کسانوں کی گندم کا نرخ طے نہ کرنے پر حکومت کو وارننگ
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
کسان اتحاد نے گندم کا نرخ طے نہ کرنے پر وفاقی حکومت کو خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں کی تعداد میں احتجاج کی وارننگ دے دی۔
چیئرمین کسان اتحاد خالد کھوکھر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ڈھائی کروڑ ایکڑ پر گندم کاشت ہے لیکن آج گندم کا کاشتکار شدید پریشان ہے اور اس کو لگ رہا ہے کہ بچوں کو علاج اور اسکول کی سہولتیں نہیں ملیں گی۔
خالد کھوکھر نے کہا کہ جو مراعات ایم این اے کی ہیں وہ کسان کو ملنی چاہئیں لیکن کاشتکار کی پیداواری لاگت نہیں مل رہی، ہماری بجلی اور کھادوں کا نرخ قوت خرید سے باہر ہوگیا ہے، کاشتکار اپنے زیور فروخت کر کے زرعی دوائیں خریدتا ہے، آج اخراجات 3400 روپے اور گندم کا ریٹ 2200 مل رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب کسان کو گندم کا ریٹ صحیح ملا تو 6.
چیئرمین کسان اتحاد نے مزید کہا کہ 30 ملین ڈالر کی ایکسپورٹ ہیں جس میں زراعت کا بڑا حصہ ہے، آٹے کا ریٹ طے ہے لیکن چینی کا ریٹ طے نہیں ہے، چینی کا ریٹ 60 روپے تک بڑھا دیا گیا آٹا کے ریٹ کیوں نہیں بڑھا رہے؟خالد کھوکھر کا کہنا تھا کہ 14 اپریل 2025 تک حکومت نے گندم کا نرخ نہ دیا تو احتجاج کریں گے، ملتان پریس کلب کے باہر خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں کسان احتجاج کریں گے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: گندم کا کا نرخ کہا کہ کا ریٹ
پڑھیں:
تنہائی کا المیہ
انسان فطری طور پر ایک سماجی حیوان ہے۔ وہ تنہا رہنے کے لیے نہیں بنایا گیا، بلکہ اس کی روح، اس کی ذہنی اور جسمانی صحت کا انحصار دوسروں کے ساتھ میل جول، تعلقات اور معاشرتی سرگرمیوں پر ہے۔ لیکن آج کی جدید دنیا، خاص طور پر مغربی ممالک میں تنہائی ایک خاموش قاتل بن چکی ہے۔ یہ المیہ صرف احساسِ کمتری یا اداسی تک محدود نہیں، بلکہ اس کے صحت پر ایسے مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسلسل تنہائی سگریٹ نوشی، موٹاپے اور شراب نوشی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ایک تحقیق کے مطابق، تنہائی کے منفی اثرات دن میں 15 سگریٹ پینے کے برابر ہیں۔ دل کے امراض، ذہنی دباؤ، نیند کی خرابی اور حتیٰ کہ الزائمر جیسے امراض کی ایک بڑی وجہ تنہائی بنتی جا رہی ہے۔ہم جس دور میں جی رہے ہیں، وہ بظاہر ترقی یافتہ اور سہولیات سے بھرپور ہے، لیکن اس کی تہہ میں ایک ایسا خاموش عذاب چھپا ہے جو رفتہ رفتہ روح اور جسم کو چاٹ جاتا ہےوہ ہے ’’تنہائی‘‘۔
انسان فطرتاً ایک سماجی مخلوق ہے۔ اْس کی شخصیت، نفسیات اور صحت سب کچھ میل جول، تعلقات اور محبت کی فضا میں پنپتے ہیں۔ تنہائی تو جانوروں کے لئے بھی تکلیف دہ ہوتی ہے اسی لئے انہیں بھی تنہا نہیں رکھتا جاتا ۔ انسان کو حیوان ناطق کہا جاتا ہے اور بات چیت کے لئے اُسے کسی اور انسان کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسانوں کے لئے سب سے اذیت ناک سزا قید تنہائی ہے۔ لیکن تنہائی کا مطلب یہ نہیں کہ آپ بالکل اکیلے ہیں بلکہ تنہائی یہ ہے کہ آپ ہزاروں کے ہجوم میں ہیں لیکن آپ کے ساتھ کسی کا تعلق نہیں، آپ اپنے دل کی بات کسی سے نہیں کرسکتے، اپنے جذبات اور دکھ سکھ کے معاملات کسی کے ساتھ نہیں کرسکتے۔ اس کی منظر کشی کسی نے اس شعر میں خوب کی ہے
زِندگی کی راہوں میں رَنج و غَم کے میلے ہیں
بھیڑ ہے قیامت کی پھر بھی ہم اکیلے ہیں
یہ دور جدید کا المیہ ہے کہ ہم فیس بک، انسٹاگرام اور دوسرے سوشل پلیٹ فارمز پر ہزاروں’’دوست‘‘ رکھتے ہیں، لیکن حقیقت میں کوئی حقیقی دوست نہیں ہوتا۔ لیکن افسوس کہ جدید دنیا، بالخصوص یورپ کے ترقی یافتہ ممالک جیسے سویڈن، ایک ایسی زندگی کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں تنہائی روزمرہ کا معمول بن چکی ہے۔سویڈن جیسے ترقی یافتہ ملک میں تنہائی ایک بڑا سماجی مسئلہ ہے۔ یورپی یونین کی جاری کردہ معلومات کے مطابق، سویڈن میں ہر تیسرا فرد خود کو تنہا محسوس کرتا ہے۔ یہاں کے لوگ معاشی طور پر مستحکم ہیں، لیکن سماجی روابط انتہائی کمزور ہیں۔ رہائش کے جدید نظام، انفرادی طرزِ زندگی اور خاندانی ڈھانچے کے ٹوٹنے کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے کٹ گئے ہیں۔ نتیجتاً، خودکشی کی شرح بھی تشویشناک حد تک بلند ہے۔ عمر رسیدہ لوگوں میں تنہائی کا عنصر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بوڑھے لوگ جب خریداری کے لئے دوکانوں میں جاتے ہیں تو وہاں بات چیت کرنے کے بہانے تلاش کرتے ہیں۔ وہ ہاں موجود گاہکوں سے گفتگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دوکانداروں سے چیزوں کی قیمتوں اور دیگر امور کے حوالے سے بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ تنہائی دورکرنے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے۔ آج کے دور میں ہمسائیوں کی کوئی خبرگیری نہیں کرتا۔ ساتھ ساتھ گھروں میں رہنے والوں کو ایک دوسرے کا کوئی علم نہیں ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایسی خبریں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں کہ کوئی شخص اپنے گھر یا اپارٹمنٹ میں انتقال کرچکا ہوتا ہے اور ہفتوں بعد اس کا علم ہوتا ہے۔ مغربی معاشرے کا یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ مشرقی معاشرے میں بھی جدید طرز زندگی اور امیر علاقوں میں یورپ جیسی صورت حال ہے۔ پرائیویسی کے چکر میں لوگ تنہائی کی چکی میں پس رہے ہیں اور ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ ایشیائی معاشرے، خاص طور پر پاکستان اور بھارت میں خاندانی نظام اب بھی مضبوط ہے۔ یہاں میل جول، مذہبی تقریبات، شادی بیاہ اور تہواروں کا ایک ایسا سلسلہ ہے جو لوگوں کو جوڑے رکھتا ہے۔ تنظیمیں، رضاکارانہ کام اور محلے داری کے روایتی نظام نے تنہائی کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سماجی، علمی، مذہبی اور کھیلوں کی سرگرمیاں تنہائی کا سد باب ہیں۔ خاندان اور دوستوں سے تعلق رکھنا، چھوٹی چھوٹی ملاقاتیں، فون کالز یا ویڈیو چیٹ بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ مذہبی تقریبات میں شرکت مساجد، گرجا گھروں یا مندروں میں اجتماعی عبادت اور تقریبات روحانی سکون کے ساتھ ساتھ سماجی تعلقات بھی بڑھاتی ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور خیال رکھتے ہیں۔ ایسی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
تنہائی کوئی ذاتی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک اجتماعی المیہ ہے جس کا حل ہم سب کے مشترکہ اقدامات میں پوشیدہ ہے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ سماجی مراکز بنائیں، نفسیاتی مدد کی سہولیات فراہم کریں اور عوامی سطح پر اس مسئلے کے بارے میں آگاہی پھیلائیں۔ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اردگرد موجود تنہا لوگوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں۔ایک دوسرے سے رابطہ رکھا جائے اور دوست احباب کو صر ف کام کی غرض سے فون نہ کیا جائے بلکہ کچھ وقت کے بعد ویسے ہی ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرلینی چاہیے۔ اچھا دوست وہی ہے جوکسی ضرورت کے علاوہ رابطہ کرے اور خیریت دریافت کرے۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ ’’تنہائی محبت کی کمی کا نام نہیں، محبت بانٹنے والوں کی کمی کا نام ہے۔‘‘