چینی صدر کا ویت نام، ملائیشیا اور کمبوڈیا کا سرکاری دورہ خطے اور دنیا کے امن و ترقی کو نئی طاقت بخشےگا، وزارت خارجہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
چینی صدر کا ویت نام، ملائیشیا اور کمبوڈیا کا سرکاری دورہ خطے اور دنیا کے امن و ترقی کو نئی طاقت بخشےگا، وزارت خارجہ
بیجنگ : چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بتایا ہے کہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے جنرل سیکریٹری اور چین کے صدر مملکت شی جن پھنگ، ویت نام کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری تولام اور ویت نام کے صدرلوونگ کوونگ کی دعوت پر، 14 سے 15 اپریل تک ویت نام کا سرکاری دورہ کریں گے۔ اسی طرح، ملائیشیا کے بادشاہ سلطان ابراہیم سلطان اسکندر اور کمبوڈیا کے بادشاہ نوردوم سیہامونی کی دعوت پر، چینی صدر شی جن پھنگ 15 سے 18 اپریل تک ملائیشیا اور کمبوڈیا کا سرکاری دورہ کریں گے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان لین جیئن نے رسمی پریس کانفرنس میں کہا کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات چین کی سفارتکاری کی ترجیحات ہیں ۔ چین اور جنوب مشرقی ایشیا مشترکہ تقدیر کے ساتھ اچھے ہمسایہ، اچھے دوست اور اچھے شراکت دار ہیں۔ یہ دورہ صدر شی جن پھنگ کا رواں سال کا پہلا غیر ملکی دورہ ہے جو ویتنام، ملائیشیا، کمبوڈیا اور آسیان کے ساتھ چین کے تعلقات کی مجموعی ترقی کو فروغ دینے کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور علاقائی وعالمی امن و ترقی کو نئی طاقت بخشےگا۔ترجمان کے مطابق،یہ دورہ چین اور ویتنام کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر ہو رہا ہے اور چین ویتنام کے مابین “ساتھیوں اور بھائیوں” کی روایتی دوستی اور چین ویتنام ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کو فروغ دینے کے لئے ویتنام کے ساتھ کام کرنے کا منتظر ہے۔ملائشیا کا دورہ صدر شی جن پھنگ کا 12 سال بعد دوسرا دورہ ہوگا ،جو چین ملائیشیا تعلقات میں ایک اہم سنگ میل ہے۔اور کمبوڈیا کا دورہ صدر شی جن پھنگ کا نو سال بعد دوسرا دورہ ہے جس کے دوران فریقین چین اور کمبوڈیا کے تعلقات کی نئی راہوں پر بات چیت کریں گے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: اور کمبوڈیا کا کا سرکاری دورہ صدر شی جن پھنگ کے ساتھ ترقی کو ویت نام نام کے
پڑھیں:
کانگریس کی قرارداد: مودی حکومت کی خارجہ پالیسی ناکام، ٹرمپ سے تعلقات پر کڑی تنقید
نئی دہلی: آل انڈیا کانگریس کمیٹی (AICC) کے دو روزہ اجلاس کے اختتام پر ایک سخت قرارداد منظور کی گئی جس میں مودی حکومت کی خارجہ پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ مودی حکومت نے شخصی تشہیر اور ذاتی مفادات کو قومی پالیسی پر ترجیح دی، جس کے نتیجے میں بھارت کو عالمی سطح پر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ خاص طور پر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ کی واشنگٹن ملاقات پر اعتراض کیا گیا، جس میں ٹرمپ نے بھارت کو "ٹیرف ابیوزر" کہہ کر توہین آمیز الفاظ استعمال کیے۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بھارت اور امریکہ کے تعلقات اہم ہیں، مگر ان تعلقات کو قومی مفادات کی قربانی کے ساتھ قائم نہیں کیا جانا چاہیے۔ حالیہ مہینوں میں امریکہ نے بھارتی برآمدات پر 26 فیصد اضافی ٹیرف عائد کیا ہے، اور اس کے جواب میں اگر بھارت نے درآمدی ٹیکس کم کیے تو اس کا نقصان کسانوں اور مقامی صنعتوں کو ہوگا۔
بھارتی تارکین وطن کے ساتھ امریکہ میں ناروا سلوک پر بھی قرارداد میں تشویش کا اظہار کیا گیا، جنہیں زنجیروں اور ہتھکڑیوں میں جلاوطن کیا جا رہا ہے۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے امریکی حکومت کی حمایت میں دیے گئے بیانات کو توہین آمیز قرار دیا گیا۔
قرارداد میں مزید کہا گیا کہ مودی حکومت چین کو "لال آنکھ" دکھانے کا دعویٰ تو کرتی ہے، لیکن براہم پترا دریا پر ڈیم اور لداخ میں 2000 کلومیٹر زمین پر قبضے جیسے اہم معاملات پر مکمل ناکام رہی ہے۔
بنگلہ دیش میں شدت پسندوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور فلسطین اسرائیل تنازعے پر مودی سرکار کی خاموشی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔