لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔11 اپریل ۔2025 )دنیا کی معروف ٹیکنالوجی کمپنی”اپیل“کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تجارتی ٹیرف عائدکرنے سے پہلے15لاکھ آئی فون ڈیوائسزبھارت سے امریکا منتقل کرنے کا انکشاف سامنے آیا ہے برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق کمپنی نے بھارت میں تیار ہونے والے ایپل سمارٹ فون امریکا منتقل کرنے کے لیے خصوصی پروازوں کا اہتمام کیا اور600 ٹن وزنی تقریبا15لاکھ سمارٹ فون ڈیوائسزکو ٹیرف کے نفاذسے پہلے امریکا منتقل کیا گیا.

(جاری ہے)

تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ میں آئی فون کی قیمت میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے کیوں کہ کمپنی اپنے فونز کے لیے چین میں تیار کردہ پرزوں پر انحصار کرتی ہے ایپل کا مرکزی مینوفیکچرنگ مرکز چین میں ہے جسے اس وقت ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ 125 فیصد ٹیرف کا سامنا کر رہا ہے بھارت سے درآمد ہونے والی اشیا پر 26 فیصد ٹیرف عائد ہے لیکن ٹرمپ نے عالمی سٹاک مارکیٹوں میں مندی کے رجحانات کے بعد 90 دن کے لیے اس درآمدی ٹیکس کا نفاذ روکنے کا اعلان کیا.

صدرٹرمپ کو ٹیرف عائد کرنے کے بعد سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا حتی کہ دیگر قدامت پسندوں کی جانب سے بھی یہاں تک کہ ٹیسلا کے سی ای او اور ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفی شنسی کے سربراہ ایلون مسک جو ٹرمپ کے سب سے بڑے حامیوں میں سے ایک امیر ترین شخص ہیں نے بھی گلہ کیا کیوں کہ ٹیرف کے باعث مارکیٹ کے ردعمل نے ان کی ذاتی دولت کو شدید نقصان پہنچایا.

ایلون مسک نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں امریکہ اور یورپ زیرو ٹیرف پالیسی کی جانب بڑھیں اطلاعات کے مطابق انہوں نے ذاتی طور پر ٹرمپ سے درخواست کی کہ وہ ٹیرف واپس لیں انہوں نے صدر کے تجارتی مشیر پیٹر نوارو کو بھی سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا کچھ عرصہ درآمدی ٹیکس میں اضافے پر قائم رہنے کے بعد ٹرمپ نے بالآخر لچک دکھائی اور 90 دن تک ٹیرف نافذ نہ کرنے کا اعلان کر دیا اور اس کی بجائے انہوں نے چین کے علاوہ تمام ممالک پر 10 فیصد کا یکساں ٹیرف نافذ کر دیا ہے.

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایپل نے اس عارضی موقعے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تاکہ ٹیرف سے بچا جا سکے جریدے نے دعوی ہے کہ ایپل نے چنئی ایئرپورٹ پر بھارتی حکام سے رابطہ کر کے کسٹمز کلیئرنس کا وقت 30 گھنٹے سے کم کر کے چھ گھنٹے کرانے کے لیے لابنگ کی مارچ سے اب تک تقریباً چھ کارگو جہاز جن میں سے ہر ایک میں 100 ٹن فون تھے اس خطے سے روانہ ہو چکے ہیں جبکہ”لبریشن ڈے“ سے پہلے ہی ٹرمپ چین پر 20 فیصد ٹیرف نافذ کر چکے تھے ایپل ہر سال دنیا بھر میں 22 کروڑ سے زائد آئی فون فروخت کرتا ہے.

کاﺅنٹر پوائنٹ ریسرچ کے اندازے کے مطابق امریکہ کے لیے درآمد کیے جانے والے تمام آئی فونز میں سے تقریباً پانچواں حصہ چین کی بجائے بھارت میں تیار ہوتا ہے اطلاعات کے مطابق ایپل نے انڈیا میں اپنے آئی فون پلانٹس میں پیداوار 20 فیصد بڑھانے کا ہدف مقرر کیا کمپنی یہ ہدف نئے کارکن بھرتی کر کے اور اپنے فاکس کون انڈیا فیکٹری میں اتوار کو بھی شفٹیں چلا کر حاصل کرنا چاہتی ہے چنئی میں واقع فاکس کون پلانٹ اتوار کو بھی کام ہوتا ہے اس پلانٹ نے گذشتہ سال دو کروڑ آئی فون تیار کیے ایپل واحد کمپنی نہیں جو ٹیرف کا نفاذ عارضی طور پر روکنے کے دوران امریکی میں اپنا ذخیرہ بڑھانے کی دوڑ میں شامل ہے.

نیویارک پوسٹ کے مطابق جرمن لگژری کار ساز کمپنی پورشے نے تجزیہ کاروں کو بتایا کہ اس کی پہلی سہ ماہی کی کارکردگی پر اثر پڑے گا کیوں کہ کمپنی نے ٹیرف ڈیڈ لائن سے بچنے کے لیے کمپنی کی زیر ملکیت زیادہ گاڑیاں امریکہ بھیج دی ہیں پورشے نے یہ نہیں بتایا کہ آیا وہ امریکہ میں اپنی گاڑیوں کی قیمتیں بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے یا نہیں لیکن اس کی حریف کمپنی فراری پہلے ہی واضح کر چکی ہے کہ وہ ٹیرف کے اثرات سے نمٹنے کے لیے اپنی گاڑیوں کی قیمتوں میں 10 فیصد اضافہ کرے گی.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکا منتقل کی جانب سے کے مطابق ٹیرف کے آئی فون کے لیے

پڑھیں:

تجارتی جنگ اور ہم

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو اپریل کو درآمدات پر ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا تو مالیاتی مارکیٹوں میں تہلکہ مچ گیا۔ ’’متاثرہ ملکوں‘‘ کو یہ اقدام دس ریکٹر اسکیل کا تجارتی زلزلہ لگا جس نے ورلڈ سپلائی چین اور فری مارکیٹ اکانومی سسٹم کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔

ان ممالک کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ پچھلے 40 برسوں سے جس’’ رول بیسڈ ورلڈ ٹریڈ آرڈر‘‘ کے وہ عادی اور خوشہ چیں تھے،اس ورلڈ آرڈر کو تشکیل دینے اور قائم رکھنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والا ملک اپنے ہاتھوں سے اس ورلڈ آرڈر کو تہہ کر کے یوں آسانی سے سائیڈ پہ رکھ دے گا! تاہم حقیقت یہی ہے کہ صدر ٹرمپ نے انہونی کو ہونی کر دیا۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے دنیا کے 65 ممالک پر بھاری بھرکم ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ ایک تہلکہ خیز واقعہ تھا جس کے باعث فنانشل مارکیٹس میں شدید ترین گراوٹ دیکھی گئی۔ ایک ہی روز میں اربوں کھربوں ڈالرز کی حصص ویلیو ہوا ہو گئی۔

عالمی مالیاتی مارکیٹوں میں شدید گراوٹ اور معاشی بے یقینی کی گرج چمک نے دنیا بھر کے کے ممالک کو چکرا کر رکھ دیا۔ صدر ٹرمپ نے اس پر ایک اور ترپ کا پتہ کھیل کر دنیا کو نہ صرف حیران کر دیا بلکہ کم از کم اگلے90 دن کے لیے انھیں انتظار کی سولی پر بھی لٹکا دیا۔صدر ٹرمپ نے ٹیرف کے فوری نفاذ کو چین، کینیڈا، میکسیکو کے سوا باقی ممالک کے لیے 90 دنوں تک موخر کر دیا۔ البتہ اس دوران سب پر 10فیصد یکساں ٹیرف عائد کر دیا۔

چین نے امریکی ٹیرف کے جواب میں ترکی بہ ترکی ٹیرف عائد کیے جس پر سیخ پا ہو کر امریکا نے چین پر عائد ٹیرف بڑھا کر 125فیصد کر دیا۔ امریکی حکام کے بقول دنیا کے 70 ممالک ان سے مذاکرات کے لیے رابطہ کر چکے ہیں ،کئی سربراہان نے فون یا وائٹ ہاؤس یاترا کرکے معاملات کی درستی کے لیے پیش قدمی کی لیکن چین ٹس سے مس نہ ہوا۔

بلکہ چینی صدر فار ایسٹ ایشیاء کے دورے پر نکل کھڑے ہوئے۔ مقصود یہ کہ علاقائی ملکوں کے ساتھ نئے تجارتی بندوبست کا اہتمام کیا جا سکے۔ امریکی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے مایوسی کا اظہار بھی کیا کہ ایک فون کی تو بات تھی لیکن چین کو سمجھ نہیں آئی !

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی موجودگی اور ملٹی لیٹرل ٹریڈ سسٹم کے طے شدہ اصولوں کے باوجود امریکی صدر نے ورلڈ ٹریڈ سسٹم کو بائی پاس کر دیا اور یکطرفہ طور پر کم ازکم 65 ممالک پر ٹیرف عائد کر دیے۔ ورلڈ سسٹم کو بائی پاس کرتے ہوئے بھاری بھرکم ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ صدر ٹرمپ کا انفرادی تھا یا اس فیصلے کے پیچھے سوچی سمجھی اسٹرٹیجی ہے ؟ یعنی There is method behind this madness۔

امریکی سیاست اور معاشی پالیسیوں پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ انتہائی دائیں بازو کے کٹر خیالات رکھنے والے سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں کی ری پبلکن پارٹی پر بڑھتی ہوئی مظبوط گرفت ، کانگریس میں ان کی اکثریت اور صدر ٹرمپ کی غیر مشروط حمایت ان ہنگامہ پرور فیصلوں کا باعث بنی۔

امریکی صدر کے امیگریشن، ایجوکیشن، لیبر یونین کی مزید حوصلہ شکنی سمیت حکومتی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں ، بیوروکریسی ، کئی ملکی اور عالمی سطح پر جاری۔امدادی پروگرام بند کرنے اور عالمی تجارتی نظام پر اپنی شرائط پر گرفت قائم کرنے جیسے اقدامات پر ری پبلکن پارٹی میں سرگرم سیاسی و نظریاتی حمایت موجود ہے۔

انتہائی دائیں بازو کے ان ایجنڈا اقدامات کی تشکیل کے لیے دو سال قبل ایک معروف تھنک ٹینک نے 900 صفحات پر مبنی پروجیکٹ 2025 رپورٹ پبلک کر دی تھی۔ اس رپورٹ کے 37 لکھاریوں میں سے 27 صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں ان کی ایڈمنسٹریشن کا حصہ تھے یا ان کے سیاسی حلقہ اثر سے متعلق تھے۔

گو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران اس رپورٹ کے مندرجات سے پہلو تہی اختیار کی لیکن صدارت سنبھالنے کے بعد ان کے تمام اقدامات۔انداز ہو بہو تیری آواز پاء کا تھاکی مثال ثابت ہورہے ہیں۔ اس پروجیکٹ رپورٹ کے دو سینئر ممبرز امریکی صدر کی انتظامیہ کا حصہ بھی ہیں۔ اسی لیے بیشتر ماہرین کا یہ خیال ہے کہ ٹیرف اقدامات کے پیچھے سوچی سمجھی اسٹرٹیجی کار فرما یے۔ البتہ اس میں باقی ڈرامائی انداز ڈونلڈ ٹرمپ کی اپنی شخصیت کا کرشمہ اور مزاج کا عکس ہے۔

امریکی سیاست میں گزشتہ 45 سالوں کے دوران بہت بنیادی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ 80 کی دہائی میں امریکی سیاست میں نیوکون NEOCON معیشت دانوں اور نیو لبرل سیاست دانوں کو عروج ملا۔ ان کی تجویز کردہ بیشتر معاشی پالیسیوں کو صدر رونالڈ ریگن نے اپنایا۔ان پالیسیوں کا امریکا اور عالمی معیشت پر اس قدر گہرا اثر ہوا کہ آج تک اس معاشی طرز نظامت کو ریگنامکس کے نام سے جانا جاتا ہے۔

تاہم اسدوان زمانہ بھی قیامت کی چال چل گیا۔ 80 کی دہائی سے دنیا بھر میں شروع ہونے والی حیرت انگیز معاشی، ٹیکنالوجی اور سیاسی تبدیلیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں امریکا اور اس کے حلیفوں کے لیے غیر متوقع تھیں۔ 2025 کا عالمی تجارتی منظر اور اس کے بڑے بڑے کھلاڑی یعنی Who is who کی فہرست اور ترتیب میں بنیادی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ کم و بیش ہر نوزائیدہ معاشی قوت کی معاشی ترقی کے سوتے امریکا کی پرکشش اور فری مارکیٹ اکانومی سے پھوٹے۔ اس لیے جب امریکا نے بیک جنبش قلم جاری توازن کو جھٹکا دیا تو دنیا بھر کو جھٹکا لگا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران عالمی تجارتی اور معاشی نظام میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے 80 کی دہائی والا ماحول اب موجود نہیں، تاہم اس کے باوجود امریکا کا اثرو نفوذ اب بھی بہت وسیع اور فیصلہ کن ہے۔

آنے والا وقت بتائے گا کہ عالمی تجارت اور نئی جیو پولیٹیکل بساط پر امریکا ،چین اور دیگر ممالک کی اگلی صف بندی اور چالیں کیا ہوں گی۔ گو پاکستان عالمی تجارتی حجم میں بہت کم وزن ہے لیکن جیو پولیٹیکل منظر پر ضرور اہم ہے۔

تاہم امریکا اور چین کے مابین تشکیل پاتی نئی سرد جنگ میں روایتی سرد جنگ کی طرح کسی ایک کیمپ کا انتخاب شاید مجبوری بن جائے۔ چین کے ساتھ روایتی دوستی، سی پیک اور بڑھتا ہوا معاشی انحصار امریکا کو مزید کھٹک سکتا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لیے دو کشتیوں کا سوار رہنا مشکل تر ہو جائے گا۔ پاکستان کو جلد یا بہ دیر اس مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؛" آپ ہمارے ساتھ نہیں ہیں تو پھر اپ ہمارے مخالف ہیں"۔ آئی ایم ایف کی بیساکھیوں اور " دوست ممالک " کے ڈیپازٹس سے قائم زرمبادلہ کے بھرم سے اپنی معاشی "سفید پوشی " قائم رکھنے والے ملک کے لیے یہ مشکل مرحلہ ہوگا!

متعلقہ مضامین

  • تجارتی جنگ اور ہم
  • امریکی تجارتی ٹیرف سے بین الاقوامی تجارت 3 فیصد تک سکڑسکتی ہے: اقوام متحدہ
  • ٹیرف وار: چین کا امریکا پر جوابی حملہ، مصنوعات پر ٹیکس 125 فیصد کردیا
  • ٹرمپ ٹیرف سے بچنے کے لیے ایپل نے 15 لاکھ آئی فون بھارت سے امریکا کیسے منگوائے؟
  • ٹیرف حملے: چین کا امریکا کے خلاف لڑائی جاری رکھنے کا اعلان
  • امریکہ اور چین کی تجارتی جنگ سے پاکستان کے لیے عالمی منڈی میں مواقع پیدا ہو رہے ہیں.پاکستان کے ٹیکسٹائل
  • امریکا کی جانب سے ٹیرف نفاذ پر پاکستان کا ردعمل سامنے آگیا
  • امریکا کی جانب سے ٹیرف نفاذ پر پاکستان کا ردعمل سامنے آگیا
  • ٹیرف کی جنگ: عالمی تجارتی تنظیم نے امریکا چین تجارت میں 80 فیصد کمی کا امکان ظاہر کر دیا