ذکرِ حبیب ﷺاور اطاعتِ رسولﷺ
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ گھروں میں نماز پڑھنے سے، قرآن کریم کی تلاوت کرنے سے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے سے روحانی برکات حاصل ہوتی ہیں۔ ہم اس بات کا شکوہ تو آپس میں اکثر کرتے رہتے ہیں کہ گھروں میں برکت کا وہ پہلے والا ماحول نہیں رہا اور باہمی محبت و اعتماد میں مسلسل کمی آ رہی ہے، لیکن اس کے اسباب پر ہم غور نہیں کرتے۔ ظاہر بات ہے کہ ہمارے گھروں میں نماز کا ماحول ہو گا، قرآن کریم کی تلاوت ہو گی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ ہو گا، درود شریف پڑھا جائے گا اور دینی مجالس کا اہتمام ہو گا تو رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہو گا اور فرشتوں کی آمد ہوتی رہے گی۔ لیکن ہم نے اپنے گھروں کے ماحول کو جو رخ دے دیا ہے اور جس میں اضافہ ہو رہا ہے، اس میں فرشتوں کے آنے جانے اور رحمتوں کے نزول کی توقع تو نہیں کی جا سکتی۔
ہم جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ مختلف حوالوں سے کرتے ہیں اور ذکرِ حبیب ﷺ کے بہت سے حوالے ہیں جو سب درست ہیں۔ مثلاً ہم یہ تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی نسبت کے اظہار کے لیے کرتے ہیں، جو دراصل ہماری شناخت ہے اور آقائے نامدار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کر کے اصل میں ہم اپنی شناخت کو پکا کرتے ہیں اور اس کی تجدید کرتے ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ محبت کے اظہار کے لیے بھی کیا جاتا ہے، اس لیے کہ جس کے ساتھ محبت ہو اس کا نام بار بار زبان پر آتا ہے اور اس کا تذکرہ کرتے رہنے کو محبت کرنے والے کا ہر وقت جی چاہتا ہے۔
ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ رحمتوں اور برکات کے حصول کے لیے بھی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جہاں سرکارِ مدینہ نبی اکرمؐ کا تذکرہ ہو گا وہاں رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہو گا اور صرف نزول نہیں، بلکہ بارش ہوتی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود سراپا رحمت ہیں اور ان کا مبارک تذکرہ بھی رحمتوں اور برکتوں کا ذریعہ بنتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم کا تذکرہ ہم اس لیے بھی کرتے ہیں کہ اس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں۔ ہمارے کسی دوست کا ہمارے سامنے اچھے انداز میں ذکر کیا جائے تو ہمیں خوشی ہوتی ہے، یہ فطری بات ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی اپنے حبیب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر خوش ہوتے ہیں اور نبی اکرمؐ کے مبارک تذکرہ کا ایک مقصد اور فائدہ رضائے الٰہی کا حصول بھی ہوتا ہے۔
ذکرِ رسولؐ کے یہ سارے پہلو درست ہیں اور سب کے فوائد ہمیں ملتے ہیں، لیکن ایک پہلو اور بھی ہے جس کی طرف ہماری توجہ کم ہوتی ہے، حالانکہ اس کی ضرورت سب سے زیادہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کیا جائے۔ کیونکہ وہ رسول اللہ ہیں اور ”اسوہ حسنہ“ ہیں، یعنی ہمارے لیے نمونہ حیات اور آئیڈیل ہیں۔ ہر شخص کے ذہن میں کوئی نہ کوئی آئیڈیل ضرور ہوتا ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بھی اس کی طرح ہو جائے۔ قرآن کریم نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نسلِ انسانی کے لیے سب سے بڑا آئیڈیل قرار دیا ہے اور ہم سب کو حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تذکرہ سے برکتیں اور رحمتیں بھی حاصل کرو، لیکن اس کے ساتھ انہیں فالو بھی کرو، ان کے نقش قدم پر بھی چلو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارا اصل تعلق اتباع و اطاعت کا ہے، اس لیے ہمیں راہ نمائی کے حصول کے لیے بھی آقائے نامدار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرنا چاہیے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے۔
اس سلسلہ میں حضرات صحابہ کرامؓ کی زندگیوں میں سینکڑوں مثالیں ملتی ہیں، جن کو ہم سامنے رکھ سکتے ہیں۔ مثلاً حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا ایک چھوٹا سا واقعہ ہے کہ وہ آخر عمر میں نابینا ہو گئے تھے۔ ان کے شاگرد حضرت نافعؒ کہتے ہیں کہ ایک دن انہوں نے مجھے کہا کہ مجھے ذرا بازار تک لے چلو۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور بازار لے گیا۔ وہ بازار کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک گئے اور پھر واپس چلنے کا کہا۔ میں انہیں واپس گھر لے آیا اور پوچھا کہ حضرت! آپ بازار کس کام کے لیے گئے تھے؟ فرمایا کہ جس کام کے لیے گیا تھا وہ میں نے کر لیا ہے۔ حضرت نافعؒ نے حیرت سے پوچھا کہ میں بھی تو آپ کے ساتھ تھا، آپ صرف بازار کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک گئے ہیں اور پھر واپس آ گئے ہیں، کام تو آپ نے کوئی بھی نہیں کیا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا کہ میں جب بازار گیا تو کچھ لوگ مجھے ملے، انہوں نے مجھے سلام کہا اور میں نے جواب دیا۔ واپسی پر بھی کچھ لوگ ملے، انہوں نے سلام کہا اور میں نے جواب دیا، بس اسی کام کے لیے میں بازار گیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ یہ ہے کہ وہ بازار میں چلتے ہوئے لوگوں کو سلام کہتے تھے اور ان کے سلام کا جواب دیتے تھے۔ میں معذوری کی وجہ سے کئی روز بازار نہیں جا سکا تھا اور اس سنت پر اس دوران عمل نہیں ہوا تھا، آج میں اسی ارادے سے بازار گیا کہ کچھ لوگوں کو سلام کروں گا اور کچھ لوگوں کے سلام کا جواب دوں گا تو اس سنت پر آج عمل ہو جائے گا۔
یہ ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ ہمیں چاہیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے محبت و عقیدت کے اظہار کے ساتھ ساتھ راہنمائی کا پہلو بھی سامنے رکھیں کہ یہی ذکرِ رسول ﷺ کا سب سے بڑا مقصد ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: رحمتوں اور اللہ تعالی کرتے ہیں کے ساتھ ہیں اور لیے بھی ہوتی ہے ہے اور کے لیے اور اس گا اور
پڑھیں:
اعظم سواتی کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کی باتوں کا پی ٹی آئی سے تعلق نہیں، سلمان اکرم راجا
اعظم سواتی کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کی باتوں کا پی ٹی آئی سے تعلق نہیں، سلمان اکرم راجا WhatsAppFacebookTwitter 0 12 April, 2025 سب نیوز
لاہور: پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجا نے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے پارٹی رہنماؤں کے ساتھ ملاقات نہ کرانے جانے کی وجہ بتادی۔
لاہور کی اے ٹی سی عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسٹبلشمنٹ سے ڈیل کی بات میرے علم میں نہیں ہے، اعظم سواتی اپنے طور پر کہہ رہے ہیں، جب تک بانی پی ٹی آئی سے بات نہیں ہوتی تب تک کچھ نہیں کہہ سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ہمیشہ آئین کی حکمرانی چاہتے ہیں، ملک کی بالادستی چاہتے ہیں، یہ سب ہمارا نصب العین ہے، اس کے بعد بات آگے بڑھتی ہے تو ٹھیک ہے، اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ ہم کسی پتلی گلی سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں، تو ایسا نہیں ہے، بانی پی ٹی آئی سے ملاقات ہوگی تو صورت کلئیر ہوگی۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ اسی لیے بانی پی ٹی ائی سے ملاقات نہیں کرنے دی جا رہی تاکہ ابہام پیدا ہو، ملاقات کے بعد پتا چلے گا کہ انہوں نے کسی کو مذکرات کا کہا ہے یا نہیں۔