سب سے بڑا مُنہ کھولنے والی خاتون، نیا عالمی ریکارڈ قائم
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
الاسکا کی ایک خاتون نے اپنے بڑے سائز کے مُنہ کی وجہ سے عالمی ریکارڈ قائم کرلیا ہے۔
میری پرل نامی خاتون کا منہ دندان ساز کے ذریعے ناپا گیا اور اپنے 2.98 انچ کھُلے منہ کے ساتھ انہوں نے نیا گنیز ورلڈ ریکارڈ قائم کردیا۔
@guinnessworldrecordsLargest mouth gape (female): 7.59 cm (2.98 in) - Marie Pearl Zellmer Robinson ????????
♬ original sound - Guinness World Records - Guinness World Recordsکیچکن کی رہائشی میری پرل زیلمر رابنسن نے کہا کہ وہ ہمیشہ سے جانتی تھیں کہ ان کا منہ بڑا ہے، لیکن اس وقت تک اس پر غور نہیں کیا تھا کہ یہ ایک عالمی ریکارڈ ہو سکتا ہے جب تک کہ انہوں نے پچھلے ریکارڈ ہولڈر، سمانتھا رامسڈیل کی ایک ویڈیو نہیں دیکھی، جس کے کھُلے منہ ک پیمائش 2021 میں 2.
انہوں نے بتایا کہ میں نے صرف چند بار ویڈیوز دیکھی ہیں۔ اور میں ایسی ہی ہوں، یہ مضحکہ خیز ہے۔ جتنا بڑا مُنہ سابق ریکارڈ ہولڈر کا تھا، اتنی بڑی چیز تو میں اپنے منہ میں فٹ کر سکتی ہوں۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
جب ایک فلسطینی خاتون کی آواز سینکڑوں کانفرنسوں سے زیادہ بلند ہو جائے!
مصر کے ایک ہسپتال میں زخمی فلسطینی خاتون کے الفاظ اسوقت مزاحمت کی علامت بن کر جبری نقل مکانی کے تمام منصوبوں کیخلاف سینکڑوں کانفرنسوں سے زیادہ فصیح و بلیغ انداز میں احتجاج کرتے ہوئے دنیا بھر کی توجہ کو ان انسانیت سوز پالیسیوں اور انکے بھیانک نتائج کیجانب مبذول کرنے لگے جب مصری و فرانسیسی صدور اسکی عیادت کیلئے وہاں پہنچے! اسلام ٹائمز۔ "بس مجھے غزہ واپس جانے دو!" یہ الفاظ مصر کے ایک ہسپتال میں زیر علاج اس زخمی فلسطینی خاتون کے ہیں جس کی عیادت کو مصری و فرانسیسی صدور عبدالفتاح السیسی اور ایمانوئل میکرون وہاں پہنچے تھے۔۔ ایسے الفاظ کہ جنہوں نے عالمی سطح پر بڑے پیمانے پر توجہ حاصل کی اور سوشل میڈیا صارفین نے اس پر پڑھ چڑھ کر ردعمل کا اظہار کیا۔ سوشل میڈیا صارفین کے لئے اس فلسطینی خاتون کا "صحت یابی کے بعد غزہ کی پٹی میں واپسی کے لئے اصرار" اور "اپنی پاک سرزمین سے جبری بے دخلی کی اٹل مخالفت"، کہ جس کے لئے تمام فلسطینی اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کو تیار ہیں، انتہائی توجہ کا مرکز بنی۔
اس حوالے سے جاری ہونے والے ویڈیو کلپس میں مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی اپنے فرانسیسی ہم منصب ایمانوئل میکرون کے ہمراہ غزہ کی پٹی کے زخمیوں کی عیادت کا منظر دیکھا جا سکتا ہے کہ جو مصری شہر عریش کے ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں، جس پر اظہار خیال کرتے ہوئے بہت سے صارفین و بلاگرز نے اس منظر کو "مزاحمت کی علامت" قرار دیا، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں کہ جب غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کو زبردستی بے دخل کر دینے کی سازشیں تیار کی جا رہی ہیں! مصری ہسپتال میں موجود زخمی فلسطینی بچوں سے لے کر بوڑھوں تک، سبھی نے میکرون و السیسی کے ساتھ گفتگو میں "وسیع پیمانے پر تباہی کے باوجود غزہ واپسی"، "اپنی سرزمین میں باقی رہنے" اور یہاں تک کہ "وہیں مرنے" کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ بہت سے سوشل میڈیا صارفین نے اس عیادت کی ویڈیوز کو دوبارہ پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ "میں آپ کو حقیقت کے ساتھ روبرو کروں گا!"
فلسطینی زخمیوں کی وائرل ہونے والی ویڈیوز میں پہلا کلپ اس زخمی فلسطینی خاتون کا ہے کہ جس کی ریڑھ کی ہڈی کو وحشیانہ صیہونی بمباری کی وجہ سے شدید نقصان پہنچا اور اس کی دونوں ٹانگیں مفلوج ہو گئی ہیں۔ اس فلسطینی خاتون کا کہنا تھا کہ "میں غزہ واپس جانا چاہتی ہوں۔۔ میں اپنا علاج مکمل ہونے کے بعد اپنے وطن کی مٹی کو چومنا چاہتی ہوں۔۔ غزہ میں اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔۔ کچھ بھی میرے وطن کی مٹی کی جگہ نہیں لے سکتا"! فلسطینی خاتون اپنی آنکھوں میں آنسو لئے مزید کہتی ہے کہ "میں اپنے بچوں کے پاس واپس جانا چاہتی ہوں۔۔ میں چاہتی ہوں کہ جب میں مروں تو جنگ میں شہید ہونے والے اپنے بچوں کے پاس دفن ہوں۔۔ میں اپنے وطن واپس جانا چاہتی ہوں۔۔ میں اپنے وطن کی مٹی کو چومنا چاہتی ہوں"!
-
اس بارے ایک مصری صارف ڈاکٹر سلوی السوبی (پروفیسر فوجداری قوانین و کیسیشن وکیل) کا لکھنا تھا کہ یہ منظر دنیا بھر میں پہنچے گا۔۔ ہسپتال سے جو تصویر سامنے آئی ہے وہ ہزار کانفرنسوں سے بھی زیادہ بڑھ کر پیغام پہنچا رہی ہے۔ یہ "آنکھ کے بدلے آنکھ" کی پالیسی ہے، میں وضاحت نہیں کروں گی۔۔ بلکہ آپ کو حقیقت کے روبرو لا کھڑا کروں گی!۔۔ یہ سیاسی ذہانت کا عروج ہے کہ وہ آج "نرم دباؤ" کے لئے "انسانیت" کو ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ ایک ایسا ہتھکنڈہ کہ جو ممالک کے موقف کو بدل اور تنظیموں کی خاموشی کو توڑ ڈالتا ہے۔۔ یہانتک کہ مغربی رائے عامہ کو بھی دوبارہ غور کرنے پر مجبور کر دیتا ہے!! معاذ، ایک زخمی فلسطینی بچہ، بھی "غزہ میں واپسی" اور اس کی "تعمیر نو" کے اپنے خواب کے بارے ایسے الفاظ کہتا ہے کہ جو امید سے بھرے ہوئے ہیں اور جن کا وزن خود اس کی اپنی تمام عمر سے کہیں بڑھ کر ہے۔ معاذ کا کہنا تھا کہ ہم "غزہ واپس" جانا چاہتے ہیں اور اس کی "تعمیر نو" کرنا چاہتے ہیں، ان شاء اللہ!!
-
ان بیانات کو سوشل میڈیا پر زبردست پذیرائی ملی اور سوشل کے تمام میڈیا پلیٹ فارمز کے صارفین نے مظلوم فلسطینیوں کی اپنی سرزمین سے وابستگی اور کسی بھی حالت میں جبری نقل مکانی کے منصوبے کی اٹل مخالفت پر انتہائی حیرت کا اظہار کیا۔ اس بارے ایک صارف سجی علیان کا لکھنا ہے کہ صدور السیسی و میکرون کی جانب سے فلسطینی زخمیوں و بیماروں کے ساتھ ملاقات کی شائع ہونے والی تمام ویڈیوز میں زخمیوں کی اصلی خواہش "غزہ واپسی" ہی تھی جس کا انہوں نے علاج و معالجے اور صحت یابی کی خواہشات سے قبل اظہار کیا۔۔ "وطن واپسی" اور "جنگ کا خاتمہ" ہی ان کے دو بنیادی مطالبات تھے۔۔ گویا "جبری نقل مکانی" کے ان تمام منصوبوں پر کہ جو مغربی و اسرائیلی میڈیا میں ڈھٹائی کے ساتھ اٹھائے جا رہے ہیں، ان "مطالبات" کے باعث بڑے سوالیہ نشان لگ گئے ہیں!
فلسطینی صحافی محمد ہنیہ نے بھی ان ویڈیوز کو دوبارہ پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ ایک انسانیت پر مبنی اقدام ہے کہ جس کے بارے نہ تو فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ اور نہ ہی بیرون ملک فلسطینی سفارتخانوں میں سے کسی کو توفیق حاصل ہوئی! محمد ہنیہ نے لکھا کہ ایمانوئل میکرون، کہ جنہوں نے آج تک صرف ناجائز طور پر قابض غاصب صیہونیوں کی داستانیں ہی سنی تھیں، کی جانب سے عریش کے ہسپتالوں کا دورہ اور غزہ کے زخمیوں سے ان انسانی تفصیلات کو سننا، مایوسی و نا امیدی کے اس دور میں کہ جس میں ہم رہ رہے ہیں، ایک اہم قدم ہے!
ایک دوسرے فلسطینی صحافی عبداللہ الترکمانی کا بھی لکھنا تھا کہ اُن تمام جذبات کے باوجود کہ جو ہمارے اندر موجود ہیں، یہ ویڈیو غیر معمولی ہے اور ضروری تھی۔۔ ایک انسانی اور سیاسی پیغام کہ جس کے اظہار میں ہمارے بہت سے سیاسی رہنما بھی ناکام رہے ہیں! عبدالحکیم نامی ایک دوسرے صارف نے فلسطینی خواتین کے صبر و استقامت کے بارے لکھا کہ غزہ سے باہر نکلنے اور موت سے نجات پانے کے بعد بھی وہ غزہ واپس جانا چاہتی ہیں درحالیکہ جنگ جاری ہے۔۔ یہ کیسی جرأت، غیرت اور وقار ہے؟ یہی وہ چیز ہے کہ جسے دنیا کے بندے اور مادیت کے غلام کہ جو خود کو "مسلمان" کہتے ہیں، نہیں جانتے۔۔ اور وہ اسلام کے بارے بھی کچھ نہیں جانتے، ماسوائے حاکم کے! اس بارے رامی امام کا لکھنا تھا کہ اس زخمی فلسطینی خاتون کے الفاظ، کہ جو بستر پر لیٹی سرجری کی منتظر ہے جبکہ وہ ریڑھ کی ہڈی کے ٹوٹ جانے اور نچلے دھڑ کے مفلوج ہو جانے کا شکار ہے۔۔ اور اس کی ساتھی خاتون کے الفاظ کہ جو بستر کے قریب ہی کھڑی ہے۔۔ ان دونوں کی جانب سے، دونوں صدور کی موجودگی میں، اپنی "غزہ واپسی" اور جنگ میں شہید ہونے والے اپنے بچوں کے ہمراہ "غزہ میں دفن ہونے" کی خواہش کا اظہار۔۔ یہ تمام منظر؛ غزہ کے باشندوں کی جانب سے اپنی "جبری نقل مکانی" کی اٹل مخالفت کی غمازی کرتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس عیادت کے بعد، میکرون و السیسی کی جانب سے منعقد ہونے والی ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں غزہ میں جنگ کے فوری خاتمے، غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کی ترسیل، فلسطینی شہریوں کی حمایت و مدد اور فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کئے جانے کے تمام منصوبوں کی شدید مخالفت پر زور دیا گیا۔