اہل تشیع کو تعلیمی نصاب کے متعلقہ اداروں میں نمائندگی دی جائے، علامہ مقصود ڈومکی
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
اپنے بیان میں علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ موجودہ نظام اور نصاب میں اہل تشیع کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے، جو کہ آئینِ پاکستان اور اسلامی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ موجودہ نصاب تعلیم کے سلسلے میں اہل تشیع کے موقف کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ قوم کو متعلقہ اداروں میں نمائندگی دی جائے۔ اپنے جاری کردہ بیان میں مرکزی رہنماء مجلس وحدت مسلمین پاکستان اور چیئرمین نصاب تعلیم کمیٹی علامہ مقصود علی ڈومکی نے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں بسنے والے تمام مکاتب فکر کو نصاب تعلیم کونسل، اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت سمیت قومی، تعلیمی اور دینی اداروں میں برابری کی بنیاد پر نمائندگی دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ نظام اور نصاب میں اہل تشیع کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے، جو کہ آئینِ پاکستان اور اسلامی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
علامہ ڈومکی نے سات مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ علماء بورڈ کے ایکٹ کی شق 6، جز 3 میں ترمیم کی جائے تاکہ فیصلے اکثریتی دباؤ کے بجائے تمام مکاتب کے عقائد کی روشنی میں اتفاق رائے سے ہوں۔ انکا مطالبہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے اجلاس کی سفارشات کی روشنی میں صدیوں سے رائج متفق علیہ درود شریف میں تبدیلی کا عمل روکا جائے، اور متنازعہ نصاب تعلیم کے حوالے سے ملک کے کروڑوں شیعہ سنی مسلمانوں کے مطالبات شامل کرتے ہوئے 1975 کی طرز پر نیا نصاب تعلیم مرتب کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان میں اہل تشیع کو مساوی نمائندگی دی جائے، جیسا کہ متحدہ علماء بورڈ میں ہے۔
انکا مطالبہ ہے کہ قومی نصاب کونسل اور نصاب تعلیم کمیٹیز میں بھی تمام مکاتبِ فکر کے علماء کو برابر نمائندگی دی جائے۔ ٹیکسٹ بک بورڈز کی دینی کتب کی جائزہ کمیٹیوں میں چاروں مکاتبِ فکر کو شامل کیا جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسلامیات کے ماہرین مضمون چاروں مسالک سے لیے جائیں۔ اسلامیات کے مسودات کی منظوری کے لئے تمام مکاتب فکر پر مشتمل علماء کی کمیٹی کی اجازت اور اتفاق رائے لازمی قرار دیا جائے۔ اکثریت کی بنیاد پر کسی مسلک پر زبردستی اپنے عقائد مسلط کرنے کا عمل کسی طور پر درست نہیں۔
علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ اہل تشیع کی مسلسل نظراندازی، آئین پاکستان بنیادی شہری حقوق اور ملی وحدت کے منافی ہے۔ پاکستان میں بسنے والے تقریباً سات کروڑ اہل تشیع شہری اس وقت مختلف ریاستی اداروں میں نمائندگی سے محروم ہیں۔ شریعت کورٹ، اسلامی نظریاتی کونسل اور دیگر اہم پلیٹ فارمز پر اہل تشیع علماء کی نمائندگی نہ ہونا تشویشناک امر ہے۔ بعض اداروں میں صرف ایک یا دو افراد کو نمائندگی دی جاتی ہے، جو انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر حکومت واقعی مذہبی ہم آہنگی، اتحادِ امت اور مساوات پر یقین رکھتی ہے تو تمام فیصلے اور تقرریاں مساوی نمائندگی کے اصول کے تحت کی جائیں۔ اور متنازعہ نصاب تعلیم کو 1975 کے نصاب تعلیم کو فرقہ وارانہ تعصب سے پاک کرتے ہوئے 1975 کے نصاب تعلیم کی طرز پر از سر نو ترتیب دیا جائے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسلامی نظریاتی کونسل نمائندگی دی جائے میں اہل تشیع علامہ مقصود اہل تشیع کو نصاب تعلیم تمام مکاتب نے کہا کہ ڈومکی نے انہوں نے
پڑھیں:
کراچی میٹرک امتحانات: غیر متعلقہ افراد امتحانی مرکز میں داخل، لیپ ٹاپ سے پرچے حل کیے جانے لگے
میٹرک بورڈ کراچی کے تحت امتحانات جاری ہیں جس کے دوران بد انتظامی کی مختلف اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ذرائع نے کہا کہ گورنمنٹ گرلز سیکنڈری اسکول کلیٹن روڈ کے امتحانی مرکز میں غیر متعلقہ افراد داخل ہوگئے، امتحانی مرکز کی حدود میں ہی لیپ ٹاپ کی مدد سے پرچے حل کئے جانے لگے۔
ذرائع نے کہا کہ طالبات کے امتحانی مرکز میں لڑکے دندناتے رہے، سینٹر انتظامیہ تماشائی بنی رہی، بورڈ انتظامیہ نے نقل کی روک تھام کیلئے موبائل فون سمیت تمام برقی آلات پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
ترجمان میٹرک بورڈ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ میٹرک بورڈ کی ٹیم نے نارتھ کراچی امتحانی مراکز کا دورہ کیا، میٹرک بورڈ کی ٹیم نے امتحانی عمل کا جائزہ لیا، طلبہ سے پرچے سے متعلق دریافت کیا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ بورڈ کی ٹیم نے طلبہ کے ایڈمٹ کارڈز بھی چیک کئے، ٹیمز چیئرمین میٹرک بورڈ کی ہدایت پر مختلف امتحانی مراکز کے دورے کرکے صورتحال کا جائزہ لے رہی ہیں۔