Express News:
2025-04-12@23:38:44 GMT

فلسطین : بندر کی بلا طویلے کے سر (حصہ دوم)

اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT

آج امریکا اور برطانیہ سمیت اکثر مغربی ممالک اسرائیل کے مامے بنے ہوئے ہیں۔جرمنی تو خیر اپنے وجود کا اخلاقی و آئینی جواز ہی اسرائیل کے وجود کو قرار دیتا ہے۔مگر اب سے نوے برس پہلے ان میں سے ہر کوئی یہودیوں کو بوجھ سمجھ کر جان چھڑانا چاہتا تھا۔

گزشتہ مضمون میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح تیس جنوری انیس سو تینتیس کو ہٹلر کے چانسلر بننے کے بعد یہودیوں سمیت جرمن اقلیتوں اور سیاسی مخالفین کا گھیرا تنگ ہونا شروع ہوا۔شہری حقوق بتدریج ضبط ہوتے چلے گئے۔ایک ہی راستہ کھلا رکھا گیا کہ وہ ملک چھوڑ دیں۔انیس سو تینتیس تا یکم ستمبر انیس سو انتالیس ( دوسری عالمی جنگ کا پہلا دن ) ساڑھے پانچ لاکھ جرمن یہودیوں میں سے نصف ملک چھوڑ کر ہمسایہ ممالک یا امریکا تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔لیکن انیس سو اڑتیس میں آسٹریا اور پھر چیکوسلوواکیہ پر نازی قبضے کے بعد اتنے ہی اور یہودی ہٹلر کی گرفت میں آ چکے تھے۔

انیس سو انتیس میں امریکا سے شروع ہونے والی صنعتی کساد بازاری نے رفتہ رفتہ پوری دنیا بالخصوص سرمایہ دار ممالک کو بری طرح لپیٹ میں لے لیا۔ ہزاروں صنعتیں اور کاروبار سڑک پر آ گئے۔کروڑوں بے روزگار ہو گئے۔ایسے ماحول میں کوئی بھی ملک نئے پناہ گزین لینے پر آمادہ نہیں تھا۔ تراسی فیصد امریکی شہری امیگریشن کو محدود کرنے کے حق میں تھے حالانکہ وہ سب بھی مہاجر یا مہاجروں کی اولاد تھے۔

عظیم کساد بازاری سے پانچ برس پہلے ہی انیس سو چوبیس میں امریکا نے نئے پناہ گزینوں کے لیے کوٹہ سسٹم لاگو کر دیا تھا۔یعنی اب ہر ہما شما منہ اٹھائے نیویارک یا سان فرانسسکو کے ساحل پر نہیں اتر سکتا تھا۔

اور پھر جرمنی میں نازی اور اٹلی میں فاشسٹ برسرِ اقتدار آ گئے۔سوویت یونین کی سرحدیں پہلے ہی ہر طرح کے پناہ گزینوں کے لیے بند تھیں۔ایشیا اور افریقہ کے بیشتر علاقے مغرب کی نوآبادیاتی غلامی میں تھے۔

اس پس منظر میں چھ تا پندرہ جولائی انیس سو اڑتیس فرانسیسی قصبے ایویان میں بتیس ممالک کی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں نسل پرست حکومتوں کی امتیازی پالیسیوں کے نتیجے میں پناہ گزینوں کے نئے بحران سے نمٹنے کے لیے عملی تجاویز مرتب کرنا تھا۔اس کانفرنس میں چوبیس رضاکار تنظیمیں بھی بطور مبصر شریک تھیں۔انھی میں فلسطینی یہودی آبادکاروں کی نمایندہ گولڈا مائر بھی تھیں۔

توقع تھی کہ امریکی وزیرِ خارجہ کانفرنس میں شریک ہوں گے۔مگر صدر روزویلٹ نے اپنے ایک کاروباری دوست مائرون ٹیلر اور سفارت کار جیمز میکڈونلڈ کو بطور نمایندہ بھیجا۔نو روز تک ہر مندوب پناہ گزینوں سے یکجہتی اور نسل پرست حکومتوں کے رویے پر اظہارِ افسوس کرتا رہا مگر کوئی ٹھوس پالیسی اعلامیہ جاری نہ ہو سکا۔

امریکا نے عذر پیش کیا کہ وہ انیس سو چوبیس کے امیگریشن ایکٹ کے ہاتھوں مجبور ہے اور فی الحال جرمنی اور آسٹریا سے سالانہ صرف تیس ہزار پناہ گزینوں کو قبول کر سکتا ہے۔برطانیہ نے بھی کم و بیش اتنی ہی تعداد میں سالانہ کوٹے پر اتفاق کیا۔جب کہ مقامی عرب اکثریت کی پرتشدد مزاحمت کے بعد برطانیہ نے فلسطین میں یورپی یہودیوں کی بے مہار منتقلی روک کر پندرہ ہزار نفوس فی سال کا کوٹہ مقرر کر دیا۔

ایویان کانفرنس میں شریک آسٹریلیا کے پاس اگرچہ کروڑوں ایکڑ خالی زمین پڑی تھی مگر اس نے بھی پانچ ہزار پناہ گزین سالانہ کھپانے کی پیش کش کی۔ آسٹریلوی مندوب ٹی ڈبلیو وائٹ نے تاویل دی کہ پناہ گزینوں کی غیر معمولی تعداد آسٹریلوی سماج کو بے چین کر سکتی ہے۔جنوبی افریقہ نے کہا کہ وہ انھی پناہ گزینوں کو قبول کرے گا جن کے عزیز رشتے دار پہلے سے جنوبی افریقہ میں مقیم ہیں۔کینیڈا نے کہا کہ وہ سوچ کر بتائے گا۔جرمنی کے ہمسائے اور کانفرنس کے میزبان فرانس نے کہا کہ وہ پہلے ہی گنجائش سے زائد پناہ گزین قبول کر چکا ہے اور مزید کی سکت نہیں۔

صرف ڈومنیکن ریپبلک کے آمر ٹروجیلو نے پیش کش کی کہ وہ ایک لاکھ تک یہودی پناہ گزین قبول کر سکتا ہے۔ان کے لیے چھبیس ہزار ایکڑ زرعی زمین بھی مختص کی گئی۔ عملاً آٹھ سو یہودی ہی وہاں پہنچے اور وہ بھی رفتہ رفتہ امریکا منتقل ہو گئے۔ٹروجیلو بھی دودھ کا دھلا نہیں تھا۔اس سفید فام آمر کی ’’انسان دوستی ’’ کے پیچھے یہ نئیت تھی کہ وہ ملک کی سیاہ فام اکثریت کے مقابلے میں یورپی سفید فاموں کی مزید آبادکاری چاہتا تھا۔ یورپی یہودی آبادی کا آنا ٹروجیلو کے نسلی ایجنڈے کے لیے فائدہ مند تھا۔

کہا جاتا ہے کہ صدر روزویلٹ کو یورپ سے جو تشویش ناک اطلاعات مل رہی تھیں ان کے سبب وہ امیگریشن کوٹہ سسٹم میں عارضی نرمی لانے کے حق میں تھے۔مگر ایک تو امریکی ووٹر کساد بازاری کے ہاتھوں بڑھتی غربت سے تنگ تھا۔چنانچہ خود روز ویلٹ کی ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکانِ کانگریس کا رویہ بھی ہمدردانہ نہیں تھا۔روزویلٹ تیسری بار صدارتی امیدوار بننے میں بھی سنجیدہ تھے۔

متعدد امریکی صیہونی رہنما اور لابی گروپ بھی شدید معاشی بحران کے سبب نئے یہودی پناہ گزینوں کی آمد کے بارے میں سمجھتے تھے کہ یہ عمل امریکا میں یہود مخالف لہر اٹھا سکتا ہے۔امیگریشن کے مخالفوں میں امریکن جیوش کمیٹی کے سیکریٹری مورس والڈمین، صدارتی تقریر نویس اور روزویلٹ کی ’’نیوڈیل معاشی پالیسی ’’ کے معمار سیموئل روزنمین اور سینیر مذہبی عالم جوناتھن وائز کے علاوہ پانچ سرکردہ یہودی تنظیمیں بھی شامل تھیں۔ جوناتھن وائیز نے امریکی امیگریشن کوٹے میں نرمی کے مطالبے کے بجائے الٹا برطانیہ پر کڑی تنقید کی کہ وہ یورپ میں بقائی خطرے سے دوچار یہودیوں کی فلسطین منتقلی میں روڑے اٹکا کر سنگدلی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔

بے نتیجہ ایویان کانفرنس کے دو ماہ بعد ستمبر انیس سو اڑتیس میں برطانیہ اور فرانس نے چیکوسلوواکیہ کے صوبے سوڈیٹنز لینڈ پر جرمن قبضے کو خاموشی سے تسلیم کر لیا۔

ہٹلر نے ایویان کانفرنس کی ناکامی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’’ مجھے امید تھی کہ وہ لوگ جنھیں ان مجرموں ( یہودی ) کے ساتھ گہری ہمدردی ہے وہ اس ہمدردی کو عملی اقدامات کی شکل دیں گے۔حالانکہ ہم ان مجرموں کو ان کے ہمدرد ممالک میں آرام دہ جہازوں میں بھر کے بھیجنے کو بھی تیار ہیں ‘‘۔

جولائی انیس سو اناسی میں امریکی نائب صدر والٹر مونڈیل نے کہا کہ ’’ ایویان کانفرنس عالمی ضمیر اور تہذیب کی آزمائش تھی۔اگر ہر ملک سترہ سترہ ہزار یہودی لے لیتا تو ہٹلر کے ہاتھوں ان کی نسل کشی نہ ہوتی۔مگر اس وقت انسانی اقدار ہار گئیں ‘‘۔

جب نازیوں کو یقین ہو گیا کہ باقی دنیا کسی عملی قدم کے بجائے زبانی جمع خرچ پر ہی گذارہ کرے گی تو انھوں نے ’’ یہودی مسئلے ‘‘ کے حل کے لیے دیگر طریقوں پر غور کرنا شروع کیا۔اس بابت تفصیل اگلی قسط میں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.

com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پناہ گزینوں پناہ گزین نے کہا کہ قبول کر کے لیے

پڑھیں:

ہماری حکومت سمیت تمام اسلامی حکومتوں پر جہاد اب فرض ہوچکا ہے، مفتی تقی عثمانی

اسلام آباد میں قومی فلسطین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ تقاضا یہ تھا کہ ہم یہاں جمع ہونے کی بجائے غزہ میں جمع ہوتے، ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم فلسطینی مجاہدین کےلیے عملی طور پر کچھ نہیں کر پا رہے۔ اسلام ٹائمز۔ اسلام آباد میں منعقدہ قومی فلسطین کانفرنس کے اختتام پر جاری اعلامیے میں علماء نے متفقہ طور پر فلسطین کی آزادی اور غاصب صہیونی ریاست کے خلاف جہاد فرض قرار دیا ہے۔ کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے علما، اسلامی تحریک مزاحمت حماس کی قیادت اور شہریوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ کانفرنس سے خطاب میں معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی کا کہنا ہے کہ ہماری حکومت سمیت تمام اسلامی حکومتوں پر جہاد اب فرض ہوچکا ہے، امت مسلمہ اسرائیل کیخلاف قرارداوں، کانفرنسوں کے بجائے جہاد کا اعلان کرے۔

اسلام آباد میں قومی فلسطین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ تقاضا یہ تھا کہ ہم یہاں جمع ہونے کی بجائے غزہ میں جمع ہوتے، ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم فلسطینی مجاہدین کےلیے عملی طور پر کچھ نہیں کر پا رہے، اہل فلسطین کی عملی، جانی اور مالی مدد امت مسلمہ پر فرض ہے۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ 55 ہزار سے زائد کلمہ گو کو ذبح ہوتے دیکھ کر بھی کیا جہاد فرض نہیں ہوگا؟ پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا، بانی پاکستان نے اس کو ناجائز بچہ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا موقف کسی صورت تبدیل نہیں ہوگا چاہے اسرائیل کے پاس جتنی مرضی طاقت آجائے، ہمارا اسرائیل کے ساتھ جب کوئی معاہدہ نہیں تو کوئی عذر نہیں، جب اسرائیل معاہدے توڑ چکا ہے تو پھر کون سے معاہدے کی قید ہے؟، امت مسلمہ قبلہ اوّل کی حفاظت کےلیے لڑنے والے مجاہدین کی کوئی مدد نہیں کر سکی، آج امت مسلمہ قراردادوں اور کانفرنسوں پر لگی ہوئی ہے، ہونا تو یہ چاہیے کہ امت مسلمہ جہاد کا اعلان کرتی، فلسطین میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا، معاہدہ کے باوجود بمباری جاری ہے، اسرائیل کو نہ اخلاقی اقدار کا پاس ہے نہ ہی عالمی قوانین کی قدر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ہماری حکومت سمیت تمام اسلامی حکومتوں پر جہاد اب فرض ہوچکا ہے، مفتی تقی عثمانی
  • مجلس اتحاد امت پاکستان کے زیر اہتمام اسلام آباد میں قومی فلسطین کانفرنس کا انعقاد
  • فلسطینیوں کیساتھ کھڑے، فضل الرحمن: اسلامی حکومتوں پر جہاد فرض ہو چکا، مفتی تقی عثمانی
  • تمام مسلم حکومتوں پر جہاد واجب ہوچکا، قومی فلسطین کانفرنس کا اعلامیہ جاری
  • غزہ جیسے ظلم کی مثال نہیں ملتی، مسلمانوں پر جہاد واجب ہوچکا ہے، قومی فلسطین کانفرنس
  •  قومی فلسطین کانفرنس ، اسرائیل اور اس کے حامیوں کے مکمل بائیکاٹ کی اپیل
  • فلسطین کانفرنس:اسرائیل اور اس کے حامیوں کا مکمل بائیکاٹ کریں:مفتی تقی عثمانی
  • فلسطین کانفرنس؛ اسرائیل اور اسکے حامیوں کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں، مفتی تقی عثمانی
  • فلسطینیوں کا ساتھ دینا مسلمانوں پر فرض ہے، مولانا فضل الرحمان