قدم زمین پر ، ہاتھ آسمان پر
اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT
وہی راستہ، وہی راستے میںمقام قیام و طعام… لاہور کا سفر درپیش تھا۔ وہی مخصوص چائے کے دو کپ اور ساتھ سبزی کے پکوڑے جن کا بل چند ماہ پہلے سات سو آیا تھا اور اس روز تیرہ سو پچاس روپے، ٹال ٹیکس بھی کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے، اور تواور مانگنے والوں کا ریٹ بھی بڑھ گیا ہے۔
پہلے وہ دس اور بیس کے نوٹ قبول نہیں کرتے تھے اور اب وہ پچاس روپے بھی نہیں لیتے۔ جتنی دیر میں اس چھوٹے سے ریستوران سے نماز پڑھ کر اور چائے پی کر نکلے تو باہر حسب معمول بالٹی اور برش لیے ایک نحیف سا آدمی گاڑی کے پاس کھڑا تھا، ایسا لگے کہ اس نے ہماری گاڑی کے شیشے صاف کیے ہوں، اس کا مدعا اس کے منہ پر لکھا تھا۔ اسے سو روپے دیے تو اس کے چہرے کے تاثرات سے علم ہوا کہ اس کا عوضانہ بھی بڑھ چکا تھا، ایک اور لال نوٹ لے کر وہ گاڑی کے وائپر سیدھے کرنے لگا۔
چند مہینوں بلکہ ہفتوں میں ہی لگنے لگا ہے کہ ہم شاید بیچ کے کچھ ماہ سوئے رہے تھے کہ اب جاگے ہیں تو قیمتوں نے کئی اونچی چھلانگیں لگا کر آسمان کو چھو لیا ہے ۔ صاف علم ہوتا ہے کہ ملک میں چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام سرے سے ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو اسے چیک کرنے والوں کو اصل حقائق سے خاص دلچسپی نہیں ہے۔
ہم بھی کوئی ایسے نواب نہیں مگر ارد گرد دیکھ کر سمجھ میں نہیں آتا کہ عام لوگ کیسے گزارا کرتے ہیں۔ اگر کسی کی ماہانہ آمدنی، حکومت کے مقرر کردہ کم سے کم نر خوں کے مطابق بھی ہواور اس گھر میں چھ افراد رہتے ہوں، ظاہر ہے کہ اتنے لوگ تو کم ازکم ہوتے ہیں ان کے گھروں میں۔ ان سب کا پیٹ بھرنا، تن ڈھانکنا، بیماری اور تکلیف میںخرچ کرنا ، عیداور دیگر تقریبات، بچوں کی تعلیم کے اخراجات وغیرہ۔ کہاں سے یہ سب پورا ہوتا ہو گا؟؟ پورا مہینہ گھر میں پکتا کیا ہوگا؟؟ کوئی دال دیکھ لیں، سبزی اور گوشت لینا تو دور کی بات ہے۔
چند دن قبل میری ایک دوست نے بتایا کہ اس کے ہاں صفائی کا کام کرنے والی لڑکی پہلے ان کے باورچی خانے کے کوڑا دان میں سے چن کر سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے لے جاتی تھی اور اس کے پوچھنے پر بتایا کہ وہ سبزیو ں کے چھلکے دھو کر پکا لیتی تھی اور پھلوں کے چھلکے بچوں کو کھلا لیتی تھی۔ اسے دکھ ہوا کہ ان کے ہاں کا کوڑا بھی کسی غریب کا پیٹ بھرتا تھا۔
اس کے بعد وہ جب کبھی اپنے لیے سبزی لاتی ہے تو ساتھ کچھ زیادہ سبزی لے لیتی ہے کہ اس کی ملازمہ لے جائے مگر اس سبزی کے باوجود بھی وہ اس کے گھر کی سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے لے جاتی ہے جو کہ اب اسے کوڑ ا دان میں سے نکالنا نہیں پڑتے ہیں کیونکہ اب میری دوست اس سے ہی سبزی کٹواتی ہے اور اسے کچھ فالتو رقم بھی دے دیتی ہے ۔ ہم سب اس کی تقلید کرسکتے ہیں کہ کام کرنے والیوں کو معمول میں کچھ فالتو سامان یا رقم دے دیا کریں مگر کام کرنے والیاں ملک کی آبادی کا کتنے فیصد ہیں؟
عید سے قبل مرغی کا نرخ سو روپے کلو کے حساب سے روزانہ بڑھ رہا تھا ۔ ہر روز سوچتی کہ عید کے دن کے لیے مرغی خریدوں اور ہر روز کا نرخ سن کر سوچتی کہ کل لے لوں گی۔ عید سے عین دو روز پہلے جب نرخ ساڑھے نو سو روپے کلو سنا تو سر پکڑ لیا اور اپنے گوشت کی دکان والے سے سوال کیا، ’’ یہ مرغی کا نرخ آپ ہر روز سو روپے کے حساب سے کیوں بڑھا رہے ہیں؟‘‘ اس نے جواب میں ہنس کر کہا، ’’ آج تو ماشااللہ ڈیڑھ سو روپے بڑھا ہے باجی!!‘‘ اس نے تو ہنسنا ہی تھا مگر میں نہیں چاہتی تھی کہ ایک دن اور انتظار کروں اور کل رونا پڑ جائے۔ سوچا تھا کہ عید کے بعد تو نرخ لازمی کم ہوں گے کیونکہ قیمتیں یقینا عید کی وجہ سے بڑھ کر آخری حدوں کو چھو رہی ہیں۔
ہمیں تو کیاکسی کو بھی قیمتوں کی آخری حد کا کیا علم۔ عید کے بعد وہی مرغی تھی ، وہی دکان اور مرغی کانرخ تھا… ایک ہزار روپے فی کلو گرام۔ اب توسبھی سوچتے ہیں کہ ہم کیا کھائیں، بکرے کا گوشت کھانا تو اب خواب سا ہو گیا ہے۔ غریب تو سال میں ایک بار بڑی عید پر ہی کھا سکتا ہے اور بسا اوقات وہ بھی نہیں۔ پھل منڈیوں ، دکانوں اور ریڑھیوں میں پڑا سڑ جائے گا مگر اس کے نرخ کوئی کم نہیں کر تا کہ کوئی غریب بھی فیض یاب ہو جائے۔ منڈیوں میں غریب اس پھل کو خرید کر کھاتا ہے جو کہ دکان دار رد کر کے چلے جاتے ہیں اور وہ کوڑے کے ڈھیروں کی شکل میں منڈیوں میں رل رہا ہوتا ہے۔
کس کس چیز کی بابت بات کریں، ہر چیز کے قدم زمین پر ہیں کہ اسے زمین پر ہی فروخت ہونا ہے اورہاتھ آسمان کو چھونے کی کوشش میں ہیں۔ جوتے، بستر، کپڑے، برتن، گھر بنانے کا سامان، آلات برقی، گھی، تیل، چینی، آٹا، دالیں اور مسالہ جات۔ کپڑے و برتن دھونے کا سامان، ڈاکٹروں کی فیسیں، اسپتالوں میں داخلے کیے اخراجات اوردوائیں۔ بچوں کی اسکولوں کی فیسیں، یونیفارم، کتابیں اور سٹیشنری کا سامان… اسکولوں کی وین اور رکشوں کے کرائے۔ لگتا ہے کہ سانس لینا بھی دشوار ہے۔
پہلے پہل غریب اور سفید پوش بھی اپنی تنخواہ میں سے کچھ بچت کر کے مہینے میں ایک بار اپنے بچوں کو کوئی سستی سی تفریح کروا دیتے تھے۔ اب وہ بھی کسی کے لیے ممکن نہیں رہا۔ ویسے بھی اب بچے اسکولوں سے اور سوشل میڈیا کے کھلے استعمال سے سیکھ گئے ہیں کہ کسی پارک میں چلے جانا کوئی تفریح نہیں اور سستی جگہ سے کچھ کھا لینا کوئی عیاشی نہیں۔ یہی وہ آگاہی ہے جس نے کم سن نوجوانوں کے ہاتھوں جرائم کی شرح میں خطر ناک اضافہ کر دیا ہے۔
مال اوردولت کو شرافت اور نجابت کا پیمانہ قرار دیا جاتا ہے اور یہ دولت کہاں سے اور کن ذرایع سے آتی ہے، اس سے کسی کو غرض نہیں ہے۔ اب ، ’’ ہمیں کسی سے کیا لینا دینا !!‘‘ کا دور ہے، آپا دھاپی کی دنیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سو روپے ہے اور ہیں کہ اور اس
پڑھیں:
کلچر پر جاری دو طرفہ یلغار
پچھلے کالم میں مسئلہ بلوچستان کے تناظر میں قوم، قبیلے اور کلچر کا ذکر ہوا۔ اس موضوع کو بلوچستان سے ہٹ کر بھی قدرے تفصیل سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ ہمارے کلچر کو دو اطراف سے یلغار کا سامنا ہے۔ ایک تو لبرل دانشوروں کی جانب سے جن کا پرچار ہے کہ اپنا کلچر سرنڈر کرکے مغربی کلچر اختیار کرنا ترقی کی ضمانت ہے۔ دوسرا مذہبی طبقہ جس نے مذہب کے فروغ کے لیے ایسی دھول اڑائی ہے جس میں کلچر کی اہمیت ہی مشکوک کر دی گئی ہے۔ حالانکہ خدائی نظام تشکیل ہونے کے سبب اس کی بھرپور مگر تعمیری موجودگی لازم ہے۔ یہ نظام کمزور ہوگا تو ہم اپنی اجتماعی شناخت کھوتے چلے جائیں گے، جو ایک بڑا بحران ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں:ہم، وجاہت مسعود اور ٹرک کی بتی
ہمارے ہاں ماحول کچھ ایسا بن گیا ہے کہ اگر کسی چیز کی ترغیب یہ کہہ کر دی جائے کہ گوری اقوام ایسا کرتی ہیں تو لوگ قبول کرنے سے ہچکچاتے نہیں۔ بلکہ پھٹی جینز پہننے جیسی نہایت احمقانہ حرکت بھی محض اس لیے اختیار کر لیتے ہیں کہ گورے ایسا کرتے ہیں۔ عقل کے ہر پیمانے پر یہ ایک احمقانہ حرکت ہے مگر چونکہ یہ حرکت گوروں سے سرزد ہوئی ہے لہٰذا اسے اپنانا ہے۔ سو قوم قبیلے کی نسبت سے اپنی شناخت کے معاملے میں ترقی یافتہ اقوام میں اس کے باوجود پوری سنجیدگی نظر آتی ہے کہ وہ گلوبلزم کے نام پر عالمی یک رنگی کے بھی قائل ہیں۔ مثلاً آپ یہ دیکھیے کہ زبان وہ اساس ہے جس پر کوئی بھی کلچر کھڑا ہوتا ہے۔ زبان کی حیثیت اساسی یوں ہے کہ جب بھی کوئی شخص اپنی زبان ترک کرتا ہے، کلچر بھی خود کار طور پر کوچ کر جاتا ہے۔ ملتان اس کی سب سے نمایاں مثال ہے۔ اپنی تاریخ میں یہ ایک پشتون شہر ہے۔ آج بھی وہاں خاکوانیوں اور گردیزیوں سمیت کئی پشتون قبائل موجود ہیں۔ مگر یہ پشتون قوم سے کٹ چکے۔ صورت اس کی یہ بنی کہ ملتان ایک اہم تجارتی شہر تھا۔ صورتحال یہ تھی کہ تاجر پشتون تھے اور کسٹمرز سرائیکی۔ سو تاجروں نے کسٹمرز کی زبان سیکھ لی۔ وہ سرائیکی زبان کو صرف بازار تک رکھتے تو کوئی مسئلہ نہ تھا۔ مگر غلطی انہوں نے یہ کی کہ یہ زبان گھروں تک لے گئے۔ سو اپنی زبان چھوڑتے ہی ان کے ہاں سے پشتون کلچر بھی کوچ کرگیا۔ محض بلڈ لائن کے بل پر وہ اپنی قوم کا حصہ نہیں رہ سکتے تھے۔ یوں اب یہ سب وسیب کلچر کا حصہ ہیں۔ چنانچہ مغربی اقوام اپنی زبان کے معاملے میں اس اصول پر قائم ہیں کہ یہ کسی صورت ترک نہیں کی جائے گی، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ زبان گئی تو کلچر بھی جائے گا۔ کلچر گیا تو شناخت ہی ختم ہو جائے گی۔
آپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاسوں میں دیکھا ہوگا کہ چین، روس، فرانس، بھارت، اور جرمنی سمیت اکثر ممالک کے سربراہان اپنی قومی زبان میں تقاریر کرتے ہیں۔ ہمیں چونکہ علی گڑھ کالج والی اسکیم کی تحت بہت منظم انداز سے اس احساس کمتری کا شکار کیا گیا ہے کہ ہمارا مشرقی کلچر ایک نہایت پست درجے کی چیز ہے۔ لہٰذا ہم بھی ایک پست مخلوق ہی ہیں۔ اعلیٰ مخلوق بننے کے لیے ہمیں 2 کام کرنے ہوں گے۔ ایک یہ کہ اپنے کلچر پر لعنت بھیج کر ہمیں مغربی کلچر اختیار کرنا ہوگا۔ اور دوسرا یہ کہ اپنی زبان کی جگہ ہمیں انگریزی زبان میں گفتگو کو ترجیح دینی ہوگی۔ چنانچہ ہمارا وزیر اعظم ہو یا صدر، اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ ثابت کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ وہ ایسی قوم کا نمائندہ ہے جو اپنا کلچر سرنڈر کرچکی۔ چینی، روسی، یا فرانسیسی صدر کو یہ ٹینشن بالکل نہیں ہوتی کہ اس کی زبان تو برطانوی، امریکی یا دیگر اقوام کو سمجھ نہ آئے گی۔ حالانکہ یہ وہ صدور ہیں جن کا کہا عالمی سطح کا اثر رکھتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم کے ارشادات عالمی چھوڑیے علاقائی سطح کا اثر بھی کب کا کھو چکے، مگر یہ اپنی بات انگریزی میں کرکے گورے کو پتا نہیں کس چیز سے متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گورا اگر آپ کے خیالات اپنی زبان میں سن بھی لے تو اس سے اسے کیا فرق پڑتا ہے؟ اہمیت کیا ہے آپ کے خیالات کی؟
یہ بھی پڑھیں:’انقلابی فیلنگز‘
علی گڑھ تحریک کے نتیجے میں ہمارے ہاں ایک عجیب طرح کا مسخرا پن رونما ہوا۔ سرسید انکل نے سبق یہ پڑھایا تھا کہ جب تم اپنے کلچر اور زبان کی جگہ گورے کی زبان و کلچر اپنا لوگے تو تم بھی ترقی یافتہ ہوجاؤگے۔ کسی کو بھی یہ خیال نہ آیا کہ ترقی کلچر نہیں علم کی مدد سے ہوتی ہے۔ علم ترقی دیتا ہے اور ترقی کلچر کو ارتقا سے گزارتی ہے۔ اور علم کی صورتحال یہ ہے کہ اس ضمن میں سرسید کالج نے جتنے بھی انڈے بچے دیے، ان کی کارکردگی جاننے کے لیے سب سے موزوں ہستی پروفیسر ہودبائی ہیں۔ ذرا ان سے پوچھ لیجیے کہ ہمارا تعلیمی نظام کیسا ہے۔ پروفیسر پوری شام غریباں نہ برپا کر دیں تو کہیے۔ مگر اس شام غریباں کے بعد بات انہوں نے بھی وہی کرنی ہے جو سرسید نے کہی تھی کہ ہمیں مزید مغربی ہونا پڑے گا۔ گویا ہمارے ساتھ پچھلے ڈیڑھ سو سال سے فراڈ ہی یہ ہو رہا ہے کہ ترقی کے لیے درکار علم کی فراہمی کی جگہ ہمیں مزید گورا کرنے کی محنت جاری ہے۔
اب ذرا یہ ستم ظریفی بھی دیکھیے کہ برطانوی قوم اپنے بچے کو اپنی قومی زبان میں تعلیم فراہم کر رہی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بچہ کوئی بھی نئی چیز اپنی زبان میں زیادہ آسانی سے سیکھتا ہے۔ چنانچہ برطانوی ہی نہیں جرمن، فرانسیسی، روسی اور چائنیز سمیت تمام اقوام کے بچے اپنی ہی زبان میں علم حاصل کر رہے ہیں۔ اور ہم ؟ ہم اپنے بچوں کو غیرملکی زبان میں پڑھانے پر فخر کر رہے ہیں۔ اس اسکول کی فیس کئی گنا زیادہ ہوتی ہے جو یہ حماقت زیادہ زور و شور سے کر رہا ہو۔ اب اس طرح کے ماحول میں تو بس اتنی ہی قابلیت پیدا ہوسکتی ہے کہ اس نظام تعلیم کا پڑھا ہوا ہمیں اپنی پھٹی جینز اور انگریزی کمنٹس ہی سے متاثر کرنے کوشش کرسکتا ہے، علم سے نہیں۔
کیا ہمارا لبرل دانشور اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ سمجھدار قومیں کبھی بھی اپنا کلچر سرنڈر نہیں کرتیں؟ وہ تو اس مسئلے پر مسلح تصادم پر اتر آتی ہیں۔ ویلادیمیر پیوٹن نے 20 سال قبل یہ کیوں کہا تھا کہ سوویت زوال کا سب سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ 40 ملین روسی اپنے وطن سے باہر رہ گئے؟ کیونکہ قوم ہی اصل اجتماعی وحدت ہے۔ چنانچہ جب یوکرینی بحران کے دوران یہ صورتحال پیدا ہوگئی کہ یوکرین میں آباد روسی قوم سے ان کی زبان اور کلچر چھیننے کا فیصلہ ہوا، اور خود زلنسکی نے ان روسیوں کو ٹی وی پر کیڑے مکوڑے قرار دیدیا تو جنگ کی نوبت آئی کہ نہیں؟ یوں یوکرین کے وہ پانچوں ریجن روس کا حصہ بنتے چلے جا رہے ہیں جہاں روسی آباد ہیں۔
اپنے کلچر کے معاملے میں ہمارے ساتھ ظلم صرف علی گڑھ تحریک یا اس سے پیدا ہونے والے ایک موسم کے کمیونسٹ، اور دوسرے موسم کے لبرل ہی نے نہیں کیا۔ بلکہ مولوی نے بھی ہمارے کلچر کی ایسی کی تیسی پھیرنے میں پورا پورا حصہ لیا ہے۔ مثلاً جب گورے نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو وہ جبری آقا اور ہم غلام ہوگئے۔ اس ماحول میں ایک کلچرل نوعیت کا فیصلہ آیا اور وہ یہ کہ ’انگریزی بال‘ یعنی ہیئر اسٹائل رکھنا ناجائز ہے۔ اس ماحول میں یہ ایک درست اقدام تھا۔ کیونکہ غلام کا اپنے آقا کی نقالی اختیار کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ گورے سے آزادی اختیار کرنے کی بجائے اس کے کلچر کو پسند کرنے لگا ہے۔ گویا اس کی حاکمیت کو دل و جان سے قبول کر رہا ہے۔ ایک دن آیا اور برٹش سرکار کوچ کر گئی۔ اس کے کوچ کو لگ بھگ 70 سال ہوگئے۔ اور ہمارا مولوی آج بھی قوم کو یہ فتوے دے رہا ہے کہ انگریزی ہیئر اسٹائل ناجائز ہے۔ مولوی کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ برٹش دور کا وہ فتویٰ مذہبی نہیں سیاسی تھا۔ مذہب کی رو سے تو انگریزی ہیئر اسٹائل تب ناجائز ہوگا جب دین اسلام نے کوئی ہیئر اسٹائل دیا ہو۔ ہے قرآن مجید کی کوئی آیت جس میں بتایا گیا ہو کہ مسلمان کا ہیئر اسٹائل کیسا ہوگا؟ یا کوئی حدیث جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہیئر اسٹائل کے حوالے سے کوئی حکم دیا ہو؟ حکم تو بس 2 ہی بالوں کا آیا ہے۔ ایک وہ جو بغلوں میں ہیں اور دوسرے وہ جو زی ناف ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:کون جنتی کون دوزخی؟
اسی طرح آپ کھڑے ہو کر کھانے پینے کا معاملہ دیکھ لیجیے۔ اگر آپ غور کریں تو دنیا کی تمام اقوام کھانا بیٹھ کر کھاتی ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ کچھ قومیں ڈائیننگ ٹیبل پر تو کچھ فرشی دسترخوان پر بیٹھ کر کھاتی ہیں۔ بیشتر ایشین قومیں تاریخی طور پر فرشی نشست جبکہ مغربی قومیں ڈائیننگ ٹیبل کا کلچر رکھتی ہیں۔ اصل مسئلہ تب پیش آتا جب کوئی تقریب ہوتی۔ تقریب میں شامل ہر شخص کو درجنوں لوگوں سے ملنا پڑتا ہے۔ سو قدرتی سی بات ہے کہ بار بار اٹھنا بیٹھنا پڑتا تھا۔ گوروں نے اس کا حل یہ ڈھونڈ لیا کہ تقریب میں کھانا ہی کھڑے ہوکر کھاؤ تاکہ یہ بار بار کی اٹھک بیٹھک سے جان چھوٹے۔ اس نے صرف تقریب کے لیے یہ ترکیب اختیار کی۔ ورنہ گھر پر روز کا کھانا پینا اس کا اب بھی بیٹھ کر ہی ہوتا ہے۔ فرشی نشست والی اقوام نے جب یہ دیکھا تو ترکیب معقول لگی۔ یوں ہمارے ہاں بھی اس کا رواج یوں آسانی سے پڑ گیا کہ ہم تو سرسید کے نسخے کے مطابق انسانی تاریخ میں یہ کارنامہ کرنے جا رہے تھے کہ محض گورا کلچر اختیار کرکے ہی ترقی یافتہ ہونے کا پلان تھا۔ سو یہ کھڑے ہو کر کھانے کا سوال مولوی صاحب کے پاس بھی پہنچ گیا۔ دیدیا انہوں نے فتویٰ کہ کھڑے ہوکر کھانا پینا ناجائز ہے۔ حالانکہ ہیئر اسٹائل کی طرح یہاں بھی اسلام نے کوئی آرڈر پاس نہیں کیا کہ کھانا کھانے کے لیے بیٹھنا ضروری ہے۔ اگر کوئی نہ بیٹھا تو اس کا ٹھکانا جہنم کے فلاں فلور پر ہوگا۔
ہمارا مولوی کلچر میں مداخلت والی یہ وارداتیں ایک روایت کی مدد سے کرتا ہے۔ روایت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ جو شخص جس قوم سے مشابہت اختیار کرتا ہے وہ اسی میں سے ہو جاتا ہے۔ اس روایت کی تشریح مولوی یہ کرتا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم قوم کی مشابہت اختیار کرے گا تو وہ غیر مسلم ہوجائے گا۔ حالانکہ یہ روایت جو بات کہہ رہی ہے اس کی تو ہمارے ہاں سب سے بڑی مثال وہی ملتان کے خاکوانی اور گردیزی ہیں۔ یہ روایت یہ بیان کر رہی ہے کہ جب کوئی شخص اپنا کلچر چھوڑ کر دوسری قوم کی مشابہت یعنی کلچر اختیار کرتا ہے تو وہ اپنی شناخت کھو دیتا ہے اور اس نئی قوم میں سے ہو جاتا ہے۔ مثلاً خاکوانی اور گردیزی اب پشتون نہیں وسیب کلچر کا حصہ بن چکے۔ جو اس حدیث کی صداقت کی دلیل ہے۔ اس کے برخلاف اگر آپ مذہبی پہلو سے دیکھیں تو اتاترک کے جبر کے نتیجے میں ترک قوم نے مکمل طور پر مغربی کلچر اختیار کر لیا۔ کیا اس کے نتیجے میں وہ غیر مسلم بھی ہوئے؟ کسی نے مذہب ترک کیا ؟
سو کلچر کے حوالے سے ہمیں 2 یلغاروں کا سامنا ہے۔ ایک یلغار لبرل طبقے کی ہے جو مغربی کلچر کی فرنچائز کھولے بیٹھا ہے اور اس کی سرتوڑ کوشش ہے کہ ہم اپنا بچا کھچا کلچر بھی ترک کر دیں اور لنڈا اختیار کرلیں۔ جبکہ دوسری یلغار مولوی کی ہے جو اس کے باوجود کلچر میں دخل دیتا ہے کہ اسلام نے کلچر میں کوئی دخل ہی نہیں دیا۔ آپ چارپائی پر سونا چاہتے ہیں، بیڈ پر یا فرشی بستر پر اسلام کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ سو اس نے یہ انتخاب آپ کے کلچر پر چھوڑ دیا ہے۔ وہ مہمان نوازی کی ترغیب دیتا ہے۔ مگر اس کے لیے آپ رواج کیا تشکیل دیتے ہیں اس میں وہ کوئی دخل نہیں دیتا۔ ہر قوم کے کلچر میں آداب میزبانی اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ سو ایک قوم کی بیٹھک فرشی نشست والی ہے اور دوسری کی ڈرائنگ روم صوفوں والی۔ اسلام نے حلال غذا کا تو حکم دیا مگر پکانے کی ریسپی ایک بھی نہیں دی۔ سو ہم کو اپنے بچے کھچے کلچر کو ان دونوں یلغاروں سے بچانا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں