آئین پاکستان، عدالتی احکامات اور جیل مینوئل کی دھجیاں اڑ رہی ہیں، عمر ایوب
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
راولپنڈی(نیوز ڈیسک)قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا ہے کہ آئین پاکستان، عدالتی احکامات اور جیل مینوئل کی دھجیاں اڑ رہی ہیں، جیل انتظامیہ کو بھجوائے گئے ناموں کے باوجود ہماری ملاقات نہیں کرائی گئی، پولیس اہلکار خود کو ریاست سے بڑا سمجھنے لگے ہیں، چیف جسٹس سے پھر کہتا ہوں اپنے احکاماتِ پر عمل کروائیں ورنہ آپ کی کوئی حیثیت نہیں رہے گئی۔
راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو میں پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب کا کہنا تھا کہ ہمارے نام جیل سپرنٹینڈنٹ کو آئے ہوئے تھے، یہاں اسٹاف کالج فیل کوئی افسر بیٹھا ہوا ہے، ہمارے پارٹی لیڈرز کو روکا گیا، جیل کے اندر سے کہا گیا کہ سب کو اکٹھا ہونے دیں پھر اجازت دیں گے۔
عمر ایوب نے کہا کہ ایس پی صدر نے آئی جی پنجاب اور انٹیلی جنس افسران کے حکم پر توہین عدالت کی، پولیس اہلکار خود کو ریاست سے بڑا سمجھتے ہیں، پولیس ریاست کا اوزار ہے، ان کے دماغ پر نشہ چڑھا ہوا ہے، خود کو ریاست سے اوپر سمجھتے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عثمان انور کرپٹ ترین آئی جی پنجاب ہے اس کا چھوٹا چیلا ایس پی صدر نبیل ہے، خود کو ریاست سے اوپر سمجھتے ہیں، اسسٹنٹ سپرٹینڈنٹ عمران ریاض اور ہیڈ محرر زبیر نے عدالتی احکامات وصول کرنے سے انکار کیا، جیل عملے نے بتایا کہ جیل سپرنٹینڈنٹ کے احکامات ہیں کہ ہم نے کوئی آرڈر وصول نہیں کرنے۔
پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی بہنوں کو یہاں زد و کوب کیا گیا، حامد رضا، شفقت اعوان، طیبہ راجہ، عالیہ حمزہ کو یہاں سے گرفتار کیا گیا، ہمارے لوگوں کوغیرقانونی طورپرحراست میں رکھا گیا۔
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اردلی نمبر ون ہے، بوٹ پالش کرنے کے چکر میں منرلزکانفرنس کر رہا ہے، پولیس کے لوگوں کے غیر قانونی آرڈرز پر عمل کیا، مزلز کانفرنس کرنے جا رہے ہیں کون سرمایہ کاری کرے گا جہاں آئین و قانون نہیں، ان لوگوں نے عدالتی نظام کو ہوسٹیج کیا ہوا ہے، چیف جسٹس کو کہتا ہوں اپنے احکامات پر عمل درآمد کروائیں، ورنہ آپکی کوئی حیثیت نہیں رہ گئی۔
عمر ایوب کا مزید کہنا تھاکہ پولیس افسران آپ کے احکامات کو بوٹ کی نوک پر رکھتے ہیں، بہتر ہے آپ استعفی دیے بغیر گھر چلے جائیں، مذاکرات کی باتیں کی جاتی ہیں کیا شہباز شریف، مریم نواز سے مذاکرات کریں، وزیر اعلی بلوچستان سے مذاکرات کریں آخر ان کے پلے کیا ہے، ہم آئین وقانون پر عمل کرتے رہیں گے۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ملکی معاشی حالت یہ ہے کہ روپے کی قدر گرنے سے ملک پر 14 ہزار 550 ارب روپیہ کا قرضہ بڑھ گیا اور سبب محسن نقوی، انوار کاکڑ، شہباز شریف ہیں، پارٹی کے لوگوں میں اختلافات پر ہم بیشک کبڈی کریں لیکن باقیوں کو اس سے کیا؟ یہ واضح ہے ہم سب ایک لیڈر کے پیچھے متحد ہیں، یہ ہمارا پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے، ہمارا اس وقت ایک ہی مقصد ہے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی سمیت گرفتار لیڈرز کی رہائی ملے۔
پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ میرے خلاف آج اسلام آباد، سرگودھا، گوجرانوالہ کی اے ٹی سیز میں مقدمات لگے ہوئے تھے، کیا میرے پاس سلیمانی ٹوپی تھی جو ایک ہی وقت میں ہر جگہ پہنچتا، دنیا کیا اندھی بیٹھی ہوئی ہے، سب سے پہلے چیز یہ ہے کہ سرمایہ کاری سے قبل ملک میں قانون کی حکمرانی دیکھیں، یہاں جیل مینوئل، آئین پاکستان عدالتی احکامات کہ دھجیاں اڑ رہی ہیں، الحمدللہ جدھرمیں ہوں ادھر صحیح ہوں۔
4 اکتوبر احتجاج پر درج مقدمات میں عمر ایوب کی 9 کیسز میں ضمانت کنفرم
دوسری جانب اسلام آباد کی انسدادد ہشت گردی عدالت نے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے خلاف 4 اکتوبر احتجاج پر درج 9 مقدمات میں 5، 5 ہزار کے ضمانتی مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کرلی جبکہ ریکارڈ پیش نہ کرنے پر جج نے پولیس پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا یہ نوابوں کی طرح آتے ہیں، میں آئی جی یا ڈی جی کا ملازم نہیں ہوں
انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستوں پر سماعت کی جبکہ پی ٹی آئی رہنما اپنے وکلاء سردار محمد مصروف، آمنہ علی ودیگر کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔
تفتیشی کی جانب سے مقدمہ کا ریکارڈ عدالت میں پیش نہ کیا گیا، ریکارڈ پیش نہ کرنے پر عدالت نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا یہ کیا لوہے کے بنے ہوئے ہیں، ریکارڈ ہی نہیں آتا، جب ریکارڈ کا کہیں کبھی کوئی بہانہ کبھی احتجاجی ڈیوٹی، اگر 20 منٹ تک ریکارڈ نہیں آتا تو ضمانت کی درخواستوں پر فیصلہ کردوں گا۔
عدالت نے ریکارڈ کے آنے تک کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا، سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو پراسیکیوٹر راجہ نوید نے کہا کہ ریکارڈ تفتیشی نے لے کر آنا ہے وہ ابھی تک نہیں آیا، جس پر جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کہا کہ یہ نوابوں کی طرح آتے ہیں میں ان کا ملازم نہیں ہوں۔
عدالت نے عمر ایوب کی تمام 9 مقدمات میں ضمانت کنفرم کر دی اور 5،5 ہزار روپے کے مچلکوں کی عوض ضمانت کی درخواستیں منظور کیں۔
یاد رہے کہ عمر ایوب کے خلاف تھانہ شہزاد ٹاؤن، ترنول، کوہسار 3، نون 2، آبپارہ اور تھانہ مارگلہ میں مقدمات درج ہیں۔
مزیدپڑھیں:کچھ امیدیں زندہ رکھنا چاہتا ہوں شاید ایک موقع اور مل جائے، سرفراز احمد
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پی ٹی آئی رہنما عدالتی احکامات خود کو ریاست سے اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ عمر ایوب عدالت نے
پڑھیں:
آٹھ فروری کو حقیقی نمائندوں کے بجائے جعلی قیادت مسلط کی گئی، تحریک تحفظ آئین
کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے تحریک تحفظ آئین کے رہنماؤں نے کہا کہ موجودہ اسمبلیوں کے پاس کوئی مینڈیٹ نہیں، 18 ویں ترمیم کے باوجود ایس آئی ایف سی اور اپیکس کمیٹی کو استعمال کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے سڑکیں بند کی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ تحریک تحفظ آئین پاکستان کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ آٹھ فروری 2024 کو ملک میں الیکشن نہیں ہوئے، بلکہ اسمبلی کی بولیاں لگائی گئیں اور بدترین دھاندلی کی گئی۔ موجودہ اسمبلیوں کے پاس کوئی مینڈیٹ نہیں، 18 ویں ترمیم کے باوجود ایس آئی ایف سی اور اپیکس کمیٹی کو استعمال کیا جارہا ہے۔ اگر ہماری معدنیات نکالنی ہیں تو چار صوبوں کو مطمئن کرنا ہوگا۔ ملک کو بچانے کے لئے سب کو موجودہ حکومت کے خلاف نکلنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار بی این پی کے سینئر نائب صدر ساجد ترین ایڈوکیٹ، پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے جنرل سیکرٹری عبدالرحیم زیاتوال، پی ٹی آئی کے صوبائی صدر دائود شاہ کاکڑ، بی این پی عوامی کے سینئر نائب صدر حسن ایڈوکیٹ، مجلس وحدت المسلمین کے صوبائی نائب صدر ولایت حسین جعفری و دیگر نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔
بی این پی کے رہنماء ساجد ترین نے کہا کہ بی این پی کا لک پاس پر دھرنا 15 روز ہوگئے ہیں۔ بلوچستان ہائی کورٹ نے ابھی ڈاکٹر ماہ رنگ کی درخواست پر فیصلہ نہیں سنایا ہے۔ ہمارے لانگ مارچ کو روکنے کیلئے طاقت کا استعمال کیا گیا۔ بلوچستان کے مسئلے کو طاقت کے بجائے بات چیت سے حل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 8 فروری 2024 کے الیکشن میں حقیقی قیادت کو روک کر مصنوعی نمائندوں کو سامنے لایا گیا۔ بلوچستان اور پختونخواہ پر جعلی قیادت کو مسلط کیا جاتا رہا ہے۔ بلوچستان کے وسائل لوٹ کر پنجاب کو آباد کرنے کی کوشش کی گئی۔ جعلی پارلیمنٹ کے مسلط کردہ فیصلوں کے پابند نہیں ہیں۔ جعلی قیادت کو سامنے لانے کا مقصد بلوچستان اور کے پی کے وسائل کو نکال کر استعمال کرنا ہے۔ جس صوبے میں جو وسائل ہیں ان کے مالک اس صوبے کے عوام ہیں۔
رہنماؤں نے کہا کہ یہ اسمبلیاں جعلی ہیں۔ ان کے ذریعے جو فیصلے ہوں گے انہیں تسلیم نہیں کریں گے۔ جتنے جعلی نمائندے آجائیں، عوام اصلی نمائندوں کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز جعلی قیادت نے میڈیا پر جو باتیں کیں وہ آپ کے سامنے ہیں۔ کل وزراء نے جو باتیں کیں ہم ان کا جواب دینا بھی ضروری نہیں سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی وزراء کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ وہ گالیاں تو دے سکتے ہیں مگر بیک ڈور جو باتیں ہوئیں وہ سامنے کیوں نہیں لا سکتے۔ انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام نے پہلے بھی ثالثی کی کوشش کی تھی آج بھی وہ اس سلسلے میں آئے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں ساجد ترین ایڈوکیٹ نے کہا کہ شاہراہیں بی این پی نہیں حکومت نے بند کی ہیں۔ ہمارے پرامن لانگ مارچ کے تسلیم ہونے تک احتجاج جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے 8 فروری کو انتخابات میں برتری حاصل کی لیکن وہ جیل میں ہیں۔ 18 ویں ترمیم کے باوجود اپیکس کمیٹی کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اگر ہماری معدنیات نکالنی ہیں تو چار صوبوں کو مطمئن کرنا ہوگا۔ ایپکس کمیٹی کے فیصلے غیر آئینی ہیں۔
پشتونخواء ملی عوامی پارٹی کے سیکرٹری جنرل عبدالرحیم زیاتوال نے کہا کہ پاکستان 1940 کی قرارداد کے تحت وجود میں آیا ہے۔ ہم کہتے ہیں اس قرارداد کے تحت ملک کو چلایا جائے۔ اس قرارداد میں کہا ہے صوبے خود مختار ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ 8 فروری 2024 کے الیکشن میں بولی لگائی گئی۔ پی کے میپ کی 8 سیٹیں دوسروں کو دی گئیں۔ ہم نے آئین کے تحفظ کیلئے تحفظ آئین پاکستان بنائی ہے۔ موجودہ حکومت نے پیکا ایکٹ کے ذریعے صحافیوں کے گلے کو گھونٹا ہے۔ ملک کو بچانے کے لئے سب کو نکلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے جو ترمیم کی ہیں، اسے ہم تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ یہ ملک اس طرح چلنے کے قابل نہیں ہے۔ جمہور کی بالادستی، تمام صوبوں کا مطمئن ہونا ضروری ہے۔ بی این پی اور تحفظ آئین پاکستان کے مطالبات کو تسلیم کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ اسمبلی کا کوئی مینڈیٹ نہیں ہے۔ اس کی جانب سے صوبے کی معدنیات کا اختیار وفاق کو دینے کا جو ایکٹ منظور کیا گیا ہے، اسے تسلیم نہیں کرتے صوبے کی معدنیات وفاق کے حوالے کرنے کے ایکٹ کی مخالف کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی این پی کے لانگ مارچ کے مطالبات کو تسلیم کیا جائے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے صوبائی صدر دائود شاہ کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان اور کے پی کے کی معدنیات پر قبضہ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ ہم صوبے کی معدنیات پر قبضہ کرنے نہیں دیں گے۔ ہم بی این پی کے دھرنے کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ بلوچستان حکومت کے پاس کوئی ووٹ بینک نہیں ہے۔ اس حکومت کو لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈالرز کی گیم کھیلیں جا رہی ہیں۔ حکومت بلوچستان میں خون خراب چاہتی ہے۔ حکمران اس وقت گھبرائے ہوئے ہیں۔ اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی نائب صدر علامہ ولایت حسین جعفری نے بھی بی این پی کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔