Islam Times:
2025-04-13@00:22:20 GMT

عمان میں وٹکوف کا کڑا امتحان

اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT

عمان میں وٹکوف کا کڑا امتحان

اسلام ٹائمز: غزہ اور یوکرین کے بارے میں مذاکرات کے دروازے بند ہو جانے کے بعد عمان کے دارالحکومت مسقط میں ایران سے بالواسطہ جوہری مذاکرات اسٹیو وٹکوف کے لیے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے اور وائٹ ہاوس میں مخالفین کا منہ بند کرنے کے لیے سنہری موقع ہے۔ مشرقی یورپ اور بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر امن کی برقرار میں ناکامی نے وٹکوف کی سفارتی صلاحیتوں کے بارے میں بہت سے سوال اٹھا دیے ہیں اور واشنگٹن میں اس کے خلاف سازشوں کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔ ٹرمپ کے ذہن میں یہ تصور ہے کہ وٹکاف مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتا ہے لہذا اسی بنا پر انہیں مشرق وسطی کا خصوصی ایلچی مقرر کیا گیا ہے۔ البتہ یوکرین اور مشرق وسطی میں پائیدار امن کا دارومدار انصاف اور قومی حاکمیت جیسے مسائل پر ہے اور یہ ایسے مسائل ہیں جن سے وٹکوف دوری اختیار کرتے ہیں۔ تحریر: سید رضا حسینی
 
ڈونلڈ ٹرمپ حکومت کی خارجہ سیاست کے خدوخال اسی وقت واضح ہو گئے تھے جب انہوں نے حلف برداری کی تقریب میں تقریر کی تھی۔ رئیل اسٹیٹ کے تاجر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں کہا: "امریکہ مزید دوسری قوموں کے مالی اخراجات قبول نہیں کرے گا اور کسی کو بھی سفید چک نہیں دیں گے۔" امریکی صدر کے قریبی دوست، اسٹیو وٹکوف کو وزارت خارجہ کے عہدے پر فائز کیے جانے سے پہلے سفارتکاری کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود ان میں ٹرمپ کی نسبت دوسروں سے تعاون کرنے کا زیادہ جذبہ پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر انہیں سابق صدر جو بائیڈن کی کابینہ سے ٹرمپ کو حکومت کی منتقلی کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ ایسا بھی نہیں کہ وائٹ ہاوس میں ٹرمپ کے اس قریبی دوست کا کوئی حریف موجود نہ ہو بلکہ وزیر خارجہ مارکو روبیو اور قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز وٹکوف کے سفارتی طرز عمل کے مخالف ہیں۔
 
غزہ کی مبہم صورتحال
امریکی صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کا پہلا امتحان مغربی ایشیا میں اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے مقبوضہ فلسطین کا دورہ کیا اور صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے بات چیت کی۔ اس ملاقات کے بعد وٹکوف نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد کروانے کا وعدہ کیا تھا۔ اگرچہ اسٹیو وٹکوف نے غزہ سے فلسطینیوں کو جبری جلاوطن کرنے پر مبنی ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کی حمایت کر کے اپنی نیک نیتی مشکوک بنا لی لیکن اس سال کے آغاز سے انہوں نے اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے جنیوا میں جنگ بندی معاہدے کے حصول میں بہت مدد کی جس کے ذریعے کافی تعداد میں اسرائیلی یرغمالی آزاد ہوئے ہیں۔ صیہونی رژیم کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد مقبوضہ فلسطین میں وٹکوف کی کامیابیاں خطرے کا شکار ہو گئی ہیں۔
 
یوکرین میں جنگ کے شعلے
سعودی عرب کی میزبانی میں روس اور امریکہ کے درمیان یوکرین جنگ سے متعلق مذاکرات انجام پائے تھے۔ ان مذاکرات میں اسٹیو وٹکوف کے ہمراہ وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر بھی امریکی وفد میں موجود تھے۔ وٹکوف نے ان مذاکرات میں ہنری کیسنجر کی حکمت عملی دہرانے کی کوشش کی۔ یاد رہے ہنری کیسنجر نے 1970ء کے عشرے میں ویت نام کی دلدل سے نکلنے اور اقتصادی بحران پر قابو پانے کے لیے چین سے قربت پیدا کرنے کی حکمت عملی اختیار کی تاکہ اس طرح سابق سوویت یونین اور چین میں اختلافات ڈال کر مطلوبہ سیاسی اہداف حاصل کر سکے۔ آج وٹکوف اس کے برعکس حکمت عملی اختیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے یعنی روس سے دوستی بڑھا کر اسے چین سے دور کرنے کی کوشش میں مصروف ہے۔ وٹکوف نے روس کا دورہ کیا اور روسی صدر ولادیمیر پیوتن سے ملاقات کی۔ لیکن ریپبلکنز کی جنگ طلب پالیسیاں وٹکوف کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہیں۔
 
اندرونی دشمن
امریکی صدر کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف یوکرین اور غزہ میں سفارتکاری کے ساتھ ساتھ اندرونی دشمنوں سے بھی روبرو ہیں۔ ریپبلکن نیوکونز ایک طرف نجی محفلوں میں ایک سفارتکار کی حیثیت سے وٹکوف کی صلاحیتوں کو چیلنج کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف وٹکوف کے مطلوبہ تفکر ٹرمپ ازم (سازباز کو فوجی اقدام پر ترجیح حاصل ہونا) کے بھی شدید مخالف ہیں۔ اسٹیو وٹکاف جو ٹرمپ ازم کی جانب رجحان رکھتے ہیں کسی بھی فوجی اقدام سے پہلے سازباز اور معاہدہ انجام دینے کی بھرپور کوشش کے حامی ہیں۔ وہ براہ راست اور تیز سفارتکاری پر یقین رکھتے ہیں اور مذاکرات پر مبنی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جن کا تجربہ انہیں رئیل اسٹیٹ کے سودوں سے ہوا ہے۔ دوسری طرف مارکو روبیو اور مائیک والٹز روایتی ریپبلکنز کی سیاست کے حامی ہیں اور فوجی طاقت پر بہت زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔
 
عمان میں سنہری موقع
غزہ اور یوکرین کے بارے میں مذاکرات کے دروازے بند ہو جانے کے بعد عمان کے دارالحکومت مسقط میں ایران سے بالواسطہ جوہری مذاکرات اسٹیو وٹکوف کے لیے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے اور وائٹ ہاوس میں مخالفین کا منہ بند کرنے کے لیے سنہری موقع ہے۔ مشرقی یورپ اور بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر امن کی برقرار میں ناکامی نے وٹکوف کی سفارتی صلاحیتوں کے بارے میں بہت سے سوال اٹھا دیے ہیں اور واشنگٹن میں اس کے خلاف سازشوں کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔ ٹرمپ کے ذہن میں یہ تصور ہے کہ وٹکاف مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتا ہے لہذا اسی بنا پر انہیں مشرق وسطی کا خصوصی ایلچی مقرر کیا گیا ہے۔ البتہ یوکرین اور مشرق وسطی میں پائیدار امن کا دارومدار انصاف اور قومی حاکمیت جیسے مسائل پر ہے اور یہ ایسے مسائل ہیں جن سے وٹکوف دوری اختیار کرتے ہیں۔
 
کیا وٹکوف اچھی پولیس کا کردار ادا کر رہا ہے؟
اسٹیو وٹکوف نے معروف امریکی اینکر ٹاکر کارلسن سے بات چیت میں کہا کہ قطر چونکہ خطے میں استحکام برقرار رکھنے کی بہت زیادہ کوشش کرتا ہے لہذا امریکی ذرائع ابلاغ میں اسے ایران کا اتحادی قرار دیا جاتا ہے جبکہ اس ملک کا مقصد خطے میں استحکام ہے۔ وٹکوف نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ خلیجی ریاستیں باہمی اختلافات کے باوجود اسرائیل سے وسیع تعلقات رکھتی ہیں اور ان ممالک کے درمیان اقتصادی اور فنی تعاون کے نتیجے میں مشرق وسطی میں ایک بڑی منڈی تشکیل پا سکتی ہے جو حتی یورپ کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ وٹکوف نے علاقائی مسائل کے حل کے لیے سفارتکاری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایران بھی تیار ہو تو سفارتی طریقے سے مناسب راہ حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ وٹکوف کے یہ بیانات خطے میں امریکہ کے توسیع پسندانہ عزائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: خصوصی ایلچی کے بارے میں اور قومی کرتے ہیں انہوں نے ٹرمپ کے کی کوشش ہیں اور گیا ہے کے لیے کے بعد

پڑھیں:

ایران و امریکہ کے مابین مذاکرات کا طریقہ کار طے کر لیا گیا

اسنیچر کے روز عمان میں ہونیوالے بالواسطہ مذاکرات کا ماڈل اپنی مثال آپ ہے جو اس سے قبل بھی بعض جگہوں پر استعمال کیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ آئندہ صبح بالواسطہ مذاکرات کے لئے ایرانی و امریکی وفود "عمان" کے دارالحکومت "مسقط" پہنچ چکے ہیں۔ ایرانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی" کر رہے ہیں جب کہ امریکی وفد کی سربراہی ڈونلڈ ٹرامپ کے نمائندہ برائے مشرق وسطیٰ "اسٹیو ویٹکاف" کر رہے ہیں۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ان مذاکرات کو تہران کی فراخدلانہ پیشکش قرار دے چکے ہیں۔ دوسری جانب امریکی وفد، غیر مستقیم مذاکرات اور عمان کی رابطہ کاری کی ایرانی تجویز کو قبول کرنے کے بعد مسقط میں موجود ہے۔ یہ مذاکرات اگلے روز دوپہر کے وقت عمانی وزیر خارجہ "بدر البوسعیدی" کی وساطت سے شروع ہوں گے۔

جس میں دونوں فریق خط و کتابت اور ثالث کے ذریعے اپنی اپنی تجاویز ایک دوسرے کو منتقل کریں گے۔ ایران نے امریکہ کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کی شرط کو قبول کرتے ہوئے اسے وائٹ ہاوس کی نیت جاننے کا سفارتی موقع قرار دیا۔ قبل ازیں اسی ضمن میں سید عباس عراقچی نے کہا کہ امریکیوں کے ساتھ یہ مذاکراتی عمل ایک موقع بھی ہے اور ایک امتحان بھی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اسنیچر کے روز عمان میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات کا ماڈل اپنی مثال آپ ہے جو اس سے قبل بھی بعض جگہوں پر استعمال کیا گیا۔ جس کی تازہ ترین یوکرائن کے موضوع پر مذاکرات ہیں جہاں امریکہ نے اس طریقہ کار کو اپنایا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • قطر کی جانب سے ایران اور امریکہ کے درمیان غیر مستقیم مذاکرات کا خیرمقدم
  • وائٹ ہاؤس نے ایران، امریکا مذاکرات کو مثبت اور تعمیری قرار دیدیا
  • ایران اور امریکا کے درمیان عمان کی میزبانی میں بالواسطہ مذاکرات کا آغاز
  • عمان میں ایران امریکا بالواسطہ مذاکرات کا پہلا دور ختم؛ آئندہ کا لائحہ عمل طے پاگیا
  • تہران کا جوہری پروگرام: عمان میں امریکی ایرانی مذاکرات شروع
  • پیوٹن کی امریکا کے خصوصی مندوب سے ملاقات
  • ایران و امریکہ کے مابین مذاکرات کا طریقہ کار طے کر لیا گیا
  • تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے ترکیہ میں امریکہ و روس کے درمیان مذاکرات
  • ٹرمپ کی ٹیرف مذاکرات کرنے والے ممالک کی تضحیک، ناقدین کی نقل بھی اتار لی