معدنی وسائل کا ملکی معیشت میں اہم کردار
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: اگر پاکستان نے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ معدنی دولت ترقی کے لیے ایک نعمت کے طور پر کام کرے تو اسے اپنے ادارہ جاتی اور قانونی فریم ورک کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ وسائل کی دولت کے انتظام کے لیے جامع حفاظتی اقدامات کیے جاسکیں۔ ملک کو مستقبل کے معدنی محصولات کے خلاف مستقل طور پر قرض لینے سے بچنے اور اپنے غیر مستحکم قرضوں کے بوجھ میں کمی کو ترجیح دینے کے لیے طریقہ کار پر عمل درآمد کرنا چاہیئے۔ خصوصی تحریر
پاکستان میں کھربوں ڈالر کے معدنی ذخائر ہیں، پاکستان معدنی وسائل کے استعمال سے آئی ایم ایف کو خیرباد کہہ سکتا ہے۔ یہ بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے فائدے کا سودا ہے کہ وہ پاکستان سے معدنیات نکالیں اور خام مال حاصل کریں۔ ہم مل کر پاکستان کو دنیا کا عظیم ملک بنائیں گے اور طے پانے والی مفاہمتی یاد داشتوں کو معاہدوں میں تبدیل کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار وزیراعظم شہباز شریف نے 2 روزہ پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم 2025ء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ جہاں امریکا، چین، سعودی عرب، روس، فن لینڈ اور ترکیہ سمیت دیگر ممالک کے وفود شریک ہیں۔ بلاشبہ اس وقت پاکستان کا معدنی شعبہ بڑھتی ہوئی غیر ملکی سرمایہ کاری کو اپنی طرف متوجہ کررہا ہے اور عالمی کمپنیاں ملک کے غیر استعمال شدہ معدنی ذخائر میں دلچسپی لے رہی ہیں کیونکہ پاکستان قدرتی وسائل کے ذخائر سے خود کفیل ہے، یہ اقتصادی اور صنعتی ترقی کے لیے بے پناہ صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس وقت پاکستان کے قابل ذکر معدنی ذخائر میں دنیا کے دوسرے بڑے نمک کے ذخائر، پانچویں بڑے تانبا اور سونے کے ذخائر اور نمایاں کوئلے کے ذخائر شامل ہیں۔ مزید برآں جپسم، اور قیمتی پتھروں جیسے یاقوت، پکھراج، اور زمرد کے وافر ذخائر موجود ہیں، جو برآمدات کے لحاظ سے نمایاں صلاحیت رکھتے ہیں۔ قومی قیادت نے اقتصادی بحالی کے ایک منصوبے کا اعلان کیا جس کا مقصد معدنیات کی کان کنی کے لیے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کو راغب کرنا ہے، جس کا تخمینہ 6.
یہ حقیقت ہے کہ ہم کان کنی کے شعبے کی ترقی کے لیے درکار ٹیکنالوجی، انفرااسٹرکچر، وسائل اور سرمایے کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں جس کی وجہ سے ہماری معدنیات کی مقدار اور پیداوار کا گراف تیزی سے گر رہا ہے۔ اس کمی کی وجوہات کا حکومت کو بغور جائزہ لینا چاہیئے۔ یہ بات حوصلہ افزاء ہے ہماری چند اہم معدنیات کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوا ہے مثلاً سیسے کی کانوں میں پائی جانے والی قلموں کی شکل کی باریٹس (BARYTES) کی پیداوار میں 53-57 فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جب کہ ڈولو مائیٹ 42.20 فیصد، کوئلہ 17.60 فیصد، گیرو (OCHER) 15.40 فیصد، راک سالٹ 12.40 فیصد اور لائم اسٹون کی پیداوار میں 10.60 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ چند سال پہلے صوبہ پنجاب کے ضلع چنیوٹ میں سونے کے بہت بڑے ذخائر کا انکشاف اس وقت کے وزیر اعلیٰ میں شہباز شریف نے بڑے فخریہ انداز میں کیا تھا لیکن نہ جانے کیوں یہ معاملہ داخل دفتر کردیا گیا۔
تقسیم ہندوستان سے پہلے اٹک کے قریب سے تیل نکلتا ہے اور راولپنڈی میں اٹک ریفائنری ہے اور یہ شاید واحد فیکٹری تھی جو پاکستان کے حصے میں آئی تھی۔ بلوچستان میں معدنیات کی بہتات ہے لیکن کسی نہ کسی وجہ سے معدنیات نہیں نکالی جاسکیں، اس کے بعد ریکوڈک میں تانبے اور سونے کے ذخائر دریافت ہوگئے، اسی طرح گلگت بلتستان کے پہاڑوں میں سونا ہے، یہ بات اس لیے درست ہوسکتی ہے کہ گلگت بلتستان اور اُس کے ملحق علاقوں میں جہاں دریا نکلتا ہے وہاں مقامی لوگ دریائی ریت کو چھانتے اور اس سے سونا نکالنے کی سعی کرتے ہیں اور تصدیق بھی کرتے ہیں کہ اُن کو اکثر سونے کے ذرات مل جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان کے عبوری وزیر خارجہ حسین عبداللہ ہارون نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان کی سمندری حدود میں اتنی مقدار میں تیل موجود ہے جتنا کہ کویت کے پاس ہے۔ اسی طرح ابھی تک پاکستان کی بحری حدود میں ہیرے اور موتیوں کے علاوہ مچھلی، سبزی اور دیگر اشیاء بڑی مقدار میں موجود ہیں جو پاکستان کی غذائی ضرورت تو کافی حد تک پوری کرسکتی ہیں اور ساتھ ساتھ بڑا زرمبادلہ بھی کما کر دے سکتی ہیں۔
صرف مچھلی اور جھینگے کو لے لیں تو یہ ہماری زرمبادلہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہے۔ پاکستان میں مچھلی کی صنعت کو فروغ دینے کی کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی بلکہ سچ بات کی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں مچھلیوں کی کوئی صنعت سرے سے موجود ہی نہیں ہے، ہم صرف مچھلی پکڑ سکتے ہیں، اگر اس میں سرمایہ کاری کی جائے تو جو مچھلی ضائع ہوجاتی ہے وہ بچ سکتی ہے اور پاکستان کی آمدنی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کو صنعت کے درجے پر لایا جائے، اس کو محفوظ کرنے اور عالمی معیار پر لا کر فروخت کرنے سے پاکستان کی آمدنی بڑھ سکتی ہے۔ تھر سے کوئلہ کی بڑی مقدار کا حصول ممکن بنا لیا گیا ہے، پھر سیاحت کی صنعت کو فروغ دینے سے پاکستان میں ڈالروں کی ریل پیل ہوسکتی ہے یا دنیا بھر کی کرنسیوں کی بھرمار ہوسکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صرف گلگت بلتستان پاکستان کو 50 ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کرسکتا ہے لیکن پاکستان میں ٹرانسمیشن لائنز اس کا وزن نہیں اٹھا سکتیں۔
ایسا ملک جس کے پاس آمدنی کے مختلف ذرائع ہیں مگر وہ اپنی افرادی قوت کو متحرک کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے، ہم نے آئی ایم ایف سے قرضہ تو لے لیا ہے لیکن وہ پاکستان کی شرح نمو 4 یا 5 فیصد سے آگے نہیں بڑھنے دے گا جب کہ قرضہ جات کے جنجال سے نکلنے کے لیے پاکستان کو 8 فیصد شرح نمو کم از کم دس سال تک درکار ہے۔ اس کے لیے پاکستان کو 20 بلین ڈالرز کی ضرورت ہوگی پھر جو طریقہ چین اور پاکستان نے وضع کیا ہے کہ یوآن اور روپے میں تجارت کی جائے وہ بھی ایک ذریعہ ہے، پاکستان کو زراعت کے لیے نئے کھیت بنانا ہوں گے اور نئی فصلیں اگانا ہوںگی، جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ اس کے لیے پانی کی ضرورت ہے اور پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم چاہئیں۔ ملک میں کوئلہ، تانبہ، سونا، لوہا، کرومائیٹ اور قیمتی پتھروں سمیت معدنی وسائل کے وسیع ذخائر موجود ہیں، جو کان کنی کے شعبے کی ترقی اور قومی معیشت میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتے ہیں۔
اس بے پناہ صلاحیت کے باوجود، معدنی شعبہ فی الحال ملک کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں صرف 3.2 فیصد حصہ ڈالتا ہے، جب کہ برآمدات عالمی سطح پر صرف 0.1 فیصد ہیں۔ تاہم ان معدنیات کی بڑھتی ہوئی تلاش، غیر ملکی سرمایہ کاری اور بنیادی ڈھانچے میں بہتری کے ساتھ، پاکستان کی کان کنی کی صنعت نمایاں ترقی کے لیے تیار ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کے معدنی وسائل تقریباً 600,000 مربع کلومیٹر پر محیط ہیں اور ملک میں 92 معدنیات کی نشاندہی ہو چکی ہے، جن میں سے 52 تجارتی پیمانے پر نکالی جا سکتی ہیں اور سالانہ اندازاً 68.52 ملین میٹرک ٹن معدنیات حاصل کی جارہی ہیں۔ یہ شعبہ 5,000 سے زائد فعال کانوں، 50,000 چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (SMEs) کو سہولت اور 300,000 افراد کو روزگار بھی مہیا کرتا ہے۔ بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ریکوڈک کاپر اور گولڈ پروجیکٹ دنیا کا سب سے بڑا غیر دریافت شدہ تانبے کا ذخیرہ ہے اور پاکستان کی کان کنی کے شعبہ کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو رہا ہے۔ یہ منصوبہ تانبے کی پیداوار کو 400,000 ٹن اور سونے کی پیداوار کو 500,000 اونس سالانہ تک بڑھا دے گا، جس میں اضافی 3.5 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری شامل ہوگی۔
بین الحکومتی معاہدے کے تحت، وفاقی کابینہ نے ریکوڈک منصوبے میں سعودی عرب کو 15 فیصد حصص فروخت کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ ریکوڈک کے علاوہ، بلوچستان میں 40 سے زائد معدنی وسائل موجود ہیں، جن میں تیل، گیس، یورینیم، اور کوئلہ شامل ہیں، جو پاکستان کی توانائی اور صنعتی ضروریات کو کئی دہائیوں تک پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مزید برآں، ریفائنریوں کے قیام پر بھی کام جاری ہے، جو پاکستان کی خام مال کی برآمد پر انحصار کم کرے گا۔ اگر پاکستان نے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ معدنی دولت ترقی کے لیے ایک نعمت کے طور پر کام کرے تو اسے اپنے ادارہ جاتی اور قانونی فریم ورک کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ وسائل کی دولت کے انتظام کے لیے جامع حفاظتی اقدامات کیے جاسکیں۔ ملک کو مستقبل کے معدنی محصولات کے خلاف مستقل طور پر قرض لینے سے بچنے اور اپنے غیر مستحکم قرضوں کے بوجھ میں کمی کو ترجیح دینے کے لیے طریقہ کار پر عمل درآمد کرنا چاہیئے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کی سرمایہ کاری پاکستان میں ترقی کے لیے پاکستان کو پاکستان کے پاکستان کی معدنیات کی جو پاکستان کی پیداوار کے لیے ایک کان کنی کے موجود ہیں کے معدنی کے ذخائر سونے کے کی صنعت ہیں اور سکتی ہے کی کان ہے اور
پڑھیں:
پاکستان اور امریکہ: معدنیات کے شعبے میں تعاون اور دو طرفہ تجارت کے نئے مواقع
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 اپریل 2025ء) پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مضبوط کرنے اور تجارت کے نئے مواقع پیدا کرنے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ پاکستانی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ آنے والے ہفتوں میں ایک اعلیٰ سطحی وفد کو امریکہ بھیجے گی تاکہ نئی امریکی ٹیرف پالیسی پر مذاکرات کیے جائیں۔ دوسری جانب، امریکی کمپنیوں نے پاکستان کے وسیع اور اب تک کم استعمال شدہ معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے دلچسپی ظاہر کی ہے، جس میں دنیا کے سب سے بڑے تانبے اور سونے کے ذخائر شامل ہیں۔
تجارتی تعلقات اور نیا ٹیرف تنازعگزشتہ ہفتے واشنگٹن نے پاکستانی اشیا پر 29 فیصد اضافی ڈیوٹی عائد کرنے کا اعلان کیا تھا، جو عالمی منڈیوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنے تجارتی شراکت داروں کے خلاف شروع کی گئی مہم کا حصہ تھا۔
(جاری ہے)
تاہم، بدھ کی شام صدر ٹرمپ نے اس فیصلے کو 90 دن کے لیے مؤخر کر دیا، لیکن تمام ممالک کے لیے 10 فیصد کی بنیادی شرح برقرار رکھی۔
اس اعلان سے قبل پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کے دفتر نے بتایا کہ ایک وفد امریکہ روانہ ہو گا۔ جمعرات کو وزارت تجارت کے ایک ذریعے نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر تصدیق کی کہ یہ دورہ اب بھی شیڈول کے مطابق ہو گا۔ ذریعے کے مطابق، ''اعلیٰ سطحی حکومتی وفد جلد واشنگٹن جائے گا تاکہ امریکی حکام کے ساتھ بات چیت کی جا سکے۔‘‘
پاکستان کی نئی منرل پالیسی، آئی ایم ایف سے چھٹکارے کی امید
امریکی دفتر برائے تجارت کے مطابق، سن 2024 میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان دوطرفہ تجارت کا حجم 7.3 ارب ڈالر رہا، جس میں سے 5.1 ارب ڈالر کی پاکستانی اشیا امریکہ کو برآمد کی گئیں۔
کاٹن اور ٹیکسٹائل پاکستان کی اہم برآمدات میں شامل ہیں۔ پاکستانی معیشت، جو سن 2023 میں سیاسی بحران اور معاشی بدحالی کے باعث دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ گئی تھی، اب آئی ایم ایف کے سات ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کے بعد بحالی کی راہ پر ہے۔ افراط زر میں کمی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اس بحالی کے ثبوت ہیں۔ معدنیات کے شعبے میں امریکی دلچسپیادھر، امریکی محکمہ خارجہ کے بیورو آف ساؤتھ اینڈ سینٹرل ایشین افیئرز کے سینیئر افسر ایرک میئر نے بدھ کو اسلام آباد میں وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں میئر نے امریکی کمپنیوں کی جانب سے پاکستان کے معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی خواہش کا اظہار کیا۔ پاکستان کے پاس بلوچستان کے علاقے ریکوڈیک میں تانبے اور سونے کے وسیع ذخائر موجود ہیں، جبکہ لیتھیم سمیت دیگر معدنیات بھی ملک میں وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں۔اس سے ایک روز قبل میئر نے پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم میں شرکت کی، جس کا مقصد غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا تھا۔
اس فورم میں کینیڈا کی کمپنی بیرک گولڈ سمیت امریکہ، سعودی عرب، چین، ترکی، برطانیہ اور دیگر ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی کمپنیوں کو پاکستان کے معدنی شعبے میں ''لامحدود مواقع‘‘ سے فائدہ اٹھانے کی دعوت دی اور کہا کہ پاکستان ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ دوطرفہ تعاون کا عزممیئر نے پاکستان کے معدنی شعبے کی صلاحیت کو سراہتے ہوئے تجارت، سرمایہ کاری اور انسداد دہشت گردی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان کی امریکہ کے لیے اسٹریٹیجک اہمیت کم ہوئی ہے اور اب تعلقات زیادہ تر انسداد دہشت گردی تک محدود ہیں۔ تاہم حالیہ پیش رفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک نئے شعبوں میں تعاون کے خواہش مند ہیں۔ بلوچستان میں سکیورٹی چیلنجزتاہم معدنیات سے مالا مال بلوچستان میں سکیورٹی صورتحال تشویشناک ہے۔ بدھ کی رات کوئٹہ میں مسلح افراد نے پولیس وین پر فائرنگ کی، جس میں تین اہلکار ہلاک ہو گئے۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی نے اس حملے کی مذمت کی۔ منگل کو فورم سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے غیر ملکی کمپنیوں کو سکیورٹی کی یقین دہانی کرائی تھی۔ حالیہ برسوں میں بلوچ علیحدگی پسندوں کے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ادارت: کشور مصطفیٰ