ملالہ یوسفزئی کا افغان لڑکیوں کی ملک بدری روکنے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 اپریل2025ء)نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے ادارے ملالہ فنڈ نے حکومت پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ افغان لڑکیوں اور خواتین کو ملک بدر کرنا بند کرے۔فوٹو اینڈ ویڈیو شیئرنگ ایپ انسٹاگرام پر اپنے بیان میں ملالہ فنڈ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ افغان مہاجرین اور طویل عرصے سے پاکستان میں رہائش پذیر افغان شہریوں کی ملک بدری کو فوری طور پر روکے۔
(جاری ہے)
اپنے بیان میں تنظیم نے کہا کہ حکومت افغان لڑکیوں اور خواتین کو بھی ملک بدر کررہی ہے جنہیں افغانستان میں طالبان کے ظلم و ستم کا سامنا ہے۔تنظیم نے کہا کہ افغان شہریوں کو ملک بدر کرنا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس سے معصوم شہریوں کی جانوں کو بھی خطرات لاحق ہوں گے۔ملالہ فنڈ نے بین الاقوامی برادری، مختلف حکومتوں، فائونڈیشنز، سول سوسائٹی اور دیگر عالمی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ بے گھر ہونے والے افغان شہریوں کی مدد کریں۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
امریکی ویزوں کی منسوخی ،طلباء کی ملک بدری کا سلسلہ جاری، امریکی یونیورسٹیاں سنسان
نیویارک (اوصاف نیوز) ٹرمپ انتظامیہ کا امریکی ویزوں کی منسوخی کا سلسلہ جاری رکھنے کا اعلان، حراست اور ملک بدری کی بڑھتی ہوئی لہر نے امریکی کیمپسز میں صدمے کی لہر پیدا کردی ، امریکی یونیورسٹیاں خالی ہونے لگیں جس کے باعث غیر ملکی، بالخصوص فلسطین نواز سرگرمیوں سے وابستہ طالب علموں کو بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق وہ دن جب غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائیوں نے امریکا بھر کے کیمپسز میں مظاہروں کو جنم دیا تھا، اب ماضی کی بات بن چکے ہیں، آج یونیورسٹیوں کو ایک نئی حقیقت کا سامنا ہے، جہاں معمولی خلاف ورزیاں بھی طالب علموں کے ویزوں کی منسوخی کا سبب بن سکتی ہیں۔
وزیر خارجہ مارکو روبیو نے گزشتہ ماہ کے اواخر میں کہا تھا کہ انہوں نے تقریباً 300 افراد کے ویزے منسوخ کر دیے ہیں اور وہ روزانہ کی بنیاد پر ایسا کر رہے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے ایک حالیہ بریفنگ میں جارحانہ کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ محکمہ خارجہ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے اور اپنی کمیونٹی کو محفوظ رکھنے کے لیے ہر روز ویزے منسوخ کرتا ہے اور ہم ایسا کرنا جاری رکھیں گے۔
جب محکمہ خارجہ کے ترجمان سے امریکا میں پناہ لینے والے کمزور افراد جیسے خانہ جنگی سے متاثرہ جنوبی سوڈان کے شہریوں کے ویزے منسوخ کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے مزید دوٹوک انداز میں کہا کہ ہر ملک کو اپنے شہریوں کی بروقت واپسی کو قبول کرنا چاہیے جب امریکا سمیت کوئی دوسرا ملک انہیں نکالنے کی کوشش کرے۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی سوڈان کی عبوری حکومت اس اصول کا مکمل احترام کرنے میں ناکام رہی ہے اور کسی ایسے شخص کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی جس کی انہوں نے تصدیق کی تھی اور اسے دستاویزی طور پر شہری قرار دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ان کا محکمہ جنوبی سوڈان کے شہریوں کو امریکا میں داخلے سے روکنے کے لیے ویزوں کے مزید اجرا کو محدود کرے گا، انہوں نے کہاکہ ’جنوبی سوڈان نے مکمل تعاون کیا تو ہم ان اقدامات کا جائزہ لیں گے‘۔
بدھ کے روز امیگریشن حکام نے اعلان کیا تھا کہ وہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا جائزہ لیں گے اور ایسے افراد کو ویزا یا رہائشی اجازت نامے دینے سے انکار کریں گے جنہیں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ یہود مخالف مواد پوسٹ کرنے کا مرتکب تصور کرے گی۔
یہ اقدام طالب علموں کے ویزوں کی منسوخی کے بعد اٹھایا گیا ہے، حالانکہ امریکی آئین کی پہلی ترمیم آزادی اظہار کی ضمانت دیتی ہے۔مارکو روبیو نے کہا تھا کہ غیر امریکی شہریوں کو امریکیوں کے برابر حقوق حاصل نہیں ہیں اور ویزا جاری کرنا یا انکار کرنا ججوں کی صوابدید پر نہیں بلکہ ان کی صوابدید پر ہے۔
ہوم لینڈ سکیورٹی کی وزیر کرسٹی نوئم نے واضح کیا ہے کہ جو کوئی بھی یہ سوچتا ہے کہ وہ امریکا آ سکتا ہے اور ’یہودی مخالف تشدد اور دہشت گردی‘ کی وکالت کرنے کے لیے پہلی ترمیم کے پیچھے چھپ سکتا ہے، وہ ایک بار پھر سوچے، محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹریشیا میک لاگلن نے کہا کہ آپ کا یہاں خیرمقدم نہیں کیا جائے گا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز سوشل میڈیا پر ایسے مواد پر غور کرے گی جس میں کسی اجنبی کی جانب سے یہود مخالف دہشت گردی، یہود مخالف دہشت گرد تنظیموں یا دیگر یہود مخالف سرگرمیوں کی حمایت، تشہیر، فروغ یا حمایت کی نشاندہی کی گئی ہو۔
یہ پالیسی فوری طور پر نافذ العمل ہوگی اور اس کا اطلاق اسٹوڈنٹ ویزا اور امریکا میں مستقل رہائش ’گرین کارڈ‘ کی درخواستوں پر ہوگا۔
طلبہ اور جامعات پریشان
منگل کو ٹیمی بروس این بی سی نیوز کی صحافی اینڈریا مچل کے سوالوں کا جواب دے رہی تھیں، جنہوں نے طالب علموں کے ویزوں کی بڑے پیمانے پر منسوخی کے بارے میں وضاحت طلب کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ’کچھ معاملات میں، طالب علموں نے کہا ہے کہ ان کے ویزے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے منسوخ کیے گئے تھے، نہ کہ احتجاج یا غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے، اینڈریا مچل نے سوال کیا کہ کیا اسٹوڈنٹ ویزا منسوخ کرنے کا کوئی واضح طریقہ کار یا حد ہے؟
ٹیمی بروس نے اس کے جواب میں محکمے کے اقدامات کا اعتراف کیا، لیکن تفصیلات فراہم نہ کرنے پر قائم رہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے کبھی بھی ویزا کے عمل کی تفصیلات کا جائزہ نہیں لیا، ہم پرائیویسی کے مسائل کی وجہ سے انفرادی ویزا پر بات نہیں کرتے، ہم اعداد و شمار جاری نہیں کرتے ہیں، اور ہم انفرادی ویزوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے اس کی پس پردہ منطق میں نہیں جاتے‘۔
لیکن محکمہ خارجہ کی جانب سے ان فیصلوں کی کوئی واضح دلیل فراہم کرنے یا اعداد و شمار ظاہر کرنے سے انکار نے بین الاقوامی طالب علموں میں تشویش میں اضافہ کیا ہے۔
جامعات ویزے کی منسوخی کی بڑی تعداد سے پریشان ہیں، حالیہ ہفتوں میں ہارورڈ، یونیورسٹی آف مشی گن، اسٹینفورڈ، یو سی ایل اے اور اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی جیسے بڑے اداروں کے غیر ملکی طالب علم متاثر ہوئے ہیں۔
ہارورڈ یونیورسٹی میں ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ (ڈی ایچ ایس) نے 3 گریجویٹ طالب علموں اور 2 حالیہ گریجویٹس کے ویزے منسوخ کر دیے ہیں۔بہت سے اسکولوں ، بشمول کیلیفورنیا میں یو سی برکلے اور یو سی ڈیوس ، کو اس حقیقت کے بعد ہی ان منسوخیوں کے بارے میں پتہ چلا۔
امریکا سے باہر نہ جائیں
صورتحال اس حد تک خراب ہوگئی ہے کہ براؤن، کارنیل اور کولمبیا سمیت متعدد یونیورسٹیوں نے داخلی سفری ہدایت جاری کی ہے جس میں بین الاقوامی طالب علموں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ بیرون ملک سفر کے کسی بھی منصوبے پر نظر ثانی کریں۔
اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر سیزر کوہٹیموک گارسیا ہرنینڈز کا کہنا ہے کہ ’جو کوئی بھی امریکی شہری نہیں ہے اسے امریکا چھوڑنے کی ضرورت کے بارے میں انتہائی سنجیدگی سے سوچنا چاہیے‘۔اگرچہ فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے مظاہروں کے سلسلے میں حکومت کا کریک ڈاؤن سب سے زیادہ قابل ذکر رہا ہے، لیکن ویزا منسوخی کا دائرہ وسیع ہے۔
بہت سے بین الاقوامی طالب علم اب غیر یقینی کی حالت میں رہ رہے ہیں، انہیں یقین نہیں ہے کہ آیا ان کا ویزا اسٹیٹس بغیر کسی انتباہ کے منسوخ کر دیا جائے گا یا نہیں، کچھ لوگوں کے لیے، ایک ہی احتجاج یا یہاں تک کہ سوشل میڈیا پوسٹ ملک بدری یا حراست کا سبب بن سکتی ہے۔
اس نئی حقیقت نے کیمپسز میں ایک خوفناک ماحول پیدا کر دیا ہے ، جہاں طلبہ کو احتجاج یا سیاسی سرگرمیوں سے دور رہنے کا مشورہ دیا جاتا ہے ، خاص طور پر ایسی سرگرمیاں جو فلسطین سے متعلق ہیں۔