امریکا بمقابلہ چین: یہ جنگ دنیا کو کہاں لے جائے گی؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT
ہماری جدید تاریخ کی سب سے بڑی تجارتی جنگ شروع ہوچکی ہے۔ ایک ایسی جنگ جو یقینی طور پر بہت کچھ بدل دے گی۔ ممکن ہے طاقت کا توازن بھی تبدیل ہو اور نئے رولز آف گیم ایجاد ہوں۔
امریکی صدر ٹرمپ کے طوفانی اقدامات نے دنیا بھر کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہر جگہ تجزیہ کار، ماہرین تجزیہ کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کی دنیا میں کون بچے گا اور کون مصیبت کا شکار ہوجائے گا؟ یہ بھی سوچااور کہا جارہا ہے کہ لانگ ٹرم کا تو پتا نہیں، شارٹ ٹرم پر خود امریکی عوام کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں، افراط زر بڑھ جائے گی، ان کی قوت خرید پر بھی اثر پڑے گا اور اگر روزمرہ استعمال کی اشیا مہنگی ہوئیں تو پھر اس سے بھی امریکی عوام کے لائف سٹائل پر فرق پڑے گا۔
کچھ لوگ ممکن ہے اسے ٹرمپ کی اندھا دھند پالیسی قرار دیں، مگر شاید ایسا نہیں ہے۔ یہ ایک باقاعدہ سوچی سمجھی امریکی پالیسی ہے، ادارہ جاتی پالیسی جس کا ایک مقصد اور ٹارگٹ ہے۔ البتہ اسے جس بھونڈے طریقے اور عجلت کے انداز میں کیا گیا ہے، اس سے زیادہ مسائل پیدا ہوئے۔
یہ سب وہی ہے جو امریکا نے ایک زمانے میں سوویت یونین کے ساتھ کیا تھا۔ وہ بھی طاقت کی جنگ تھی اورآج جو ہو رہا ہے وہ بھی جنگ کا ایک اور فیز، ایک اور انداز ہے۔ 50 اور 60 کے عشرے میں امریکا نے مغربی دنیا کو ساتھ ملا کر کمیونسٹ سوویت یونین کے خلاف محاذ بنایا، چین تب سوویت یونین کے ساتھ تھا تو چین بھی سوویت یونین (روس ) کے ساتھ ہی رگڑا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا ٹیرف بم
60 کے عشرے میں جب سوویت یونین کا چین کے ساتھ اختلاف ہوا، روسی ماہرین چین چھوڑ کر چلے گئے، چینیوں کو اپنے طور پر سب کچھ کرنا پڑا، نیوکلیئر ہتھیاروں سے لے کر انڈسٹری وغیرہ تک۔ تب امریکی ماہرین نے سوچا کہ چین کو سوویت یونین سے الگ کر کے انگیج کیا جائے۔
امریکا کے لیجنڈری وزیرخارجہ ہنری کسنجر بھی یہی سوچتے تھے۔ چین کے ساتھ خفیہ سفارت کاری کا ڈول ڈالا گیا۔ پاکستان نے اپنا کردار ادا کیا اور یوں امریکا نے چین کو تسلیم کر لیا۔ انگیجمنٹ شروع ہوگئی۔ تب چین اپنے پرانے سوشلسٹ ماڈل ہی پر چل رہا تھا تو مغربی دنیا کے ساتھ اس طرح مکس نہ ہوسکا۔ پھر جب جدید چین کے بانی ڈینگ ژیاؤ پنگ نے اپنی معاشی اصلاحات شروع کیں، بتدریج نجی ملکیت کی راہ ہموار کی گئی، چین میں خوشحالی آنے لگی تو فرق مٹتا گیا۔ نائن الیون کے بعد کی دنیا میں چین ڈبلیو ٹی او کا حصہ بنا اور تب مغرب نے چین کو اپنے جدید معاشی نظام کا حصہ مان لیا۔ چین میں خوشحال اور دولت مندہ طبقہ پیدا ہوا، بڑے بزنس مین پیدا ہونے لگے۔ تب ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ چین ایک نئی معاشی طاقت بن رہا ہے اور ممکن ہے آگے جا کر معاشی سپر پاور بن جائے۔ چینی قیادت نے مگر تب عقلمندی کی کہ خود کو مغرب کا مخالف بنانے کے بجائے ان کے لیے معاون اور سہولت کار بن گیا، کسی بھی قسم کے تنازع اور تصادم سے دور رہا۔ جوڑ توڑ اور افریقہ سمیت دیگر براعظموں میں اپنی انویسٹمنٹ کی وہ کوششیں بھی تب نہیں کی تھیں جو برسوں بعد میں کیں۔ مغربی کمپینوں نے چین کو اپنی بڑی منڈی سمجھا، وہاں کی سستی اور اسکلڈ لیبر اور دیگر ارزاں سہولتوں کا فائدہ اٹھا کر دیو ہیکل امریکی اور یورپی کمپنیاں دھڑا دھڑ چین پہنچ گئیں۔ ادھر چین نے امریکی ٹرژری بلز میں کئی سو ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ کر کے بھی اپنی افادیت ثابت کی۔ یوں مغرب کے جدید معاشی نظام کا فائدہ اٹھا کر چینی قیادت نے اپنی ملک کو ایک بڑی معاشی طاقت بنا ڈالا۔ چین نے خود کو ایسا بنا لیا کہ اگر اسے گرانے کی کوشش کی جائے تو امریکا بھی بری طرح متاثر ہو۔ اسی وجہ سے مختلف امریکی صدور چاہنے کے باوجود چین کے خلاف آل آؤٹ وار پر نہ جا سکے۔ اس دیوانگی کے لیے دراصل ٹرمپ جیسا غیر محتاط اور سب کچھ کر گزرنے والا شخص ہی درکار تھا۔ چین اور دنیا کی بدقسمتی کہ وہ شخص نہ صرف امریکی صدر بن گیا بلکہ اسے طاقتور ترین صدر کی حیثیت بھی حاصل ہوگئی۔
مزید پڑھیے: افغان طالبان پاکستان کے مخالف کیوں؟
ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر پروفیسر ہنٹنگٹن نے سنہ 1997 میں کتاب لکھ دی تھی کہ آخر کار مغربی تہذیب کے مقابلے میں چینی تہذیب ہی کھڑی ہوگی اور تب اسے مسلم ممالک کی سپورٹ حاصل ہو گی جبکہ انڈین اور جاپانی تہذیبیں تب مغرب کے ساتھ ہوں گی۔ آج نقشہ کم وبیش ویسا ہی ہے ، سوائے اس کے مسلم ممالک یا مسلم امہ تین میں ہے نہ تیرہ میں۔ اس کے کسی کیمپ میں ہونے، نہ ہونے سے کچھ فرق ہی نہیں پڑ رہا۔ جاپان اور انڈیا وہیں کھڑے ہیں جہاں پروفیسر ہنٹنگٹن کا اندازہ تھا۔
ایک اور امریکی پروفیسر فرانسس فوکویاما نے سنہ 1992 میں کتاب لکھی تھی، اینڈ آف ہسٹری اینڈ لاسٹ مین۔ فوکویاما کا کہنا تھا کہ سوویت یونین کے ٹوٹ جانے سے دنیا میں نظریات اور تہذیبوں کا ٹکراؤ ایک طرح سے ختم ہوگیا ہے۔ اب دنیا کے پاس لبرل ڈیموکریسی ہی واحد آپشن بچی ہے، اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ اس لیے یہ اینڈ آف ہسٹری ہے۔ فوکو یاما کو اندازہ نہیں ہوگا کہ چین آگے جا کر لبرل ڈیموکریسی سے کنارہ کشی کرتے ہوئے اپنا ہی ایک یونیک سا ماڈل پیش کرے گا اور اسے چلا کر بھی دکھا دے گا۔
معذرت کے بحث تھوڑی مشکل، تھوڑی علمی ہوگئی، مگر یہ ضروری تھا۔ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ امریکا نے اب یہ فیصلہ کر لیا ہےکہ چین کو ماڈرن معاشی نظام سے باہر کر کے اس کی معاشی قوت کو گھٹایا جائے اور کینڈے میں لانے کی کوشش کی جائے۔ ٹرمپ کا اصل ٹارگٹ چین ہی تھا، یہ تو اب مزید واضح ہوگیا ہے جب باقی ممالک کا ٹیرف 3 ماہ کے لیے ملتوی کر کے چین پر مزید ٹیرف لگا دیے گئے ہیں۔
چین نے بھی خم ٹھونک کر مقابلے کا اعلان کر دیا ہے۔ وہ بھی جوابی ٹیرف بڑھاتا جا رہا ہے اور بقول صدر ٹرمپ چین امریکا کی عزت نہیں کر رہا۔ لگتا ہے چینی یک طرفہ عزت دینے کے قائل نہیں۔ وہ سوچتے ہوں گے کہ اگر ٹرمپ نے عزت کرانی ہے تو پھر اسے ہماری عزت بھی کرنی چاہیے۔
یہ وہ سوچ ہے جو کسی بھی عزت دار آدمی یا ملک کی ہوسکتی ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ عالمی تعلقات اور تجارتی جنگوں میں اخلاقیات اور ارفع اصولوں سے کہیں زیادہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس کے پاس کتنے اچھے کارڈز ہیں اور وہ کتنی طاقت رکھتا ہے اور جنگ کس قدر طویل کرنے کی صلاحیت اور سکت رکھتا ہے۔
صدر ٹرمپ چین کے خلاف جس پلان پر عمل پیرا ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ اس میں امریکی تھنک ٹینکس کی کتنی ِان پٹ شامل ہے؟کیا ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ میں اتنی صلاحیت اور فہم وفراست ہے کہ وہ چین کو ناک آوٹ کر سکے؟ یہ ایسا اہم سوال ہے جس کا جواب چینیوں سمیت دنیا کے بیشتر ممالک کے سفارتی ماہرین کھوج رہے ہیں۔
ایک فیکٹر جو اہم ہے وہ یہ کہ صدر ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کی اکثریت امریکا فرسٹ اور امریکا سپریم کے نعرے کی بھی علمبردار ہے۔ یہ لوگ بہت عرصے سے ٹیرف وار کی حمایت کر رہے ہیں۔
ان کے خیال میں امریکا کے بلند ترین تجارتی خسارے کے پیچھے امریکی اتحادیوں اور یورپی ممالک کا بڑا ہاتھ ہے۔ کینیڈا، میکسیکو کے حوالے سے بھی ان کے شدید تحفظات تھے۔ اسی وجہ سے انہوں نے صدر ٹرمپ کو چین کے خلاف محاذ جنگ کھولنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر پر ٹیرف لگا کر ایک تجارتی جنگ عظیم شروع کر دینے کی ترغیب دی۔ اس سے امریکی سٹاک مارکیٹ کو جو دھچکا لگا، جس قدر شدید ردعمل آیا، اس نے لگتا ہے صدر ٹرمپ کو یہ سبق سکھایا کہ ٹھنڈا کر کے کھانا چاہیے اور پہلے چین سے نمٹ لیا جائے، دنیا بھر کو ٹیرف لگا کر سبق بعد میں بھی سکھایا جا سکتا ہے۔ سردست 3 ماہ کے لیے یہ ملتوی کر دیا گیا، لیکن یہ مت سمجھئے کہ بلا ٹل گئی ۔ نہیں، ایسا نہیں ۔ صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم جو سوچے بیٹھی ہے، اس پر عملدرآمد کرا کر چھوڑے گی۔ یہ البتہ ممکن ہے کہ مذاکرات کے نتیجے میں امریکا کہیں ٹیرف کم کر دے، کہیں چھوڑ دے اور کہیں رہنے دے۔
مزید پڑھیں: امریکا سکستھ جنریشن فائٹر طیارہ کیوں بنا رہا ہے؟
اصل جنگ امریکا اور چین کی ہے۔ یہ ابھی شروع ہوئی ہے۔ اس میں شدت آنی ہے۔ اصل مشکل امریکی کمپنیوں کے لیے پیدا ہوئی ہے جنہیں صدر ٹرمپ واپس امریکا آنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ چین صرف فیکٹریاں لگانے کی جگہ ہی نہیں تھی بلکہ وہ ایک بڑی مارکیٹ بھی ہے۔ چینی حکومت نے عقلمندی سے چین کے اندر مقامی طور پر ایک بڑی مارکیٹ پیدا کر لی ، خوشحال چینی طبقات اور طاقتور مڈل کلاس وہاں پیدا ہوچکی ہے جو امریکی اور یورپی اشیا کی خریدار ہے۔ امریکی کمپنیاں اگر چین چھوڑ کر امریکہ واپس جاتی ہیں تو پھر ان کی پراڈکٹ پر اتنا بڑا چینی ٹیرف لگ جائے گا کہ وہ چینی مارکیٹ میں فزیبل نہیں رہیں گی۔
ابھی تو جنگ شروع ہوئی ہے، پہلا راؤنڈ سمجھ لیں۔ دونوں اطراف سے بہت کچھ ہوگا۔ کچھ انتظار کر لیتے ہیں۔
مجھے لگ رہا ہے کہ تجارتی جنگ آگے جا کر کہیں نہ کہیں عسکری ٹکراؤ کی شکل بھی اختیار کرے گی۔ ڈائریکٹ نہ سہی، اِن ڈائریکٹ ہی سہی۔ امریکی ساختہ اور چینی ساختہ ہتھیاروں کی آزمائش بھی کئی جگہوں پر ہوگی۔ اس میں فتح یاب رہنے والا ملک ایڈوانٹیج لے گا۔
پاکستانی حکومت بڑی محتاط ہے۔ اس نے ٹرمپ کے ٹیرف پر کچھ بھی نہیں کہا اور مذاکرات کی آپشن اپنائی۔ یہ درست حکمت عملی ہے، مگر پاکستان کے لیے اس بار چین اور امریکہ میں بیلنس کرنا آسان نہیں۔ جب آگ بھڑکے گی تب واضح پوزیشن لینا پڑے گی۔
ہم اپنے عسکری معاملات کے لیے چین کی طرف ہی دیکھتے ہیں۔ ہمارا اصل حریف انڈیا امریکی اسٹریٹجک اتحادی بن چکا ہے، وہ اب امریکی ہتھیار بھی برتے گا۔ ہم جواب تب ہی دے سکتے ہیں، اگر ہمیں چینی پریمیئر ہتھیار(مثلا جے 20، جے 35 فائٹر طیارے) حاصل ہوپائیں۔ اس لیے ہمیں آخر کار چین کی طرف ہی کھڑا ہونا پڑے گا۔ تاہم جتنا وقت ہم لے سکتے ہیں، لینا چاہیے، ممکن ہے حالات کوئی اور رخ اختیار کر جائیں اور ہماری بچت ہوجائے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔
ٹیرف جنگ ٹیرف وار چین امریکا ٹیرف وار چین امریکا لڑائی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ٹیرف جنگ ٹیرف وار چین امریکا ٹیرف وار تجارتی جنگ امریکا نے کے ساتھ پیدا ہو کے خلاف ممکن ہے رہے ہیں کہ چین اور ان چین کے چین کو رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
سوشل میڈیا پر اسرائیل مخالف پوسٹیں کرنے والوں کیلئے امریکا کے دروازے بند
واشنگٹن: امریکی امیگریشن حکام نے اعلان کیا ہے کہ وہ افراد جو سوشل میڈیا پر یہود مخالف مواد شیئر کرتے ہیں، انہیں امریکا کا ویزا یا رہائشی اجازت نامہ جاری نہیں کیا جائے گا۔
یہ فیصلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی نئی پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقصد ایسے غیر ملکیوں کو امریکا میں داخل ہونے سے روکنا ہے جو یہود دشمن سرگرمیوں یا دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرتے ہیں۔
محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کی سیکریٹری کرسٹی نوم نے بیان میں کہا کہ "اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ امریکا آکر آئین کی پہلی ترمیم کا سہارا لے کر یہود دشمنی اور دہشت گردی کی حمایت کرے گا تو وہ غلط فہمی میں ہے۔ ایسے افراد کو امریکا میں خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔"
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر حماس، حزب اللہ یا حوثی جیسے گروہوں کی حمایت میں پوسٹس کرنے والے افراد کی سرگرمیوں کو ویزا اور گرین کارڈ جاری کرنے میں منفی عنصر تصور کیا جائے گا۔
یہ پالیسی فوری طور پر نافذ العمل ہوگی اور امریکا میں طلبا کے ویزوں اور مستقل رہائش کی درخواستوں پر لاگو ہوگی۔ سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو نے انکشاف کیا ہے کہ وہ پہلے ہی تقریباً 300 افراد کے ویزے منسوخ کر چکے ہیں۔
متاثرہ افراد کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے کبھی یہودیوں سے نفرت کا اظہار نہیں کیا، بلکہ وہ صرف مظاہروں میں موجود تھے۔ سب سے نمایاں واقعہ نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے طالبعلم محمود خلیل کی ملک بدری کا ہے جو امریکا کا مستقل رہائشی تھا۔
ادھر ٹرمپ انتظامیہ نے متعدد یونیورسٹیوں کو وفاقی فنڈنگ سے بھی محروم کر دیا ہے، جن پر غزہ تنازعے کے دوران مظاہروں میں یہود دشمنی کو روکنے میں ناکامی کا الزام ہے۔