قم، یوم انہدام جنت البقیع کی مناسبت سے تقریب، تعمیر نوء کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
مقررین نے کہا کہ بقیع زمین کا صرف ایک ٹکڑا نہیں بلکہ انصاف و انسانیت کا نمونہ اور تاریخ کا محافظ ہے، بقیع کی فریاد کسی بھی قبیلے یا گروہ سے ہٹ کر ایک کاملاً ایمانی، انسانی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ چونکہ ہم ان قبور کی حرمت کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جو مظلومیت کی صدا ہیں، جو تخریب اور ٹوٹ جانے کے باوجود بیدار دلوں کے ساتھ گفتگو کرتی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ قم المقدسہ میں واقع مدرسہ امام خمینیؒ کے شہید عارف حسینی ہال میں یوم انہدام جنت البقیع کے موقع پر تحریر پوسٹ، انجمن آل یاسین، مرکز افکار اسلامی جیسی انجمنوں کے زیراہتمام ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں مختلف مقررین نے آل سعود کے مظالم کیخلاف اپنی آواز بلند کی اور جنت البقیع کی تعمیر کا مطالبہ کیا، ساتھ ہی گذشتہ 102 سال کے نشیب و فراز کا تذکرہ کیا، شعرائے کرام ندیم سرسوی اور علی مہدی نے بقیع اور حضرت فاطمہ زہرا (س) کے حوالے سے اشعار پیش کئے۔ نظامت کے فرائض حجۃ الاسلام والمسلمین سید مظفر مدنی نے انجام دیئے۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز عاشق حسین میر نے تلاوت قرآن کریم سے کیا۔ اس کے بعد جنت البقیع کے سلسلے میں رہبر معظم انقلاب اسلامی اور آیت اللہ العظمی شیخ صافی گلپائیگانی قدس سرہ کے بیانات پر مبنی کلپ چلائے گئے۔
کانفرنس کے پہلے خطیب "تحریک تعمیر بقیع" کے سرپرست حجۃ الاسلام والمسلمین سید محبوب مہدی عابدی تھے۔ جنہوں نے امریکہ سے اپنے ویڈیو خطاب کے ذریعے شرکاء کانفرنس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ بقیع ایک صدی سے ہم پر وہ قرض ہے، جو بدقسمتی سے بھلایا جا چکا ہے، یا جسے دشمنان اہلبیت (ع) کے تئیں خاکِ مدینہ میں دبایا جا چکا ہے۔ اسی کیساتھ دوسرا ظلم یہ ہے کہ اس دن کو اس طرح نہیں منایا جاتا، جس طرح اس کا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ بقیع زمین کا صرف ایک ٹکڑا نہیں بلکہ انصاف و انسانیت کا نمونہ اور تاریخ کا محافظ ہے، بقیع کی فریاد کسی بھی قبیلے یا گروہ سے ہٹ کر ایک کاملاً ایمانی، انسانی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ چونکہ ہم ان قبور کی حرمت کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جو مظلومیت کی صدا ہیں، جو تخریب اور ٹوٹ جانے کے باوجود بیدار دلوں کے ساتھ گفتگو کرتی ہیں اور ان کے ضمیروں کو جھنجھوڑ رہی ہیں، چونکہ اہلبیت عصمت و طہارت (ع) کی قبور مطہرہ اور ان کے حرموں کیساتھ یہ ظلم ہمارے زمانے میں واقع ہوا ہے، لہذا ہم سب اس کے مقابلے میں مسئول ہیں اور کل ہمیں خدا کی بارگاہ میں جوابدہ ہونا ہے۔
حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر حسین عبدالمحمدی مدیر مدرسہ عالی تاریخ نے اپنے خطاب میں کہا کہ دشمن یہ چاہتا ہے کہ وہ مسئلہ انہدام جنت البقیع کو لوگوں کے ذہنوں سے مٹا دے، لہذا مومنین کیلئے ضروری ہے کہ جنت البقیع کے سلسلے میں مجلس، احتجاج، کانفرنس اور مختلف تحریکیں چلائیں اور اہلبیت علیہم السّلام کی مظلومیت کو دنیا کو بتائیں اور آئمہ بقیع کے کارناموں کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور ان ذوات مقدسہ کا تعارف کرائیں، اس طرح کی کانفرنس منعقد ہونا ضروری ہے، تاکہ بقیع کا پیغام پہنچ سکے۔ انہوں نے کہا کہ ابن تیمیہ سے پہلے تمام اہلسنت علماء ائمہ معصومین علیہم السلام کا خاص احترام کیا کرتے اور حتی انہوں نے بہت زیادہ کتب اس سلسلہ میں لکھی ہیں۔ ابن تیمیہ اور پھر اس کے بعد عبدالوہاب نے مسلمانوں میں فساد پھیلایا اور توہین معصومین علیہم السلام کا نیا مذہب ایجاد کیا جسے پھر آل سعود نے مزید بڑھاوا دیا۔
حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر سید حنان رضوی صدر مجمع علماء و خطباء حیدرآباد دکن ہندوستان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیشہ سے ظلم نے حق کا لبادہ اوڑھ کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ آج غزہ کو دیکھیں یا یمن و لبنان کو اور اسی طرح بقیع پر بھی مسلمانوں کو شرک سے بچانے جیسے ڈھکوسلوں کا سہارا لیا گیا اور اسلام کی شکل ہی تبدیل کرکے رکھ دی گئی۔ حجۃ الاسلام و المسلمین محسن داد سرشت تہرانی، نمائندے جامعۃ المصطفیٰ پاکستان نے اپنے خطاب کے دوران کہا کہ قرآن کریم میں آیت قرآن کریم "مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ" جیسی آیات میں جو "معیت" کا تذکرہ ہے، وہ وہ ان صرف ان مومنین کیلئے استعمال کی گئی ہیں، جو ہر حال میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ موجود رہے، چاہے سختیاں ہوں یا آسانیاں۔ لہذا ان کا خاص احترام ہے، اب بعض نافہم اور نام نہاد مسلمان اس احترام کو خراب کریں اور دنیا کے سامنے اسلام کا غلط نظریہ لائیں تو یقیناً یہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قبول نہیں ہے۔ یہ لوگ یعنی اس وقت آل سعود اسلام کے دشمن ہیں، نہ صرف اسلام بلکہ مسلمان اور اسلامی آثار کے بھی دشمن ہیں، کیوں کہ قبلہ اول کی حفاظت کے بجائے یہودیوں کو مدد کر رہے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حجۃ الاسلام جنت البقیع کہ بقیع بقیع کی بقیع کے کہا کہ اور اس
پڑھیں:
پاکستان کا عالمی برادری سے جائز مطالبہ!
آج کا پاکستان جن سنگین اور گمبھیر مسائل میں گرفتار ان میں دہشت گردی کا مسئلہ سرفہرست ہے۔ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ ملک میں پائیدار بنیادوں پر امن و امان قائم کیے بغیر قومی معیشت کی بحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا اور نہ ہی سیاسی استحکام آ سکتا ہے۔ ملک کے دو اہم صوبے بلوچستان اور خیبرپختونخوا ان دنوں بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں۔
پاکستان گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کا سامنا کر رہا ہے۔ دہشت گرد گروپوں نے بلوچستان اور کے پی کے ،کے مختلف علاقوں میں اپنے خفیہ ٹھکانے قائم کیے جہاں سے وہ وقفے وقفے سے مذکورہ صوبوں میں اپنی مذموم کارروائیاں کرتے چلے آ رہے ہیں۔ گزشتہ دو تین سالوں کے دوران دہشت گردوں نے اپنی کارروائیوں میں خاصی تیزی پیدا کر رکھی ہے۔ پاک فوج کے بہادر جوان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے ہیں۔
آپریشن ضرب عضب سے لے کر رد الفساد تک متعدد آپریشن میں سیکڑوں دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا جا چکا ہے۔ آرمی پبلک اسکول کے پی کے سے لے کر جعفر ایکسپریس بلوچستان پر حملے تک دہشت گردوں کے ہر منصوبے کو پاک فوج نے ناکام بنایا۔ فتنہ الخوارج کے خلاف انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
اگلے دنوں کورکمانڈر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ایک مرتبہ پھر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ بلوچستان میں کسی کو امن میں خلل نہیں ڈالنے دیں گے، ہر قیمت پر بلا تفریق دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے گا اور ملک دشمن عناصر اور ان کے سہولت کاروں کو کوئی معافی نہیں ملے گی۔ انھوں نے واضح کیا کہ نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ میں تمام ادارے اپنے تعاون کو یقینی بنائیں۔
پشاور میں16دسمبر 2014 کو آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا جس کے بعد ملک گیر سطح پر دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا گیا جس کے نتیجے میں ملک میں قدرے امن قائم ہوگیا تھا۔ تاہم گزشتہ دو تین برس کے دوران دہشت گردی نے دوبارہ سر اٹھا لیا ہے۔
گلوبل ٹیررازم انڈیکس کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے 163 ملکوں میں دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان دوسرے نمبر پر آگیا ہے جو بلاشبہ لمحہ فکریہ ہے۔ مسلسل کارروائیوں اور مختلف آپریشن کے باوجود ملک کے دو اہم صوبوں کے پی کے اور بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دہشت گرد عناصر عام آدمی سے لے کر سرکاری تنصیبات تک کو نشانہ بنا رہے ہیں جس کے باعث ملک کے عوام میں بے چینی اور اضطراب کا پایا جانا ناقابل فہم نہیں ہے۔
کور کمانڈرز کانفرنس میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے حوالے سے بڑی سنجیدگی سے غور و فکر کیا گیا ہے اور اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ تمام ریاستی ادارے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے قانون پر پوری یکسوئی اور ثابت قدمی سے عمل درآمد کریں گے۔فورم نے ملک خصوصاَ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں سرگرم ملک دشمن قوتوں، منفی اور تخریبی عناصر اور ان کے پاکستان مخالف اندرونی اور بیرونی سہولت کاروں کی سر گرمیوں اور اس کے تدارک کے لیے کیے جانے والے متعدد اقدامات پر بھی غور کیا۔’پاک فوج عوام کی غیر متزلزل حمایت سے انسداد دہشت گردی کے لیے قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دے گی۔
فوج ایک منظم ادارہ ہے جسکے ہر فرد کی پیشہ ورانہ مہارت اور وفاداری صرف ریاست اور افواج پاکستان کے ساتھ ہے۔‘ آرمی چیف نے واضح کیا کہ نیشنل ایکشن پلان پر حکومتی ہدایات کے مطابق تمام متعلقہ ادارے باہمی تعاون کو یقینی بنائیں۔دہشت گردی کے حوالے سے ملک کو جن چیلنجز اور مسائل و مشکلات کا سامنا ہے اس مکمل تدارک کے لیے ضروری ہے کہ تمام اسباب و عوامل کا بغور جائزہ لیا جائے۔ صوبے کے عوام کے دیرینہ مسائل اور ان کی محرومیوں کا ازالہ کر کے انھیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے سیاسی مشاورت کا عمل بھی شروع کیا جائے۔
صدر مملکت آصف زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان میں ریاست کے خلاف منفی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے وہاں سیاسی مشاورت کا عمل شروع کیا جانا چاہیے۔ بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے وہاں کی مقامی سیاسی قیادت کے ساتھ مل کر ناراض بلوچوں کے مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ بلوچستان میں بیرونی مداخلت کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ کلبھوشن یادیوکی صورت میں بھارت کی دراندازی اور افغانستان سے فتنہ الخوارج کے شرپسندوں کی کڑیاں ملنا نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
پاکستان نے حکومتی سطح پر باقاعدہ افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکے لیکن اب تک اس مطالبے کے کوئی خاطرخواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔ پاکستان نے اب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے پاس اربوں ڈالر مالیت کا امریکا کا چھوڑا ہوا، اسلحہ موجود ہے جسے وہ پاک آرمی کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔
لہٰذا ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ عالمی برادری کو پاکستان کے مطالبے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ پاکستان خطے کا اہم ملک ہے یہاں امن کا قیام خطے میں امن کے مترادف ہے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی خطے کے امن کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یہاں قیام امن کے لیے امریکا و اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔