تمام مسلم حکومتوں پر جہاد واجب ہوچکا، قومی فلسطین کانفرنس کا اعلامیہ جاری

فلسطین اور امت مسلمہ کے عنوان پر منعقدہ قومی کانفرنس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے جس میں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہے، مسلمانوں پر جہاد واجب ہوچکا ہے۔

جمعرات کے روز اسلام آباد میں ہونے والی قومی کانفرنس میں دینی جماعتوں اور تنظیمات کے قائدین شریک ہوئے، قومی کانفرنس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا ہے۔

اعلامیے کے مطابق اسرائیل نے غزہ کے مظلوم فلسطینیوں پر تباہ کن مظالم ڈھائے جن کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی، بچوں اور خواتین سمیت تقریباً 55 ہزار افراد شہید اور 2 لاکھ شدید زخمی اور معذور ہوچکے ہیں۔

مجلسِ اتحاد امت پاکستان کے زیرِ اہتمام "قومی کانفرنس" بعنوان فلسطین اور امت مسلمہ کی ذمہ داری کا اعلامیہ جاری۔
1/2#JUIDigitalMediaCellPunjab #juipakistan ????????#StandUpForGaza pic.

twitter.com/Ebj7AxiIJ7

— JUI Digital Media Cell Punjab (@JUIDMCPunjab) April 10, 2025

غزہ میں شہری نظام تباہ، اسپتال، اسکول سمیت رفاہی ادارے تباہ ہو چکے، اقوام متحدہ، سلامتی کونسل غیر مؤثر ہوچکے ہیں۔

غزہ کا 70 فیصد سے زائد علاقہ ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگیا جبکہ اسپتال، تعلیمی ادارے، انتظامی اور رفاہی خدمات کے ادارے تباہ ہوچکے ہیں۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ یہ محض جنگ نہیں بلکہ فلسطینیوں کی کھلی نسل کشی ہے اور اپنے وطن کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔

امریکا غیر مشروط جنگ بندی کی ہر قرارداد کو ویٹو کر رہا ہے اور ایسی صورتحال میں شرعی اصولوں کے تحت تمام مسلم حکومتوں پر جہاد فرض ہوچکا ہے۔

اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں کے ذریعے اسرائیل کے قبضے کو ناجائز اور غیر قانونی قرار دیا ہے۔

The Palestinian leader today attended a national conference titled "Palestine and Our Responsibility"and sent a message to Muslim rulers to stand up for the oppressed Muslim in Gaza and play a full diplomatic role so that Gaza can be saved from Israeli brutality. #StandUpForGaza pic.twitter.com/kwopASkYbL

— Abdul Waheed (@waheedoffl) April 10, 2025

اعلامیے میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم سے فلسطینیوں کی بحالی کے لیے فوری فنڈ قائم کرنے اور جن ممالک نے اسرائیل سے سفارتی و تجارتی تعلقات قائم کیے ان سے جنگ بندی تک تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ  تمام مسلمانوں پر جہاد واجب ہوچکا ہے، فلسطین کے معاملے میں کوئی معاہدہ اس جہاد میں شرکت سے مانع نہیں ہے، سلامتی کونسل کا فوری اجلاس طلب کیا جائے اور پاکستان اس میں پہل کرے۔

’آپ پر جہاد فرض ہوچکا ہے‘، مفتی تقی عثمانی

معروف عالم دین مفتی تقی عثمانی نے کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ اہل فلسطین کی جانی اور مالی مدد امت مسلمہ پر فرض ہے، اسرائیل کو نہ اخلاقی اقدار کا پاس ہے نہ عالمی قوانین کی قدر، تمام مسلم حکومتوں پر جہاد فرض ہوچکا ہے۔

انہوں نے امریکی صدر ٹرمپ کے بیانات کہ ’غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کیا جائے‘ کی شدید الفاظ میں مزمت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مسلمانوں کے خلاف بغض کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم فلسطینی مجاہدین کے لیے کچھ نہیں ک پارہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو نہ اخلاقی اقدار کا پاس ہے نہ عالمی قوانین کی قدر، امت مسلمہ قبلہ اول کے لیے لڑنے والوں کی مدد نہیں کرسکی اور صرف قراردادوں، کانفرنسوں اور مذمتوں تک محدود ہے۔

انہوں نے تمام اسلامی حکومتوں سے کھل کر کہا کہ ’آپ پر جہاد فرض ہوچکا ہے۔‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: تمام مسلم حکومتوں پر جہاد کانفرنس کا اعلامیہ جاری قومی کانفرنس کے لیے

پڑھیں:

جہاد فرض ہوچکا ہے

اسلام ٹائمز: گذشتہ کل (10 اپریل 2025ء) پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد میں غزہ کے مظلوموں کے حق میں ایک بہت اہم کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں پاکستان کے اکابر علماء نے شرکت کی اور یک آواز ہوکر فرضیت جہاد کا فتویٰ جاری کیا اور کہا کہ امت کے تمام حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ غزہ کے اسلامی جہاد میں عملی طور پر حصہ لیں۔ یہ ایک اہم فتویٰ ہے، جسکی پورے عالم اسلام کو پیروی کرنی چاہیئے۔ جہاں یہ کانفرنس غزہ کے مظلوموں کی حمایت میں منعقد ہوئی، وہاں پر ایک قابل افسوس پہلو جو مجھے نظر آیا، وہ یہ ہے کہ اس کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام موجود تھے، لیکن مجھے مکتب تشیع کے علماء نظر نہیں آئے، یا تو انہیں دعوت نہیں دی گئی یا پھر انہوں نے دعوت قبول نہیں کی اور وہ خود تشریف نہیں لائے۔ دونوں صورتوں میں میرے نزدیک یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی

‎امت مسلمہ پر اب جہاد فرض عین ہے۔ غزہ میں ناحق خون مسلم بہہ رہا ہے اور  شعائر اسلام کو بہت بے دردی سے پامال کیا جا رہا ہے۔ اہل غزہ کی ہی صرف نسل کشی نہیں کی جا رہی بلکہ یہ پورے عالم اسلام کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔سکولوں پر آگ برساتے بارود کے گولے میرے معصوم بچوں کی لاشیں آسمان کی طرف اچھال رہے ہیں۔ کہاں گئے وہ مسلمان جو میدان جہاد میں اپنا جھنڈا سر نگوں تک نہیں ہونے دیتے تھے کہ اس میں دین اسلام کی توہین ہے۔ وہ اس کو سر بلند رکھنے کے لیے اپنی جانیں وار دیا کرتے تھے۔ انہی کی اولادیں آج مساجد کو ہوا میں تحلیل ہوتا دیکھ رہی ہیں، اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزت و ناموس کو یہودیوں اور صہیونیوں کے ہاتھوں لٹتا دیکھ رہی ہیں، مگر وہ خاموش ہیں۔ یہ خاموشی وسائل کی کمی کی وجہ سے نہیں ہے، یہ خاموشی افواج کی کمی کی وجہ سے نہیں ہے اور یہ خاموشی آلات حرب و ضرب کی کمزوری کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ یہ خاموشی بزدلی کی وجہ سے ہے۔

یہ بزدلی استکبار کے رعب اور دبدبہ کی وجہ سے ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ خاموشی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لاتعلق ہونے کی وجہ سے ہے اور یہ کمزوری ایمان کے عدم استحکام کی وجہ سے ہے۔ غزہ محض ایک علاقہ نہیں ہے بلکہ یہ اب شعآئر اللہ میں داخل ہوچکا ہے۔ یہ حق و باطل کے معیار کا روپ دھار چکا ہے۔ شعائر اللہ کی تعظیم اور ان کا تحفظ وہی لوگ کرتے ہیں، جو اہل اللہ ہوتے ہیں، اہل اللہ وہ لوگ ہیں، جن کے قلوب و اذہان تقویٰ کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں اور یہ ایک بدیہی امر ہے کہ تقویٰ ایمان کے بغیر محقق نہیں ہوسکتا۔ قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے: "ذلک ومن یعظم شعآئر اللہ فانھا من تقوی القلوب" (سورۃ الحج،آیت :32) ترجمہ: "یہی حق ہے اور جس نے اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کی تو بے شک یہ دلوں کے تقوی کی بات ہے۔۔۔" علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ شعائر اللہ سے مراد ہر وہ چیز ہے کہ جس کی نسبت خداوند متعال طرف کی جائے۔

‎غزہ میں شعائر اللہ پامال ہو رہے ہیں، انسانی شرف کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں، انسانیت سسک رہی ہے، 55 ہزار سے زائد معصوم جانیں لقمہ اجل بن چکی ہیں۔ اگر جہاد آج فرض نہیں ہے تو پھر کبھی بھی فرض نہیں ہوگا۔ اگر کتاب اللہ کا مطالعہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ کم و بیش آدھا قرآن احکام جہاد پر مشتمل ہے، دنیا میں کوئی قوم جہاد کے بغیر اپنے وجود کو زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھ سکتی۔ یہ دنیا ظالموں اور استحصالی قوتوں سے بھری پڑی ہے۔ آج مغرب کی استکباری قوتیں کمزور اقوام کا استحصال کر رہی ہیں، خصوصاً مسلم قوم اور اس کے تمام علاقے امریکہ اور یورپ کے نشانے پر ہیں۔ وہ مسلمانوں کا مقدس خون بہا رہے ہیں، ان کے وسائل لوٹ رہے ہیں، لیکن مسلم ممالک کے حکمران یہ سب کچھ بہت ڈھٹائی سے دیکھ رہے ہیں اور ظالم کا ہاتھ روکنے کی ان کے اندر جرآت موجود نہیں ہے۔

قوموں کی زندگیاں ظالموں سے قصاص لینے کی جرآت کے بغیر بے معنی ہوتی ہیں۔اسی لیے قرآن مجید نے مسلمانوں کو مخاطب ہو کر فرمایا: "ولکم فی القصاص حیاۃ یا اولیٰ الالباب" (البقرۃ۔آیت 179) ترجمہ: "اور خون کا بدلہ لینے میں تمہاری زندگی ہے، اے عقلمند و! تاکہ تم کہیں بچ سکو۔" ظاہر ہے کہ جو قوم ظالم کے ساتھ کھڑی ہو اور ظالم کے جرائم کی تاویلات میں مگن ہو تو اسے تباہی و بربادی سے کون بچا سکتا ہے۔ آج امت کا ظالموں سے پالا پڑا ہوا ہے، مظلوموں کو ان کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونے اور جہاد کرنے کا حق حاصل ہے، جبکہ مسلمانوں پر ان کی نصرت فرض ہے۔ اگر امت کے کسی علاقے یا کسی قوم کو ہدف ظلم بنایا جاتا ہے تو اسے اللہ نے جہاد کرنے کی اجازت دی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا: "اذن للذین یقاتلون بانھم ظلمواوان اللہ علی نصرھم لقدیر" (سورۃ الحج :آیت ،39) ترجمہ: "جن سے لڑائی کی جاتی ہے، انہیں جہاد کی اجازت ہے، کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر ضرور قدرت رکھتا ہے۔"

اسی طرح حملہ آوروں کے ساتھ بھی اللہ نے جہاد کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔"وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم" (البقرۃ:190) ترجمہ: "اور اللہ کی راہ میں ان سے قتال کرو، جو تمہارے ساتھ قتال کرتے ہیں۔" درجہ بالا آیات قرآنی سے جہاد فی سبیل اللہ کا حکم شرعی واضح طور پر مستنبط ہو رہا ہے۔ لیکن بہت بدقسمتی ہے کہ مسلم قوم پر خصی حکمران سوار ہیں، جبکہ قوم اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہے۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اہل غزہ، اہل لبنان اور اہل یمن استعمار اور اس کے مسلم حلیفوں کی وجہ سے ظلم و ستم کا شکار ہیں۔گذشتہ کل (10 اپریل 2025ء) پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد میں غزہ کے مظلوموں کے حق میں ایک بہت اہم کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں پاکستان کے اکابر علماء نے شرکت کی اور یک آواز ہو کر فرضیت جہاد کا فتویٰ جاری کیا اور کہا کہ امت کے تمام حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ غزہ کے اسلامی جہاد میں عملی طور پر حصہ لیں۔ یہ ایک اہم فتویٰ ہے، جس کی پورے عالم اسلام کو پیروی کرنی چاہیئے۔

جہاں یہ کانفرنس غزہ کے مظلوموں کی حمایت میں منعقد ہوئی، وہاں پر ایک قابل افسوس پہلو جو مجھے نظر آیا، وہ یہ ہے کہ اس کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام موجود تھے، لیکن مجھے مکتب تشیع کے علماء نظر نہیں آئے، یا تو انہیں دعوت نہیں دی گئی یا پھر انہوں نے دعوت قبول نہیں کی اور وہ خود تشریف نہیں لائے۔ دونوں صورتوں میں میرے نزدیک یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ اگر اہل تشیع علماء بھی اس کانفرنس میں شرکت کرتے تو اس کا وزن، وقار اور اہمیت دو چند ہو جاتی۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور پھر دہرا رہا ہوں کہ ہم استکباری قوتوں کا اکیلے اکیلے مقابلہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی ایک دو مسالک مل کر مقابلہ کرسکتے ہیں۔ ہمیں اسلام مخالف قوتوں کے مقابلے کے لیے کلمہ طیبہ کی بنیاد پر اکٹھا ہونا ہوگا اور اپنے تمام وسائل جب تک امت یکجا نہیں کرتی، تب تک امریکہ اور اس کے حواریوں کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہے۔ مجھے امید ہے کہ امت مسلمہ کے حکمران اتحاد امت کے لیے کوئی معقول اور اہم جدوجہد ضرور کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • ہماری حکومت سمیت تمام اسلامی حکومتوں پر جہاد اب فرض ہوچکا ہے، مفتی تقی عثمانی
  • جہاد فرض ہوچکا ہے
  • مجلس اتحاد امت پاکستان کے زیر اہتمام اسلام آباد میں قومی فلسطین کانفرنس کا انعقاد
  • فلسطینیوں کیساتھ کھڑے، فضل الرحمن: اسلامی حکومتوں پر جہاد فرض ہو چکا، مفتی تقی عثمانی
  • پاکستان سمیت تمام مسلمان حکومتوں پر جہاد فرض ہو چکا، مفتی تقی عثمانی
  • غزہ جیسے ظلم کی مثال نہیں ملتی، مسلمانوں پر جہاد واجب ہوچکا ہے، قومی فلسطین کانفرنس
  • اسرائیل اور اس کے حامیوں کا بائیکاٹ کریں، مفتی تقی عثمانی نے مسلمان حکومتوں پر جہاد فرض قرار دیدیا
  •  قومی فلسطین کانفرنس ، اسرائیل اور اس کے حامیوں کے مکمل بائیکاٹ کی اپیل
  • فلسطین کانفرنس؛ اسرائیل اور اسکے حامیوں کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کریں، مفتی تقی عثمانی