ندا یاسر نے ٹی وی اور شوہر کا لیپ ٹاپ کیوں توڑا؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
معروف ٹی وی میزبان و اداکارہ ندا یاسر اور ان کے شوہر یاسر نواز کا شمار پاکستان کی مقبول اور کامیاب ترین جوڑیوں میں ہوتا ہے۔
حال ہی میں یاسر نواز نے اپنی بیوی کے غصے سے متعلق کچھ باتیں ٹی وی پر شیئر کی تھیں۔ یاسر نواز نے بتایا کہ ایک بار ان کا ندا سے کسی بات پر جھگڑا ہوا تھا اور وہ غصے تھیں۔
یاسر نواز کے مطابق ’میں نے اس دوران ٹی وی آن کیا اور آواز کو تیز کر دیا، ندا نے اس پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے ایک اسٹیل کی بوتل ٹی وی پر دے ماری، جس سے اسکرین ٹوٹ گئی‘۔
یہ بھی پڑھیں: غصہ آنے پر ندا یاسر کیا کرتی ہیں، یاسر نواز نے مخبری کردی
ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے یاسر نواز نے بتایا کہ ’ندا نے مجھ سے ڈرامے میں ایک اداکارہ کو کاسٹ نہ کرنے کا مطالبہ کیا، جب میں نے انکار کیا تو ندا نے شدید غصے میں آ کر میرا لیپ ٹاپ توڑ دیا‘۔
اب ندا یاسر نے ایک پروگرام میں لیپ ٹاپ توڑنے کی حیران کن وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’یاسر نواز نے اپنے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر ہیروئن کے ساتھ تصویر لگائی ہوئی تھی، وہ مجھے ایسے جلاتے تھے‘۔ ندا نے کہا کہ ’میں نے لیپ ٹاپ اس لیے توڑ دیا تاکہ یاسر آئندہ مجھے نہ جلائے‘۔
ٹی وی توڑنے سے متعلق ندا یاسر نے کہا کہ ’میں اپنے شوہر سے کسی بات پر ناراض تھی اور صبح میں نے مارننگ شو کے لیے آنا تھا لیکن یاسر نے ٹی وی کی آواز تیز کر دی جس پر مجھے غصہ آ گیا اور میں نے اپنا لایا ہوا ٹی وی ہی بوتل پھینک کر توڑ ڈالا‘۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
مارننگ شو ندا یاسر ندا یاسر غصہ یاسر نواز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ندا یاسر ندا یاسر غصہ یاسر نواز یاسر نواز نے ندا یاسر لیپ ٹاپ یاسر نے
پڑھیں:
ایسا کیوں ؟
سوشل میڈیا پر بسا اوقات ایسی ایسی تحریریں پڑھنے کو مل جاتی ہیں جو مشتمل ہوتی تو صرف چند لائنوں پر ہیں لیکن مفہوم کے لحاظ سے سمندر کی گہرائی سمیٹے ہوتی ہیں۔ آج کچھ اس طرح کا تجربہ اس وقت ہوا جب فیس بک پر موجود ایک دوست رئوف امیر نے یہ کہہ کر پوسٹ لگائی کہ شہر سارا تلاوت میں مصروف ہے لیکن موسم کے تیور بدلتے نہیں، یہ سنا ہے کہ پہلے یہیں ایک شخص نے کلمہ پڑھا اور ہوا چل پڑی واہ!سبحان اللہ کیا کہنے!نہ صرف دو سطروں میں 1947ء اور 2025 ء کا تقابلی جائزہ پیش کر دیا بلکہ قیام پاکستان کے دن سے لے کر آج تک گمراہی، بے راہ روی اور اخلاقی بدحالی کی وہ طویل داستان جس کو بیان کرنے کے لئے کئی ابواب کی ضرورت پڑ سکتی ہے اس کو اس مختصر پیرائے میں اس طرح بیان کر دیا کہ اس اسلوب پر بڑے سے بڑا تاریخ دان بھی داد دئیے بغیر نہ رہ سکیں۔کلمہ پڑھنے پر یاد آیا قیام پاکستان کے وقت سب سے زیادہ صرف ایک نعرہ کی گونج ہی سنائی دیتی تھی۔ قارئین آپ بخوبی جانتے ہیں وہ نعرہ کیا تھا پاکستان کا مطلب کیا لاا ِلہ ا ِلا اللہ اور آپ کو یہ بھی یاد ہو گا کہ یہ نعرہ کس شخص نے لگایا تھا اور یہ کلمہ کس ہستی نے پڑھا تھا جس پر پوری قوم اس کے ساتھ چل پڑی تھی وہ کوئی اور نہیں تھا اس شخص کا نام تھا قائداعظم محمد علی جناحؒ، یہ تو تھی وہ تاریخی حقیقت جو آپ کے سامنے رکھ دی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی قوت وہ کون سی کشش تھی جس پر پوری قوم لبیک کہتی اس شخص کے ساتھ باہر نکل آئی۔ بتاتا چلوں کہ یہ خاکسار اپنے کئی کالموں میں جو وہ ایک اور قومی اخبار کے لئے بھی لکھتا ہے کئی بار ان میں اس بات کا تذکرہ کر چکا کہ راقم کا ایک دوست تھا آغا ریاض السلام جو اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ آغا کا ذکر آئے تو پھر راجہ پرویز اشرف کا نام نہ لیا جائے تو یہ بہت بڑی زیادتی ہو گی اور جس وجہ سے خاکسار یہ کہہ رہا ہے کہ آغا کا نام آئے تو راجہ پرویز اشرف کا نام نہ آئے تو وہ یہ ہے کہ ان دونوں کا راولپنڈی کی سیاست میں بڑا نام اور پھر پارٹی سے وابستگی کے ساتھ ساتھ ایک اور مشرک صفت بھی تھی جس سے بہت کم دوست آشنا ہوں ۔ مزہ کی وہ بات یہ کہ سیاست کے ساتھ ساتھ روحانیت سے ان دونوں اشخاص کا شدید لگائو اپنے اندر کئی داستانیں سمیٹے ہوئے ہے جس پر پھر کبھی مفصل بات ہو گی۔
آغا کے ساتھ خاکسار کی اکثر نشستیں وقت کی قید سے آزاد اس قدر طوالت اختیار کر جاتی تھیں کہ ہمیں خود حیرت ہوتی تھی کہ ہماری ملاقاتوں میں وقت کتنی تیزی سے گزر جاتا ہے اور ہمیں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ یہ 1995 ء کی بات ہے ایک دن ہماری نشست کا آغاز رات کوئی نو بجے شروع ہوا اور اگلے دن جب فجر کی اذان سنائی دی تو ہمیں وقت کا احساس ہوا جس پر راقم نے آغا سے کہا کہ مرشد اذانیں شروع ہو گئی ہیں اور رات کس طرح بڑھاپے کی منزل طے کر گئی ہمیں پتا ہی نہیں چلا جس پر آغا کہنے لگا کہ جھلے عابدہ پروین کی گائیکی میں وہ شعر سنا ہے رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے پھر وہ یوں گویا ہوا کہ یاد رکھ اچھا انسان جب بولتا ہے تو اس کے اندر کی پاکیزگی اس کی باتوں کے ذریعے اردگرد کے ماحول کو اس قدر معطر بنا دیتی ہے کہ اس محفل میں بیٹھے لوگ اس کی باتوں کے سحر میں اس طرح ڈوب جاتے ہیں کہ انہیں وقت کی بندش کا احساس ہی نہیں رہتا جبکہ اس کے برعکس اخلاقی بدحالی کا شکار شخص جب بولتا ہے تو اس کے اندر کی غلاظت اس کے اردگرد کے ماحول کو اس طرح تعفن زدہ کر دیتی ہے کہ ساتھ بیٹھے لوگوں کی بیزاری کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ اس نشست میں دو منٹ بھی بیٹھنا پسند نہیں کرتے۔ آغا کہنے لگا کہ اب پتا چلا شاعر نے باتوں سے خوشبو کا استعارہ کس سینس میں استعمال کیا ۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے آغا کہنے لگا کہ یہ تاریخی حقائق موجود ہیں اور سب جانتے ہیں کہ قائداعظمؒ کوئی بہت بڑا شعلہ بیان مقرر نہیں تھے اور ان کے اکثر خطاب انگریزی یا بہت ہی ضعیف یا شکستہ اردو میں ہوتے تھے لیکن پھر بھی لاکھوں کا مجمع زبان کو نہ سمجھنے کے باوجود گھنٹوں کھڑے اس سوٹڈ بوٹڈ آدمی کو خاموشی سے سنتا تھا، آخر وہ کیا وجہ تھی وہ کون سا جادو تھا وہ اس کی ذات کا کون سا کرشمہ تھا۔ آغا جذباتی انداز میں بولے جا رہا تھا کہ یہ قائد کے اندر کی کمٹمنٹ، سچائی اور پاکیزگی تھی جو فضا کو اس قدر معطر کر دیتی تھی، یہ اس کی باتوں سے آنے والی خوشبوں کا معجزہ تھا کہ صرف اس ایک شخص کے کلمہ حق کہنے پر پوری قوم اس کے پیچھے چل پڑی تھی۔
آج جب رئوف امیر کی پوسٹ نظر سے گزری تو اندر کے انسان نے کہا کہ اس کے ایک ایک لفظ کا طواف کرو اور اپنے قارئین کو بتائو کہ وہ کیا صفات تھیں جس کی وجہ سے ایک شخص کے کلمہ حق کہنے پر ہوائیں چل پڑتی تھیں اور آج قحط الرجال کا وہ مقام کیوں کہ بڑے بڑے دانشور ، سیاستدان، عالم فاضل شعلہ بیانی کی حدوں کو چھوتے سفید چغوں میں ملبوس بڑی بڑی دستاریں سجائے جب قوم کے سامنے اپنی دوکانیں سجانے اتے ہیں تو لوگوں کا جلسے جلوسوں میں جا کر انہیں سننا تو کجا گھروں میں بیٹھے ان ٹی وی چینلوں کو سوئچ آف کر دینا کس بات کی منادی دیتا ہے ۔ غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ یہ سب ان کے اندر بسی چالاکیوں ، خود غرضییوں ،تعصب ، حرص، لالچ کی اس غلاظت کی وجہ سے ہوتا ہے جس نے ملک کی فضا ء کو اس قدر پراگندہ کر دیا ہوا ہے ہے کہ اس تعفن میں موسم بدلنا تو دور کی بات سانس لینا اور زندہ رہنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ قارئین شائد راقم کا یہ کالم رئوف امیر کی اس پوسٹ شہر سارا تلاوت میں مصروف ہے لیکن موسم کے تیور بدلتے نہیں، یہ سنا ہے کہ پہلے یہیں ایک شخص نے کلمہ پڑھا اور ہوا چل پڑی کا تسلی بخش جواب دے سکا ہو کہ ایسا کیوں ؟