اللہ وحد ہ، لاشریک نے انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے اپنے رسولوں کے ساتھ اپنی کتابیں بھی بھیجیں کہ رسول ان کتابوں کے ذریعہ اپنی اپنی امتوںکو دنیا میں زندگی بسر کر نے کے طریقے سکھائیں۔ ایسے کاموں کے کرنے کا حکم دیں جو خالق انسان کی رضا کا ذریعہ ہو ں اور ان کامو ں سے بچنے کی تاکید کریں جو مالک حقیقی کی مرضی کے خلاف ہو ں ،یعنی خداکی کتابیں ،آسمانی کتابیں ، انسانوں کے لئے دستور العمل ،ضابطہ حیات ، قانون زندگی ہیں،جن کا معلم انبیا ء کرام ورسل عظام علیہم السلام ہیں ۔ رسول صرف ان کتابوں کے پہنچانے والے نہیں بلکہ ان کو سکھانے والے اور عملی طور پر ان کی تعلیم دینے والے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ رسول کی تعلیم و تربیت خود خدائے بالاوبرتر فرماتا ہے۔ رسول نہ تو دنیا کے عالموں سے علم حاصل کر تا ہے اور نہ وہ دنیا کی کتابوںکا محتاج ہو تا ہے ۔ وہ تو خداکی کتاب کا معلم ہوتاہے، لہذا خداہی اس کو ا س منصب کا اہل بناتا ہے ،ایسا علم عطا فرماتا ہے کہ امت کا کوئی فرد اس کے علم کا مقابلہ کرنے کی جرات نہیں کرپاتا ، رسول کا ہر عمل ، اس کی ہر ادا خداکی کتاب کاعملی نمونہ ہوتی ہے ۔ فرمایا گیا (پ۱۲،الاحزاب۱۲) ترجمہ: ’’بے شک تمہاری رہنمائی کے لئے اللہ کے رسول کی زندگی بہترین نمونہ ہے‘‘ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے حضور علیہ السلام کی عادات و اطوار کے متعلق معلوم کر ناچاہا تو آپ نے یہی فرمایا کہ ،ترجمہ’’کردار رسول ﷺ قرآن کے عین مطابق تھا‘‘انسان کی ضرورت کے مطابق ہر دور میں خدانے اپنی کتابیں نازل فرمائیں ۔
حضرت دائود علیہ السلام کو ’’زبور‘‘دی گئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ’’تورات‘‘ملی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام ’’انجیل‘‘ لے کر آئے۔ ان کتابوں پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ۔ہمارا ایمان ہے کہ یہ اللہ کی کتابیں تھی ،لیکن یہ کتابیں ہمیشہ کے لئے نہیں بلکہ خاص زمانے اور خاص امتوں کے لئے تھیں ،جو رسول یہ کتابیں لے کر آئے ، انہوں نے خود کبھی یہ دعویٰ نہ کیا کہ ان کی کتا بیں ہر دور سے انسانوں کے لئے دستور العمل ہیں۔ ا نہو ں نے تو یہ بھی دعویٰ نہیں کیا کہ ان کی رسالت عام ہے۔ وہ قیامت تک کے انسانوں کے لئے رسول ہیں ،بلکہ ان کی کتابوں نے نبی آخر الزماں کی آمد کی خبر دی ۔ غرض کہ اس میں شک نہیں کہ سب کتابیں اللہ ہی کی کتابیں تھیں ،لیکن محدود وقت اور مخصوص قوم کے لئے ،یہی وجہ ہے کہ آج یہ کتابیں اپنی اصل حالت میں کہیں نہیں نہ ان کی تاریخ کا پتہ ہے اور نہ اس کے اصل نسخے کہیں پائے جاتے ہیں ،حتیٰ کہ جس زبان میں یہ کتابیں نازل ہو ئی ،آج دنیا میں ان زبانوں کا بولنے والا ،جاننے والا کوئی نہیں رہا ، پس اب خدا کے بندوں کے پا س خداکی صرف ایک ہی کتا ب ہے ، جوآخری کتاب ہے ، جو خدا کے آخری رسول ، حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوئی، یہی مسلمانوں کا ضابطہ حیات اور دستور العمل ہے اوریہ آج تک امت مسلمہ کے پا س اصلی حالت میں موجود ہے ،اس کاایک ایک حرف وہی ہے جو خدانے اپنے آخری نبی محمدمصطفی ﷺپر نازل فرمایایہ نبی کریم ﷺکا صدقہ ہے کہ مسلمانوں کے پاس خداکی کتاب اصل حالت میں موجود ہے ۔ہم بڑے خوش نصیب ہیں ہمیں چاہیے خدا کی اس نعمت کی قدر کر یں ،اس کا ادب کریں ،احترام کریں ، اس کی تلاوت کریں، اس کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں ۔ اس کی تاریخ کو جانیں تاکہ اس کی حفاظت کا ہمیں بھی ثواب ملے ۔
قرآن کریم اللہ کی آخری کتاب ہے ،جو آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے ذریعہ ہمیں ملی۔ آپ کی عمر شریف چالیس سال چھ ماہ کی ہو چکی تھی۔ آپ غار حرا میں اپنے رب کی عبادت کر رہے تھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام خداکا پہلا پیغام آپ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے۔ یہیں سے قرآن کریم نازل ہونے کی ابتدا ہو ئی اور تیئیس سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس کو نازل فرمانے والا،خدا وحدہ،لاشریک ،اس کا لانے والافرشتہ بڑی خوبیوں والا معززمحترم اور امانت دار ، حضور علیہ السلام کا جاناپہچانا ، اس کو لینے والے محمد ابن عبداللہ ﷺ نبیوں کے سردار ،آخری نبی (ﷺ) ہیں۔قرآن کریم کی ان آیات پر غور کیجئے ۔ترجمہ:’’فرمادیجئے ، نازل کیا ہے اسے روح القدس نے آپ کے رب کی طرف سے حق کے ساتھ ، تاکہ ثابت قدم رکھے انہیں جو ایمان لائے ہیں یہ ہدا یت اور خوشخبری ہے مسلمانوں کے لئے‘‘(پ ۴۱ ،النحل ، ۲۰۱) یہ سورہ نحل کی آیا ت ہے ،دوسرے مقام پر سورہ شعرا میں فرمایا جارہا ہے ، ترجمہ ’’اور بے شک یہ کتاب رب العلمین کی اتاری ہو ئی ہے اسے لے کر روح الامین اترے ہیں (اے محمدﷺ ) آپ کے قلب پر تاکہ آپ لوگوں کو ڈرانے والے ہو جائیں یہ ایسی عربی زبان میں ہیں جو بالکل واضح ہے اوراس کا ذکر پہلے لو گو ں کی کتابوں میں بھی ہے ‘‘ (پ ۹۱ ، الشعرا ،۲۹۱،۶۹۱)سورہ تکویر کی آیا ت سے مزید وضاحت ہو تی ہے ،ترجمہ ’’بے شک یہ(قرآن) معزز قاصد (جبرئیل)کا (لایا) ہو ا قول ہے جو قوت والا مالک عرش کے یہا ں عزت والاہے سب (فرشتوں)کے سردار اور وہاں کا امین ہے اور تمہا را یہ ساتھی (محمد ﷺ) کوئی مجنون تو نہیں ہے اور بلا شبہ اس (رسول)نے اس قاصد (جبرئیل)کو روشن کنارے پر دیکھا ہے اور یہ نبی غیب بتانے میں ذرا بخیل نہیں اور یہ (قرآن)کسی شیطان مردود کا قول نہیں پھر تم کدھر چلے جارہے ہو یہ صرف تمام جہا ںوالو ں کے لئے نصیحت ہے جو تم میں سے سیدھی راہ چلناچاہے ‘‘ (پارہ۰۳ ،التکویر ، ۹۱،۸۲)
بالکل واضح ہو گیا کہ قرآن کریم نازل کر نے والا تمام جہانوں کا پر ور دگار ہے اس کو دنیا میں پہنچانے کا کا م ایک ایسے فرشتے کے سپرد کیا گیا جو روح القدس ہے ،روح الامین ہے ، بڑی قوت والا ہے۔ خدا کے نزدیک اس کی بڑی عزت ہے ، فرشتوں کا سردار اور فرشتوں میں نہایت امانت دار ہے ۔جس پر یہ کتاب نازل ہو ئی اس کو فرشتے سے لینے کی روحانی قوت اور انسانوںکو دینے سکھانے کی مادی صلاحیت سے پو ری طرح نوازاگیا ہے ۔ اس نے زندگی کے چالیس برس اہل مکہ میں بڑی عزت کے ساتھ امین ،صادق کی حیثیت سے بسر کئے ہیں۔ اس کی زندگی دیکھنے والے ذرا بھی انصاف سے کا م لیں تو اس کو مجنوں و دیوانہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: علیہ السلام یہ کتابیں ں کے لئے نازل ہو یہ کتاب نے والا ہے اور
پڑھیں:
ایسا کیوں ؟
سوشل میڈیا پر بسا اوقات ایسی ایسی تحریریں پڑھنے کو مل جاتی ہیں جو مشتمل ہوتی تو صرف چند لائنوں پر ہیں لیکن مفہوم کے لحاظ سے سمندر کی گہرائی سمیٹے ہوتی ہیں۔ آج کچھ اس طرح کا تجربہ اس وقت ہوا جب فیس بک پر موجود ایک دوست رئوف امیر نے یہ کہہ کر پوسٹ لگائی کہ شہر سارا تلاوت میں مصروف ہے لیکن موسم کے تیور بدلتے نہیں، یہ سنا ہے کہ پہلے یہیں ایک شخص نے کلمہ پڑھا اور ہوا چل پڑی واہ!سبحان اللہ کیا کہنے!نہ صرف دو سطروں میں 1947ء اور 2025 ء کا تقابلی جائزہ پیش کر دیا بلکہ قیام پاکستان کے دن سے لے کر آج تک گمراہی، بے راہ روی اور اخلاقی بدحالی کی وہ طویل داستان جس کو بیان کرنے کے لئے کئی ابواب کی ضرورت پڑ سکتی ہے اس کو اس مختصر پیرائے میں اس طرح بیان کر دیا کہ اس اسلوب پر بڑے سے بڑا تاریخ دان بھی داد دئیے بغیر نہ رہ سکیں۔کلمہ پڑھنے پر یاد آیا قیام پاکستان کے وقت سب سے زیادہ صرف ایک نعرہ کی گونج ہی سنائی دیتی تھی۔ قارئین آپ بخوبی جانتے ہیں وہ نعرہ کیا تھا پاکستان کا مطلب کیا لاا ِلہ ا ِلا اللہ اور آپ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ یہ نعرہ کس شخص نے لگایا تھا اور یہ کلمہ کس ہستی نے پڑھا تھا جس پر پوری قوم اس کے ساتھ چل پڑی تھی وہ کوئی اور نہیں تھا اس شخص کا نام تھا قائداعظم محمد علی جناحؒ، یہ تو تھی وہ تاریخی حقیقت جو آپ کے سامنے رکھ دی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی قوت وہ کون سی کشش تھی جس پر پوری قوم لبیک کہتی اس شخص کے ساتھ باہر نکل آئی۔ بتاتا چلوں کہ یہ خاکسار اپنے کئی کالموں میں جو وہ ایک اور قومی اخبار کے لئے بھی لکھتا ہے کئی بار ان میں اس بات کا تذکرہ کر چکا کہ راقم کا ایک دوست تھا آغا ریاض السلام جو اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ آغا کا ذکر آئے تو پھر راجہ پرویز اشرف کا نام نہ لیا جائے تو یہ بہت بڑی زیادتی ہو گی اور جس وجہ سے خاکسار یہ کہہ رہا ہے کہ آغا کا نام آئے تو راجہ پرویز اشرف کا نام نہ آئے تو وہ یہ ہے کہ ان دونوں کا راولپنڈی کی سیاست میں بڑا نام اور پھر پارٹی سے وابستگی کے ساتھ ساتھ ایک اور مشرک صفت بھی تھی جس سے بہت کم دوست آشنا ہوں ۔ مزہ کی وہ بات یہ کہ سیاست کے ساتھ ساتھ روحانیت سے ان دونوں اشخاص کا شدید لگائو اپنے اندر کئی داستانیں سمیٹے ہوئے ہے جس پر پھر کبھی مفصل بات ہو گی۔
آغا کے ساتھ خاکسار کی اکثر نشستیں وقت کی قید سے آزاد اس قدر طوالت اختیار کر جاتی تھیں کہ ہمیں خود حیرت ہوتی تھی کہ ہماری ملاقاتوں میں وقت کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے اور ہمیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ یہ 1995 ء کی بات ہے ایک دن ہماری نشست کا آغاز رات کوئی نو بجے شروع ہوا اور اگلے دن جب فجر کی اذان سنائی دی تو ہمیں وقت کا احساس ہوا جس پر راقم نے آغا سے کہا کہ مرشد اذانیں شروع ہو گئی ہیں اور رات کس طرح بڑھاپے کی منزل طے کر گئی ہمیں پتا ہی نہیں چلا جس پر آغا کہنے لگا کہ جھلے عابدہ پروین کی گائیکی میں وہ شعر سنا ہے رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے پھر وہ یوں گویا ہوا کہ یاد رکھ اچھا انسان جب بولتا ہے تو اس کے اندر کی پاکیزگی اس کی باتوں کے ذریعے اردگرد کے ماحول کو اس قدر معطر بنا دیتی ہے کہ اس محفل میں بیٹھے لوگ اس کی باتوں کے سحر میں اس طرح ڈوب جاتے ہیں کہ انہیں وقت کی بندش کا احساس ہی نہیں رہتا جبکہ اس کے برعکس اخلاقی بدحالی کا شکار شخص جب بولتا ہے تو اس کے اندر کی غلاظت اس کے اردگرد کے ماحول کو اس طرح تعفن زدہ کر دیتی ہے کہ ساتھ بیٹھے لوگوں کی بیزاری کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ اس نشست میں دو منٹ بھی بیٹھنا پسند نہیں کرتے۔ آغا کہنے لگا کہ اب پتا چلا شاعر نے باتوں سے خوشبو کا استعارہ کس سینس میں استعمال کیا ۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے آغا کہنے لگا کہ یہ تاریخی حقائق موجود ہیں اور سب جانتے ہیں کہ قائداعظمؒ کوئی بہت بڑا شعلہ بیان مقرر نہیں تھے اور ان کے اکثر خطاب انگریزی یا بہت ہی ضعیف یا شکستہ اردو میں ہوتے تھے لیکن پھر بھی لاکھوں کا مجمع زبان کو نہ سمجھنے کے باوجود گھنٹوں کھڑے اس سوٹڈ بوٹڈ آدمی کو خاموشی سے سنتا تھا، آخر وہ کیا وجہ تھی وہ کون سا جادو تھا وہ اس کی ذات کا کون سا کرشمہ تھا۔ آغا جذباتی انداز میں بولے جا رہا تھا کہ یہ قائد کے اندر کی کمٹمنٹ، سچائی اور پاکیزگی تھی جو فضا کو اس قدر معطر کر دیتی تھی، یہ اس کی باتوں سے آنے والی خوشبوں کا معجزہ تھا کہ صرف اس ایک شخص کے کلمہ حق کہنے پر پوری قوم اس کے پیچھے چل پڑی تھی۔
آج جب رئوف امیر کی پوسٹ نظر سے گزری تو اندر کے انسان نے کہا کہ اس کے ایک ایک لفظ کا طواف کرو اور اپنے قارئین کو بتائو کہ وہ کیا صفات تھیں جس کی وجہ سے ایک شخص کے کلمہ حق کہنے پر ہوائیں چل پڑتی تھیں اور آج قحط الرجال کا وہ مقام کیوں کہ بڑے بڑے دانشور ، سیاستدان، عالم فاضل شعلہ بیانی کی حدوں کو چھوتے سفید چغوں میں ملبوس بڑی بڑی دستاریں سجائے جب قوم کے سامنے اپنی دوکانیں سجانے اتے ہیں تو لوگوں کا جلسے جلوسوں میں جا کر انہیں سننا تو کجا گھروں میں بیٹھے ان ٹی وی چینلوں کو سوئچ آف کر دینا کس بات کی منادی دیتا ہے ۔ غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ یہ سب ان کے اندر بسی چالاکیوں ، خود غرضییوں ،تعصب ، حرص، لالچ کی اس غلاظت کی وجہ سے ہوتا ہے جس نے ملک کی فضا ء کو اس قدر پراگندہ کر دیا ہوا ہے ہے کہ اس تعفن میں موسم بدلنا تو دور کی بات سانس لینا اور زندہ رہنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ قارئین شائد راقم کا یہ کالم رئوف امیر کی اس پوسٹ شہر سارا تلاوت میں مصروف ہے لیکن موسم کے تیور بدلتے نہیں، یہ سنا ہے کہ پہلے یہیں ایک شخص نے کلمہ پڑھا اور ہوا چل پڑی کا تسلی بخش جواب دے سکا ہو کہ ایسا کیوں ؟