بلوچستان میں احتجاج اور دہشت گردی، ریاست کے لیے ویک اپ کال
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
اسلام ٹائمز: عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے تشدد اور دہشت گردی کے تناظر میں سیاسی اپوزیشن کے خلاف جاری کریک ڈاؤن نے صوبے کی صورتحال کو انتہائی ناگفتہ بہ بنا دیا ہے۔ ایک ٹوٹی پھوٹی صوبائی حکومت جس کی قانونی حیثیت بھی سوالیہ ہے وہ مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ اصل طاقت اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے، جو صورت حال کو صرف ’سیکیورٹی لینس‘ سے دیکھتی ہے۔ یہ ریاست کے لوگوں کے دل و دماغ سے محروم ہونے کی بڑی وجہ رہی ہے۔ یہ یقینی طور پر دہشت گرد گروہوں کو زیادہ استثنیٰ کے ساتھ کام کرنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔ تحریر: زاہد حسین
گزشتہ کئی ہفتوں سے بلوچستان میں نظام زندگی معطل ہے، صوبے کو ملک کے دیگر حصوں سے جوڑنے والی بیشتر شاہراہیں مظاہرین نے بند کی ہوئی ہیں، جبکہ موبائل فون سروسز معطل ہیں۔ کوئٹہ جو کہ صوبائی دارالحکومت ہے، تقریباً محصور ہوچکا ہے اور انتظامیہ مظاہرین کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کر رہی ہے، جن کی قیادت اختر مینگل کر رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ریاست کی حاکمیت کا مکمل طور پر خاتمہ دکھائی دے رہا ہے۔ حتیٰ کہ اختر مینگل اور دیگر بلوچ قوم پرست جیسے رہنما جو کبھی عوام اور ریاست کے درمیان آخری رابطہ سمجھے جاتے تھے، اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا سیاسی عمل پر سے اعتماد ختم ہورہا ہے۔ سابق صوبائی وزیر اعلیٰ جو کہ بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے اپنے دھڑے کے سربراہ ہیں، چند ماہ قبل پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے چکے ہیں اور انہوں نے بلوچستان کے عوام کو درپیش ’عدم تحفظ‘ پر پارلیمنٹ کی بے حسی کو وجہ قرار دیا تھا۔ وہ حال ہی میں یو اے ای سے واپس آئے، جہاں وہ پارلیمنٹ سے استعفیٰ دینے کے بعد مقیم تھے اور بلوچستان میں دہشت گردی اور شدت پسندی کی حالیہ لہر کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بعد وہ بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف ’لانگ مارچ‘ کی قیادت کر رہے ہیں۔ یہ مارچ اب کئی دیگر قوم پرست جماعتوں اور مرکزی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل چکا ہے۔ ریاستی زیادتیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے عوامی غصے نے بلوچ نوجوانوں کو شدت پسند گروہوں کی حمایت کی طرف مائل کر دیا ہے۔ یہ پریشان کن رجحان قوم پرست جماعتوں کو مکمل طور پر غیر متعلق بنا سکتا ہے۔
ایسی صورت حال میں ریاست کے پاس کوئی بات کرنے کے لئے نہیں بچے گا لیکن اسلام آباد اور راولپنڈی میں اقتدار کی راہداریوں میں حالات کی سنگینی کا کوئی ادراک نہیں۔ اس کے بجائے، ہم معقول آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے زبردستی طاقت کے بڑھتے ہوئے استعمال کا مشاہدہ کر رہے ہیں اور انہیں جمہوری راستہ ترک کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ عسکریت پسندوں کے بڑھتے ہوئے تشدد اور دہشت گردی کے تناظر میں سیاسی اپوزیشن کے خلاف جاری کریک ڈاؤن نے صوبے کی صورتحال کو انتہائی ناگفتہ بہ بنا دیا ہے۔ ایک ٹوٹی پھوٹی صوبائی حکومت جس کی قانونی حیثیت بھی سوالیہ ہے وہ مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ اصل طاقت اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے، جو صورت حال کو صرف ’سیکیورٹی لینس‘ سے دیکھتی ہے۔ یہ ریاست کے لوگوں کے دل و دماغ سے محروم ہونے کی بڑی وجہ رہی ہے۔ یہ یقینی طور پر دہشت گرد گروہوں کو زیادہ استثنیٰ کے ساتھ کام کرنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتا ہے۔ صوبہ بھر میں ہائی پروفائل دہشت گردانہ حملوں کی حالیہ لہر بھی ریاست کے کنٹرول کھونے کا ثبوت ہے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق صوبے کے 20 اضلاع اب عسکریت پسندوں کے تشدد اور سیاسی بے امنی سے متاثر ہیں۔ انتظامیہ کے خاتمے نے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق صوبائی کابینہ کے کچھ وزرا بھاری سیکیورٹی کے باوجود اپنے حلقوں میں نہیں جا سکتے۔ ایک مسافر ٹرین کی حالیہ ہائی جیکنگ اور صوبے کے مختلف حصوں میں بیک وقت دہشت گردانہ حملے عسکریت پسند گروپوں کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں کو واضح کرتے ہیں۔ یہ مقامی تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ سیکیورٹی فورسز کی طرف سے کریک ڈاؤن ان گروہوں کو مزید بھرتیاں فراہم کرتا ہے۔ خواتین جنگجوؤں کی بڑھتی ہوئی شمولیت نے بلوچ عسکریت پسندی کو مزید مہلک بنادیا ہے۔ خواتین خودکش حملہ آوروں کے دہشت گردانہ حملے کرنے کے بہت سے واقعات ہوئے ہیں، خاص طور پر سیکیورٹی اہداف پر۔ خواتین بھی حقوق کی تحریک کی قیادت کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر بہت سے لوگ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو حقوق کی تحریک کو مشعل راہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ زیادہ تر خواتین جو اب حقوق کی تحریک کی قیادت کر رہی ہیں ان کی اپنی کہانیاں ہیں کہ ان کے خاندان کے افراد ریاستی جبر کا شکار ہو رہے ہیں۔ نوجوان اور تعلیم یافتہ بلوچ مزاحمتی قیادت کی نئی نسل کے ابھرنے نے پرانے محافظ کو سیاسی طور پر غیر متعلق کر دیا ہے۔ ریاست کو اب ان سے نمٹنا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ صوبے میں تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے کی کوئی سمجھ نہیں ہے۔
بلوچستان میں اب جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ کئی دہائیوں سے جاری ریاستی بدانتظامی، نظر انداز کرنے اور لوگوں کو ان کے بنیادی سیاسی اور معاشی حقوق سے محروم کرنے کا نتیجہ ہے۔ بڑھتی ہوئی بیگانگی اور بڑھتا ہوا علیحدگی، عسکریت پسند تشدد ہماری حکمران اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے نوآبادیاتی طریقوں اور ذہنیت کا ردعمل لگتا ہے۔ سیکیورٹی فورسز کو پانچویں بلوچ بغاوت کا سامنا ہے۔ اس سے قبل 1948ء، 59-1958ء، 63-1962ء، اور 77-1973ء میں چار بغاوتیں ہو چکی ہیں۔ مگر اس مرتبہ باغی زیادہ تیار دکھائی دیتے ہیں اور ان کے پاس جدید ترین ہتھیار اور جدید مواصلاتی نظام موجود ہے۔ آخری بغاوت کے بعد صوبہ نسبتاً مستحکم رہا اور 1988ء میں جمہوریت کی بحالی کے نتیجے میں بلوچ قوم پرست قومی دھارے میں آئے۔ اگرچہ قدرتی گیس کی رائلٹی اور صوبے کے قدرتی وسائل کے حوالے سے ان کے بہت سے مطالبات پورے نہیں ہوئے لیکن جمہوری حکمرانی نے بلوچوں کو سیاسی شرکت کا احساس فراہم کیا۔ کشیدگی 2003ء میں بڑھنا شروع ہوئی جب مشرف حکومت نے صوبے میں تین نئی چھاؤنیوں کے منصوبے کا اعلان کیا۔ یہ خیال مقامی سیاسی قوتوں کے ساتھ اچھا نہیں ہوا۔ سیکیورٹی اہلکاروں کی بڑھتی ہوئی تعیناتی نے عدم اطمینان کو مزید ہوا دی۔
بلوچستان میں، یہاں تک کہ امن و امان کی دیکھ بھال بھی زیادہ تر وفاق کے زیر کنٹرول نیم فوجی دستوں کے پاس ہے۔ اس نے دیگر معاملات کے علاوہ صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ موجودہ صوبائی حکومت جسے اسٹیبلشمنٹ نے سہارا دیا ہے، کوئی حقیقی طاقت نہیں رکھتی۔ ایک خیال یہ بھی تھا کہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور احتجاج کو ’ویک اپ کال‘ کے طور پر لیا جائے گا اور اس سے وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ قوم پرست رہنماؤں کے ساتھ بیٹھ کر سیاسی حل تلاش کرنے پر مجبور ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کے بجائےحکومت نے ایک ”سخت ریاستی“ کمیٹی قائم کی ہے جس کی سربراہی وفاقی وزیر داخلہ کر رہے ہیں۔ اب یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ ’سخت ریاست‘ کا اصل مطلب کیا ہے اس کے بارے میں کئی سوالات ہیں جن کے جواب نہیں۔ ریاست کو صرف تب ہی مضبوط بنایا جا سکتا ہے جب لوگوں کے عدم اطمینان کے اسباب کو ختم کیا جائے، نہ کہ کوئی دکھاوا کیا جائے۔ ہم صرف اُمید ہی کر سکتے ہیں کہ بہتر فیصلے کیے جائیں، اس سے پہلے کے بہت دیر ہوجائے۔
اصل تحریر:
https://www.
dawn.com/news/1903059/the-states-failure
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بلوچستان میں بڑھتی ہوئی بڑھتے ہوئے کر رہے ہیں کر دیا ہے کی قیادت ریاست کے کو مزید نے بلوچ کے خلاف کرنے کے کے ساتھ اور ان حال کو کے پاس کے لیے
پڑھیں:
بلوچستان کا سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا
بلوچستان کے حوالے سے ہمارے پاس تین آپشن ہیں۔اول، بغیر کسی سمجھوتے کے حالات کی درستگی کے لیے مکمل طاقت کا استعمال کیا جائے، جو لوگ ریاست کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں، ان کو سختی سے کچلا جائے اور کوئی نرمی نہ کی جائے۔دوئم، بلوچستان کا سیاسی حل تلاش کرنا ہوگا۔ اس تناظر میں بلوچستان میں جو بھی سیاسی یا غیر سیاسی فریقین ہیں ان کو اعتماد میں لے کر ایک بڑا سیاسی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔
اس طبقہ کے بقول طاقت کا استعمال مسئلے کا حل نہیں بلکہ بگاڑ پیدا کرے گا۔سوئم، ہمیں طاقت کا استعمال اور سیاسی حکمت عملی کو ساتھ ساتھ لے کر آگے بڑھنا ہوگا ، جہاں طاقت ضروری ہو وہیں اس کا استعمال کیا جائے لیکن مستقل حکمت عملی سیاسی بنیادوں پر تلاش کرنا ہی ریاست کے مفاد میں ہوگا۔ ماضی میں ہم نے بلوچستان میں کئی آپریشن کیے ہیں۔لیکن کوئی مستقل حل نہیں نکلا بلکہ حالات زیادہ بگاڑ کا شکار ہو گئے ہیں۔
سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ بلوچستان میں سیاسی اور جمہوری لوگ بھی تحفظات رکھتے ہیں۔ بلوچستان میں موجود سیاسی قیادت یا حکومت کے درمیان بد اعتمادی کا یہ ماحول حالات کو مزید خراب کرنے کا سبب بن رہا ہے۔وفاقی حکومت یا بلوچستان کی صوبائی حکومت کی جانب سے کوئی ایسی سنجیدہ کوشش یا عملی اقدام ابھی تک نظر نہیں آیا جس میں انھوں نے بلوچستان کی تمام سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا ہو ۔
بظاہر ایسے لگتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومت ایک جانب کھڑی ہیں اور دوسری جانب بلوچستان کی حکومت مخالف سیاسی قیادت ہے جو حکومت سے مختلف سوچ رکھتی ہے۔حالانکہ حکومت کی پہلی ترجیح یہ ہی ہونی چاہیے تھی کہ بلوچستان میں موجود تمام علاقائی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جاتا۔ حالانکہ سردار اختر مینگل،محمود خان اچکزئی اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ماضی میں مختلف سیاسی ادوار میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا باقاعدہ حصہ رہے ہیں۔ لیکن اب حکومت اور بلوچستان میں موجود سیاسی جماعتوں کے درمیان فاصلے بہت بڑھ گئے ہیں۔
ہمیں بلوچستان کے مسئلے کے حل میں وفاقی اور بلوچستان کی صوبائی حکومت کا کوئی بڑا سیاسی کردار دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ایسے لگتا ہے کہ وفاقی اور بلوچستان کی صوبائی حکومت سیاسی تنہائی کا شکار ہے۔اسی طرح ایک اور غلطی یہ کی جا رہی ہے کہ بلوچستان کے حل کو محض ایک صوبائی مسئلہ سمجھ کر حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔حالانکہ یہ محض ایک صوبائی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کا براہ راست تعلق قومی سیاست یا ملک کے سیاسی ، سیکیورٹی اور معاشی عدم استحکام سے جڑاہوا ہے۔
بلوچستان کے حالات کی بہتری میں محض طاقت کے استعمال کی حکمت عملی کسی صورت کارگر ثابت نہیں ہوگی بلکہ اس کا نتیجہ مزید سیاسی انتشار اور بگاڑ کی صورت میں پیدا ہوگا۔بالخصوص جب ہمارا موقف یہ ہے کہ بلوچستان کے حالات کی خرابی میں بھارت کی مداخلت سر فہرست ہے اور جو لوگ بلوچستان میں بیٹھ کر پاکستان کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں ان کو کسی نہ کسی شکل میں بھارت کی معاونت اور سہولت کاری حاصل ہے تو ایسے میں ہمیں سیاسی محاذ پر اور زیادہ ذمے داری کے ساتھ صوبے کے حالات کو درست کرنے کی طرف حکمت کو اختیار کرنا ہوگا۔
بھارت کی مداخلت اپنی جگہ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے داخلی معاملات سے جڑے مسائل اور خرابیاں بھی ہمارے حالات کو خراب کرنے کے ذمے دار ہیں۔پچھلے دنوں آرمی چیف نے بجا کہا تھا کہ ہمارے حالات کی خرابی میں جہاں داخلی سطح کے معاملات ہیں وہیں گورننس سے جڑے مسائل بھی ہمارے لیے حالات کو خراب کرنے کی وجہ بن رہے ہیں۔ گورننس کے حالات محض صوبہ بلوچستان میں خراب نہیں بلکہ ملک کی مجموعی صورتحال ہی ایسی ہے۔اس لیے ہمیں داخلی معاملات کا تجزیہ کرنا ہوگا اور یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ حالات کی خرابی میں ہمارے داخلی معاملات کا ہاتھ بیرونی مداخلتوں سے زیادہ ہے ۔
بلوچستان میں جہاں گورننس سے جڑے مسائل اہمیت رکھتے ہیں وہیں سیاسی مسائل بھی حالات کی خرابی میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔لاپتہ افراد کا معاملہ ہو یا لوگوں کے بنیادی شہری یا انسانی حقوق ہو یا قانون کی حکمرانی کی عدم موجودگی ہو یا لوگوں میں بڑھتا ہوا سیاسی اور معاشی محرومی کا پہلو ہو یہ سب وہ نکات ہیں جس پر بلوچستان کے لوگوں میں سخت تحفظات پائے جاتے ہیں۔لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست اور حکومت کے ادارے ان کے ساتھ نہیں کھڑے ہوئے اور یہ ایک خطرناک رجحان ہے جس کا علاج ریاستی اور حکومتی اداروں کو ہر سطح پر تلاش کرنا چاہیے۔
کیونکہ اگر ہم نے بلوچستان کے حالات کو درست کرنا ہے تو یہ بلوچستان کے لوگوں کو شامل کیے بغیر ممکن نہیں ہو سکے گا۔ مرکزی اور بلوچستان میں موجود سیاسی قیادت کے درمیان اتفاق رائے کا پیدا ہونا اور ایک دوسرے کے معاملات یا فہم کو سمجھنا اور ایک مشترکہ حکمت عملی بنانا اہم ہے۔لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ہی ممکن ہوگا جب ہم طاقت کی حکمت عملی سے باہر نکل کر سیاسی حکمت عملی کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل میں وفاقی حکومت فوری طور پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرے اور اس اجلاس میں بلوچستان کے حالات کو درست کرنے میں بڑا فریم ورک سامنے لانا ہوگا۔
بلوچستان کے حالات کو درست کرنے میں اس تاثر کی ہر سطح پر نفی ہونی چاہیے کہ وہاں پر جو بھی فیصلے ہو رہے ہیں اس میں سیاسی جماعتوں یا سیاسی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔اس وقت بھی بلوچستان میں دو بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی باہمی حکومت ہے۔ لیکن ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے بھی صوبے کے حالات کی بہتری میں ابھی تک کوئی اہم کام نہیں کیا۔ بلوچستان میں صوبائی حکومت کی کمزوری نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
وفاقی حکومت یا بلوچستان کی صوبائی حکومت ابھی تک ہمیں ان کی جانب سے کوئی ایسی سنجیدہ کوشش یا اہم عملی اقدام نظر نہیں آیا جس میں انھوں نے بلوچستان کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا ہو یا ان کی مدد سے مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔بظاہر ایسے لگتا ہے کہ ریاست کے ادارے وفاقی اور صوبائی حکومت ایک جانب کھڑے ہیں اور دوسری جانب بلوچستان کی سیاسی قیادت ہے جو معاملات کی بہتری میں ریاست اور حکومت سے مختلف سوچ یا نقطہ نظر رکھتی ہے۔
حالانکہ ریاست اور حکومت کی پہلی ترجیح یا حکمت عملی یہ ہی ہونی چاہیے تھی کہ آگے بڑھنے کے لیے سب سے پہلے بلوچستان میں موجود تمام علاقائی جماعتوں یا ان کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا جاتا۔ ایک طرف بلوچستان کے پہاڑوں پر بیٹھ کر ریاست یا حکومت کو مسلح مزاحمت یا اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دہشت گردی کا سامنا ہے تو دوسری طرف بلوچستان کی عملا سیاسی قیادت کی جانب سے سیاسی مزاحمت بھی ایک بڑے خطرہ کے طور پر سامنے آئی ہے۔
بلوچستان میں موجود لوگوں کے جو مسائل ہیں ان کو محض جذباتیت کی بنیاد پر دیکھنے کی بجائے یا الزام تراشیوں کا سہارا لینے کی بجائے یہ سمجھا جائے کہ ان مسائل کی حقیقت کیا ہے اور وفاقی یا صوبائی حکومت اس کی بہتری میں کیا کردار اداکر سکتی ہے۔سردار اخترمینگل، محمود خان اچکزئی اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ تجربہ کار سیاستدان ہیں اور ان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ سیاسی راستہ تلاش کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔