینے بعد ترک فوج کے اندر حد درجہ انتشار پیدا ہو گیا۔ بالکل اسی طرح قسطنطنیہ کے اندر بادشاہ اور اس کے مشیروں میں یہ بحث عروج پر پہنچ گئی کہ زیادہ دن تک ترک افواج کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا لہٰذا صلح کر لینی چاہیے ۔ مگر اس کے بالکل برعکس مسیحی جنرل Giovanni Giustiniani کا خیال تھا کہ اس کی فوج کا مقابلہ سلطان نہیں کر سکتا۔ترک وزیراعظم اور مخالف شہر کے امیر ترین شخص نوٹراز نے ایک خفیہ ملاقات کی اور دونوں میں طے پایا کہ جنگ بندی ہونی چاہیے۔
باعزت شرائط کے تحت سلطان محمد فاتح کو افواج سمیت واپس جانا چاہیے۔ خلیل جب صلح کی شرائط لے کر ترک بادشاہ کے پاس پہنچا تو اس نے یہ شرائط مان لیں اور حکم دیا کہ صلح نامہ تیار کیا جائے ۔ یہ وہ وقت تھا جب دونوں دشمن مکمل طور پر تھک چکے تھے اور ان کے اپنے اندر معاشی ‘ سماجی ‘ مذہبی اور اخلاقی دراڑیں نمودار ہو رہی تھیں ۔ مگر محاصرہ چھوڑنے سے ٹھیک دو دن پہلے سلطان محمد فاتح کو اس کی سوتیلی والدہ مارہ نے بتایا کہ قسطنطنیہ اندر سے مکمل کھوکھلا ہو چکا ہے۔
اس کے علاوہ ستاروں کی چال کے حساب سے سلطان محمد فاتح سو فیصد جیت رہا ہے ۔ زمانہ قدیم میں ستارہ شناس اور نجومیوں کا حکومتوں پر بے حد اثر ہوتا تھا۔ ویسے آج بھی ہمارے ملک میں یہی حال ہے۔ محمد فاتح نے اپنی سوتیلی والدہ کے مشورے پر عمل کیا اور وزیراعظم کی صلح کی شرائط کو رد کر دیا ۔ آخری حملہ محاصرے کے اختتام پر کیا گیا۔جس میں تمام ترک لشکر شہید ہو گیا۔ اب سلطان کے پاس صرف چند ہزار جانثاران رہ گئے۔
وزیراعظم نے سلطان کی منت کی کہ وہ جنگ بند کر دے کیونکہ اگر جانثاران بھی کام آ گئے تو اس کی ریاست خطرے میں پڑ جائے گی۔ مگر سلطان نے جنگ کا آخری داؤ کھیلا اور جانثاران کو حملے کا حکم دیا ۔ شومئی قسمت کہ رومن جنرل گوسٹینی شدید زخمی ہو گیا ۔ اس کے بعد پوری مسیحی فوج کے پاؤں اکھڑ گئے۔ 29 مئی کو سلطان قسطنطنیہ میں بطور فاتح داخل ہوا اور اس نے ہیلگاصوفیہ میں اپنا دربار لگایا ۔سب سے پہلے قسطنطنیہ کے امیر ترین شخص نوٹراز کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تم نے اپنی تمام دولت آخری وقت اپنے بادشاہ کو فراہم کیوں نہیں کی جو کہ ایک سچ تھا ۔ نوٹراز کی گردن زنی کی گئی اور اس کے بعد ‘ سلطان محمد فاتح نے اپنے وزیراعظم خلیل پاشا کو قتل کروا دیا۔قسطنطنیہ کو اس وقت دنیا کا ہیرا کہا جاتا تھا اور اس جیسا شہر پورے کرہ ارض پر موجود نہیں تھا۔
تاریخ حددرجہ پیچیدہ اور متضاد اسباق پر مبنی ہے۔ دور بدل گئے ‘ صدیاں مکمل طور پر تبدیل ہو گئیں۔ مگر فتح اور شکست کے حتمی نتائج وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ موجودہ دور میں جنگیں ‘ معاشی ‘ سماجی اور اقتصادی تلوار سے لڑی جاتی ہیں۔ ایک اور مہلک ہتھیار جو سلطان فاتح کی خطرناک توپوں کی طرح سامنے آیا ہے ‘ اس کا نام سوشل میڈیا ہے۔ اس مہلک ترین ہتھیار نے پوری دنیا پر ناقابل یقین حد تک نقوش رقم کر ڈالے ہیں ۔ استدلال کے طور پر اپنے ملک کی موجودہ صورت حال کو دیکھتا ہوں تو اس میں ہر طرح کے عوامل سامنے آتے ہیں۔ بلوچستان کے حالات سر چڑھ کر بول رہے ہیں۔ حکومت معاملہ فہمی کے بجائے ‘ جلتی پر تیل ڈالنے میں مصروف ہے اور ایسے لوگوں کو گرفتار کیا جارہا ہے جن کا اثر ‘ بلوچ قبائل پر حد سے زیادہ ہے ۔
غیر دانش مندی پر مبنی یہ حکمت عملی کتنی نقصان دہ ہو سکتی ہے اس کے متعلق سوچ کے بھی لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح خیبر پختونخوا کے حالات حد درجے دگر گوں ہے ۔ تحریک طالبان پاکستان جو بنیادی طور پر ایک دہشت گرد جماعت ہے اس نے لوگوں کا جینا دوبھر کرڈالا ہے۔ ریاستی قوت اور تحریک طالبان آپس میں ہر سطح پر نبردآزما ہے ۔بلوچستان اور کے پی کے خلفشار میں جوہری فرق ہے ۔ ایک طرف قوم پرستی کا نعرہ ہے اور دوسری طرف اسلام کی سربلندی کا دعویٰ کیا جارہا ہے ۔
تمام زیرک لوگ جانتے ہیں کہ ملک میں سیاسی جنگ اندرونی اور بیرونی دونوں سطح پر لڑی جا رہی ہے۔ کوئی بھی دانا شخص جب صلح صفائی کی بات کرتا ہے تو اسے ناقابل قبول بنا دیا جاتا ہے۔ جیسے قسطنطنیہ کی جنگ کا نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا تھا ۔ بالکل اسی طرح ہمارے ملک میں بڑھتے ہوئے اندرونی انتشار اور بیرونی دباؤ سے نتیجہ غیر معمولی حد تک تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔ابھی بھی وقت ہے ۔ قوت کے بجائے دانائی کا استعمال کریں۔ تمام مسائل صلح صفائی سے حل کریں۔ شاید ہم مکمل تباہی سے بچ جائیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سلطان محمد فاتح سلطان فاتح محاصرے کے کا مقابلہ فاتح نے اور اس کیا جا ہو گیا
پڑھیں:
میں پاکستان کے 25 کروڑ عوام کا بھی کپتان ہوں: محمد رضوان
ایچ بی ایل پاکستان سپرلیگ 10 میں ملتان سلطان کی قیادت کرنے والے قومی کپتان محمد رضوان نے کہا ہے کہ میں ملتان سلطانز کے ساتھ پاکستان کے 25 کروڑ عوام کا بھی کپتان ہوں۔ ہر کپتان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ٹائٹل جیتے، لیگ میں بہتر سے بہتر کارکردگی کی کوشش کریں گے، بطور کپتان ہی نہیں بطور کھلاڑی بھی دباؤ ہے۔
پی ایس ایل 10 میں ہفتے کو کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں کراچی کنگز کے خلاف میچ سے قبل حتمی مشقوں کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے محمد رضوان نے کہا کہ ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو دہرانے سے اجتناب کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ مداحوں کی ناراضگی اپنی جگہ درست ہے۔فینز ہم سے خفا ہیں، وہ بھی درست ہیں کہ ہم اپنی ذمہ داری ادا نہیں کر سکے، تنقید کے مقابلے میں محبت زیادہ ملتی ہے۔ مداحوں کی باتیں بھی سننا پڑتی ہیں،بےجا تنقید پر افسوس ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر انسان سیکھتا ہے، تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیے۔سینئرز کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے جونیئرز کو سکھائیں۔اگر تنقید ہی کرتے رہے تو نفرت بڑھے گی ۔شاہد خان افریدی کے الفاظ میرے حق میں ہیں، ان کو بطور کپتان میرے پاس اختیار نہ ہونے کا سوال نہیں کرنا چاہیے تھا۔
محمد رضوان نے کہا کہ قومی سلیکشن کے حوالے سے سب جانتے ہیں، پاکستان سلیکشن کمیٹی کے اختیارات کا سب کو علم ہے، یہ بات خوش آئند ہے کہ ملتان سلطانز میں مجھے اختیارات حاصل ہیں،مجھے فخر ہے کہ میں سچ بولتا ہوں۔تعلیم حاصل نہ کرنے کا افسوس ہے توجہ کرکٹ پر ہے، مانتا ہوں کہ زیادہ اچھی انگریزی نہیں آتی۔ اگر انگریزی چاہتے ہیں تو میں پروفیسر بن جاؤں گا۔
انہوں نے کہا کہ سابق ٹیسٹ کپتان مصباح الحق کا بطور ہیڈ کوچ مجھے بطور اوپنر کھلانے کا فیصلہ درست تھا۔کراچی کنگز ایک مضبوط ٹیم ہے،کراچی کنگز میں بہترین کھلاڑی موجود ہیں۔کراچی کنگز اور کراچی سے محبت ہے،ملتان سلطانز کے پاس بھی اچھے کھلاڑی ہیں۔ کسی بھی ٹیم کی کارکردگی کا انحصار اس کے کمبینیشن پر ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ایس ایل میں ملتان سلطانز نے بہترین کارکردگی دکھائی ہے،مسلسل تین مرتبہ فائنل کھیلنا اچھی کارکردگی کی نشانی ہے۔ اس سال ٹائٹل اپنے نام کرنے کی کوشش کریں گے، مجھے گرم موسم پسند ہے،ملتان سلطانز کے اونر علی ترین کی اپنی سوچ ہے۔ علی ترین چاہتے ہیں کہ پاکستان کو اچھے کھلاڑی ملیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر فرنچائز کا سوچنے کا اپنا انداز ہے،ہفتے کو ہونے والے میچ میں بہترین نتائج دینے کی کوشش کریں گے۔ اچھی کرکٹ کھیلیں تو نتائج بھی اچھے آتے ہیں،پی ایس ایل نے پاکستان کرکٹ کو فروغ دیا ہے۔پی ایس ایل میں اچھے کھلاڑی سامنے آتے ہیں،پوری قوم کی توجہ بھی ایس ایل پر ہوتی ہے، پی ایس ایل اور پاکستان کرکٹ ٹیم الگ الگ ہیں۔