فرانس جلد فلسطین کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرسکتا ہے؛ صدر میکرون
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
اسرائیل کے قریبی حلیف اور نیتن یاہو کے دوست فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے فلسطین کو بطور آزاد ریاست تسلیم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے جس کا اعلان چند ماہ میں متوقع ہے۔
فرانس 5 ٹی وی چینل کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں صدر ایمانویل میکرون نے کہا کہ اب ہمیں فلسطین کو تسلیم کرنے کی جانب بڑھنا ہے، اور ہم آنے والے مہینوں میں ایسا کریں گے۔
فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے بتایا کہ سعودی عرب کے ساتھ جون میں ایک کانفرنس کی صدارت کرنا ہے جہاں کئی فریقین کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کو حتمی شکل دی جا سکتی ہے۔
ایمانویل میکرون نے کہا کہ میں کسی کو خوش کرنے کے لیے فلسطین کو تسلیم نہیں کر رہا ہوں بلکہ مجھے لگتا ہے یہ وقت کی ضرورت ہے۔
فرانسیسی صدر نے کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے فرانس کو ان عناصر کے خلاف مؤقف اختیار کرنے میں بھی آسانی ہوگی جو اسرائیل کے وجود کے حق کو تسلیم نہیں کرتے، جیسا کہ ایران۔
ایمانویل میکرون نے مزید کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے مشرق وسطیٰ میں اجتماعی سیکیورٹی کے عزم کو بھی تقویت ملے گی۔
فرانسیسی صدر نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا تاہم خیال ظاہر کیا جا رہا ہے وہ ایسا جون میں نیویارک میں ہونے والی اقوام متحدہ کانفرنس میں کرسکتے ہیں۔
یاد رہے کہ فرانس طویل عرصے سے اسرائیل-فلسطین تنازع کے دو ریاستی حل کا حامی رہا ہے، یہاں تک کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد بھی فرانس نے یہی مؤقف برقرار رکھا۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے فلسطین کو کو تسلیم
پڑھیں:
ٹرمپ کا ممکنہ فیصلہ جنوبی کوریا کے لیے مصیبت کھڑی کرسکتا ہے، امریکی جنرل
امریکی فوج کا کہنا ہے کہ جنوبی کوریا میں مقیم امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی شمالی کوریا کی بڑھتی ریشہ دوانیوں کے تناظر میں مسائل کا سبب بن سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شمالی کوریا کے جنوبی کوریا پر انوکھے طرز کے حملوں میں اضافہ
یو ایس فورسز کوریا کے کمانڈر جنرل زیویئر برنسن نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کی سماعت کے دوران کہا کہ شمالی کوریا اپنے ہتھیاروں کے پروگراموں کو فروغ دے رہا ہے اور روس کے ساتھ فوجی تعلقات کو مضبوط بنا رہا ہے لہٰذا ایسے وقت میں جنوبی کوریا میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی مسئلہ کھڑا کردے گی۔
واضح رہے کہ کچھ دنوں پہلے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا تھا کہ حکومت جنوبی کوریا اور دیگر جگہوں پر امریکی فوجیوں کی تعداد کم کرنے پر غور کر سکتی ہے۔
ٹرمپ نے کہا تھا کہ ہم یورپ میں امریکی فوج پر خرچ کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں ہمیں ادائیگی زیادہ نہیں ہوتی اور یہی حال جنوبی کوریا کا بھی ہے۔
یاد رہے کہ اپنی پچھلی میعاد کے دوران ٹرمپ نے کوریا میں تعینات 28،500 امریکی فوجیوں کے لیے جنوبی کوریا کے مالیاتی تعاون میں بڑے پیمانے پر اضافے کا مطالبہ کیا تھا۔ ایک موقع پر اس وقت کے صدر مون جے سے انہوں نے 400 فیصد اضافے کا مطالبہ کیا تھا اور اس حوالے سے کئی ماہ تک مذاکرات بھی چلتے رہے تھے۔
جنوبی کوریا نے اکتوبر میں واشنگٹن کے ساتھ ایک نئے 5 سالہ لاگت کے اشتراک کے معاہدے پر دستخط کیے تھے لیکن ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ معاہدے کی شرائط پر دوبارہ بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
مزید پڑھیے: شمالی کوریا نے ’فریڈم ایج‘ مشقوں کے جواب میں 2 بیلسٹک میزائل داغ دیے
زیویئر برنسن نے سینیٹ کی کمیٹی کو بتایا کہ جنوبی کوریا میں موجود امریکی فوجی نہ صرف شمالی کوریا کے خطرات کو روکتے ہیں بلکہ روس اور چین کے خلاف بھی دفاع کی ایک اہم لائن ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہاں تعینات فوج خطے میں بیلسٹک میزائل دفاع کے لیے ایک اہم جز ہے اور انڈو پیسیفک کمانڈ کو شمال کے خطرات کو دیکھنے، سمجھنے اور سمجھنے اور بہت سے مخالفین کو روکنے میں مدد کرنے کے لیے بھی اہم ہے۔
زیویئر برنسن جنوبی کوریا امریکا کمبائنڈ فورسز کمانڈ کی قیادت بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے یو این کمانڈ نے شمالی کوریا کے جوہری اور ہتھیاروں کے پروگراموں اور روس کے ساتھ اس کے بڑھتے ہوئے فوجی تعلقات کے بارے میں بھی خبردار کیا۔
انہوں نے کمیٹی کو جمع کرائے گئے ایک بیان میں لکھا کہ ڈیموکریٹک عوامی جمہوریہ کوریا (شمالی کوریا) نے گزشتہ سال کے دوران روس کو لاکھوں توپ خانے اور درجنوں بیلسٹک میزائل بھیجے ہیں اور ساتھ ہی یوکرینی افواج کے خلاف لڑنے کے لیے 10،000 سے زیادہ فوجیوں کو تعینات کیا ہے۔
زیویئر برنسن نے کہا کہ اس کے بدلے میں روس شمالی کوریا سے خلائی، جوہری اور میزائل کے لیے قابل اطلاق ٹیکنالوجی، مہارت اور مواد کے اشتراک کو بڑھا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ روس کا توسیعی تعاون اگلے 3 سے 5 سالوں میں شمالی کوریا کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پروگرام میں پیشرفت کے قابل بنادے گا۔
انہوں نے کہا کہ سائبر کرائم آپریشنز، ہتھیاروں کی برآمدات اور غیر قانونی تجارت سے فروغ پانے کے ساتھ ساتھ پیانگ یانگ نے بیک وقت بیرونی فوجی مدد فراہم کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔
فروری میں شمالی کوریا کے ہیکرز نے کرپٹو ایکسچینج بائیبٹ سے ڈیڑھ ارب ڈالر کے ورچوئل اثاثے چراتے ہوئے تاریخ کی سب سے بڑی کرپٹو کرنسی چوری کی تھی۔
زیویئر برنسن نے کہا کہ خوراک کی قلت کی وجہ سے تباہی کی پییشن گوئیوں کے برعکس شمالی کوریا پہلے سے کہیں زیادہ مستحکم ہے جو کہ آمدنی کے نئے سلسلے کے ذریعے پیدا ہونے والے کافی وسائل سے تقویت حاصل کرچکا ہے۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ ٹیرف سے بچنے کے لیے ایپل نے 15 لاکھ آئی فون بھارت سے امریکا کیسے منگوائے؟
سماعت کے دوران یو ایس انڈو پیسیفک کمانڈ کے کمانڈر ایڈمرل سیموئل پاپارو جونیئر نے بھی خبردار کیا کہ امریکی فوجیوں میں کمی سے شمالی کوریا کے حملے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
پاپارو نے کہا کہ جنوبی کوریا سے فوجی کم کیے گئے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ شمالی کوریا اس پر حملہ کردے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر جنوبی کوریا میں امریکی فوجیوں کی تعداد کم گئی تو اس سے ہماری تنازعات میں غالب آنے کی صلاحیت کم ہوجائے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا جنوبی کوریا جنوبی کوریا میں امریکی فوجی شمالی کوریا یو ایس فورسز کوریا کے کمانڈر جنرل زیویئر برنسن