اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 11 اپریل 2025ء) اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ دو سال سے خانہ جنگی کا شکار سوڈان میں قحط پھیل رہا ہے جہاں شہریوں کو بڑے پیمانے پر تشدد، بدسلوکی اور جنسی زیادتی کا سامنا ہے۔

اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے امدادی امور (اوچا) کے ترجمان جینز لائرکے نے کہا ہے کہ سوڈان میں لوگ بہت بڑے انسانی بحران کی لپیٹ میں ہیں اور فوری طور پر امن قائم ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

دو تہائی آبادی یا تین کروڑ لوگوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے جبکہ دنیا بھر سمیت سوڈان کو بھی امدادی مقاصد کے لیے دیے جانے والے مالی وسائل کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ Tweet URL

ملکی فوج اور اس کی مخالف ملیشیا ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کے درمیان جاری لڑائی میں ایک کروڑ 24 لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں جن میں 33 لاکھ نے ہمسایہ ممالک میں پناہ لے رکھی ہے۔

(جاری ہے)

'جنسی زیادتی بطور جنگی ہتھیار'

'اوچا'، امدادی کارکنوں اور اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے متواتر خبردار کیا ہے کہ ملک بھر میں بڑے پیمانے پر جنسی زیادتی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ سوڈان میں 'او ایچ سی ایچ آر' کی نمائندہ لی فنگ کے مطابق، ایسے ہی ایک واقعے میں اپنے بچوں کے سامنے جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی ایک خاتون نے بتایا کہ ان پر ظلم کرنے والوں کا کہنا تھا کہ اب وہ ان کی ملکیت ہیں۔

اقوام متحدہ کے پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) نے ممکنہ قحط کا سامنا کرنے والے دو کروڑ 50 لاکھ لوگوں کے لیے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو بھوک کا غیرمعمولی بحران درپیش ہے۔

طبی سہولیات پر بڑھتے حملے

اطلاعات کے مطابق 'آر ایس ایف' نے ڈارفر کے اہم علاقے ام کدادہ پر قبضہ کر لیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ علاقے میں طبی سہولیات اور عملے پر حملے بڑھ گئے ہیں۔

گزشتہ دو برس کے عرصہ میں ملک کے طول و عرض میں طبی سہولیات پر 156 مصدقہ حملے ہو چکے ہیں۔ ان میں 300 سے زیادہ لوگ ہلاک او ر270 سے زیادہ زخمی ہوئے جن میں مریض اور طبی کارکن دونوں شامل ہیں۔

امدادی وسائل کی قلت

خواتین کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے 'یو این ویمن' نے بتایا ہے کہ جنگ زدہ علاقوں میں 80 فیصد ہسپتال فعال نہیں رہے جس کے نتیجے میں زچگی کی اموات میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہو گیا ہے۔

'یو این ویمن' کی ڈائریکٹر صوفیا کالتورپ نے بتایا ہے کہ سوڈان میں 80 فیصد بے گھر خواتین کو صاف پانی تک رسائی نہیں ہے جس سے بدحال لوگوں پر امدادی وسائل میں کمی کے اثرات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے 'یو این ایچ سی آر' کی ترجمان اولگا ساراڈو نے کہا ہے کہ عطیہ دہندہ ممالک کی جانب سے امدادی وسائل میں بڑے پیمانے کمی کے باعث بہت سے ضروری امدادی پروگراموں کو خطرات لاحق ہیں۔

ان حالات میں امدادی ٹیموں کو مشکل فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں اور پناہ گزینوں کی بڑی تعداد اپنی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے خطرناک اقدامات پر مجبور ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سوڈان میں امدادی وسائل کی کمی کے باعث کم از کم پانچ لاکھ بے گھر لوگوں کی صاف پانی تک رسائی ختم ہو گئی ہے۔ اس صورتحال کے نتیجے میں اسہال اور آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی دیگر بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ کے جنسی زیادتی بڑے پیمانے سوڈان میں کے لیے

پڑھیں:

امدادی کارکن کیوں مارے جاتے ہیں؟

ایڈ ورکرز یا امدادی کارکن وہ افراد ہوتے ہیں جو انسانی بحرانوں میں مدد فراہم کرنے کےلیے اپنی جان خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں مختلف علاقوں میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والے یہ افراد جنگ، قدرتی آفات، یا دیگر خطرات میں متاثرہ لوگوں کی مدد کرنے کےلیے سرگرم ہوتے ہیں۔ تاہم بعض اوقات یہ امدادی کارکن خود بھی خطرات کا شکار ہوجاتے ہیں، خاص طور پر ایسے علاقوں میں جہاں تنازعات جاری رہتے ہیں۔

آج کل کی دنیا میں تنازعات کہاں نہیں ہیں۔ کہیں آزادی کی جنگ ہے، کہیں حدود اربعہ میں وسعت، کہیں پانی کےلیے لڑائی ہے، کہیں مذہبی آزادی کا جہاد ہے اور کہیں دوسروں کو اپنے زیر اثر لانے کی کوشش اور جدوجہد جاری ہے۔

یہاں امدادی کارکن انسانیت بچانے کےلیے سرگرم ہوتا ہے۔ ایسا ہی امدادی کارکن ’’منظر عابد‘‘ فلسطینی ریڈ کریسنٹ کے ساتھ منسلک ہے اور غزہ کے مظلوموں کی خدمت میں مصروف کار ہے۔ ایک رات اسرائیلی فائرنگ میں اس کے ساتھ والے 15 امدادی کارکن مار دیے جاتے ہیں۔ وہ بچ جاتا ہے اور اس کی آنکھوں کے سامنے ان کی گاڑیوں پر اندھا دھند فائر کیے گئے۔ ریڈ کریسنٹ اور اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ 15 امدادی کارکن اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد زخمیوں کی مدد کےلیے بھیجے گئے تھے مگر انہیں فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا اور ان کی لاشیں ایک ہفتے بعد ایک کم گہری قبر سے برآمد ہوئیں، جب کہ ایک کارکن اب بھی لاپتا ہے۔

اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری تنازعہ کئی دہائیوں سے انسانی حقوق اور انسانی ہمدردی کے اصولوں کی پامالی کا باعث بنتا رہا ہے۔ فلسطین میں اسرائیلی فوج کی کارروائیاں خاص طور پر غزہ کی پٹی میں انسانی ہمدردی کے کارکنوں کےلیے خطرہ بن چکی ہیں۔ ابتدائی طور پر اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے اندھیرے میں بغیر لائٹس یا نشانات والی مشتبہ گاڑیوں پر فائرنگ کی تھی اور ان میں نو عسکریت پسند موجود تھے۔ تاہم فلسطینی ریڈ کریسنٹ کی جانب سے جاری کردہ ایک ویڈیو نے اسرائیلی جھوٹ کو بے نقاب کردیا ہے اس وڈیومیں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایمبولینس، فائر ٹرک اور امدادی کارکنوں کی یونیفارمز واضح طور پر نظر آرہی ہیں، جن پر فائرنگ کی گئی۔ واقعے کے واحد زندہ بچ جانے والے ریڈ کریسنٹ کے پیرا میڈک منظر عابد نے اس ظالمانہ فعل کی تصدیق کی کہ فائرنگ واضح نشان والی ایمرجنسی گاڑیوں پر ہوئی ہے۔

ریڈ کریسنٹ اور اقوام متحدہ نے اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ اقوام متحدہ نے دعویٰ کیا ہے کہ امدادی ٹیموں کو یکے بعد دیگرے کئی گھنٹوں کے دوران نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنے لاپتا ساتھیوں کو تلاش کر رہی تھیں۔ ایڈ ورکرز کی ہلاکت کے واقعات میں اسرائیلی فوج کی جانب سے ہونے والی بمباری، فائرنگ، اور دیگر فوجی کارروائیاں شامل ہیں۔ ایسے واقعات کی کئی مثالیں ہیں جہاں امدادی کارکنوں کو ہلاک کیا گیا یا انہیں حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ ہلاکتیں نہ صرف ان افراد کی زندگیوں کا نقصان ہیں بلکہ انسانی ہمدردی کی کوششوں کی مجموعی کامیابی کو بھی متاثر کرتی ہیں۔


2014 میں ہونے والی غزہ کی جنگ کے دوران، کئی امدادی کارکنوں کی ہلاکتیں رپورٹ کی گئیں۔ عالمی تنظیموں نے اس پر سخت تشویش کا اظہار کیا اور انسانی ہمدردی کے اصولوں کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔

مختلف اقوام متحدہ کی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسرائیلی فوج کے ساتھ مسلح جھڑپوں کے دوران بھی ایڈ ورکرز کو نشانہ بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے کئی افراد مارے گئے تھے۔

انسانی ہمدردی کے اصول کے تحت، ایڈ ورکرز کو جنگی حالات میں بھی محفوظ رہنا چاہیے اور انہیں باقی لوگوں کی طرح حفاظت فراہم کی جانی چاہیے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق انسانی ہمدردی کی تنظیمیں جنگ زدہ علاقوں میں فریق نہیں ہوتی ہیں اور انہیں محفوظ سمجھا جانا چاہیے۔ ایڈ ورکرز کے ہلاک ہونے کے واقعات پر بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں جیسے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیل پر شدید تنقید کی ہے۔ انہوں نے بھی ان ہلاکتوں کی تحقیقات اور متاثرین کےلیے انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا ہے۔ اسرائیل کے ہاتھوں ایڈ ورکرز کی ہلاکتیں ایک سنگین انسانی مسئلہ ہے جو نہ صرف ان افراد کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ صحت، تعلیم، اور دیگر انسانی ہمدردی کی سرگرمیوں کو بھی متاثر کرتی ہیں۔

عالمی برادری کو اس مسئلے کا سنجیدگی سے سامنا کرنا چاہیے اور انسانی ہمدردی کے کارکنوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک محفوظ اور شائستہ دنیا کے لیے ضروری ہے کہ امدادی کارکنان کی خدمات کو تسلیم کریں اور ان کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • اقوام متحدہ کی انسانی امداد کے ادارے کا پاکستان سمیت 60 سے زائد ممالک میں عملے میں 20فیصد کمی کا اعلان
  • اسرائیل غزہ میں صرف خواتین اور بچوں کو نشانہ بنا رہا ہے، اقوام متحدہ کی تصدیق
  • امریکی تجارتی ٹیرف سے بین الاقوامی تجارت 3 فیصد تک سکڑسکتی ہے: اقوام متحدہ
  • اسرائیل کیجانب سے غزہ میں بفر زون بنانیکی کوشش پر اقوام متحدہ کا انتباہ
  • اسرائیلی اقدامات فلسطینیوں کے وجود کے لیے خطرہ ہیں، اقوام متحدہ
  • غریب ممالک کو نئے امریکی محصولات سےمستثنیٰ ہونا چاہیے، اقوام متحدہ
  • امدادی کارکن کیوں مارے جاتے ہیں؟
  • دار فور میں نسل کشی کے پیچھے یو اے ای کا ہاتھ ہے، سوڈان
  • پاکستان کا عسکری مصنوعی ذہانت کے بڑھتے استعمال پر اظہار تشویش