خبربلکہ بیان جتنا حیران کن ہے اتناہی پریشان کن بھی ہے بلکہ ان دونوں یعنی حیران کن اورپریشان کن سے زیادہ تشویش کن ، سوچ کن اورغور کن بھی ہے ۔
ملاحظہ فرمائیے
مسلم لیگ ن کی پنجاب حکومت میں بھی دکھی… بانی تحریک انصاف جیل میں بھی مسکرا رہے ہیں۔ ہم اسے کسی ہوا ہوائی کی ہوا ہوائی سمجھ کر نظر انداز کردیتے لیکن خبر بلکہ بیان کا ذریعہ بڑا موثق ، مصدق اورمستند ہے ، بتانے کی بھی ضرورت نہیں کیوں کہ اخبار پڑھنے والے جانتے ہیں کہ یہ چاول کس ’’دیگ‘‘ کا ہے اوریہ نمونہ کس خروارے کا ہے لیکن کاغذ کی تنگی کے باعث اگر ہم ان کے عہدہ جات اورڈگریوں اور القابات وخطاب کاذکر کریں گے تو ورق تمام ہوجائے گا جب کہ سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے، ویسے بھی یہ سب کچھ اخبارات اور ان کے پڑھنے والے توکیا اس صوبے کے درودیوارکو بھی ازبر ہوگا، وہی کرینہ سیف خاندان پٹودی اورشرمیلی ٹیگوری کی بہو اورمشیرہ ومعاونہ برائے سب کچھ۔
لیکن ہم اس کی گارنٹی دیتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سچ بولتی ہے اورسچ کے سوا کچھ تو کیا ’’مچ‘‘ بھی نہیں بولتی لیکن اگر بات ان کے سارے بیانات کی طرح ایک سو بیس فی صدسچ ہے تو بھی حیران کن، تشویش کن ،پریشان کن بلکہ سب کچھ ’’کن ‘‘ بات یہ ہے کہ آخر مسلم لیگ ن کی پنجاب حکومت دکھی کیوں ہے وہ بھی حکومت میں اوراس سے بھی زیادہ بانی تحریک انصاف کا مسکرانا ۔ وہ بھی جیل میں ؟؟؟
ظاہر ہے کہ بات قابل تحقیق ہے، سب سے پہلے تو یہ بات تحقیق طلب ہے کہ آخر مسلم لیگ ن کی پنجاب حکومت کے دکھی ہونے کی خبر اڑتی اڑتی یہاں کیسے پہنچی جب کہ خود اس کے صوبے کے لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ اس کا کیا دکھ اتنا بڑا ہے کہ صرف دور ہی سے دکھائی دیتا ہے اس نے آخر وہاں بھی کچھ نہ کچھ اپنے دکھ کا اظہار تو کیا ہوگا؟ کم سے کم اپنے قریبی مشیروں سے تو ہرگز اس کا دکھ چھپا نہیں ہوگا بلکہ شاید کہا بھی ہو کہ
’’حکومت ‘‘ ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
کہیں وہ فاختہ تو نہیں کہ چپکے چپکے دکھ سہے اورانڈہ کھائے کوا، بلکہ کوے۔۔ اف ہائے آہ، معاف کیجیے ہمیں ذرا روروکر دل ہلکا کرنے دیجیے ، اگر آپ کے پاس رومال ہو تو دے دیجیے کہ آئی جو اس کی یاد تو آتی گئی ، ہرنقش ماسوا کو مٹاتی چلی گئی۔کہ اچانک ہمیں اپنی ’’گوگی‘‘ بلکہ ’’کگی‘‘ یاد آگئی جو بڑی خوش نصیب اوردلاورودلیر گوگی تھی کہ اس کے انڈے کوئی کوا نہیں کھا سکا بلکہ کوے گرفتار قفس ہوگئے ۔
قفس میں ہوں گر اچھا بھی نہ جانیں میرے نیونوں کو
مرا ہونا براکیا ہے نوا سنجان گلشن کو
کیا کیا جائے محقق ہونا بھی ایک بڑا پرابلم ہے کیوں کہ بعض اوقات محقق دیوار پر اپلے دیکھ کر گھنٹوں سر کھجاتا ہے کہ گائے نے دیوار پر یہ کارنامہ کیسے کیا ،یہی حالت اس وقت ہماری ہے ۔۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا ہے حسرت
یہ کتنا تحقیق طلب سوال ہے کہ مریم کو دکھ کیا ہے ؟ اورعمران کو خوشی کیا ہے یعنی اس دکھ کے پیچھے کیا ہے اورمسکرانے کے نیچے کیاہے ؟ کیوں کہ ہم نے جب ان دونوں یعنی دکھ اورمسکراہٹ یعنی بیک وقت ٹریجیڈی اورکامیڈی کرنے والوں کو جب تصاویر میں پلے بیک کیا تو مسلم لیگ ن کی پنجاب حکومت ہمیشہ کھلی کھلی اورہشاش بشاش لگی
کوئی جھنکار ہے نغمہ ہے صدا ہے کیاہے؟
تو کلی ہے کہ کرن ہے کہ صبا ہے کیا ہے؟
اوریہ اس وقت بھی ایسی لگتی تھی جب شریفوں کے خاندان پر ’’شہاب ثاقب‘‘ گرا تھا اور بانی کو ہم نے اس وقت بھی مسکراتے نہیں دیکھا۔ جب پاکستان اس کے ہاتھ کا بٹیر تھا ہاں اس وقت البتہ تھوڑا سامسکرا دیاکرتے تھے جب مولانا محترم کاذکر کرتے تھے ۔ لیکن آخر ایسا کیا ہوگیا کہ گنگا اورجمنا دونوں الٹی بہنے لگیں۔
یہ کرینہ سیف بھی نا پوری غالب بن گئی ہے
لوگوں کوہے خورشید جہاںتاب کادھوکا
ہر روز دکھاتا ہوں میں ’’اک تازہ بیاں‘‘اور
لیکن یہاں پر اچانک ہمیں تھوڑا ساڈاؤٹ ہوا کہیں یہ وہ بات تو نہیں جس کاذکر شاعرلوگ کرتے ہیں یعنی برائی میں اچھائی یانفرت میں۔
ہوش جاتے رہے ر قیبوں کے
داغ کو اوربے وفا کہیے
ہردوسرے دن نہایت پابندی سے کسی نہ کسی حوالے سے مسلم لیگ ن کی پنجاب حکومت کا ذکر ؟ ہمیں تو اس دال میں کچھ سفید سفید سا نظر آتا ہے
نام ہونٹوں پہ تیراآئے تو راحت سی ملے
تو تسلی ہے دلاسہ ہے دعا ہے کیا ہے
بہرحال ہم پہلی بار بہ حیثیت محقق اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہمیں اس ٹریجیڈی اور کامیڈی کے کنٹراسٹ کی وجہ معلوم نہیں ہوئی، بانی کامسکرانا تو سمجھ میں آسکتا ہے کہ دیسی گھی میں دیسی مرغا مرغی بہرحال مسکرانے کا سبب بن سکتی ہے لیکن مسلم لیگ ن کی پنجاب حکومت کادکھی ہونا اور اس کا پتہ اتنی دور والوں کو چلنا بہرحال ایک معمہ ہے جو ہم سے حل نہیں ہو پایا ۔۔شاید
کلی کے حال پر روتی ہے شبنم
گلوں کی چاک دامانی سے پہلے
صرف ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ مسلم لیگ ن کی پنجاب حکومت اس لیے دکھی ہوکہ کیاانصاف زدہ کا م گلے پڑگیا اوربانی اس لیے مسکرا رہا ہو کہ میں نے اتنا بلواڑہ کیا ہوا ہے کہ دشمنوں کو لگ پتہ جائے گا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
کرپشن فری بیانیہ والی پی ٹی آئی حکومت نے رشوت کا بازار گرم کیا ہوا ہے، رہنما مسلم لیگ(ن)
نوشہرہ:پاکستان مسلم لیگ(ن) خیبر پختونخوا کے سینئر رہنما اور وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر اختیار ولی نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صوبائی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرپشن فری بیانیہ والی پی ٹی آئی حکومت نے وزارتوں، پوسٹنگ اور ٹرانسفرز پر رشوت کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔
وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر اختیارولی نے تحصیل بار پبی اور نوشہرہ بار کی نو منتخب کابینہ کو مبارک باد دی اور اس موقع پر دونوں بارز کی کابینہ نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بارز کو درپیش مسائل سے آگاہ کیا۔
اختیار ولی خان نے نو منتخب کابینہ کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت اور وزیر قانون کو خصوصی طور پر تحصیل پبی اور نوشہرہ بارکے مسائل سے آگاہ کروں گا۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی انتھک محنت اور اتحادی حکومت کی کوششوں سے ملک ڈیفالٹ سے ترقی کی طرف گامزن ہوا ہے، اس سے پہلے بھی سابقہ وزیراعظم نواز شریف نے آئی ایم ایف کو خیرباد کہا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سب کو اپنی سمت درست کرنی ہیں، اگر پاکستان ہے تو ہم سب ہیں، لوگوں کی ریڈ لائن شخصیات ہوتی ہیں مگر ہماری ریڈ لائن پاکستان اور اس کا آئین ہے۔
اختیار ولی کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ہمیشہ جھوٹا بیانیہ گھڑا ہے، جس کا جیتا جاگتا ثبوت بلین ٹری، 50 لاکھ گھر، ڈیمز اور ایک کروڑ نوکریاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کرپشن فری بیانیہ دینے والی تحریک انصاف کی حکومت نے وزارتوں، پوسٹنگ اور ٹرانسفرز پر رشوت کا بازار گرم کیا ہوا ہے، ڈیفالٹ سے ملک ٹوٹ جاتے ہیں مگر تحریک انصاف نے ڈیفالٹ کا بیانیہ ہر منہ زد عام کیا لہٰذا ان کا کڑا احتساب ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت کی بھر پور کوشش ہے کہ عوام کو ان کی دہلیز پر بنیادی سہولیات فراہم کریں۔
وزیراعظم کے کوارڈینیٹر برائے اطلاعات و خیبر پختونخواہ امور اختیار ولی خان نے کہا ہے کہ خیبر پختون خوا کے غیور عوام نے اس ملک کی بقا کے لیے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں مگر نوجوان طبقے کے جذباتی فیصلوں نے خیبر پختو نخواہ کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 12 سالہ انقلابی دورکے باوجود خیبر پختونخوا بنیادی سہولیات جیسا کہ تعلیم اور صحت میں پسماندہ ہیں، یونیورسٹیاں بند ہو رہی ہیں، کے پی میں قانون کی عمل داری کمزور تر ہے، کرپشن کے خلاف اواز اٹھانے والوں کے اپنے وزیر بک رہے ہیں تبدیلی سرکار نے ملک کو ڈیفالٹ پر پہنچا دیاتھا۔