انسانی اسمگلنگ، 21 پاکستانی آج میانمار سے واپس وطن پہنچیں گے
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
— جنگ فوٹو
میانمار میں پھنسے انسانی اسمگلنگ کا شکار 21 پاکستانی شہری آج وطن واپس پہنچ رہے ہیں، ان افراد کو سخت حالات میں جبری مشقت پر مجبور کیا جا رہا تھا۔
حکومتِ پاکستان کی بھرپور کاوشوں، تھائی لینڈ اور میانمار کی حکومتوں کے تعاون سے ان متاثرین کی بحفاظت واپسی ممکن ہو سکی، پاکستانی سفارت خانہ بنکاک نے اس عمل میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
تھائی لینڈ میں پاکستان کی سفیر رخسانہ افضال نے متاثرین کو رخصت کیا اور ان کو حکومت کی مکمل معاونت کا یقین دلایا۔
سفیر نے ان کی بحفاظت واپسی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار بھی کیا۔
وزیراعظم شہباز شریف نے انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروہ کے سرغنہ کی گرفتاری پر ایف آئی اے اور انٹیلی جنس بیورو کے افسران و اہلکاروں کی پذیرائی اور کارکردگی کو سراہا ہے۔
بازیاب ہونے والے پاکستانیوں کے اہلِ خانہ شدت سے ان کی واپسی کے منتظر ہیں۔
یہ میانمار سے پاکستانی شہریوں کی دوسری کامیاب واپسی ہے۔
پاکستانی سفارت خانہ بنکاک تیسری کھیپ کی واپسی کے لیے سرگرم ہے، جو اپریل 2025ء کے آخر تک متوقع ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق، ایک اندازے کے مطابق اب بھی تقریباً 500 پاکستانی میانمار کے سرحدی علاقوں میں اسکیم کمپاؤنڈز کے اندر پھنسے ہوئے ہیں، جہاں انہیں جبری مشقت پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ان کی واپسی کے لیے حکومت پاکستان کوششیں تیز کر چکی ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: انسانی اسمگلنگ واپسی کے
پڑھیں:
اقوام متحدہ کی انسانی امداد کے ادارے کا پاکستان سمیت 60 سے زائد ممالک میں عملے میں 20فیصد کمی کا اعلان
جنیوا(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 اپریل ۔2025 )اقوام متحدہ کی انسانی امداد کے ادارے نے کہا ہے کہ وہ اپنے عملے میں 20 فیصد کمی کر رہا ہے جس سے پاکستان سمیت 60 سے زائد ممالک میں کام کرنے والے عملے کی ملازمتوں پر اثر پڑ سکتا ہے امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق اس عملے کی مجموعی تعداد 2600 ہے عملے میں کمی کی وجہ فنڈنگ میں ہونے والی وہ سخت کٹوتیاں ہیں جن کے نتیجے میں ادارے کو تقریباً 60 کروڑ ڈالر کی کمی کا سامنا ہے.(جاری ہے)
اقوام متحدہ کے انسانی امور کے سربراہ ٹام فلیچر نے ایک خط میں کہاگیا ہے کہ انسانی امداد سے وابستہ برادری پہلے ہی وسائل کی کمی، حد سے زیادہ دباﺅ اور بظاہر حملوں کی زد میں تھی اور اب فنڈ میں تازہ کٹوتیوں نے صورت حال کو مزید سنگین بنا دیا ہے ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور (اوچا) کی موجودگی اور سرگرمیاں پاکستان، کیمرون، کولمبیا، اریٹریا، عراق، لیبیا، نائیجیریا، غازی انتپ (ترکی) اور زمبابوے میں محدود کر دی جائیں گی. ادارے کے عملے کو لکھے گئے خط میں فلیچر نے یہ نہیں بتایا کہ کس ملک کی جانب سے فنڈنگ میں کٹوتی کی گئی جس کی وجہ سے اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور (اوچا) کو مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا تاہم ان کے اشارے سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ملک انڈیا نہیں بلکہ امریکہ ہے فلیچر نے کہا کہ 2025 کے لیے اوچا کا مجموعی بجٹ تقریباً 430 کروڑ ڈالر ہے ان کا کہنا تھا کہ کئی ممالک نے ایجنسی کے اضافی بجٹ وسائل میں کٹوتیوں کا اعلان کیا یا پہلے ہی یہ کٹوتیاں نافذ کر چکے ہیں اس ضمن میں انہوں نے خاص طور پر امریکہ کا نام لیا. ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کئی دہائیوں سے انسانی امداد دینے والا سب سے بڑا ملک رہا ہے امریکہ اوچا کے اضافی بجٹ وسائل میں بھی سب سے زیادہ حصہ دینے والا ملک ہے جو تقریباً 20 فیصد بنتا ہے یعنی 2025 کے لیے چھ کروڑ 30 لاکھ ڈالر انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی کہ آیا امریکہ نے یہ رقم کم کر دی یا نہیں جب چھ کروڑ 30 لاکھ ڈالر کی رقم کے بارے میں وضاحت طلب کی گئی تو امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ اوچا سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں کے لیے فنڈنگ ابھی جائزے کے مرحلے میں ہے وائٹ ہاﺅس نے اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا. فلیچر نے خط میں کہا کہ اب تک متوقع اخراجات کی مجموعی رقم 25 کروڑ 85 لاکھ ڈالر ہے اور اس کے مقابلے میں ہمارے پاس تقریباً پانچ کروڑ 80 لاکھ ڈالر کا فنڈنگ خسارہ ہے انہوں نے کہا کہ اگرچہ انسانی امداد کی ضرورتیں بڑھ گئی ہیں لیکن اوچا پہلے ہی دیکھ رہا ہے کہ فنڈنگ میں کٹوتیاں زندگی بچانے والی امداد تک رسائی کو متاثر کر رہی ہیں انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کے ساتھ کام کرنے والی انسانی امدادی تنظیمیں اس بحران سے شدید متاثر ہوئی ہیں جن میں سب سے زیادہ نقصان مقامی تنظیموں کو ہوا ہے اس کے بعد بین الاقوامی تنظیمیں اور پھر اقوام متحدہ کی اپنی انسانی امدادی ایجنسیاں متاثر ہوئی ہیں. فلیچر نے کہا کہ اوچا کو اپنی سرگرمیوں کو دستیاب وسائل کے مطابق ازسرنو ترتیب دینا ہوگا اور اس کے لیے اسے اپنے انتظامی ڈھانچے کو کم کرنا پڑے گا تاکہ وہ کم مرکزیت والا ادارہ بن سکے اس کا مطلب ہے کہ اقوام متحدہ کے صدر دفتر اور کچھ علاقوں و ممالک میں سینیئر عہدوں کی تعداد میں نمایاں کمی کی جائے گی.