Express News:
2025-04-13@00:55:05 GMT

ہے اپنے ہاتھ میں اپنا گریباں

اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT

8اپریل2025 کی دوپہر جب اسلام آباد کے جناح کنونشن سینٹر میں وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت Pakistan Minerals Investment Forum کے عنوان سے ایک بین الاقوامی کانفرنس ہو رہی تھی، عین اُس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے باہر پی ٹی آئی نے اپنا ’’ تماشہ‘‘ لگا رکھا تھا ۔ اور اُسی وقت کراچی میں ایک منفرد سیاسی ’’تماشہ‘‘ یوں لگا تھا کہ ایم کیوایم کی سینئر قیادت (جن میں ایک وفاقی وزیر بھی شامل تھے) سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت اور کراچی میئر کے خلاف سخت زبان کی حامل پریس کانفرنس کررہی تھی۔ اوراُسی وقت بلوچستان کے کوہستانی علاقوں میں سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان، اختر مینگل، کی قیادت میں شوریدگی پر آمادہ ایک جلوس وفاقی حکومت اور بلوچستان حکومت کے خلاف نعرہ زَن تھا۔ اور عین اُسی وقت ایک پانچواں ’’تماشہ‘‘ سندھ میں یوں لگ رہاتھا کہ سندھ حکومت اور کئی سندھی قوم پرست جماعتیں مبینہ6نہروں کے بارے وفاقی حکومت کے خلاف سڑکیں گرم کررہے تھے۔ اوراِنہی ہاؤ ہُو کے مناظرمیں ایک منظر یہ بھی دکھائی دے رہا تھا کہ پاکستان بھر سے افغان مہاجرین سمیت غیر قانونی غیر ملکیوں کوبے دخل کیا جارہا تھا۔

ایسے متنوع منظر نامے اور جھگڑوں میں قومی یکجہتی اور اتفاق کا عنصر تلاش کیا جائے تو کیسے اور کیونکر؟ایسے پُر شور اور شوریدہ سر ماحول میں وفاقی حکومت نے اگر اسلام آباد میں ’’ پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم‘‘ کے زیر عنوان دو روزہ (8تا9اپریل)بھرپور کانفرنس کا انعقاد کیا ہے تو اِسے غیر معمولی مثبت اقدام قرار دیا جانا چاہیے ۔ اِس کانفرنس میں 300کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی وفود نے شرکت بھی کی ہے اور پاکستان سے معدنیات نکالنے میں بھاری سرمایہ کاری کا اظہار بھی کیا ہے ۔ امریکیوں نے بھی اِس میں شرکت کی ہے ۔ اِس اہم کانفرنس سے و زیر اعظم شہباز شریف، نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے مفصّل خطاب کیا ۔ اِن خطابات کے جملہ مندرجات ہمارے میڈیا میں شائع اور نشر ہو چکے ہیں ۔

اِن مندرجات کا غائر نظر سے جائزہ لیا جائے تو ایک عنصر مشترکہ طور پر نکھر کر سامنے آتا ہے کہ اگر پاکستان کے چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان کے پہاڑوں ، میدانوں اور ریگزاروں میں چھپی قیمتی معدنیات کو نکال لیا جائے تو ہمارے سارے دلدّر دُور ہو جائیں گے۔بقول وزیر اعظم شہباز شریف، یہ معدنیات کھربوں ڈالرز مالیت کی ہیں اور اِن کی بدولت ہم اپنے تمام غیر ملکی قرضوں سے نجات بھی حاصل کر سکتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے آئی ایم ایف کے چنگل سے بھی چھُوٹ سکتے ہیں۔آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی ایک خوشنما نوید اِن الفاظ میں سنائی ہے:’’پاکستان عالمی معدنی معیشت کی قیادت کے لیے تیار ہے۔‘‘

اگر وزیر اعظم صاحب و دیگر مقررین صاحبان کے جملہ دعوے نہائت رُوح افزا، دلکش او ر دلکشا ہیں۔ لیکن اِس خواب کی تعبیر تب ہی ممکن ہے اگر وطنِ عزیز میں پائیدار امن قائم ہو۔ اگر ہمارے سیاسی استحکام میں کوئی دراڑ نہ پڑے ۔ اگر آئے روز اڈیالہ جیل کے باہر تماشے نہ لگائے جائیں ۔

یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ جب8اور 9 اپریل2025 کو اسلام آباد میں محولا بالا کانفرنس ہورہی تھی، اڈیالہ جیل کے باہر بانی پی ٹی آئی کی تینوں محترم ہمشیرگان و دیگران نے جو تماشہ لگایا ، اِس کی بازگشت کانفرنس مذکور کے شرکت کنندگان کے کانوں تک نہیں پہنچی ہوگی؟مذکورہ کانفرنس کے شرکت کنندگان نے وہ شور ِ اور شوریدگی نہیں سُنی اور دیکھی ہوگی جو سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت اور سندھی قوم پرستوں نے مبینہ نہروں کی اساس پر اُٹھا رکھی ہے؟ جو بلوچستان میں اختر مینگل نے احتجاجی ڈھول بجا رکھا ہے ؟ جو ایم کیو ایم سندھ حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ہے؟ اِس شور اور اُٹھائی گئی دھول میں معدنیات نکالنے کوئی غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کا رُخ کریگا تو کیونکر؟

اس تاریخ ساز کانفرنس میں پاکستان کے تینوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ تو شریک ہُوئے مگر خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کی عدم شرکت ایک بار پھر نئے سوالات کھڑی کر گئی ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی ایک ہمشیرہ ، محترمہ علیمہ خان، نے تو غیر مبہم الفاظ میں اِس کانفرنس کے خلاف ایک کھلا بیان یوں دیا ہے: اگر عمران خان جیل میں بند رہے تو پھر ایسی کانفرنس میں ہماری شرکت کا فائدہ؟ پی ٹی آئی نے بلوچستان کے دہشت گردوں کے ہاتھوں جعفر ایکسپریس کے اغوا کے بعد اسلام آباد میں ہونے والی قومی کانفرنس میں بھی شرکت سے انکار کر دیا تھا۔

اور اب پی ٹی آئی نے منرلز کانفرنس میں بھی شرکت نہ کرکے اپنے مرکزِ گریز ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔ لاریب اِس عدم شرکت سے پاکستان تحریکِ انصاف نے اپنے دامن پر ایک اور دھبہ لگا لیا ہے ۔ پی ٹی آئی کے اندرونی حلقوں اور مرکزی قیادت میں نااتفاقیوں، جھگڑوںاور سرپھٹول نے جو لاتعداد تماشے لگا رکھے ہیں، یہ مناظر اپنی جگہ حیرت انگیز ہیں ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بانی صاحب اِن مناظر کے سامنے بے بس ہیں ۔

 پی ٹی آئی کے باطنی جھگڑے روز افزوں ہیں۔ یہ جھگڑے پی ٹی آئی کو روز بروز اپنے عشاق عوام سے دُور بھی کررہے ہیں اور پی ٹی آئی اپنی محوری طاقت بھی کھو رہی ہے ۔ یہ پارٹی کے لیے غیر معمولی خسارہ ہے ۔ پی ٹی آئی کے تین سینئر قائدین( سلمان اکرم راجہ، اعظم سواتی اور علی امین گنڈا پور) کی جانب سے اپنے ہی ساتھیوں پر جو تازہ الزامات سامنے آئے ہیں، اِن سے یہ خسارہ اور نقصان دو چند ہو گیا ہے۔ ایسے میں جب خیبر پختونخوا کی ’’داخلی احتساب کمیٹی‘‘ کی طرف سے تیمور سلیم جھگڑا ( کے پی میں پی ٹی آئی کے سابق وزیر خزانہ و صحت) پر جب 36ارب روپے کی مبینہ بد عنوانیوں کا الزام عائد کیا گیا تو اِس الزام کی بازگشت دُور و نزدیک صاف سنائی دی گئی ۔

پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی تو اپنے جملہ سیاسی حریفوں کو ’’چور‘‘ کہتی رہی ہے اور ستم ظریفی دیکھئے کہ اب یہی سیاہ داغ خود پی ٹی آئی پر پی ٹی آئی کی قیادت کے ہاتھوں لگ رہے ہیں ۔ تیمور جھگڑا پر کرپشن کا مبینہ الزام سب کو حیران کر گیا ہے۔ تیمور جھگڑا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔وہ سابق صدرِ پاکستان، غلام اسحاق خان ، کے نواسے ہیں ۔ جنوری 2019کو ’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ نے اپنے ایک تفصیلی آرٹیکل میں لکھا ہے کہ تیمور خان جھگڑا جب پی ٹی آئی میں شامل ہُوئے تھے، اُس وقت وہ ممتاز عالمی ادارے Mckinseyکے پارٹنر تھے اور6لاکھ ڈالرز سالانہ تنخواہ لے رہے تھے (تقریباً17کروڑ روپے سالانہ، تقریباً 56لاکھ روپے ماہانہ)۔ ایسے جنٹلمین اور خوشحال شخص پر مذکورہ بالا الزام لگا ہے تو سب ششدر رہ گئے ہیں ۔

سب حیران ہیں اور یہ سوال کررہے ہیں کہ تیمور جھگڑا پر یہ الزام عائد کیے جانے کے عقب میں کیا مقاصد کارفرما ہیں؟ بعض تجزیہ کار اِس سوال کا یہ جواب بھی دیتے ہیں کہ تیمور جھگڑا دراصل علی امین گنڈا پور کے حقیقی سیاسی حریف ہیں۔ تیمور جھگڑا میں جو اوصاف پائے جاتے ہیں، وہ اُنہیں خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ قیافہ لگانے والے کہتے ہیں کہ تیمور جھگڑا کے خلاف الزام کا یہ راستہ کس نے اختیار کیا ہوگا ۔

تیمور جھگڑا نے پی ٹی آئی کی ’’داخلی احتساب کمیٹی ‘‘کی طرف سے چارج شیٹ ملنے پر جو مبینہ جواب داخل کیا ہے، اِس کی شدت کا مرکزی ہدف علی امین گنڈا پور ہیں۔ اُنھوں نے علی امین کے مالی معاملات پرانگشت نمائی کی ہے ۔ شنید ہے کہ تیمور جھگڑا کے خلاف مزید انکوائری فی الحال روک دی گئی ہے۔الزام تراشی کے یہ متنوع اور متعدد مناظر دراصل اِس امر کے بھی غماز ہیں کہ پی ٹی آئی کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا عمل تیزی سے جاری ہے ۔ پی ٹی آئی کی مرکزیت بکھر چکی ہے اور اِس کے باطن میں کئی قطب (Poles) بن چکے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے اندر تہمت تراشی زبیر علی تابش کے اِس شعر کی تفسیر بن گئی ہے:ہے اپنے ہاتھ میں اپنا گریباں/ نجانے کس سے جھگڑا کررہا ہُوں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی کی پی ٹی ا ئی کے کانفرنس میں اسلام ا باد حکومت اور علی امین غیر ملکی کے خلاف ہیں اور کیا ہے ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

قدم زمین پر ، ہاتھ آسمان پر

وہی راستہ، وہی راستے میںمقام قیام و طعام… لاہور کا سفر درپیش تھا۔ وہی مخصوص چائے کے دو کپ اور ساتھ سبزی کے پکوڑے جن کا بل چند ماہ پہلے سات سو آیا تھا اور اس روز تیرہ سو پچاس روپے، ٹال ٹیکس بھی کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے، اور تواور مانگنے والوں کا ریٹ بھی بڑھ گیا ہے۔

پہلے وہ دس اور بیس کے نوٹ قبول نہیں کرتے تھے اور اب وہ پچاس روپے بھی نہیں لیتے۔ جتنی دیر میں اس چھوٹے سے ریستوران سے نماز پڑھ کر اور چائے پی کر نکلے تو باہر حسب معمول بالٹی اور برش لیے ایک نحیف سا آدمی گاڑی کے پاس کھڑا تھا، ایسا لگے کہ اس نے ہماری گاڑی کے شیشے صاف کیے ہوں، اس کا مدعا اس کے منہ پر لکھا تھا۔ اسے سو روپے دیے تو اس کے چہرے کے تاثرات سے علم ہوا کہ اس کا عوضانہ بھی بڑھ چکا تھا، ایک اور لال نوٹ لے کر وہ گاڑی کے وائپر سیدھے کرنے لگا۔

چند مہینوں بلکہ ہفتوں میں ہی لگنے لگا ہے کہ ہم شاید بیچ کے کچھ ماہ سوئے رہے تھے کہ اب جاگے ہیں تو قیمتوں نے کئی اونچی چھلانگیں لگا کر آسمان کو چھو لیا ہے ۔ صاف علم ہوتا ہے کہ ملک میں چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام سرے سے ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو اسے چیک کرنے والوں کو اصل حقائق سے خاص دلچسپی نہیں ہے۔

ہم بھی کوئی ایسے نواب نہیں مگر ارد گرد دیکھ کر سمجھ میں نہیں آتا کہ عام لوگ کیسے گزارا کرتے ہیں۔ اگر کسی کی ماہانہ آمدنی، حکومت کے مقرر کردہ کم سے کم نر خوں کے مطابق بھی ہواور اس گھر میں چھ افراد رہتے ہوں، ظاہر ہے کہ اتنے لوگ تو کم ازکم ہوتے ہیں ان کے گھروں میں۔ ان سب کا پیٹ بھرنا، تن ڈھانکنا، بیماری اور تکلیف میںخرچ کرنا ، عیداور دیگر تقریبات، بچوں کی تعلیم کے اخراجات وغیرہ۔ کہاں سے یہ سب پورا ہوتا ہو گا؟؟ پورا مہینہ گھر میں پکتا کیا ہوگا؟؟ کوئی دال دیکھ لیں، سبزی اور گوشت لینا تو دور کی بات ہے۔

چند دن قبل میری ایک دوست نے بتایا کہ اس کے ہاں صفائی کا کام کرنے والی لڑکی پہلے ان کے باورچی خانے کے کوڑا دان میں سے چن کر سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے لے جاتی تھی اور اس کے پوچھنے پر بتایا کہ وہ سبزیو ں کے چھلکے دھو کر پکا لیتی تھی اور پھلوں کے چھلکے بچوں کو کھلا لیتی تھی۔ اسے دکھ ہوا کہ ان کے ہاں کا کوڑا بھی کسی غریب کا پیٹ بھرتا تھا۔

اس کے بعد وہ جب کبھی اپنے لیے سبزی لاتی ہے تو ساتھ کچھ زیادہ سبزی لے لیتی ہے کہ اس کی ملازمہ لے جائے مگر اس سبزی کے باوجود بھی وہ اس کے گھر کی سبزیوں اور پھلوں کے چھلکے لے جاتی ہے جو کہ اب اسے کوڑ ا دان میں سے نکالنا نہیں پڑتے ہیں کیونکہ اب میری دوست اس سے ہی سبزی کٹواتی ہے اور اسے کچھ فالتو رقم بھی دے دیتی ہے ۔ ہم سب اس کی تقلید کرسکتے ہیں کہ کام کرنے والیوں کو معمول میں کچھ فالتو سامان یا رقم دے دیا کریں مگر کام کرنے والیاں ملک کی آبادی کا کتنے فیصد ہیں؟

عید سے قبل مرغی کا نرخ سو روپے کلو کے حساب سے روزانہ بڑھ رہا تھا ۔ ہر روز سوچتی کہ عید کے دن کے لیے مرغی خریدوں اور ہر روز کا نرخ سن کر سوچتی کہ کل لے لوں گی۔ عید سے عین دو روز پہلے جب نرخ ساڑھے نو سو روپے کلو سنا تو سر پکڑ لیا اور اپنے گوشت کی دکان والے سے سوال کیا، ’’ یہ مرغی کا نرخ آپ ہر روز سو روپے کے حساب سے کیوں بڑھا رہے ہیں؟‘‘ اس نے جواب میں ہنس کر کہا، ’’ آج تو ماشااللہ ڈیڑھ سو روپے بڑھا ہے باجی!!‘‘ اس نے تو ہنسنا ہی تھا مگر میں نہیں چاہتی تھی کہ ایک دن اور انتظار کروں اور کل رونا پڑ جائے۔ سوچا تھا کہ عید کے بعد تو نرخ لازمی کم ہوں گے کیونکہ قیمتیں یقینا عید کی وجہ سے بڑھ کر آخری حدوں کو چھو رہی ہیں۔

ہمیں تو کیاکسی کو بھی قیمتوں کی آخری حد کا کیا علم۔ عید کے بعد وہی مرغی تھی ، وہی دکان اور مرغی کانرخ تھا… ایک ہزار روپے فی کلو گرام۔ اب توسبھی سوچتے ہیں کہ ہم کیا کھائیں، بکرے کا گوشت کھانا تو اب خواب سا ہو گیا ہے۔ غریب تو سال میں ایک بار بڑی عید پر ہی کھا سکتا ہے اور بسا اوقات وہ بھی نہیں۔ پھل منڈیوں ، دکانوں اور ریڑھیوں میں پڑا سڑ جائے گا مگر اس کے نرخ کوئی کم نہیں کر تا کہ کوئی غریب بھی فیض یاب ہو جائے۔ منڈیوں میں غریب اس پھل کو خرید کر کھاتا ہے جو کہ دکان دار رد کر کے چلے جاتے ہیں اور وہ کوڑے کے ڈھیروں کی شکل میں منڈیوں میں رل رہا ہوتا ہے۔

کس کس چیز کی بابت بات کریں، ہر چیز کے قدم زمین پر ہیں کہ اسے زمین پر ہی فروخت ہونا ہے اورہاتھ آسمان کو چھونے کی کوشش میں ہیں۔ جوتے، بستر، کپڑے، برتن، گھر بنانے کا سامان، آلات برقی، گھی، تیل، چینی، آٹا، دالیں اور مسالہ جات۔ کپڑے و برتن دھونے کا سامان، ڈاکٹروں کی فیسیں، اسپتالوں میں داخلے کیے اخراجات اوردوائیں۔ بچوں کی اسکولوں کی فیسیں، یونیفارم، کتابیں اور سٹیشنری کا سامان… اسکولوں کی وین اور رکشوں کے کرائے۔ لگتا ہے کہ سانس لینا بھی دشوار ہے۔

پہلے پہل غریب اور سفید پوش بھی اپنی تنخواہ میں سے کچھ بچت کر کے مہینے میں ایک بار اپنے بچوں کو کوئی سستی سی تفریح کروا دیتے تھے۔ اب وہ بھی کسی کے لیے ممکن نہیں رہا۔ ویسے بھی اب بچے اسکولوں سے اور سوشل میڈیا کے کھلے استعمال سے سیکھ گئے ہیں کہ کسی پارک میں چلے جانا کوئی تفریح نہیں اور سستی جگہ سے کچھ کھا لینا کوئی عیاشی نہیں۔ یہی وہ آگاہی ہے جس نے کم سن نوجوانوں کے ہاتھوں جرائم کی شرح میں خطر ناک اضافہ کر دیا ہے۔

مال اوردولت کو شرافت اور نجابت کا پیمانہ قرار دیا جاتا ہے اور یہ دولت کہاں سے اور کن ذرایع سے آتی ہے، اس سے کسی کو غرض نہیں ہے۔ اب ، ’’ ہمیں کسی سے کیا لینا دینا !!‘‘ کا دور ہے، آپا دھاپی کی دنیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان پیپلز پارٹی نے بلاول بھٹو زرداری کو ایک بار پھر اپنا چئیرمین منتخب کر لیا
  • پاکستان کے واحد اداکار جن کے دو ڈراموں نے یوٹیوب پر حیران کن سنگ میل عبور کرلیا
  • پشاور ہائیکورٹ نے تیمور سلیم جھگڑا کو حفاظتی ضمانت دے دی
  • پنجاب اور سندھ کا پانی کا جھگڑا آج کا نہیں 150 سال سے چل رہا ہے: سعید غنی
  • قدم زمین پر ، ہاتھ آسمان پر
  • اکشے کمار کی ساتھی اداکارہ نے اپنا سر کیوں منڈوا لیا؟
  • تیمور سلیم جھگڑا کی حفاظتی ضمانت منظور
  • دار فور میں نسل کشی کے پیچھے یو اے ای کا ہاتھ ہے، سوڈان
  • پی ایس ایل؛ کراچی کنگز نے اپنا ٹریننگ سیشن کیوں منسوخ کیا؟