Islam Times:
2025-04-13@15:20:51 GMT

جہاد فرض ہوچکا ہے

اشاعت کی تاریخ: 12th, April 2025 GMT

جہاد فرض ہوچکا ہے

اسلام ٹائمز: گذشتہ کل (10 اپریل 2025ء) پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد میں غزہ کے مظلوموں کے حق میں ایک بہت اہم کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں پاکستان کے اکابر علماء نے شرکت کی اور یک آواز ہوکر فرضیت جہاد کا فتویٰ جاری کیا اور کہا کہ امت کے تمام حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ غزہ کے اسلامی جہاد میں عملی طور پر حصہ لیں۔ یہ ایک اہم فتویٰ ہے، جسکی پورے عالم اسلام کو پیروی کرنی چاہیئے۔ جہاں یہ کانفرنس غزہ کے مظلوموں کی حمایت میں منعقد ہوئی، وہاں پر ایک قابل افسوس پہلو جو مجھے نظر آیا، وہ یہ ہے کہ اس کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام موجود تھے، لیکن مجھے مکتب تشیع کے علماء نظر نہیں آئے، یا تو انہیں دعوت نہیں دی گئی یا پھر انہوں نے دعوت قبول نہیں کی اور وہ خود تشریف نہیں لائے۔ دونوں صورتوں میں میرے نزدیک یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی

‎امت مسلمہ پر اب جہاد فرض عین ہے۔ غزہ میں ناحق خون مسلم بہہ رہا ہے اور  شعائر اسلام کو بہت بے دردی سے پامال کیا جا رہا ہے۔ اہل غزہ کی ہی صرف نسل کشی نہیں کی جا رہی بلکہ یہ پورے عالم اسلام کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔سکولوں پر آگ برساتے بارود کے گولے میرے معصوم بچوں کی لاشیں آسمان کی طرف اچھال رہے ہیں۔ کہاں گئے وہ مسلمان جو میدان جہاد میں اپنا جھنڈا سر نگوں تک نہیں ہونے دیتے تھے کہ اس میں دین اسلام کی توہین ہے۔ وہ اس کو سر بلند رکھنے کے لیے اپنی جانیں وار دیا کرتے تھے۔ انہی کی اولادیں آج مساجد کو ہوا میں تحلیل ہوتا دیکھ رہی ہیں، اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت و ناموس کو یہودیوں اور صہیونیوں کے ہاتھوں لٹتا دیکھ رہی ہیں، مگر وہ خاموش ہیں۔ یہ خاموشی وسائل کی کمی کی وجہ سے نہیں ہے، یہ خاموشی افواج کی کمی کی وجہ سے نہیں ہے اور یہ خاموشی آلات حرب و ضرب کی کمزوری کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ یہ خاموشی بزدلی کی وجہ سے ہے۔

یہ بزدلی استکبار کے رعب اور دبدبہ کی وجہ سے ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ خاموشی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لاتعلق ہونے کی وجہ سے ہے اور یہ کمزوری ایمان کے عدم استحکام کی وجہ سے ہے۔ غزہ محض ایک علاقہ نہیں ہے بلکہ یہ اب شعآئر اللہ میں داخل ہوچکا ہے۔ یہ حق و باطل کے معیار کا روپ دھار چکا ہے۔ شعائر اللہ کی تعظیم اور ان کا تحفظ وہی لوگ کرتے ہیں، جو اہل اللہ ہوتے ہیں، اہل اللہ وہ لوگ ہیں، جن کے قلوب و اذہان تقویٰ کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں اور یہ ایک بدیہی امر ہے کہ تقویٰ ایمان کے بغیر محقق نہیں ہوسکتا۔ قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے: "ذلک ومن یعظم شعآئر اللہ فانھا من تقوی القلوب" (سورۃ الحج،آیت :32) ترجمہ: "یہی حق ہے اور جس نے اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کی تو بے شک یہ دلوں کے تقوی کی بات ہے۔۔۔" علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ شعائر اللہ سے مراد ہر وہ چیز ہے کہ جس کی نسبت خداوند متعال طرف کی جائے۔

‎غزہ میں شعائر اللہ پامال ہو رہے ہیں، انسانی شرف کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں، انسانیت سسک رہی ہے، 55 ہزار سے زائد معصوم جانیں لقمہ اجل بن چکی ہیں۔ اگر جہاد آج فرض نہیں ہے تو پھر کبھی بھی فرض نہیں ہوگا۔ اگر کتاب اللہ کا مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ کم و بیش آدھا قرآن احکام جہاد پر مشتمل ہے، دنیا میں کوئی قوم جہاد کے بغیر اپنے وجود کو زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھ سکتی۔ یہ دنیا ظالموں اور استحصالی قوتوں سے بھری پڑی ہے۔ آج مغرب کی استکباری قوتیں کمزور اقوام کا استحصال کر رہی ہیں، خصوصاً مسلم قوم اور اس کے تمام علاقے امریکہ اور یورپ کے نشانے پر ہیں۔ وہ مسلمانوں کا مقدس خون بہا رہے ہیں، ان کے وسائل لوٹ رہے ہیں، لیکن مسلم ممالک کے حکمران یہ سب کچھ بہت ڈھٹائی سے دیکھ رہے ہیں اور ظالم کا ہاتھ روکنے کی ان کے اندر جرآت موجود نہیں ہے۔

قوموں کی زندگیاں ظالموں سے قصاص لینے کی جرآت کے بغیر بے معنی ہوتی ہیں۔اسی لیے قرآن مجید نے مسلمانوں کو مخاطب ہو کر فرمایا: "ولکم فی القصاص حیاۃ یا اولیٰ الالباب" (البقرۃ۔آیت 179) ترجمہ: "اور خون کا بدلہ لینے میں تمہاری زندگی ہے، اے عقلمند و! تاکہ تم کہیں بچ سکو۔" ظاہر ہے کہ جو قوم ظالم کے ساتھ کھڑی ہو اور ظالم کے جرائم کی تاویلات میں مگن ہو تو اسے تباہی و بربادی سے کون بچا سکتا ہے۔ آج امت کا ظالموں سے پالا پڑا ہوا ہے، مظلوموں کو ان کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونے اور جہاد کرنے کا حق حاصل ہے، جبکہ مسلمانوں پر ان کی نصرت فرض ہے۔ اگر امت کے کسی علاقے یا کسی قوم کو ہدف ظلم بنایا جاتا ہے تو اسے اللہ نے جہاد کرنے کی اجازت دی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا: "اذن للذین یقاتلون بانھم ظلمواوان اللہ علی نصرھم لقدیر" (سورۃ الحج :آیت ،39) ترجمہ: "جن سے لڑائی کی جاتی ہے، انہیں جہاد کی اجازت ہے، کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر ضرور قدرت رکھتا ہے۔"

اسی طرح حملہ آوروں کے ساتھ بھی اللہ نے جہاد کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔"وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم" (البقرۃ:190) ترجمہ: "اور اللہ کی راہ میں ان سے قتال کرو، جو تمہارے ساتھ قتال کرتے ہیں۔" درجہ بالا آیات قرآنی سے جہاد فی سبیل اللہ کا حکم شرعی واضح طور پر مستنبط ہو رہا ہے۔ لیکن بہت بدقسمتی ہے کہ مسلم قوم پر خصی حکمران سوار ہیں، جبکہ قوم اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہے۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اہل غزہ، اہل لبنان اور اہل یمن استعمار اور اس کے مسلم حلیفوں کی وجہ سے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔گذشتہ کل (10 اپریل 2025ء) پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد میں غزہ کے مظلوموں کے حق میں ایک بہت اہم کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں پاکستان کے اکابر علماء نے شرکت کی اور یک آواز ہو کر فرضیت جہاد کا فتویٰ جاری کیا اور کہا کہ امت کے تمام حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ غزہ کے اسلامی جہاد میں عملی طور پر حصہ لیں۔ یہ ایک اہم فتویٰ ہے، جس کی پورے عالم اسلام کو پیروی کرنی چاہیئے۔

جہاں یہ کانفرنس غزہ کے مظلوموں کی حمایت میں منعقد ہوئی، وہاں پر ایک قابل افسوس پہلو جو مجھے نظر آیا، وہ یہ ہے کہ اس کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام موجود تھے، لیکن مجھے مکتب تشیع کے علماء نظر نہیں آئے، یا تو انہیں دعوت نہیں دی گئی یا پھر انہوں نے دعوت قبول نہیں کی اور وہ خود تشریف نہیں لائے۔ دونوں صورتوں میں میرے نزدیک یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ اگر اہل تشیع علماء بھی اس کانفرنس میں شرکت کرتے تو اس کا وزن، وقار اور اہمیت دو چند ہو جاتی۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور پھر دہرا رہا ہوں کہ ہم استکباری قوتوں کا اکیلے اکیلے مقابلہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی ایک دو مسالک مل کر مقابلہ کرسکتے ہیں۔ ہمیں اسلام مخالف قوتوں کے مقابلے کے لیے کلمہ طیبہ کی بنیاد پر اکٹھا ہونا ہوگا اور اپنے تمام وسائل جب تک امت یکجا نہیں کرتی، تب تک امریکہ اور اس کے حواریوں کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے۔ مجھے امید ہے کہ امت مسلمہ کے حکمران اتحاد امت کے لیے کوئی معقول اور اہم جدوجہد ضرور کریں گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: غزہ کے مظلوموں کی وجہ سے ہے منعقد ہوئی پاکستان کے یہ خاموشی اور اس کے رہی ہیں نہیں ہے رہے ہیں کی اور امت کے ہے اور

پڑھیں:

پاکستان سمیت تمام مسلمان حکومتوں پر جہاد فرض ہو چکا، مفتی تقی عثمانی

 

زبانی جمع خرچ سے مسلمان حکمران اپنے فرض سے پہلو تہی نہیں کرسکتے ،مسلم ممالک کی فوجیں کس کام کی ہیں اگر وہ جہاد نہیں کرتیں؟ 55 ہزار سے زائد کلمہ گو کو ذبح ہوتے دیکھ کر بھی کیا جہاد فرض نہیں ہوگا؟

عالمی عدالت انصاف سمیت تمام ادارے مفلوج و بے بس ہوچکے ہیں۔ شرعاً الاقرب فی الاقرب کے اصول کے تحت تمام مسلمانوں پر جہاد واجب ہوچکا ہے ، قومی فلسطین کانفرنس کا اعلامیہ جاری

مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی نے اسرائیل اور اس کے حامیوں کا مکمل بائیکاٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام اسلامی حکومتوں پر جہاد فرض ہوچکا ہے اور مسلم ممالک کی فوجیں اور اسلحہ کس کام کے اگر وہ مسلمانوں کو اس ظلم وستم سے نجات نہیں دلا سکتے ۔اسلام آباد میں قومی فلسطین کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو عالمی قوانین کی قدر نہیں ہے ، اقوام متحدہ اسرائیل اور امریکا کے ہاتھ کھلونا بن چکی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ معاہدے کے باوجود بمباری ہورہی ہے ، فلسطین میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا لیکن معاہدے کے باوجود غزہ پر بمباری ہورہی ہے جب کہ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ اسرائیل چاہے جتنے مسلمانوں کو قتل کردے ، ہم اس کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے ۔انہوں نے کہا کہ حماس کے مجاہدین ہوں یا قائدین، اپنے مؤقف سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، امت مسلمہ قبلہ اوّل کی حفاظت کے لیے لڑنے والے مجاہدین کی کوئی مدد نہیں کرسکی، آج امت مسلمہ قراردادوں اور کانفرنسوں پر لگی ہوئی ہے ، ہونا تو یہ چاہیے کہ امت مسلمہ جہاد کا اعلان کرتی۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے تمام اسلامی حکومتوں سے کھل کر فتویٰ کے ذریعے کہا ہے کہ آپ پر جہاد فرض ہوچکا ہے ، زبانی جمع خرچ سے مسلمان حکمران اپنے فرض سے پہلو تہی نہیں کرسکتے ۔ مسلم ممالک کی فوجیں کس کام کی ہیں اگر وہ جہاد نہیں کرتیں؟معروف عالم دین نے سوال کیا ‘ 55 ہزار سے زائد کلمہ گو کو ذبح ہوتے دیکھ کر بھی کیا جہاد فرض نہیں ہوگا‘، اہل فلسطین کی عملی، جانی اور مالی مدد امت مسلمہ پر فرض ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ جہاد کے لیے آپ کے پاس بہت سارے راستے ہیں، جہاد کرنا آپ سب کا فریضہ ہے جب کہ آج کا اجتماع حکمرانوں کو پیغام دے رہا ہے کہ اپنی ذمہ داری ادا کریں، اسرائیل اور اس کے حامیوں کا مکمل بائیکاٹ کریں لیکن کسی کو جانی ومالی نقصان نہ پہنچائیں۔مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ پاکستان کا اسرائیل سے نہ کوئی تعلق ہے اور نہ ہوگا، پاکستان بننے سے پہلے قائد اعظم نے اسرائیل کو ناجائز بچہ قرار دیا تھا اور پاکستان کی ریاست آج بھی اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے مؤقف پر قائم ہے۔دریں اثناء قومی فلسطین کانفرنس کے کے اعلامیہ میںکہا گیا کہ قومی فلسطین کانفرنس نے آئندہ جمعہ یوم مظلوم ومحصورین فلسطین کے طور پرمنانے کا اعلان کردیا۔قومی فلسطین کانفرنس کا متفقہ اعلامیہ جاری کردیا گیا، جس میں کہا گیا کہ ماضی قریب میں غزہ جیسے ظلم کی مثال نہیں ملتی، صہیونی مظالم میں اب تک 55 ہزار شہید فلسطینی شہید، 2 لاکھ زخمی ہوئے ۔اعلامیہ میں کہا گیا کہ غزہ میں شہری نظام، ہسپتال اور اسکول سمیت رفاحی ادارے تباہ ہوچکے ہیں، یہ محض غزہ جنگ نہیں بلکہ فلسطینیوں کی کھلی نسل کشی ہے ۔اعلامیے کے مطابق اقوام متحدہ سلامتی کونسل غیر مؤثر ہوچکا جب کہ غزہ سے متعلق قراردادوں کو امریکا غیر مشروط ویٹو کررہا ہے ، عالمی عدالت انصاف سمیت تمام ادارے مفلوج و بے بس ہوچکے ہیں۔ شرعاً الاقرب فی الاقرب کے اصول کے تحت تمام مسلمانوں پر جہاد واجب ہوچکا ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • ہماری حکومت سمیت تمام اسلامی حکومتوں پر جہاد اب فرض ہوچکا ہے، مفتی تقی عثمانی
  • فرحت اللہ بابر کیخلاف کرپشن کی انکوائری، فنڈز کی تفصیلات طلب
  • متحدہ علماء محاذ کا اسرائیل کیخلاف اعلان جہاد کا خیر مقدم
  • دین اسلام میں یتیموں کے حقوق
  • امت مسلمہ اسرائیل کیخلاف قراردادوں کے بجائے جہاد کا اعلان کرے: مفتی تقی عثمانی
  • پاکستان سمیت تمام مسلمان حکومتوں پر جہاد فرض ہو چکا، مفتی تقی عثمانی
  • امریکہ اور صیہونی رژیم سے مقابلے کا واحد راستہ جہاد فی سبیل اللہ ہے، قائد انصاراللہ یمن
  • تمام مسلم حکومتوں پر جہاد واجب ہوچکا، قومی فلسطین کانفرنس کا اعلامیہ جاری
  • غزہ جیسے ظلم کی مثال نہیں ملتی، مسلمانوں پر جہاد واجب ہوچکا ہے، قومی فلسطین کانفرنس