Express News:
2025-04-13@15:39:31 GMT

دنیا کا مظلوم ترین بادشاہ

اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT

غالب نے کہا ہے:

شمع بجھتی ہے تو اس میں دھواں اٹھتا ہے

شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد

 یہی حال مغلیہ سلطنت کا بھی ہوا، آخری وقت میں جب بہادر شاہ ظفر نے رنگون کے قید خانے میں دم توڑا تو ساری محفل سیہ پوش ہوگئی۔ مغلوں کا اقتدار ختم ہوگیا اور ہندوستان پوری طرح انگریزوں کے قبضے میں آگیا۔ وہ ہندوستان جس میں موجودہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور برما کے چند علاقے شامل تھے، آل تیمورکی پانچویں نسل کے سپوت ظہیرالدین بابر کی سلطنت تھے۔ ظہیرالدین بابر نے مغلیہ سلطنت کی بنیاد ڈالی۔

انگریز فرخ سیر کے زمانے سے چالیں چل رہے تھے، بہادر شاہ ظفرکو انگریزوں کے ایما پر بادشاہ بنایا گیا، اصل وارث بادشاہت کا مرزا جہانگیر تھا، لیکن وہ کسی بھی طور انگریزوں کو پسند نہیں کرتا تھا۔ بہادر شاہ ظفر کے والد اکبر شاہ ثانی کی چہیتی بیگم ممتاز محل، ان بیگم کے چہیتے بیٹے تھے۔ مرزا جہانگیر جنھیں وہ وارث تخت و تاج بنانا چاہتی تھیں لیکن مرزا جہانگیر چونکہ انگریزوں کو ناپسند کرتے تھے اور انھوں نے ایک دفعہ انگریز حاکم اعلیٰ اسٹیفن پر اپنا پستول بھی چلا دیا تھا، اس لیے وہ انگریزوں کے لیے قابل قبول نہ تھے۔

بہادر شاہ ظفر ولی عہد تھے، بہادر شاہ کی پوری جوانی اور ادھیڑ عمری تخت و تاج کی راہ تکتے گزری۔ وہ باسٹھ سال کی عمر میں تخت نشین ہوئے، اس وقت مغلوں کا جاہ و جلال رخصت ہو رہا تھا، حکومت تباہ اور خزانے خالی تھے۔ مثل مشہور تھی کہ ’’سلطنت شاہ عالم از دلّی تا پالم‘‘ یعنی صرف چند میل کی بادشاہت رہ گئی تھی۔ بہادر شاہ کہنے کو تو بادشاہ تھے لیکن بالکل بے دست و پا تھے، فرنگی سرکار کے وظیفہ خوار تھے۔ لال حویلی کے باہر بادشاہ کا حکم نہیں چلتا تھا، اگر کوئی ان کے پاس فریاد لے کر آتا تو بہادر شاہ ظفر کہتے ’’بھئی! انگریزوں کی عدالت میں جاؤ۔‘‘ لیکن اس بے بسی کے باوجود دلّی والے ہی نہیں باہر والے بھی بادشاہ سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔

بہادر شاہ 24 اکتوبر سن 1775 میں دلّی میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام اکبر شاہ ثانی اور والدہ کا نام لال بائی تھا جوکہ راجپوت تھیں۔ بہادر شاہ کا پورا نام ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ تھا۔ ان کی تعلیم دلّی میں ہی ہوئی،گھڑ سواری اور تیر اندازی کی تربیت حاصل کی، ان کے والد اور دادا شاعر تھے، شعرگوئی سے رغبت انھیں ورثے میں ملی۔ انھوں نے شاعری کی تربیت شاہ نصیر سے لی، پھر ان کے جانے کے بعد غالب اور ذوق سے فن شعر گوئی کی اصلاح لیتے رہے۔ بہادر شاہ ظفر کی چار بیگمات تھیں، اختر محل، اشرف محل،تاج محل اور زینت محل۔ زینت محل آخری وقت تک بادشاہ کے ساتھ رہیں۔ بہادر شاہ ظفر کے 22 یا 26 بیٹے تھے جن میں مرزا جواں بخت، دارا بخت، مرزا مغل، مرزا خضر سلطان اور مرزا فتح الملک زیادہ جانے جاتے تھے۔

بادشاہت کیا تھی بدنصیبی تھی، وہ بس نام کے بادشاہ تھے ان کی حیثیت شطرنج کے بادشاہ کی تھی، وہ خود فرنگی سرکار کا مہرا تھے، تیموری دبدبہ لال قلعے میں محصور ہوگیا تھا، ملک ملکہ کا تھا حکم کمپنی بہادر کا چلتا تھا۔ بہادر شاہ ظفر کو اپنی بے بسی کا شدت سے احساس تھا مگر وہ اس کا کوئی تدارک نہیں کرسکتے تھے کیونکہ انھیں پنشن انگریز سرکار سے ملتی تھی۔ اقتدار کی خواہش اور محلات کی ریشہ دوانیاں بادشاہ کو لے ڈوبیں۔ جب انگریزوں کی فوجیں دلّی پر چڑھ دوڑیں تو بادشاہ اپنے دو بیٹوں کے ساتھ ہمایوں کے مقبرے میں جا چھپے، لیکن کرنل ہڈسن نے انھیں گرفتار کیا اور رنگون بھیج دیا تاکہ وہاں بادشاہ پر مقدمہ چلایا جاسکے۔

دلّی فتح ہو چکی تھی اور آل تیمورکا آخری بادشاہ پابہ زنجیر تھا۔ کرنل ہڈسن نے بہادر شاہ ظفر کو لال قلعے واپس چلنے کو کہا تو بوڑھا بادشاہ خوش ہوگیا، وہ اپنے چھ بیٹوں کے ساتھ فینس میں بیٹھ گیا، جب خونی دروازہ آیا تو ہڈسن نے شہزادوں کو باہر نکلنے کو کہا اور ایک ایک کر کے چھ کے چھ شہزادوں کو موت کی نیند سلا دیا اور بوڑھے بادشاہ کو رنگون بھجوا دیا گیا، جہاں انھوں نے اپنی بیگم زینت محل کے ساتھ درد ناک پل گزارے۔ ہڈسن نے چھ جوان بیٹوں کے سر کاٹ کر ایک طشت میں رکھے اوپر سے کپڑا ڈالا اور بادشاہ سے کہا ’’ہم تمہارے لیے نذر لایا ہے۔‘‘ بادشاہ نے کپڑا ہٹا کر دیکھا تو وہ ان کے بیٹوں کے سر تھے۔ اس کے بعد دلّی روتی رہی۔ شاعر ان پر شعر کہتے رہے، میر صاحب کا ایک شعر ہے:

دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے

جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی

بہادر شاہ ظفر اعلیٰ پائے کے شاعر تھے، ان کی بادشاہت کے دوران محل میں شاعری کی محفلیں جما کرتی تھیں، بڑے بڑے نام ور شعرا شرکت کرتے تھے۔ غالب، ذوق، مومن اور دوسرے بہت سے۔ خود بادشاہ بھی شعر کہتے تھے۔ ان کے چار دیوان موجود ہیں۔ ظفر کی شاعری ان کے دل کی کتھا ہے۔ ان کی شاعری میں سوز و گداز اور رنج و الم نمایاں نظر آتا ہے، جیسے یہ شعر:

وہ رعایا ہند تباہ ہوئی کہوں کیسے ان سے جفا ہوئی

جسے دیکھا حاکم وقت نے،کیا یہ بھی قابلِ دار ہے

گئی یک بہ یک جو ہوا پلٹ، نہیں دل کو میرے قرار ہے

کروں غم ستم کا میں کیا بیاں میرا غم سے سینہ فگار ہے

یہ کسی نے ظلم کبھی ہے سنا،کہ دی پھانسی لوگوں کو بے گناہ

وہی کلمہ گویوں کی سمت سے ابھی دل میں ان کے غبار ہے

میرا رنگ روپ بگڑ گیا میرا یار مجھ سے بچھڑ گیا

جو چمن خزاں سے اجڑ گیا میں اسی کی فصل بہار ہوں

٭……٭

میں نہیں ہوں نغمۂ جانفزا، مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا

میں بڑے بروگ کی ہوں صدا میں بڑے دکھی کی پکار ہوں

 اور ذرا یہ شعر دیکھیے جو ظفر کی زندگی کا ہولناک سچ ہے:

کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے

دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں

یا یہ شعر:

ظفر آدمی اس کو نہ جانیے جو ہو کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا

جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی، جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا

کوئی آ کے شمع جلائے کیوں کوئی آ کے اشک بہائے کیوں؟

کوئی آ کے پھول چڑھائے کیوں، میں وہ بے کسی کا مزار ہوں

نہ تھا شہر دہلی یہ تھا اک چمن کہو کس طرح کا تھا یاں امن

جو خطاب تھا وہ مٹا دیا، فقط اب تو اجڑا دیار ہے

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں

جو کسی کے کام نہ آ سکے، میں وہ اک مشتِ غبار ہوں

مجھے دفن کر چکو جس گھڑی، تو یہ اس سے کہنا کہ اے پری

وہ جو ترا عاشق زار تھا، تہہ خاک اس کو دبا دیا

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بہادر شاہ ظفر بیٹوں کے کے ساتھ

پڑھیں:

امریکا بمقابلہ چین: یہ جنگ دنیا کو کہاں لے جائے گی؟

ہماری جدید تاریخ کی سب سے بڑی تجارتی جنگ شروع ہوچکی ہے۔ ایک ایسی جنگ جو یقینی طور پر بہت کچھ بدل دے گی۔ ممکن ہے طاقت کا توازن بھی تبدیل ہو اور نئے رولز آف گیم ایجاد ہوں۔

امریکی صدر ٹرمپ کے طوفانی اقدامات نے دنیا بھر کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہر جگہ تجزیہ کار، ماہرین تجزیہ کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کی دنیا میں کون بچے گا اور کون مصیبت کا شکار ہوجائے گا؟ یہ بھی سوچااور کہا جارہا ہے کہ لانگ ٹرم کا تو پتا نہیں، شارٹ ٹرم پر خود امریکی عوام کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں، افراط زر بڑھ جائے گی، ان کی قوت خرید پر بھی اثر پڑے گا اور اگر روزمرہ استعمال کی اشیا مہنگی ہوئیں تو پھر اس سے بھی امریکی عوام کے لائف سٹائل پر فرق پڑے گا۔

کچھ لوگ ممکن ہے اسے ٹرمپ کی اندھا دھند پالیسی قرار دیں، مگر شاید ایسا نہیں ہے۔ یہ ایک باقاعدہ سوچی سمجھی امریکی پالیسی ہے، ادارہ جاتی پالیسی جس کا ایک مقصد اور ٹارگٹ ہے۔ البتہ اسے جس بھونڈے طریقے اور عجلت کے انداز میں کیا گیا ہے، اس سے زیادہ مسائل پیدا ہوئے۔

یہ سب وہی ہے جو امریکا نے ایک زمانے میں سوویت یونین کے ساتھ کیا تھا۔ وہ بھی طاقت کی جنگ تھی اورآج جو ہو رہا ہے وہ بھی جنگ کا ایک اور فیز، ایک اور انداز ہے۔ 50 اور 60 کے عشرے میں امریکا نے مغربی دنیا کو ساتھ ملا کر کمیونسٹ سوویت یونین کے خلاف محاذ بنایا، چین تب سوویت یونین کے ساتھ تھا تو چین بھی سوویت یونین (روس ) کے ساتھ ہی رگڑا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا ٹیرف بم

60 کے عشرے میں جب سوویت یونین کا چین کے ساتھ اختلاف ہوا، روسی ماہرین چین چھوڑ کر چلے گئے، چینیوں کو اپنے طور پر سب کچھ کرنا پڑا، نیوکلیئر ہتھیاروں سے لے کر انڈسٹری وغیرہ تک۔ تب امریکی ماہرین نے سوچا کہ چین کو سوویت یونین سے الگ کر کے انگیج کیا جائے۔

امریکا کے لیجنڈری وزیرخارجہ ہنری کسنجر بھی یہی سوچتے تھے۔ چین کے ساتھ خفیہ سفارت کاری کا ڈول ڈالا گیا۔ پاکستان نے اپنا کردار ادا کیا اور یوں امریکا نے چین کو تسلیم کر لیا۔ انگیجمنٹ شروع ہوگئی۔ تب چین اپنے پرانے سوشلسٹ ماڈل ہی پر چل رہا تھا تو مغربی دنیا کے ساتھ اس طرح مکس نہ ہوسکا۔ پھر جب جدید چین کے بانی ڈینگ ژیاؤ پنگ نے اپنی معاشی اصلاحات شروع کیں، بتدریج نجی ملکیت کی راہ ہموار کی گئی، چین میں خوشحالی آنے لگی تو فرق مٹتا گیا۔ نائن الیون کے بعد کی دنیا میں چین ڈبلیو ٹی او کا حصہ بنا اور تب مغرب نے چین کو اپنے جدید معاشی نظام کا حصہ مان لیا۔ چین میں خوشحال اور دولت مندہ طبقہ پیدا ہوا، بڑے بزنس مین پیدا ہونے لگے۔ تب ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ چین ایک نئی معاشی طاقت بن رہا ہے اور ممکن ہے آگے جا کر معاشی سپر پاور بن جائے۔ چینی قیادت نے مگر تب عقلمندی کی کہ خود کو مغرب کا مخالف بنانے کے بجائے ان کے لیے معاون اور سہولت کار بن گیا، کسی بھی قسم کے تنازع اور تصادم سے دور رہا۔ جوڑ توڑ اور افریقہ سمیت دیگر براعظموں میں اپنی انویسٹمنٹ کی وہ کوششیں بھی تب نہیں کی تھیں جو برسوں بعد میں کیں۔ مغربی کمپینوں نے چین کو اپنی بڑی منڈی سمجھا، وہاں کی سستی اور اسکلڈ لیبر اور دیگر ارزاں سہولتوں کا فائدہ اٹھا کر دیو ہیکل امریکی اور یورپی کمپنیاں دھڑا دھڑ چین پہنچ گئیں۔ ادھر چین نے امریکی ٹرژری بلز میں کئی سو ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ کر کے بھی اپنی افادیت ثابت کی۔ یوں مغرب کے جدید معاشی نظام کا فائدہ اٹھا کر چینی قیادت نے اپنی ملک کو ایک بڑی معاشی طاقت بنا ڈالا۔ چین نے خود کو ایسا بنا لیا کہ اگر اسے گرانے کی کوشش کی جائے تو امریکا بھی بری طرح متاثر ہو۔ اسی وجہ سے مختلف امریکی صدور چاہنے کے باوجود چین کے خلاف آل آؤٹ وار پر نہ جا سکے۔ اس دیوانگی کے لیے دراصل ٹرمپ جیسا غیر محتاط اور سب کچھ کر گزرنے والا شخص ہی درکار تھا۔ چین اور دنیا کی بدقسمتی کہ وہ شخص نہ صرف امریکی صدر بن گیا بلکہ اسے طاقتور ترین صدر کی حیثیت بھی حاصل ہوگئی۔

مزید پڑھیے: افغان طالبان پاکستان کے مخالف کیوں؟

ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر پروفیسر ہنٹنگٹن نے سنہ 1997 میں کتاب لکھ دی تھی کہ آخر کار مغربی تہذیب کے مقابلے میں چینی تہذیب ہی کھڑی ہوگی اور تب اسے مسلم ممالک کی سپورٹ حاصل ہو گی جبکہ انڈین اور جاپانی تہذیبیں تب مغرب کے ساتھ ہوں گی۔ آج نقشہ کم وبیش ویسا ہی ہے ، سوائے اس کے مسلم ممالک یا مسلم امہ تین میں ہے نہ تیرہ میں۔ اس کے کسی کیمپ میں ہونے، نہ ہونے سے کچھ فرق ہی نہیں پڑ رہا۔ جاپان اور انڈیا وہیں کھڑے ہیں جہاں پروفیسر ہنٹنگٹن کا اندازہ تھا۔

ایک اور امریکی پروفیسر فرانسس فوکویاما نے سنہ 1992 میں کتاب لکھی تھی، اینڈ آف ہسٹری اینڈ لاسٹ مین۔ فوکویاما کا کہنا تھا کہ سوویت یونین کے ٹوٹ جانے سے دنیا میں نظریات اور تہذیبوں کا ٹکراؤ ایک طرح سے ختم ہوگیا ہے۔ اب دنیا کے پاس لبرل ڈیموکریسی ہی واحد آپشن بچی ہے، اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ اس لیے یہ اینڈ آف ہسٹری ہے۔ فوکو یاما کو اندازہ نہیں ہوگا کہ چین آگے جا کر لبرل ڈیموکریسی سے کنارہ کشی کرتے ہوئے اپنا ہی ایک یونیک سا ماڈل پیش کرے گا اور اسے چلا کر بھی دکھا دے گا۔

معذرت کے بحث تھوڑی مشکل، تھوڑی علمی ہوگئی، مگر یہ ضروری تھا۔ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ امریکا نے اب یہ فیصلہ کر لیا ہےکہ چین کو ماڈرن معاشی نظام سے باہر کر کے اس کی معاشی قوت کو گھٹایا جائے اور کینڈے میں لانے کی کوشش کی جائے۔ ٹرمپ کا اصل ٹارگٹ چین ہی تھا، یہ تو اب مزید واضح ہوگیا ہے جب باقی ممالک کا ٹیرف 3 ماہ کے لیے ملتوی کر کے چین پر مزید ٹیرف لگا دیے گئے ہیں۔

چین نے بھی خم ٹھونک کر مقابلے کا اعلان کر دیا ہے۔ وہ بھی جوابی ٹیرف بڑھاتا جا رہا ہے اور بقول صدر ٹرمپ چین امریکا کی عزت نہیں کر رہا۔ لگتا ہے چینی یک طرفہ عزت دینے کے قائل نہیں۔ وہ سوچتے ہوں گے کہ اگر ٹرمپ نے عزت کرانی ہے تو پھر اسے ہماری عزت بھی کرنی چاہیے۔

یہ وہ سوچ ہے جو کسی بھی عزت دار آدمی یا ملک کی ہوسکتی ہے۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ عالمی تعلقات اور تجارتی جنگوں میں اخلاقیات اور ارفع اصولوں سے کہیں زیادہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس کے پاس کتنے اچھے کارڈز ہیں اور وہ کتنی طاقت رکھتا ہے اور جنگ کس قدر طویل کرنے کی صلاحیت اور سکت رکھتا ہے۔

صدر ٹرمپ چین کے خلاف جس پلان پر عمل پیرا ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ اس میں امریکی تھنک ٹینکس کی کتنی ِان پٹ شامل ہے؟کیا ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ میں اتنی صلاحیت اور فہم وفراست ہے کہ وہ چین کو ناک آوٹ کر سکے؟ یہ ایسا اہم سوال ہے جس کا جواب چینیوں سمیت دنیا کے بیشتر ممالک کے سفارتی ماہرین کھوج رہے ہیں۔

ایک فیکٹر جو اہم ہے وہ یہ کہ  صدر ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کی اکثریت امریکا فرسٹ اور امریکا سپریم کے نعرے کی بھی علمبردار ہے۔ یہ لوگ بہت عرصے سے ٹیرف وار کی حمایت کر رہے ہیں۔

ان کے خیال میں امریکا کے بلند ترین تجارتی خسارے کے پیچھے امریکی اتحادیوں اور یورپی ممالک کا بڑا ہاتھ ہے۔ کینیڈا، میکسیکو کے حوالے سے بھی ان کے شدید تحفظات تھے۔ اسی وجہ سے انہوں نے صدر ٹرمپ کو چین کے خلاف محاذ جنگ کھولنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر پر ٹیرف لگا کر ایک تجارتی جنگ عظیم شروع کر دینے کی ترغیب دی۔ اس سے امریکی سٹاک مارکیٹ کو جو دھچکا لگا، جس قدر شدید ردعمل آیا، اس نے لگتا ہے صدر ٹرمپ کو یہ سبق سکھایا کہ ٹھنڈا کر کے کھانا چاہیے اور پہلے چین سے نمٹ لیا جائے، دنیا بھر کو ٹیرف لگا کر سبق بعد میں بھی سکھایا جا سکتا ہے۔ سردست 3 ماہ کے لیے یہ ملتوی کر دیا گیا، لیکن یہ مت سمجھئے کہ بلا ٹل گئی ۔ نہیں، ایسا نہیں ۔ صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم جو سوچے بیٹھی ہے، اس پر عملدرآمد کرا کر چھوڑے گی۔ یہ البتہ ممکن ہے کہ مذاکرات کے نتیجے میں امریکا کہیں ٹیرف کم کر دے، کہیں چھوڑ دے اور کہیں رہنے دے۔

مزید پڑھیں: امریکا سکستھ جنریشن فائٹر طیارہ کیوں بنا رہا ہے؟

اصل جنگ امریکا اور چین کی ہے۔ یہ ابھی شروع ہوئی ہے۔ اس میں شدت آنی ہے۔ اصل مشکل امریکی کمپنیوں کے لیے پیدا ہوئی ہے جنہیں صدر ٹرمپ واپس امریکا آنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ چین صرف فیکٹریاں لگانے کی جگہ ہی نہیں تھی بلکہ وہ ایک بڑی مارکیٹ بھی ہے۔ چینی حکومت نے عقلمندی سے چین کے اندر مقامی طور پر ایک بڑی مارکیٹ پیدا کر لی ، خوشحال چینی طبقات اور طاقتور مڈل کلاس وہاں پیدا ہوچکی ہے جو امریکی اور یورپی اشیا کی خریدار ہے۔ امریکی کمپنیاں اگر چین چھوڑ کر امریکہ واپس جاتی ہیں تو پھر ان کی پراڈکٹ پر اتنا بڑا چینی ٹیرف لگ جائے گا کہ وہ چینی مارکیٹ میں فزیبل نہیں رہیں گی۔

ابھی تو جنگ شروع ہوئی ہے، پہلا راؤنڈ سمجھ لیں۔ دونوں اطراف سے بہت کچھ ہوگا۔ کچھ انتظار کر لیتے ہیں۔

مجھے لگ رہا ہے کہ تجارتی جنگ آگے جا کر کہیں نہ کہیں عسکری ٹکراؤ کی شکل بھی اختیار کرے گی۔ ڈائریکٹ نہ سہی، اِن ڈائریکٹ ہی سہی۔ امریکی ساختہ اور چینی ساختہ ہتھیاروں کی آزمائش بھی کئی جگہوں پر ہوگی۔ اس میں  فتح یاب رہنے والا ملک ایڈوانٹیج لے گا۔

پاکستانی حکومت بڑی محتاط ہے۔ اس نے ٹرمپ کے ٹیرف پر کچھ بھی نہیں کہا اور مذاکرات کی آپشن اپنائی۔ یہ درست حکمت عملی ہے، مگر پاکستان کے لیے اس بار چین اور امریکہ میں بیلنس کرنا آسان نہیں۔ جب آگ بھڑکے گی تب واضح پوزیشن لینا پڑے گی۔

ہم اپنے عسکری معاملات کے لیے چین کی طرف ہی دیکھتے ہیں۔ ہمارا اصل حریف انڈیا امریکی اسٹریٹجک اتحادی بن چکا ہے، وہ اب امریکی ہتھیار بھی برتے گا۔ ہم جواب تب ہی دے سکتے ہیں، اگر ہمیں چینی پریمیئر ہتھیار(مثلا جے 20، جے 35 فائٹر طیارے) حاصل ہوپائیں۔ اس لیے ہمیں آخر کار چین کی طرف ہی کھڑا ہونا پڑے گا۔ تاہم جتنا وقت ہم لے سکتے ہیں، لینا چاہیے، ممکن ہے حالات کوئی اور رخ اختیار کر جائیں اور ہماری بچت ہوجائے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

ٹیرف جنگ ٹیرف وار چین امریکا ٹیرف وار چین امریکا لڑائی

متعلقہ مضامین

  • دنیا پر ٹرمپ کا قہر
  • دنیا کا سب سے بڑا فارم ہاؤس، جو 49 ممالک سے بھی بڑا ہے
  • مادیت کی زنجیروں سے نجات
  • ملتان، جے یو آئی کے زیراہتمام مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاجی مظاہرہ 
  • ملکہ کمیلا نے بادشاہ چارلس کے ساتھ 20 سالہ خوشگوار ازدواجی زندگی کا راز بتا دیا
  • پاکستان کے علماء کرام نے غزہ میں مظلوم فلسطینیوں کیلئے جہاد کا اعلان کردیا، شاداب نقشبندی
  • کرسٹیانو رنالڈو نے فلمی دنیا میں قدم رکھ دیا
  • امریکا بمقابلہ چین: یہ جنگ دنیا کو کہاں لے جائے گی؟
  • ٹرمپ کا ٹیرف پر خوش آئند اقدام