چین اور امریکا کے مابین مصنوعات پر محصولات بڑھائے جانے کا عمل جاری ہے جس سے دونوں بڑی معیشتوں کے درمیان ایک تجارتی جنگ روز بروز شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ چین نے اب اعلان کیا ہے کہ وہ امریکی مصنوعات پر محصولات کو بڑھا کر 125 فیصد کر دے گا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بالآخر چین کے ساتھ معاہدے پر آمادہ

غیر ملکی میڈیا کے مطابق چینی مصنوعات پر عائد امریکی ٹیرف کی مجموعی شرح 145 فیصد ہے جس کے بعد آج چین نے امریکی مصنوعات کی درآمد پر عائد ٹیرف کو بڑھا کر 125 فیصد کردیا ہے۔

چینی وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ ٹیرف کی شرح اس سے زیادہ نہیں بڑھائی جائے گی کیونکہ چینی مارکیٹ میں امریکی مصنوعات کے لیے قبولیت کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچی۔ بظاہر لگتا یہ ہے کہ ٹیرف کی اس شرح پر امریکی مصنوعات کی درآمدات کا سلسلہ تقریباً بند ہو جائے گا۔

چین نے ٹرمپ پر الزام عائد کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کو متاثر کرنے والے محصولات کے ذریعے مارکیٹ میں افراتفری پیدا کردی۔

مزید پڑھیے: امریکا بمقابلہ چین: یہ جنگ دنیا کو کہاں لے جائے گی؟

ٹرمپ نے دنیا بھر کے ممالک پر بھاری محصولات عائد کیے ہیں جن میں درجنوں بڑی معیشتوں کے لیے تکلیف دہ حد تک زیادہ محصولات شامل ہیں تاکہ مینوفیکچررز کو مجبور کیا جا سکے کہ وہ امریکا میں اپنی کارخانے قائم کریں اور ممالک کو امریکی مصنوعات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو کم کرنے پر مجبور کریں۔

لیکن رواں ہفتے مارکیٹ میں ہلچل کے بعد ٹرمپ نے بہت سے محصولات کو 90 دنوں کے لیے منجمد کر دیا لیکن انہوں نے چین کے لیے یہ محصولات بڑھا کر مجموعی طور پر 145 فیصد کر دیے تھے۔

تاہم چینی وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے مزید اقدامات کو نظر انداز کیا جائے گا کیونکہ موجودہ ٹیرف کی سطح پر چین کو برآمد کی جانے والی امریکی مصنوعات کی مارکیٹ میں قبولیت کا کوئی امکان نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: ٹیرف حملے: چین کا امریکا کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کا اعلان

چین کا کہنا ہے کہ اگر امریکا نے محصولات کا نمبر گیم جاری رکھا تو چین اسے نظرانداز کردے گا۔ چین نے مزید کہا ہے کہ وہ نئی امریکی محصولات کے خلاف ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں مقدمہ دائر کرے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

امریکا چین چین امریکا ٹیرف جنگ چین کا جوابی وار چین نے ٹیرف 125 فیصد کردیا محصولات.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: امریکا چین چین امریکا ٹیرف جنگ چین کا جوابی وار چین نے ٹیرف 125 فیصد کردیا محصولات امریکی مصنوعات کی مصنوعات پر مارکیٹ میں فیصد کر ٹیرف کی کے لیے چین نے چین کا

پڑھیں:

ٹرمپ کا ٹیرف پر خوش آئند اقدام

امریکی صدر ٹرمپ نے چین کے سوا دنیا کے باقی ممالک پر ٹیرف تین ماہ کے لیے معطل کردیا ہے، تاہم اس دوران ان ممالک پر 10فیصد ٹیرف عائد رہے گا جب کہ چین پر ٹیرف میں فوری اضافہ کرتے ہوئے 125 فیصد کردیا ہے۔

امریکی صدر کے ٹیرف معطل کرنے کے فیصلے کے فوری بعد دنیا بھر میں تیل اور اسٹاک مارکیٹوں میں زبردست تیزی دیکھنے میں آئی، جوابی کارروائی کرتے ہوئے یورپی یونین نے بھی امریکا پر25 فیصد محصولات کی منظوری دیدی جن پر 15 اپریل سے عمل درآمد ہوگا۔

 عالمی منڈیوں میں زبردست بحران کے سبب امریکی صدر نے بیشتر ممالک پر نوے دنوں کے لیے اضافی محصولات کو روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ٹرمپ کی انتہائی جارحانہ ٹیرف پالیسی اور پھر اس پر یوٹرن لینے کا اگر باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ٹرمپ نے عالمی معیشت پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے بلیک میلنگ کی پالیسی اپنائی ہے لیکن جوابی وار کے طور پر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے دنیا بھر کے تمام ممالک نے شدید رد عمل دیا ہے۔

ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی اور مختلف ممالک کی جانب سے سخت رد عمل نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے؟ کیا ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی امریکی معیشت کو مضبوط کر پائے گی یا کساد بازاری میں مزید اضافے کا باعث بنے گی؟ کیا ٹیرف پالیسی امریکا کے بین الاقوامی تعلقات کو اس حد تک متاثر کرسکتی ہے کہ امریکا اپنے اتحادیوں سے الگ ہوکر تنہا بھی ہوسکتا ہے؟ وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو دنیا پہلے ہی دو مخالف کیمپوں میں بٹ رہی ہے۔

مغرب کے مقابلے میں چین، جسے بڑھتی ہوئی تعداد میں آمرانہ ریاستوں کی حمایت حاصل ہے، جو کھلم کھلا اس نازک عالمی نظام کو مسترد کر رہی ہیں جسے ہم نے طویل عرصے سے یقینی سمجھ رکھا تھا، اگر یورپ اور امریکا ایک پیج پر نہ ہوئے، جب چین ٹیکنالوجی، معیشت اور عسکری برتری کے لیے امریکا کو چیلنج کر رہا ہے، تو یہ خارج از امکان نہیں کہ دنیا ایک بار پھر جنگ کی دہلیز پر پہنچ جائے۔ ہم تاریخ کے ایک نازک موڑ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ ٹرمپ اور ان کی ٹیم ڈالر کو کمزور کرنے کے کسی بھی اقدام کی سختی سے مخالفت کرتی ہے،کیونکہ ڈالر امریکا کے معاشی اور سیاسی اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

برکس کے رکن ممالک کا امریکی ڈالر کو اپنے کاروباری لین دین میں استعمال کرنے سے انکار بالآخر امریکا کے زوال کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکا کی جانب سے ممالک کو ڈالر کے استعمال پر مجبور کرنے کے لیے طاقت اور پابندیوں کا سہارا لینا مہنگا پڑے گا۔ ڈالر کئی ممالک میں اپنی ویلیو کھو چکا ہے اور اس کی مارکیٹ تیزی سے گر رہی ہے۔

برکس اتحاد کا دائرہ برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ کے علاوہ 6 نئے اراکین ( سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات، مصر، ارجنٹائن، اور ایتھوپیا) تک پھیل چکا ہے جو دنیا کی تقریباً 45 فیصد آبادی کی نمائندگی کر رہے ہیں اور تقریباً دنیا کی مجموعی جی ڈی پی کا ایک تہائی ہے۔ یہ بلاک 36% زمینی رقبہ پر محیط ہے، جو اس کے وسیع جغرافیائی اور آبادیاتی اثر کو ظاہر کرتا ہے، جب کہ گروپ 7 کا حصہ آبادی اور زمین کے اعتبار سے بالترتیب تقریباً 9.7 اور 16.1 فیصد ہے۔

اقتصادی طور پر برکس 2023 میں تقریباً 30.8 ٹریلین ڈالر کی جی ڈی پی کے ساتھ تیزی سے مغربی ممالک کے لیے ایک کاؤنٹر بلاک کے طور پر ابھرا ہے۔ اس کے علاوہ، اس بلاک میں دنیا کے تیل کے ذخائر کا تقریباً 44.4% ہے اور دنیا کی گندم کی پیداوار میں نمایاں حصہ (48.7%) ہے۔ یہ اثرات برکس کی معاشی طاقت اور قدرتی وسائل کو ظاہر کرتے ہیں جو موجودہ مغربی ورلڈ آرڈر کو چیلنج کر سکتے ہیں۔

گزشتہ دو دہائیوں کے دوران، برکس کو دنیا میں ایک اہم اقتصادی اور سیاسی قوت کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اس بلاک نے نہ صرف رکن ممالک کی اقتصادی ترقی کی سمت بلکہ امریکی بالادستی کے لیے ایک ممکنہ چیلنج کے طور پر کام کیا ہے۔ ٹرمپ اور ان کی ٹیم برکس کو عالمی اقتصادی اور سیاسی میدانوں میں امریکی بالادستی کے لیے براہ راست خطرہ کے طور پر دیکھتی ہے۔ یہ بلاک امریکی ڈالر پر رکن ممالک کے انحصار کو کم کرنے، مقامی کرنسیوں کو مضبوط بنانے اور کثیر قطبی نظام بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ برکس کے اہم ارکان میں سے ایک چین ہے، جسے ٹرمپ امریکا کے سب سے بڑے اقتصادی اور جیو پولیٹکل حریف کے طور پر دیکھتے ہیں۔

ٹرمپ کی اپنی پہلی انتظامیہ کے دوران چین کے خلاف سخت تجارتی پالیسیاں، جیسے ٹیرف وار اور ٹیکنالوجی کی پابندیاں، چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے بارے میں ان کی تشویش کو ظاہر کرتی ہیں، چونکہ برکس میں چین کا مرکزی کردار ہے، اس لیے یہ تنظیم بھی بالواسطہ طور پر ٹرمپ کی دوسری صدارت میں ان کے حملوں کا نشانہ بنی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جسے ٹرمپ بخوبی سمجھ چکے ہیں وہ BRICS کے ساتھ زیادہ سنگین تصادم کا شکار ہوں گے، اس امید پرکہ شاید متضاد اتحادوں کو دھمکیاں دے کر منہدم ہوتی امریکی بالادستی کو بحال کیا جائے گا۔ ایک اور معاملہ ہے، خصوصی طور پر چین کی تجارت کا، جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے اور اس ریلے کے سامنے امریکا بھی بے بس نظر آتا ہے۔

امریکا چین کی بڑھتی ہوئی تجارتی طاقت کو روکنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے گا،کیونکہ چین نے جس انداز میں اپنی صنعت کو ترقی دی ہے اور جس طرح وہ کم لاگت کی مصنوعات تیارکرتا ہے اس کا مقابلہ امریکا سمیت دنیا کی کوئی اور طاقت نہیں کرسکتی، لہٰذا یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ چین کی بین الاقوامی تجارت خصوصی طور پر چین کا روس اور ایران کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنا ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے مسلسل درد سر بنا رہے گا۔کووڈ 2019 سے لے کر امریکی معیشت مسلسل کساد بازاری کا شکار ہے سال 2023 میں جی ڈی پی گروتھ ریٹ 2.5 فیصد رہا جب کہ 2024 کے آخری کوارٹر میں یہ 2.0 فی صد رہ گیا۔

ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ سال 2025 میں جی ڈی پی کی شرح 2 فیصد سے کم ہوکر 1.5 فیصد رہ جائے گی۔ وال اسٹریٹ بینک نے اپنے کلائنٹس کو خبردار کیا ہے کہ آیندہ آنے والے مہینوں کے اندر امریکی معیشت 20 فیصد سے بڑھ کر 35 فیصد تک کساد بازاری کا شکار رہے گی۔ امریکا کی گرتی ہوئی معیشت اور ٹیرف کے خلاف مختلف ممالک کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے یہ بآسانی کہا جا سکتا ہے کہ مختلف ممالک کی کمپنیاں ٹیرف ادائیگی کے برعکس امریکا کے اندر تجارتی لین دین سے گریز اختیار کرسکتی ہیں۔

 درحقیقت دوسرے ممالک جو بھی اقدام اٹھاتے ہیں، امریکا کی معیشت پر اس کا منفی اثر ہوگا۔ چین، جاپان اور جنوبی کوریا مزید ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں۔ ان حالات میں چین سمیت مختلف ممالک کے ساتھ امریکا کی تجارت اگر رک جاتی ہے تو امریکی شہریوں کے لیے مختلف مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوجائے گا جس کے باعث امریکی جی ڈی پی میں نمایاں کمی آسکتی ہے، جب کہ دوسری طرف چین کی معیشت مزید بہتر ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ ساری دنیا کا مال امریکا میں فروخت ہوتا ہے۔ ان حالات میں ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی امریکی معیشت میں بہتری لانے کی بجائے امریکا کے لیے مزید خطرات کو جنم دے سکتی ہے۔

اضافی ٹیکس عائد کرنے کا مطلب ہے کہ 60 فیصد تجارت ختم بھی ہوسکتی ہے۔ جس سے امریکا کے اندر مہنگائی کی ایک نئی لہر آسکتی ہے جو ساری دنیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، کیونکہ جوابا ٹیرف عائد کرنے پر امریکا نے پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ صورتحال دنیا کو ایک نئی معاشی جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ جس میں برکس ممالک کا رول مزید بہتر ہوکر سامنے آسکتا ہے، جہاں امریکا کا سب سے بڑا اتحادی یورپ بھی برکس کی طرف جھکاؤ کرسکتا ہے۔

ڈبلیو ٹی او معاہدات کی ایک اہم شق یہ بھی ہے ٹیرف کو کم سے کم کیا جائے۔ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی ان معاہدات کی بھی نفی ہے۔کیا ’’ لبریشن ڈے‘‘ امریکی معیشت کی تباہی و بربادی کی بنیاد بھی بن سکتا ہے؟ ایسی رائے دینا قبل از وقت ہے تاہم حالات کا رخ تبدیل ہوتے دیر نہیں لگتی اور اگر رد عمل شدید آتا ہے جیسا کہ نظر آرہا ہے تو امریکی معیشت کا متاثر ہونا لازمی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ امریکا کے عالمی برادری کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی متاثر ہو سکتے ہیں کیونکہ چین کا مقابلہ کرنے کی بجائے امریکا نے ساری دنیا کے خلاف محاذ بنا لیا ہے جس کا ممکنہ نتیجہ یہ سامنے آسکتا ہے کہ آیندہ چل کر امریکا اپنے اتحادیوں سے علیحدہ بھی ہوسکتا ہے، جس کے باعث دنیا نیو ورلڈ کے برعکس ایک نئے معاشی آرڈرکی طرف بڑھ سکتی ہے، دنیا کا معاشی نظام جس طرح سے چل رہا تھا۔ آگے بڑھتا دکھائی نہیں دے رہاہے، اگر دنیا نئے معاشی آرڈر کی طرف بڑھتی ہے تو یہ امریکی چودھراہٹ کے ورلڈ آرڈر کا خاتمہ بھی ہوسکتا ہے۔ کیا امریکا اور اس کے تھنک ٹینکس اتنی بڑی اسٹرٹیجک غلطی کرسکتے ہیں۔ اس بات کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔

متعلقہ مضامین

  • کینیڈا نے منفرد جوابی اقدامات سے ٹرمپ کو حیران کردیا
  • چین نے امریکی مصنوعات پر مزید ٹیکس عائد کردیا؛ شرح 125 فیصد تک جا پہنچی
  • چین کی جوابی کاروائی امریکی مصنوعات پر125فیصدنیا ٹیرف عائدکرنے کا اعلان
  • چین کا امریکی مصنوعات پر 125 فیصد اضافی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان
  • ٹرمپ ٹیرف سے بچنے کے لیے ایپل نے 15 لاکھ آئی فون بھارت سے امریکا کیسے منگوائے؟
  • ٹرمپ کا ٹیرف پر خوش آئند اقدام
  • ٹرمپ نے متعدد ممالک پر ٹیرفس کا اطلاق نوے دن کے لیے روک دیا
  • جو ممالک جوابی ٹیرف نہیں لگارہے ان کیلئے وقت کا اعلان کیا ہے،امریکی صدر
  • امریکا چین باہمی تجارت میں 80 فیصد کمی کا امکان