یورپی کمیشن کا بھی جوابی ٹیرف کے نفاذ میں 90 روزہ وقفے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
صدر یورپین کمیشن ارسلا وانڈر لین کا کہنا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ مذاکرات کو ایک موقع اور دیا جائے، یورپی یونین کے جوابی اقدامات کو رکن ممالک کی بھرپور حمایت حاصل ہے، لیکن ہم نے ان اقدامات کو 90 دن کےلیے مؤخر کر نے فیصلہ کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ یورپی کمیشن کی صدر نے بھی جوابی ٹیرف کے نفاذ میں 90 روزہ وقفے کا اعلان کیا ہے۔ صدر یورپین کمیشن ارسلا وانڈر لین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کے ٹیرف کے نفاذ میں وقفے کے اعلان کا نوٹس لیا ہے۔ انھوں نے کہا ہم چاہتے ہیں کہ مذاکرات کو ایک موقع اور دیا جائے، یورپی یونین کے جوابی اقدامات کو رکن ممالک کی بھرپور حمایت حاصل ہے، لیکن ہم نے ان اقدامات کو 90 دن کےلیے مؤخر کر نے فیصلہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ یورپی یونین نے دو روز قبل امریکا پر جوابی 25 فیصد محصولات عائد کرنے کی منظوری دے تھی۔ واضح رہے کہ گذشتہ روز امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوابی ٹیرف نہ لگانے والے ممالک پر اضافی ٹیرف 90 روز کے لیے معطل کر دیا تھا، تاہم چین پر 125 فیصد ٹیرف فوری طور پر نافذ العمل کر دیا۔ اس سلسلے میں وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ درآمدات پر پہلے سے عائد 10 فیصد ڈیوٹی بدستور نافذالعمل رہے گی۔ معطلی کا اطلاق گاڑیوں، اسٹیل اور ایلومینیم پر عائد ٹیرف پر نہیں ہوگا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اقدامات کو
پڑھیں:
وسطی یورپی ممالک میں مویشیوں میں منہ کھر کی وبا، سرحدیں بند
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 اپریل 2025ء) ہنگری میں لیویل نامی شہر سے ہفتہ 12 اپریل کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق وسطی یورپ کے ممالک میں اب تک منہ کھر کی وبا سے متاثرہ ہزارہا مویشی تلف کیے جا چکے ہیں مگر حکام کو اب بھی جانوروں کی اس بیماری کے وبائی پھیلاؤ کے مقابلے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔
اس تازہ ترین وبا کے پہلے واقعے کی تصدیق مارچ کے اوائل میں شمال مغربی ہنگری میں مویشیوں کے ایک فارم میں ہوئی تھی۔
اس کے صرف دو ہفتے بعد ہمسایہ ملک سلواواکیہ میں بھی مویشیوں کے تین فارموں پر اس بیماری نے جانوروں کو متاثر کرنا شروع کر دیا تھا۔برطانیہ نے جرمنی سے مویشیوں کی درآمد پر پابندی لگا دی
ایک خاص متعدی وائرس سے لگنے والی جانوروں کی یہ بیماری بہت تیز رفتاری سے پھیلتی ہے۔
(جاری ہے)
یہ مرض خاص طور پر ایسے جانوروں کو متاثر کرتا ہے، جن کے پاؤں میں کھر ہوتے ہیں۔
یہ مرض جانوروں کے منہ کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے۔ اسی لیے اسے منہ کھر کی بیماری کہتے ہیں اور یہ ایسے مویشیوں کو اپنا شکار بناتی ہے جو دودھ یا گوشت کے لیے پالے جاتے ہیں۔
وبا کی موجودہ صورت حالمارچ کے اوائل میں ہنگری سے شروع ہونے والی مویشیوں کی اس وبا کی سلوواکیہ میں پہلے تین فارموں کے علاوہ اب تک ہنگری میں مزید تین اور سلوواکیہ میں بھی مزید تین فارموں پر موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے۔
یہ خدشات بھی ہیں کہ ان دونوں ممالک سے جانوروں کا یہ وبائی مرض دیگر وسطی یورپی ممالک میں بھی پہنچ سکتا ہے۔ہنگری اور سلوواکیہ میں تو یہ گزشتہ نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے میں منہ کھر کی وبا کے اولین واقعات ہیں۔
آئی وی ایف سے پیدا بچھڑا میتھین گیس اخراج کم کرنے میں معاون؟
ہنگری کے ایک چھوٹے سے شہر لیویل میں ایک مقامی شہری نے بتایا، ''یہاں تو دنیا ہی الٹ گئی ہے۔
کسان خوفزدہ ہیں کہ وہ اپنے تمام مویشیوں سے محروم ہو جائیں گے اور وہ قرنطینہ کے سبب اور سرحدیں بند ہونے کی وجہ سے بھی اب صحت مند مویشیوں کو کہیں اور نہیں لے جا سکتے۔‘‘ یہ وبا پھیلتی کیسے ہے؟منہ کھر کی بیماری ایسے مویشیوں کو اپنا شکار بناتی ہے، جن کے پاؤں کے دو کھر ہوتے ہیں، اسی لیے یہ وائرس زیادہ تر گائیوں، بھینسوں، بھیڑوں، بکریوں، سؤروں اور ہرنوں کو متاثر کرتا ہے۔
اس بیماری کا وائرس لگنے کے بعد جانوروں کو بخار ہو جاتا ہے اور ان کے منہ اور کھروں کے ارد گرد شدید قسم کے چھالے بن جاتے ہیں۔ یہ وائرس جانوروں کے ایک دوسرے کے قریب آنے سے ایک سے دوسرے مویشی میں منتقل ہو جاتا ہے۔
لیکن جانوروں میں یہی وائرس ہوا کے ذریعے بھی پھیلتا ہے اور یہی متاثرہ یورپی علاقوں میں حکام کے لیے سب سے زیادہ تشویش کی بات ہے۔
یہ وائرس انسانوں کے لیے بہت کم خطرناک ہوتا ہے۔ تاہم ڈیری فارمنگ اور لائیو اسٹاک کے لیے یہ وبا ہوش ربا مالی نقصانات کی وجہ بنتی ہے کیونکہ وائرس سے متاثر ہو جانے کی صورت میں ایسے ہزاروں بلکہ لاکھوں مویشی تلف کرنا پڑ جاتے ہیں۔
قومی سرحدوں کی بندشمنہ کھر کی اس وبا کے پیش نظر سلوواکیہ کی حکومت نے اسی ہفتے ہنگری کے ساتھ اپنی 16 مشترکہ گزر گاہوں کو بند کرنے کا اعلان کر دیا۔
ساتھ ہی سلوواک حکومت نے آسٹریا کے ساتھ بھی اپنی ایک بارڈر کراسنگ بند کر دی۔قبل ازیں آسٹریا نے بھی، جس کی سرحد جرمنی سے بھی ملتی ہے، ہنگری اور سلوواکیہ کے ساتھ اپنی 23 سرحدی گزرگاہیں بند کر دی تھیں۔ آسٹریا میں ابھی تک مویشیوں کے اس وبائی مرض کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔
ان حالات میں چیک جمہوریہ نے، جو ہنگری اور سلوواکیہ کے اس وبا سے متاثرہ علاقوں سے کافی دور ہے، اپنے ہاں سخت حفاظتی انتظامات کا اعلان کر دیا ہے۔
چیک حکومت نے ان تمام پانچ بارڈر کراسنگز پر، جہاں سے مال بردار ٹرک اس ملک میں داخل ہوتے ہیں، ایسے اقدامات متعارف کرا دیے ہیں، جن کے تحت مال بردار گاڑیوں کو جراثیموں سے پاک کیا جا رہا ہے۔ چیک جمہوریہ میں بھی اب تک منہ کھر کی بیماری کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔
ادارت: امتیاز احمد