اکشے کمار کی ساتھی اداکارہ نے اپنا سر کیوں منڈوا لیا؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
بالی ووڈ کی معروف اداکارہ شانتی پریا، جو اکشے کمار کے ساتھ ان کی پہلی فلم ’’سوگندھ‘‘ میں کام کرچکی ہیں، نے معاشرے کے بنائے ہوئے خوبصورتی کے پیمانوں کو چیلنج کرتے ہوئے اپنے بال منڈوا لیے۔
شانتی پریا نے اپنی بالوں سے محروم نئی شکل کی کچھ تصاویر شیئر کیں، جن میں وہ بیج رنگ کے سوٹ میں دکھائی دے رہی ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مرحوم شوہر سدھارتھ رے کا کوٹ پہنا ہوا تھا، جو 2004 میں انتقال کرگئے تھے۔
شانتی نے اپنی تصویر کے ساتھ کیپشن میں لکھا، ’’میں نے حال ہی میں اپنے بال منڈوائے ہیں، اور یہ تجربہ واقعی کچھ انوکھا رہا۔ عورت ہونے کے ناتے ہم اکثر زندگی میں خود پر پابندیاں لگا لیتے ہیں، قوانین کے پیچھے چلتی ہیں اور خود کو ایک پنجرے میں بند کرلیتی ہیں۔ اس تبدیلی کے ساتھ، میں نے خود کو آزاد کرلیا ہے، خود پر لگائی گئی پابندیوں سے آزاد! میں دنیا کے بنائے ہوئے خوبصورتی کے معیارات کو توڑنا چاہتی ہوں، اور میں یہ بہت ہمت اور عزم کے ساتھ کررہی ہوں۔‘‘
View this post on InstagramA post shared by Shanthi Priya (@shanthipriya333)
انہوں نے مزید لکھا، ’’آج، میں اپنے مرحوم شوہر کی یاد کو بھی اپنے قریب محسوس کر رہی ہو، ان کے اس بلیزر میں، جو اب بھی ان کی گرمی سمیٹے ہوئے ہے۔‘‘
شانتی پریا کے اس فیصلے کی جہاں کچھ لوگوں نے تعریف کی، وہیں کچھ نے اس پر تنقید بھی کی ہے۔ ایک صارف نے لکھا، ’’یہ کیا کردیا؟ لمبے بال تو جنوبی ہندوستانیوں کی خوبصورتی ہوتے ہیں، تم نے یہ کیوں کیا؟‘‘ شانتی پریا نے جواب دیا، ’’یہ سوچ مت رکھو کہ ہر کسی کو ایک خاص انداز میں ہی دکھنا چاہیے۔‘‘
اس فیصلے سے پہلے شانتی پریا کے ذہن میں خدشات بھی تھے کہ کہیں اس سے ان کے کام کے مواقع متاثر نہ ہوں، کیونکہ معاشرہ اداکاراؤں کو ایک خاص نظر سے دیکھتا ہے۔ انہوں نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا، ’’میں نے خود سے پوچھا، کیا میں اپنے فیصلے خوف کی بنیاد پر کرنے لگی ہوں؟‘‘ لیکن پھر انہوں نے اپنے دل کی سنی اور بال منڈوانے کا فیصلہ کرلیا۔
یاد رہے کہ شانتی پریا آخری بار تمل فلم ’’بیڈ گرل‘‘ میں نظر آئی تھیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: شانتی پریا انہوں نے کے ساتھ
پڑھیں:
ایسا کیوں ؟
سوشل میڈیا پر بسا اوقات ایسی ایسی تحریریں پڑھنے کو مل جاتی ہیں جو مشتمل ہوتی تو صرف چند لائنوں پر ہیں لیکن مفہوم کے لحاظ سے سمندر کی گہرائی سمیٹے ہوتی ہیں۔ آج کچھ اس طرح کا تجربہ اس وقت ہوا جب فیس بک پر موجود ایک دوست رئوف امیر نے یہ کہہ کر پوسٹ لگائی کہ شہر سارا تلاوت میں مصروف ہے لیکن موسم کے تیور بدلتے نہیں، یہ سنا ہے کہ پہلے یہیں ایک شخص نے کلمہ پڑھا اور ہوا چل پڑی واہ!سبحان اللہ کیا کہنے!نہ صرف دو سطروں میں 1947ء اور 2025 ء کا تقابلی جائزہ پیش کر دیا بلکہ قیام پاکستان کے دن سے لے کر آج تک گمراہی، بے راہ روی اور اخلاقی بدحالی کی وہ طویل داستان جس کو بیان کرنے کے لئے کئی ابواب کی ضرورت پڑ سکتی ہے اس کو اس مختصر پیرائے میں اس طرح بیان کر دیا کہ اس اسلوب پر بڑے سے بڑا تاریخ دان بھی داد دئیے بغیر نہ رہ سکیں۔کلمہ پڑھنے پر یاد آیا قیام پاکستان کے وقت سب سے زیادہ صرف ایک نعرہ کی گونج ہی سنائی دیتی تھی۔ قارئین آپ بخوبی جانتے ہیں وہ نعرہ کیا تھا پاکستان کا مطلب کیا لاا ِلہ ا ِلا اللہ اور آپ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ یہ نعرہ کس شخص نے لگایا تھا اور یہ کلمہ کس ہستی نے پڑھا تھا جس پر پوری قوم اس کے ساتھ چل پڑی تھی وہ کوئی اور نہیں تھا اس شخص کا نام تھا قائداعظم محمد علی جناحؒ، یہ تو تھی وہ تاریخی حقیقت جو آپ کے سامنے رکھ دی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی قوت وہ کون سی کشش تھی جس پر پوری قوم لبیک کہتی اس شخص کے ساتھ باہر نکل آئی۔ بتاتا چلوں کہ یہ خاکسار اپنے کئی کالموں میں جو وہ ایک اور قومی اخبار کے لئے بھی لکھتا ہے کئی بار ان میں اس بات کا تذکرہ کر چکا کہ راقم کا ایک دوست تھا آغا ریاض السلام جو اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ آغا کا ذکر آئے تو پھر راجہ پرویز اشرف کا نام نہ لیا جائے تو یہ بہت بڑی زیادتی ہو گی اور جس وجہ سے خاکسار یہ کہہ رہا ہے کہ آغا کا نام آئے تو راجہ پرویز اشرف کا نام نہ آئے تو وہ یہ ہے کہ ان دونوں کا راولپنڈی کی سیاست میں بڑا نام اور پھر پارٹی سے وابستگی کے ساتھ ساتھ ایک اور مشرک صفت بھی تھی جس سے بہت کم دوست آشنا ہوں ۔ مزہ کی وہ بات یہ کہ سیاست کے ساتھ ساتھ روحانیت سے ان دونوں اشخاص کا شدید لگائو اپنے اندر کئی داستانیں سمیٹے ہوئے ہے جس پر پھر کبھی مفصل بات ہو گی۔
آغا کے ساتھ خاکسار کی اکثر نشستیں وقت کی قید سے آزاد اس قدر طوالت اختیار کر جاتی تھیں کہ ہمیں خود حیرت ہوتی تھی کہ ہماری ملاقاتوں میں وقت کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے اور ہمیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ یہ 1995 ء کی بات ہے ایک دن ہماری نشست کا آغاز رات کوئی نو بجے شروع ہوا اور اگلے دن جب فجر کی اذان سنائی دی تو ہمیں وقت کا احساس ہوا جس پر راقم نے آغا سے کہا کہ مرشد اذانیں شروع ہو گئی ہیں اور رات کس طرح بڑھاپے کی منزل طے کر گئی ہمیں پتا ہی نہیں چلا جس پر آغا کہنے لگا کہ جھلے عابدہ پروین کی گائیکی میں وہ شعر سنا ہے رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے پھر وہ یوں گویا ہوا کہ یاد رکھ اچھا انسان جب بولتا ہے تو اس کے اندر کی پاکیزگی اس کی باتوں کے ذریعے اردگرد کے ماحول کو اس قدر معطر بنا دیتی ہے کہ اس محفل میں بیٹھے لوگ اس کی باتوں کے سحر میں اس طرح ڈوب جاتے ہیں کہ انہیں وقت کی بندش کا احساس ہی نہیں رہتا جبکہ اس کے برعکس اخلاقی بدحالی کا شکار شخص جب بولتا ہے تو اس کے اندر کی غلاظت اس کے اردگرد کے ماحول کو اس طرح تعفن زدہ کر دیتی ہے کہ ساتھ بیٹھے لوگوں کی بیزاری کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ اس نشست میں دو منٹ بھی بیٹھنا پسند نہیں کرتے۔ آغا کہنے لگا کہ اب پتا چلا شاعر نے باتوں سے خوشبو کا استعارہ کس سینس میں استعمال کیا ۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے آغا کہنے لگا کہ یہ تاریخی حقائق موجود ہیں اور سب جانتے ہیں کہ قائداعظمؒ کوئی بہت بڑا شعلہ بیان مقرر نہیں تھے اور ان کے اکثر خطاب انگریزی یا بہت ہی ضعیف یا شکستہ اردو میں ہوتے تھے لیکن پھر بھی لاکھوں کا مجمع زبان کو نہ سمجھنے کے باوجود گھنٹوں کھڑے اس سوٹڈ بوٹڈ آدمی کو خاموشی سے سنتا تھا، آخر وہ کیا وجہ تھی وہ کون سا جادو تھا وہ اس کی ذات کا کون سا کرشمہ تھا۔ آغا جذباتی انداز میں بولے جا رہا تھا کہ یہ قائد کے اندر کی کمٹمنٹ، سچائی اور پاکیزگی تھی جو فضا کو اس قدر معطر کر دیتی تھی، یہ اس کی باتوں سے آنے والی خوشبوں کا معجزہ تھا کہ صرف اس ایک شخص کے کلمہ حق کہنے پر پوری قوم اس کے پیچھے چل پڑی تھی۔
آج جب رئوف امیر کی پوسٹ نظر سے گزری تو اندر کے انسان نے کہا کہ اس کے ایک ایک لفظ کا طواف کرو اور اپنے قارئین کو بتائو کہ وہ کیا صفات تھیں جس کی وجہ سے ایک شخص کے کلمہ حق کہنے پر ہوائیں چل پڑتی تھیں اور آج قحط الرجال کا وہ مقام کیوں کہ بڑے بڑے دانشور ، سیاستدان، عالم فاضل شعلہ بیانی کی حدوں کو چھوتے سفید چغوں میں ملبوس بڑی بڑی دستاریں سجائے جب قوم کے سامنے اپنی دوکانیں سجانے اتے ہیں تو لوگوں کا جلسے جلوسوں میں جا کر انہیں سننا تو کجا گھروں میں بیٹھے ان ٹی وی چینلوں کو سوئچ آف کر دینا کس بات کی منادی دیتا ہے ۔ غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ یہ سب ان کے اندر بسی چالاکیوں ، خود غرضییوں ،تعصب ، حرص، لالچ کی اس غلاظت کی وجہ سے ہوتا ہے جس نے ملک کی فضا ء کو اس قدر پراگندہ کر دیا ہوا ہے ہے کہ اس تعفن میں موسم بدلنا تو دور کی بات سانس لینا اور زندہ رہنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ قارئین شائد راقم کا یہ کالم رئوف امیر کی اس پوسٹ شہر سارا تلاوت میں مصروف ہے لیکن موسم کے تیور بدلتے نہیں، یہ سنا ہے کہ پہلے یہیں ایک شخص نے کلمہ پڑھا اور ہوا چل پڑی کا تسلی بخش جواب دے سکا ہو کہ ایسا کیوں ؟