بانی پی ٹی آئی اداروں کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہیں، جنید اکبر
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
پاکستان تحریکِ انصاف خیبرپختون خوا اور پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کے چیئرمین جنید اکبر نے کہاہے کہ عمران خان نے کہا ہے کہ وہ اداروں کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں اقتدار ملے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی جماعتوں اور اداروں دونوں کو اپنے حدود میں رہنا چاہیے، کیونکہ یہ جمہوریت اور سب کے فائدے میں ہے۔ عمران خان نے واضح کیا کہ آئین اور قانون کی بالا دستی کے لیے وہ کسی سے بھی بات کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن بندوق کے زور پر ان پر کوئی بات نہیں مانی جا سکتی۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے جنید اکبر نے اعظم سواتی کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ اعظم سواتی کا ہم احترام کرتے ہیں ہمارے سینئر ہیں لیکن ان کی ایسی کوئی ذمے داری نہیں۔ عمران خان نے کل بھی ان کی بات کی نفی کی کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، کل بھی ہماری خان صاحب سے بات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ میں اداروں کے ساتھ بات کرنے کو تیار ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں اقتدار ملے۔
جنید اکبر نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ قانون نے جو اداروں کے حدود متعین کیے ہیں، اس میں آپ بھی رہیں اور سیاسی جماعتیں بھی رہیں۔ کیوں کہ یہ اداروں کے لیے بھی فائدے میں ہے اور جمہوریت کے لیے بھی فائدے میں ہے اور ہم سب کے فائدے میں ہے۔ یہ ہمارے اپنے ادارے ہیں۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں۔
رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمارے دروازے کھلے ہیں لیکن بندوق کے زور پر کسی کو یہ غلط فہمی ہے کہ خان صاحب کو جیل میں رکھ کر ہمارے ورکرزکو جیل میں رکھیں گے اور ہم پر ایف آئی آرز کاٹ کر زبردستی اپنی بات منوائیں گے تو یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ ہم آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے بالکل تیار ہیں، جس سے بھی بات کرنی ہو، چاہے حکومت ہو چاہے ادارے ہوں، ہمیں اداروں کے سربراہان سے گلے شکوے ہو سکتے ہیں لیکن اداروں کو ہم آن کرتے ہیں کیوں کہ یہ ہمارے اپنے ادارے ہیں۔
اس سے قبل تحریک انصاف خیبرپختونخواکے صدر نے کہا کہ ادارے اور حکومت وقت یہی کوشش کرتے رہتے رہے اوراس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو رہی ہیں۔ کہ اس طرح کے حالات بنیں، خان صاحب کا بنیادی حق ہے اور ہم جیل مینوئل سے زیادہ نہیں مانگتے۔ وہ سابق وزیراعظم ہیں اور ان پر 2 سو سے زائد ایف آرز ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ایک بھی ایف آئی آر ملزم پر ہو تو اس کا وکیل بھی ملتا ہے اور اس کی فئیملی کے لوگ بھی ملتے ہیں، ہم ہر بارعدالتوں میں جاتے ہیں، کچھ لوگ میسج دینے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ میسج دے بھی رہے ہیں کہ ہم جو کہیں گے وہ عدالت کا حکم ہے وہی قانون ہے، میں خان صاحب کے پاس مسلسل ملاقات کے لیے گیا ہوں وہ مجھے بلاتے رہے ہیں۔ ہمیں 3 سے 4 گھنٹے کھڑا کیا جاتا ہے اور ملاقات نہیں کروائی جاتی۔ اس طرح کے حالات حکومت اور ادارے بناتے ہیں تاکہ ہمارے درمیان اختلافات بڑھیں، ہم ایک دوسرے کو شک کی نظر سے دیکھیں۔
جنید اکبر نے کہا کہ ادراروں کی ہی کوشش تھی کہ اختلاف بڑھیں اور وہ کامیاب ہوئے اور ہمارے سینئرز کو بھی یہ احساس جلدی ہوگا۔ آج بھی ہماری پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ تھی اس میں یہ بات تھی کہ پارٹی کا نظم و ضبط ہونا چاہیے اور اس طرح کی چیزوں کو میڈیا پر نہیں لائیں گے، پارٹی میں نظم و ضبط بھی ضروری ہے اور خان صاحب کے حکم مطابق سلمان اکرم راجہ کو کوارڈی نیٹر بنایا گیا اور وہی لسٹ دیتے جو خان صاحب بتاتے ہیں کہ کس کس کو بلانا ہے اور یہ سب خان صاحب کے حکم کے مطابق ہوتا ہے۔
رہنما پی ٹی آئی نے فیصل واوڈا کے حوالے سے سوال کے جواب میں کہا کہ اس کی کسی بات کی اہمیت نہیں ہے، وہ پارٹی میں نہیں ہے، اس طرح تو باقی لوگ بھی بات کرتے ہیں، وہ خان صاحب کو چھوڑ چکے ہیں۔ عمران خان کے ان پر کافی احسانات تھے، فیصل واوڈا جو بھی بات کرتا ہے، اس کی نہ کوئی اہمیت ہے نہ سیریس لیتے ہیں۔ جس طرح میں پیپلز پارٹی پر کوئی بات نہیں کر سکتا۔
جنید اکبر نے کہا کہ خان صاحب کا جس پر اعتماد ہے، جس کے پاس عہدے ہیں تو وہ عمران خان کے کہنے سے اسے ملا ہے، اگر عمران خان کا اعتماد نہ ہوتا یا ناراض ہوتے تو وہ اسے آسانی سے ہٹا سکتے ہیں، عمران خان کو اپنی قیادت پر کوئی شک نہیں ہے جس حالات سے وہ گزر رہے ہیں، اس کا فیصل واوڈا کو احساس نہیں ہے ، بات کرنا آسان ہے بھگتنا مشکل کام ہے۔
صدر کے پی پی ٹی آئی نے خان صاحب کی رہائی کے لیے احتجاج کے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ خان صاحب کے لیے مسئلہ نہیں، اس ملک کے لیے مسئلہ ہے، اداروں اور عوام کے درمیان فاصلے کتنے بڑھ گئے، آج لوگ اداروں سے کتنے دور جا چکے ہیں، آپ بلوچستان اور خیبرپختون خوا کے حالات دیکھیں، ہم بار بار یہ بات کہتے ہیں کہ ہم مضبوط ادارے چاہتے ہیں جن کے پیچھے عوام ہو۔
انھوں نے کہا کہ ادارے مضبوط نہیں ہوں گے تو پاکستان کمزور ہوگا، آج اداروں کے پیچھے عوام نہیں ہے، چاہے کوئی جو کچھ بھی کہے، ہم ایک سیاسی جماعت ہیں کوئی گوریلا فورس نہیں ہیں، کوئی بھی فورم ہو چاہے اسمبلی ہو چاہے باہر احتجاج ہو یا کانفرنس ہو، ہم کوئی فورس نہیں کہ ہمارے پاس بندوق ہے اور ہم اداروں کے ساتھ لڑیں۔
جنید اکبر کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ عوام اگر قیادت کے بغیر نکل آئے تو شاید پھر کسی کو مزاحمت کا موقع بھی نہ ملے، ہمارے ورکرز نے تو گولیاں کھائیں، جب خان نے حکم دیا، ورکرز ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں نکلے، چاہے لاہور میں ہوں یا صوابی میں، ہر جگہ ورکز موجود ہے اور اپنی بات ریکارڈ کرواتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جب میں صدر بنا تو میں نے مختلف ریجن کا دورہ کیا اور مشورہ کیا اور جو تجاویز آئیں، آپ یقین کریں میں بیان نہیں کرسکتا کہ لوگوں کی نفرت اتنی بڑھ چکی ہے، اس انتہا تک اداروں اور موجودہ حکومت نے ہمیں پہنچایا۔ یہ کسی کے فائدے میں نہیں یہ سارا ملک بھگتے گا۔ خان صاحب اپنی زندگی گزار چکے ہیں۔، اس کا نقصان اس ریاست اور فیڈریشن اور اداروں کو ہے اور ہماری آنے والی نسلوں کو ہے۔
Post Views: 3.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
سپریم کورٹ کی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے استعمال پر گائیڈ لائنز تیار کرنے کی سفارش
— فائل فوٹوعدالتی نظام میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے استعمال پر سپریم کورٹ نے فیصلہ جاری کردیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے 18 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا ہے۔
عدالت نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے استعمال پر گائیڈ لائنز تیار کرنے کی سفارش کردی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی اور ڈیپ سیک عدالتی استعدادکار بڑھا سکتے ہیں، دنیا میں کئی ججز کی جانب سے اے آئی کے استعمال سے فیصلوں میں معاونت کا اعتراف کیا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو آئندہ بغیر قانونی جواز کے کیس سنگل سے ڈویژن بینچ ٹرانسفر کرنے سے روک دیا۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ اے آئی کو فیصلہ لکھنے میں ریسرچ اور ڈرافٹ کی تیاری میں استعمال کیا جاسکتا ہے، اے آئی صرف معاون ’ٹول‘ ہے، ایک جج کی فیصلہ سازی کا متبادل نہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اے آئی کو کسی صورت عدلیہ میں مکمل انسانی فیصلے کی خود مختاری کا متبادل نہیں ہونا چاہیے، اے آئی صرف اسمارٹ قانونی ریسرچ میں سہولت کے لیے ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق عدالتی اصلاحاتی کمیٹی اور لا اینڈ جسٹس کمیشن کو گائیڈ لائنز تیار کرنی چاہئیں، گائیڈ لائننز میں طے کیا جائے جوڈیشل سسٹم میں اے آئی کا کتنا استعمال ہوگا۔