چین نے امریکی مصنوعات پر مزید ٹیکس عائد کردیا؛ شرح 125 فیصد تک جا پہنچی
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
بیجنگ(نیوز ڈیسک)ڈونلڈ ٹرمپ کی بے لگام تجارتی جنگ کے جواب میں چین نے ایک بار پھر امریکی مصنوعات پر ٹیرف عائد کردیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق چین نے امریکا سے درآمد ہونے والی اشیا پر ٹیکس کی شرح کو 125 فیصد تک پہنچا دیا ہے۔
چین کے کسٹمز ٹیرف کمیشن نے تصدیق کی ہے کہ ٹیکس میں مزید اضافہ امریکا کی جانب سے چینی مصنوعات پر محصولات کو 145 فیصد تک بڑھانے کے جواب میں کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل چین نے امریکی مصنوعات پر 84 فیصد تک محصولات عائد کیے تھے۔
ٹیرف کمیشن کا کہنا ہے کہ امریکی مصنوعات نے چینی منڈی میں اپنی مسابقت کھو دی ہے اور خبردار کیا کہ اگر واشنگٹن کی جانب سے محصولات بڑھانے کا سلسلہ جاری رہا تو یہ “عالمی معاشی تاریخ کا ایک مذاق” بن جائے گا۔
دوسری جانب امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے چین کو عالمی تجارت میں سب سے بڑا قصوروار قرار دیا اور پیشگوئی کی کہ چین کا ردعمل خود اسی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔
ادھر چین کو اندرونی معاشی سست روی کا بھی سامنا ہے۔ گولڈمین سیکس نے جمعرات کو چین کی 2025 کی جی ڈی پی کی پیشگوئی کو کم کر کے 4 فیصد کر دیا ہے، جس کی وجہ عالمی طلب میں کمی اور تجارتی دباؤ کو قرار دیا گیا۔
بینک کا مزید کہنا ہے کہ امریکی برآمدات میں کمی کے باعث چین کے 2 کروڑ مزدور متاثر ہو سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ اس ہفتے کے آغاز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی ممالک پر عائد نئی بھاری ڈیوٹی عارضی طور پر کم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تاہم چین کے خلاف سخت موقف برقرار رکھتے ہوئے امریکی صدر نے چینی درآمدات پر ٹیرف 104 فیصد سے بڑھا کر 125 فیصد تک کرنے کا اعلان کیا تھا۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق، اگرچہ کچھ ممالک کے لیے عارضی چھوٹ دی گئی ہے، لیکن تمام امریکی درآمدات پر 10 فیصد کی عمومی ڈیوٹی بدستور نافذ رہے گی۔
.ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: امریکی مصنوعات مصنوعات پر فیصد تک چین نے
پڑھیں:
امریکی ٹیرف پالیسی نے عالمی معاشی نظام میں شدید افراتفری پیدا کردی ہے ، چینی میڈیا
امریکی ٹیرف پالیسی نے عالمی معاشی نظام میں شدید افراتفری پیدا کردی ہے ، چینی میڈیا WhatsAppFacebookTwitter 0 10 April, 2025 سب نیوز
بیجنگ : چین کی وزارت خارجہ نے ایک مختصر ویڈیو جاری کی جس میں ایک فکر انگیز سوال اٹھایا گیا تھا۔سوال یہ تھا کہ کیا آپ “تشدد، بالادستی، جبر، اشتعال انگیزی اور محصولات کی دنیا میں رہنا چاہتے ہیں، یا ایک ایسی دنیا میں رہنا چاہتے ہیں جہاں کوئی جنگ نہ ہو، تمام حجم کے ممالک برابر ہوں اور ہم آہنگی کے ساتھ رہیں؟
” یہ مسئلہ ایک آئینے کی طرح موجودہ عالمی صورتحال کی بے چینی اور پیجیدگی کی عکاسی کرتا ہے، خاص طور پر حالیہ امریکی ٹیرف پالیسی کی وجہ سے شروع ہونے والے سلسلہ وار مسائل لوگوں کی توجہ کا مرکز ہیں جنہوں نے عالمی معاشی نظام میں شدید افراتفری پیدا کردی ہے ۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب امریکہ نے “ٹیرف کا بحران” پیدا کیا ہے۔ 1930 میں ، امریکہ نے سموٹ ہولی ٹیرف ایکٹ نافذ کیا اور 20،000 سے زیادہ درآمدی اشیاء پر محصولات میں نمایاں اضافہ کیا ، جس سے عالمی تجارت 66 فیصد تک سکڑ گئی تھی اور امریکہ بھی گریٹ ڈپریشن کےدور میں چلا گیا تھا ۔
تاریخ خود کو حیرت انگیز طور پر دہراتی ہے۔ امریکی حکومت کی طرف سے محصولات کا حالیہ سلسلہ عالمی معاشی نظام میں ایک بہت بڑا بحران پیدا کر رہا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ کو اس سے فائد ہ ہوا ہے ؟اس کا جواب ہے ،نہیں ۔
امریکہ پوری دنیا پر پابندیاں عائد کرکے دوسرے ممالک کو گٹھنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن یہ واضح ہے کہ غنڈہ گردی کے آگے جھکنے سے غنڈہ گردی کی راہ ہموار ہو گی اور سلسلہ رکے گا نہیں ۔ امریکہ کی نظر میں اس کے “حریف” چین سے لے کر اس کے”اتحادی” یورپی یونین اور پھر “اچھا پڑوسی ” کینیڈا تک نے یکے بعد دیگرے امریکہ کے خلاف جوابی اقدامات اٹھائے ہیں جس پر دنیا کو حیرت نہیں ۔ اقوام متحدہ سے لے کر ڈبلیو ٹی او تک اور پھر بڑے اور چھوٹے تمام ممالک میں امریکہ پر تنقید دیکھی اور سنی جا رہی ہے ۔
امریکی عوام ایک طرف تو اشیائے ضروریہ کا ذخیرہ کر رہے ہیں، تو دوسری جانب ٹرمپ انتظامیہ پر امریکہ کی ساکھ خراب کرنے کے الزامات لگا رہے ہیں۔ جبکہ اسٹاک مارکیٹ کی گراوٹ اور بڑھتی ہوئی لاگت سے پریشان امریکی کمپنیاں ٹرمپ حکومت کے خلاف قانونی چارہ جوئی پر غور کر رہی ہیں
” امریکہ کے بھاری محصولات پوری دنیا کے خلاف اقتصادی جوہری جنگ لڑنے کے مترادف ہیں”۔امریکی ارب پتی اور نامور ہیج فنڈ مینیجر بل ایکمین ، جو خود ٹرمپ کے حامی بھی ہیں، نے یہ بات کہی۔ ان کے الفاظ میں، “ایک معاشی جوہری جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہوتا۔ دشمن کو نقصان پہنچانے کے چکر میں اپنا ہی زیادہ نقصان ہو جاتا ہے، خاص طور پر جب یہ دشمن محض ایک ‘تصوراتی’ دشمن ہو۔”
اب اس “جوہری جنگ” کے “نظریاتی آغاز”کی جانب جائیں تو ٹیرف جنگ کی ابتدا اصل میں ٹرمپ کے تجارتی اور اقتصادی مشیر پیٹر نوارو کی کتاب میں رون وارا نامی ایک نام نہاد “ماہر اقتصادیت” سے آئی تھی۔تاہم، امریکی میڈیا نے انکشاف کیا کہ رون وار نامی کوئی شخص نہیں تھا اور اس بات کا قوی امکان تھا کہ نوارو نے ایک خیالی کردار”تخلیق”کیا تھا جو اس کے اپنے ہی نام کے حروف کی ترتیب کی تبدیلی سے بنتا ہے ۔
دشمن خیالی ہے، نظریہ فرضی ہے تو نتیجہ میں بھی ایک ہوائی قعلہ کی طرح ناکامی لازمی ہے. ٹرمپ محصولات پالیسی کا ایک اہم مقصد مینوفیکچرنگ کو امریکہ میں واپس لانا ہے۔ لیکن حقیقت کیا ہے؟ ایپل کے موبائل فون کے معاملے میں امریکہ کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکہ میں آئی فون تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ سچ ہے، تاہم ویڈ بش سیکیورٹیز کے ایک سینیئر تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ اگر ایپل موجودہ سپلائی چین سسٹم سے الگ ہو کر امریکہ میں آئی فونز تیار کرتی ہے تو اس کی قیمت تین گنا زیادہ ہو جائے گی۔مینوفیکچرنگ کی واپسی مشکل ہے، اور امریکی عوام کو بڑھتی مہنگائی اور سکڑتی آمدنی سمیت شدید دباؤ کا سامنا ہے.
مزیدسنگین مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ ایک تجارتی شراکت دار، کاروباری مقام اور سرمایہ کاری کی مارکیٹ کے طور پر اپنی ساکھ اور اعتماد کو تباہ کر رہا ہے. یہ امریکہ کو “دوبارہ عظیم” بنانے کے بجائے امریکہ کو “غیر معقول” بنا رہا ہے!
اس بحران نے دنیا کو متنبہ کیا ہے کہ عالمی حکمرانی کو فوری طور پر “جنگل کے قانون” سے ” قواعد پر مبنی تہذیب” کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشٹو اور آر سی ای پی بنیادی ڈھانچے کے روابط سے تجارتی رکاوٹوں کو توڑ رہے ہیں۔ آسیان کی ڈیجیٹل معیشت میں تعاون اور افریقی کانٹیننٹل فری ٹریڈ ایریا جیسی نئی قوتیں بھی کثیر جہتی اقتصادی نقشے کو نئی شکل دے رہی ہیں۔ ایسی صورت میں یکطرفہ پسندی اور “زیرو سم گیم” کو ترک کرنا،اور کیک کو اکیلے خود کھانے کی بجائے اس میں سب کے حصے کے تصور کو اپنانا ہی مخمصے کو ختم کرسکتا ہے۔
سو مضمون کے آغاز میں جو سوال کیا گیا تھا اس کا جواب خود بخود واضح ہے۔ کھلا پن، تعاون، مساوات اور باہمی تعاون ہی تمام ممالک کے لیے موزوں مستقبل ہیں کیوں کہ غندہ گردی کی دنیا ،غنڈہ گردی کرنے والوں کے علاوہ کوئی نہیں چاہتا۔