عالمی معاشی ترقی میں ایشیا الکاہل ممالک کا حصہ 60 فیصد، رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 11 اپریل 2025ء) گزشتہ سال عالمی معیشت کی ترقی میں ایشیائی الکاہل کا حصہ 60 فیصد رہا لیکن اب بھی خطے میں بہت سے ترقی پذیر ممالک موسمیاتی دھچکوں اور ماحول دوست معیشت کی جانب تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
ایشیائی الکاہل کے لیے اقوام متحدہ کے معاشی و سماجی کمیشن (یو این ایسکیپ) کی جاری کردہ نئی رپورٹ کے مطابق، خطے کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر قابو پانے کے معاملے میں کئی طرح کی عدم مساوات کا سامنا ہے۔
بعض ممالک نے موسمیاتی مالیات کو متحرک کر کے ماحول دوست اقتصادی پالیسیاں اپنا لی ہیں لیکن متعدد ایسے بھی ہیں جنہیں اس معاملے میں دیگر کے علاوہ مالیاتی رکاوٹوں کمزور مالی نظام اور سرکاری سطح پر مالی انتظام کی محدود صلاحیت جیسے مسائل کا سامنا ہے۔(جاری ہے)
Tweet URLرپورٹ میں یہ جائزہ لیا گیا ہے کہ معیشت اور موسمیاتی مسائل کا آپس میں کیا تعلق ہے اور کون سے مسائل خطے کے معاشی استحکام کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں جن میں سست رو پیداواری ترقی، سرکاری قرضوں سے متعلق خدشات اور بڑھتا ہوا تجارتی تناؤ خاص طور پر نمایاں ہیں۔
معیشت اور موسم'یو این ایسکیپ' کی ایگزیکٹو سیکرٹری جنرل آرمیڈا علیشابانا نے کہا ہے کہ مالیاتی پالیسی سازوں کو مشکل مسائل درپیش ہیں کیونکہ دنیا کی معیشت کو غیریقینی حالات اور بڑھتے ہوئے موسمیاتی خطرات کا سامنا ہے۔
اس تبدیل ہوتے منظرنامے میں ترقی کے لیے ناصرف قومی سطح پر مضبوط پالیسیاں درکار ہیں بلکہ طویل مدتی معاشی امکانات کو تحفظ دینے اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے علاقائی سطح پر اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔
رپورٹ کی تیاری میں 30 ممالک کا جائزہ لیا گیا ہے جن میں 11 کو موسمیاتی حوالے سے سنگین خطرات درپیش ہیں۔ ان ممالک میں افغانستان، کمبوڈیا، ایران، قازقستان، لاؤ، منگولیا، میانمار، نیپال، تاجکستان، ازبکستان اور ویت نام شامل ہیں۔
رپورٹ کے ذریعے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ممالک موسمیاتی تبدیلی سے متعلقہ متنوع معاشی مسائل پر قابو پانے کے لیے کون سی پالیسیاں اختیار کر رہے ہیں۔
مثال کے طور پر، جمہوریہ کوریا میں موسمیاتی اہداف کو صنعتی ترقی سے جوڑا گیا ہے، لاؤ میں زراعت اور قازقسان میں معدنی ایندھن پر انحصار کے نتیجے میں پیدا ہونے والے موسمیاتی مسائل پر قابو پانے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں، جبکہ بنگلہ دیش اور وینوآتو جیسی ساحلی معیشتوں میں ترقی کے لیے موثر پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں۔
سست رو اقتصادی ترقیرپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ ایشیائی الکاہل کی معاشی کارکردگی دیگر دنیا سے بہتر رہی ہے لیکن خطے کی ترقی پذیر معیشتوں میں اوسط معاشی نمو گزشتہ برس کم ہو کر 4.
کم ترین ترقی یافتہ ممالک میں گزشتہ برس اوسط معاشی ترقی 3.7 فیصد رہی جو کہ پائیدار ترقی کے حوالے سے 7 فیصد سالانہ کے ہدف سے کہیں کم ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2008 کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد ایشیائی الکاہل میں افرادی قوت کی پیداواری ترقی میں تیزی سے کمی آئی ہے۔ 2010 اور 2024 کے درمیان اس خطے کے 44 میں سے 19 ترقی پذیر ممالک امیر معیشتوں کے ساتھ آمدنی کا فرق کم کرنے کو تھے جبکہ 25 ممالک ابھی بہت پیچھے ہیں۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے لیے گیا ہے
پڑھیں:
امریکی ٹیرف سے ترقی پذیر ممالک متاثر ہورہے ہیں، معاملہ حل ہونا چاہیے: پاکستان
پاکستان نے امریکی ٹیرف پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ ٹیرف سے ترقی پذیر ممالک متاثر ہو رہے ہیں، معاملہ حل ہونا چاہیے۔ اسلام آباد میں ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا ہے کہ ہم نے ٹیرف کے نفاذ کو نوٹ کیا ہے، اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں، وزیر اعظم نے اس بابت ایک کمیٹی بنائی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ ٹیرف کا ترقی پذیر ممالک پر اثر ہو رہا ہے، ٹیرف والے معاملے کو حل کرنا چاہیے۔ ترجمان دفترخارجہ نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ مشکل وقت میں اپنے افغان بہنوں بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہوا ہے تاہم اپنی سرحدوں کو آزاد اور محفوظ بنانا ہماری پالیسی ہے۔
یو اے ای میں پاکستانی ویزوں پر مکمل پابندی نہیں
شفقت علی خان نے کہا کہ حکومت آئی ایف آر پی کا مرحلہ وار نفاذ کر رہی ہے، اس حوالے سے ہم تمام متعلقہ شراکت داروں کے ساتھ رابطے میں ہیں، ہم یہاں غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی واپسی پر عملدرآمد کر رہے ہیں، یہ پاکستان کا حق ہے کہ وہ اپنی سرحد سے قانونی طور پر آمد کو یقینی بنائے۔انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ ریگولیشن آف سرحد کا ہے، خارجہ پالیسی وفاق کا معاملہ ہے، صوبائی حکومت کے افغانستان سے مذاکرات کے ٹی او آرز کا معاملہ افغان ڈیسک سے چیک کریں گے۔ان کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات میں بہت بڑا پاکستانی ڈائسپورا رہتا ہے، پاکستانی ویزوں پر مکمل پابندی نہیں ہے، برطانیہ سے پاکستان لائے جانے والے قیدی کی سماجی تقریبات میں شرکت کی اطلاعات کو دیکھیں گے.ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ امریکا کی جانب سے بگرام میں ایئر بیس قائم کرنے کا معاملہ سوشل میڈیا افواہیں ہیں، تاہم یہ افغانستان اور امریکا کی حکومتوں کا آپسی معاملہ ہے۔ترجمان نے کہا کہ ایران ہمارا ایک اہم ہمسایہ اور قریبی دوست ہے، ہمارے تعلقات انتہائی اہم ہیں، جے سی پی او ایک پیچیدہ مسئلے کے حل کی عمدہ مثال ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم تمام مسائل کے بات چیت کے ذریعہ حل کے خواہشمند ہیں، امریکا ہماری ایک بڑی برآمدی منزل ہے، چین پاکستان کا تزویراتی اور قریبی شراکت دار ہے، چینی شہریوں کا تحفظ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔