Express News:
2025-04-13@04:02:17 GMT

حُسن نیّت: ہم دردی، اخلاص و ایثار کا جوہر

اشاعت کی تاریخ: 11th, April 2025 GMT

اسلام میں اخلاص اور حُسن نیّت کو بڑی اہمیت حاصل ہے، اسلام اپنے ماننے والوں کو تمام حالات میں خلوصِ نیّت کی ترغیب دیتا ہے۔

قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ نے اور احادیث نبوی میں رسول اکرم ﷺ نے اہل ایمان کو تمام ظاہری و باطنی اقوال و افعال اور اعمال و احوال میں نیّت کو مستحضر رکھنے، اُس کو ٹٹولتے رہنے اور اُس میں اخلاص کی چاشنی کو باقی رکھنے کی تعلیم دی ہے۔ بلاشبہ! تمام اعمال کا دار و مدار اخلاصِ نیّت پر ہی ہوتا ہے اور اچھی نیّت ہی تمام اعمال و افعال کی جڑ اور بنیاد ہوتی ہے۔ چناں چہ نیّت اگر خالص ہوگی تو اعمال جان دار ہوں گے اور نیّت اگر خراب ہوگی تو اعمال میں وزن نہیں رہے گا۔

اچھی نیّت سے اعمال اچھے اور بُری نیّت سے اعمال بُرے ہوجاتے ہیں۔ نیّت صاف ہو تو انسان کی منزل اُس کے لیے آسان ہوجاتی ہے اور اگر نیّت خراب ہو یا اُس میں فتور واقع ہوجائے تو قدم قدم پر انسان کو ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں، ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے اور بالآخر منزل مقصود تک پہنچنا اُس کے لیے ناممکن ہوکر رہ جاتا ہے۔

اخلاصِ نیّت کی اہمیت پیش نظر قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم:

’’اور اُنہیں اِس کے سوا اور کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ وہ اﷲ کی عبادت اِس طرح کریں کہ بندگی کو بالکل یک سُو ہوکر صرف اُسی کے لیے خالص رکھیں، اور نماز قائم کریں، اور زکوٰۃ ادا کریں اور یہی سیدھی سچی اُمت کا دین ہے۔‘‘ (سورۃ البینہ)

مفہوم: ’’اﷲ کو نہ اُن کا گوشت پہنچتا ہے، نہ اُن کا خون، لیکن اُس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘ (سورۃ الحج)

مفہوم: ’’اے رسول (ﷺ)! لوگوں کو بتا دو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تم اسے چھپاؤ یا ظاہر کرو، اﷲ اسے جان لے گا۔‘‘ (سورۂ آلِعمران)

اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی اخلاصِ نیّت کی بڑی اہمیت وارد ہوئی ہے، چناں چہ ایک حدیث میں آتا ہے، حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ہر عمل کا دار و مدار نیّت پر ہے، اگر نیت درُست ہے تو اجر کا مستحق ہے، جو اﷲ اور رسول ﷺ کے لیے ہجرت کرتا ہے تو اُس کی ہجرت اﷲ اور رسول ﷺ کے لیے ہوتی ہے، لیکن اگر دُنیا یا کسی عورت کے لالچ میں ہجرت کرتا ہے تو جس غرض کے لیے ہجرت کرتا ہے اُس کی ہجرت اسی غرض کے لیے شمار کی جاتی ہے۔‘‘ (بخاری۔ مسلم)

حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ تعالیٰ وہی عمل قبول کرتا ہے، جس کی بنیاد خلوص پر ہو۔‘‘ (سنن نسائی)

حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’آخر زمانے میں ایک لشکر کعبہ پر چڑھائی کرے گا، لیکن جب یہ ’’بیداء‘‘ نامی مقام میں پہنچے گا تو زمین میں دھنسا دیا جائے گا، پھر یہ لوگ قیامت میں اپنی نیّتوں کے موافق اُٹھائے جائیں گے، اِس لشکر میں بعض لوگ ایسے بھی ہوں گے، جو زبردستی شریک کر لیے گئے تھے، اُن کی نیّت کعبہ پر حملہ کی نہ تھی، ایسے لوگوں سے کوئی مؤاخذہ نہ ہوگا۔‘‘ (بخاری۔ مسلم)

حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ایک شخص کے پاس مال بھی ہے اور علم بھی، اور یہ اچھے کام کرتا ہے اور غرباء کا حق سمجھتا ہے، تو قیامت میں یہ اعلیٰ منازل میں ہوگا، لیکن ایک شخص کے پاس مال اور علم تو نہیں، لیکن اُس کی یہ نیّت ضرور ہے کہ اگر میرے پاس مال اور علم ہوتا، تو میں بھی یہی کام کرتا جو فلاں شخص کر رہا ہے تو قیامت میں دونوں کو اَجر برابر ملے گا۔‘‘ (جامع ترمذی)

حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’اگر کسی شخص نے نیکی کرنے کی نیّت کی، لیکن اُس کی نیکی کا وقوع نہیں ہُوا، تب بھی اُس کے لیے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔‘‘ (بخاری۔ مسلم)

حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ایک شخص نے بستر پر لیٹتے وقت یہ نیّت کی کہ رات کو تہجّد کی نماز پڑھوں گا، مگر رات کو آنکھ نہیں کھلی، یہاں تک کہ صبح ہوگئی، تو اُس کے لیے تہجّد کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے، اور یہ سونا اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اُس بندے پر احسان کے طور پر رہا۔‘‘ (سنن نسائی)

جہانگیر بادشاہ نے اپنی ’’تزک‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک سلطان گرمی کے موسم میں ایک باغ کے دروازہ پر پہنچا، وہاں ایک بوڑھا باغبان کھڑا تھا، اُس کو دیکھ کر سلطان نے پوچھا: ’’ کیا اِس باغ میں انار ہے؟‘‘

باغبان نے کہا: ’’جی موجود ہے‘‘

سلطان نے کہا: ’’ایک پیالا انار کا رَس لاؤ!‘‘

باغبان کی ایک لڑکی جو صورت کے جمال اور سیرت کے حسن سے بھی آراستہ تھی، باغبان نے اُس سے انار کا رَس لانے کو کہا، وہ گئی اور ایک پیالا بھر کر انار کا رَس لے آئی، پیالے پر انار کی کچھ پتیاں رکھی ہوئی تھیں، سلطان نے اُس کے ہاتھ سے پیالا لیا اور پورا پی گیا، پھر لڑکی سے پوچھا: ’’پیالے کے رَس کے اوپر تم نے پتیاں کس لیے رکھ دی تھیں؟‘‘

لڑکی نے عرض کیا: ’’اِس گرمی میں آپ پسینے میں غرق تھے، رَس کا ایک سانس میں پی جانا آپ کے لیے مناسب نہ تھا، میں نے احتیاطاً اِس پر پتیاں ڈال دی تھیں کہ آپ آہستہ آہستہ اِس کو نوشِ جان فرمائیں۔

سلطان کو یہ حسن ادا بہت پسند آئی، اُس کے بعد اُس باغبان سے پوچھا کہ تم کو ہر سال اِس باغ سے کیا حاصل ہوتا ہے؟‘‘

اُس نے جواب دیا: ’’تین سو دینار‘‘

سلطان نے پوچھا: ’’حکومت کو کیا دیتے ہو؟‘‘

 باغبان نے کہا: میرا بادشاہ درخت سے کچھ نہیں وصول کرتا، بل کہ کھیتی سے عشر لیتا ہے۔‘‘

سلطان کے دل میں یہ خیال گزرا کہ میری مملکت میں بہت سے باغ اور درخت ہیں، اگر باغ سے بھی عشر لیا جائے تو کافی رقم جمع ہوسکتی ہے اور رعیت کو بھی زیادہ نقصان نہیں پہنچے گا، اِس لیے میں حکم دوں گا کہ باغات کے محصولات سے بھی خراج لیا جائے، یہ سوچ کر اُس نے انار کا رَس پھر پینے کو مانگا، لڑکی رَس لانے گئی تو بہت دیر میں آئی، جب پیالا لائی تو سلطان نے کہا: ’’پہلی بار تم گئیں تو بہت جلد آئیں، اِس بار دیر بھی کی اور رَس بھی کم لائیں۔‘‘

لڑکی نے کہا: ’’پہلی بار ایک انار میں پیالا بھر گیا تھا، اِس بار میں نے پانچ چھے انار نچوڑے پھر بھی رَس پورا نہیں ہُوا۔‘‘

یہ سن کر سلطان کو حیرت ہوئی، باغبان نے عرض کیا: ’’محصول کی برکت بادشاہ کی نیک نیّت پر منحصر ہے، میرا خیال ہے کہ آپ باد شاہ ہیں، آپ نے جس وقت باغ کی آمدنی مجھ سے پوچھی، اُسی وقت آپ کی نیّت میں تبدیلی پیدا ہوئی اور پھل سے برکت چلی گئی۔‘‘

یہ سن کر سلطان متاثر ہُوا اور دل سے باغ کی آمدنی کا خیال دُور کردیا، اِس کے بعد پھر انار کا رَس مانگا ، لڑکی گئی اور جلد ہی پیالا بھر کر انار کا رَس لے آئی، تب سلطان نے باغبان کی فراست کی داد دی، اپنے دل کی بات بتائی اور اُس لڑکی کا خواست گار ہُوا۔ (بہ حوالہ: تزکِ جہانگیری)

یقیناً اِنسان کی نیّت کا اثر اُس کی زندگی کے تمام حالات پر پڑتا ہے، نیّت اچھی اور خالص ہوگی تو زندگی بھی اچھی اور آسان گزرے گی، اہل و عیال میں برکت نصیب ہوگی، مال و دولت میں فراوانی حاصل ہوگی، عبادات ادا کرنے کی توفیق ملے گی، اﷲ تعالیٰ کا دھیان اور اُس کا قرب نصیب ہوگا، اور اگر نیّت خراب ہوئی اور اُس میں فتور ہُوا تو زندگی سے سکون اُٹھ جائے گا، مال و دولت میں کمی واقع ہوجائے گی، عبادات کی توفیق چھن جائے گی، اور اﷲ تعالیٰ کی ناراضی اور اُس کی خفگی مقدر بنے گی اور انسان کو زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تنگ ہوتی نظر آئے گی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا انار کا ر س ا س کے لیے اﷲ تعالی کرتا ہے اور ا س کی نی ت نی ت کی نے کہا لیکن ا ہے اور سے بھی

پڑھیں:

جھوٹی یاد داشتیں اور ان کا منفی اثر

یاد داشت ایک عجیب چیز ہے۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے ماضی کی تصویریں ذہن میں صاف اور مکمل محفوظ ہیں، مگر پھرکوئی ایک لمحہ، ایک جملہ، ایک خوشبو سب کچھ بدل کر رکھ دیتی ہے۔کبھی کچھ یاد آتا ہے، پھر شک ہوتا ہے کہ یہ واقعی ہوا تھا یا محض میرا گمان تھا؟

مجھے یہ بات اس وقت زیادہ شدت سے سمجھ آئی جب میں نے ایک مطالعے کے دوران پڑھا کہ بعض اوقات انسان کو وہ چیزیں بھی یاد رہتی ہیں جوکبھی وقوع پذیر نہیں ہوتیں۔ ابتدا میں مجھے یہ بات ناقابلِ یقین لگی۔کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟ کیا دماغ اتنی بڑی غلطی کرسکتا ہے؟ لیکن جوں جوں میں نے اس موضوع پر پڑھا، تو میرے سامنے حیران کن حقیقتیں کھلتی چلی گئیں۔

انسانی یاد داشت پتھر پر لکیر نہیں ہوتی۔ یہ تو پانی پر بنتی لکیروں جیسی ہے، جوکبھی واضح ہوتی ہیں،کبھی دھندلی اورکبھی بالکل ہی غائب۔ بعض اوقات ہمیں ایسے واقعات یاد آتے ہیں جو ہمارے ساتھ پیش ہی نہیں آئے ہوتے۔ ہم ان پر یقین بھی کرتے ہیں، ان کی تفصیل بھی بتاتے ہیں۔

حتیٰ کہ ان سے جذباتی وابستگی بھی محسوس کرتے ہیں۔ یاد داشت انسانی ذہن کا ایک بنیادی اور پیچیدہ عمل ہے۔ ہماری یادیں ماضی کے تجربات کو محفوظ کرنے اور مستقبل کے فیصلوں میں مدد دینے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ تاہم،کبھی کبھی انسان ایسی باتیں بھی یاد رکھتا ہے جو درحقیقت کبھی نہیں ہوتیں۔ ایسی یاد داشتوں کو نفسیات کی اصطلاح میں False Memories یا ’’ جھوٹی یادیں‘‘ کہا جاتا ہے۔

جھوٹی یاد داشت ایسی یاد ہوتی ہے جو انسان کو حقیقت لگتی ہے، لیکن وہ دراصل یا تو غلط ہوتی ہے یا مکمل طور پر خیالی۔ ان یادوں میں کبھی چھوٹے جزئیات بدلے ہوئے ہوتے ہیں اورکبھی پورا واقعہ ہی من گھڑت ہوتا ہے۔ انسان ان جھوٹی یادوں پر اس قدر یقین کر لیتا ہے کہ ان کا انکارکرنا ممکن نہیں رہتا۔

جھوٹی یاد داشتوں کے تصور پر سب سے زیادہ تحقیق ایلزبتھ لوفسٹس نے کی۔ وہ ایک امریکی ماہر نفسیات اور محققہ ہیں، جنھوں نے انسانی یاد داشت، بالخصوص گواہیوں اور جھوٹی یادوں کے حوالے سے انقلابی کام کیا۔ ''False Memory Theory'' دراصل یہ بتاتی ہے کہ انسانی یاد داشت پختہ اور ناقابلِ تغیر نہیں ہوتی بلکہ مختلف اثرات جیسے سوالات کا انداز، جذبات یا دوسروں کے بیانات، یادوں کو تبدیل یا حتیٰ کہ پیدا بھی کرسکتے ہیں۔

لوفسٹس نے 1970 اور 1980 کی دہائی میں ایسے تجربات کیے جن میں انھوں نے ثابت کیا کہ اگرکسی فرد کو بار بار ایک واقعے کا ذکرکیا جائے اگر وہ واقعہ کبھی ہوا ہی نہ ہو تو وہ فرد کچھ عرصے بعد اس واقعے کو ’’ اپنی‘‘ یاد داشت کے طور پر قبول کرلیتا ہے، اگرکسی انسان کو بار بار بتایا جائے کہ اس کے ساتھ کوئی مخصوص واقعہ پیش آیا تھا، تو وہ کچھ عرصے بعد اس جھوٹی بات کو اپنی یاد کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ جیسے کہ ایک بچہ مال میں گم ہوگیا تھا، حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوا ہوتا۔

فالس میمریز مختلف طریقوں سے بنتی ہیں۔ سماجی دباؤ اور توقعات، بار بار دہرائی گئی باتیں اور بااثر شخصیات کی باتوں کا اثر، یہ سب ہمارے ذہن پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ سوالات کا انداز،غلط معلومات کا دیا جانا، خوابوں کا اثر اور تصورکی طاقت بھی جھوٹی یاد داشتوں کی تشکیل میں کردار ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگرکسی کو بچپن میں کہا جائے کہ وہ بہت شرارتی تھا اور اس نے کوئی چیز توڑ دی تھی، تو وہ بچہ آخرکار اس بات کو سچ ماننے لگتا ہے، چاہے اسے اصل واقعہ یاد نہ ہو۔

ایسے جھوٹے تجربات خاندانی قصوں، اجتماعی یاد داشت، تعلیمی نصاب یا مذہبی واقعات کی شکل میں بھی سامنے آسکتے ہیں۔ اس کا اثر صرف انفرادی سطح پر نہیں بلکہ معاشرتی، قانونی اور نفسیاتی سطح پر بھی گہرا ہوتا ہے۔ عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں، رشتوں میں بے بنیاد الزامات اور فرد کی اپنی ذات کے بارے میں گمراہ کن یقین وغیرہ۔

یہ سب فالس میمریزکے اثرات میں شامل ہیں۔ سائنسدانوں نے ان یادوں کو روکنے یا پرکھنے کے لیے تحقیق کی ہے۔ ثبوتوں پر زور، تنقیدی سوچ کی تربیت اور ماہرینِ نفسیات سے مشورہ ان کے سدباب کے اہم طریقے ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ ہم ہر یاد پر آنکھ بند کرکے یقین نہ کریں، بلکہ اس پر سوال اٹھانا سیکھیں۔ کیا یہ واقعی ہوا تھا؟ یا یہ صرف ایک خیال تھا؟

میری زندگی میں بھی ایسے لمحے آئے جب کسی دوست نے ماضی کا واقعہ سنایا جو مجھے یاد ہی نہیں تھا۔ پھر میں سوچ میں پڑگئی،کیا واقعی ایسا ہوا تھا؟ یا یہ اس کی یاد داشت کا وہ حصہ ہے جس میں، میں کبھی شامل ہی نہیں تھی؟ زندگی میں کئی بار ہمیں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کوئی واقعہ خواب تھا یا حقیقت اورکبھی خواب اتنے واضح ہوتے ہیں کہ ہم انھیں سچ مان لیتے ہیں۔

اس موضوع پر فلمیں ہیں جیسے میمینٹو فلم میں ایک شخص اپنی یاد داشت کھونے کے بعد ایک قتل کی گتھی سلجھانے کی کوشش کرتا ہے، اس کی یاد داشت کی الجھنیں ناظرین کو مسلسل چکر میں ڈالتی ہیں۔

اس موضوع پر فلمیں بنی ہیں جیسے انسپشن فلم جس کا کردار خوابوں میں داخل ہو کر خیالات چرانے اور یادوں کے ذریعے تصور قائم کرتا ہے جس سے جھوٹی حقیقتیں پیدا ہوتی ہیں۔

دی بٹر فلائی ایفیکٹ ایک نوجوان اپنی پرانی یادوں کو بدل کر حال کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے، مگر ہر بارکچھ نیا اور الجھا ہوا سامنے آتا ہے۔

شٹر آئی لینڈ ایک امریکی مارشل جب ایک پاگل خانے کی تفتیش کے لیے جاتا ہے تو حقیقت اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس کے اپنے ماضی کی یاد داشتوں پر بھی سوال اٹھتے ہیں۔ فلم ’’ ٹوٹل ریکال‘‘ میں ایک شخص ایک خفیہ مشن پر ہے لیکن وہ خود نہیں جانتا کہ اصل کیا ہے اور خیالی کیا۔

اب آتے ہیں حل کی طرف کہ کس طرح جھوٹی یاد داشت کے حصار سے باہر نکلا جاسکتا ہے۔ ثبوت پر انحصارکریں یاد داشت پر اندھا یقین کرنے کے بجائے، تحریری یا تصویری ثبوت پر توجہ دی جائے۔

ذہنی تربیت کی جائے خاص طور پر تنقیدی سوچ کو فروغ دینا اور خود کو بار بار سوال کرنا کہ ’’ کیا یہ واقعہ واقعی ہوا تھا؟‘‘ اس حوالے سے مددگار ہو سکتا ہے۔ ماہر نفسیات کی مدد حاصل کی جاسکتی ہے، اگرکسی کو لگے کہ اس کی یاد داشتوں میں تضاد ہے، تو ماہر نفسیات سے رجوع کرنا بہتر ہے۔ یہ ایک نہایت دلچسپ اور پیچیدہ نفسیاتی مظہر ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان کی یاد داشت ہرگزکامل نہیں۔ ایلزبتھ لوفسٹس نے یہ ثابت کر کے نفسیات کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا کہ ہماری یادیں حقیقت سے زیادہ ہمارے ذہنی عمل، تجربات اور بیرونی اثرات کی پیداوار ہوتی ہیں۔

اس نظریے نے نہ صرف نفسیات، بلکہ قانون، تعلیم، میڈیا اور روزمرہ زندگی میں انسانی رویے کو سمجھنے کے طریقے کو بھی بدل دیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی یادوں کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے بھی دیکھیں،کیونکہ ضروری نہیں جو ہمیں یاد ہو وہ حقیقت بھی ہو۔

متعلقہ مضامین

  • آزاد منڈی اور ٹیرف
  • اس کا حل کیا ہے؟
  • جھوٹی یاد داشتیں اور ان کا منفی اثر
  • جنگ کا نتیجہ کچھ بھی ہوسکتا ہے!
  • بیرسٹر سلطان محمود چوہدری سے چیف جسٹس آزاد جموں وکشمیر راجہ سعید اکرم کی ملاقات
  • بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے میرپور میں پارکنگ پلازہ کا سنگ بنیاد رکھا
  • غیرذمے داری
  • بلوچستان کا ایشو
  • ایسا کیوں ؟