زندگی کے روشن اور تاریک پہلوئوں کی حقیقت
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
زندگی ایک متنوع اور خوبصورت ترین احساس ہے۔ زندگی مشکلات، ناکامیوں اور تکالیف وغیرہ کی وجہ سے جتنی بھی تلخ اور کٹھن ہو، وہ بہرکیف جان لیوا اور تکلیف دہ موت سے بدرجہا بہتر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی دن اور رات کی مانند ہے جس میں جتنی اہمیت روشنی کی ہے اتنی ہی افادیت اندھیرے کی ہے۔ دنیا میں کتنے ہی ایسے پرامید اور روشن خیال (Optimistic) لوگ موجود ہیں جو مشکل حالات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔ دراصل زندگی کی حقیقت یہ ہے کہ یہ روشنی اور اندھیرے جیسی ہے یعنی زندگی کے دو رخ ہیں اس کا ایک رخ روشنی ہے اور دوسرا رخ اندھیرا ہے جس میں زندگی کے روشن حصے کو زندگی اور اندھیرے حصے کو موت کہا جاتا ہے۔ اس بنیاد پر انسانی معاشرے کے حوصلہ مند، بہادر اور جری افراد درد اور تکلیف سے بھی اتنا ہی بھرپور لطف اٹھاتے ہیں جتنا وہ وہ آرام اور آسائش کے دوران محسوس کرتے ہیں۔ اسی لئے وہ زندگی سے گزر بھی جائیں تو بعض لوگ دنیا میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے وہ زندگی اور موت کو برابر اہمیت دیتے ہیں۔ غم و آلام کے بغیر آسائشات اور خوشیوں کو محسوس کرنا تقریباً محال ہے۔ ایسے لوگ مقاصد کے لئے جیتے ہیں اور مقاصد کے حصول کے لئے مرتے ہیں۔
دنیا کے چند ترقی یافتہ ممالک میں کچھ صورتوں میں خودکشی کرنے کی قانونا اجازت ہے۔ لیکن یہ ایسا قانون ہے جو زندگی کے تاریک پہلوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ جو لوگ غمگین اور ناامید ہوتے ہیں وہ قنوطیت پسند (Sadist) کہلاتے ہیں۔ ناامیدی یا مایوسی کو اسی لئے “گناہ” قرار دیا گیا ہے کہ یہ زندگی کے بارے ناشکران نعمت ہے۔ انسانی زندگی میں غمزدگی کا ایسا انداز اور رویہ ’’ظلم پسندی‘‘ کے ضمرے میں آتا ہے۔ اس فلسفہ زندگی کا ہی نتیجہ ہے کہ دنیا کے جرائم پیشہ افراد برائی کرنے، دوسروں کا حق کھانے، جھوٹ بولنے اور یہاں تک کہ ’’منافقت‘‘ جیسے بدترین اعمال کو جاری رکھنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔ اس کے برعکس دنیا بھر میں تعلیم یافتہ اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا حامل ایک کثیر طبقہ ایسا موجود ہے جو غم اور خوشی کو برابر اہمیت دیتا ہے۔ اس طبقے میں شامل افراد مشکلات میں گھبراتے ہیں اور نہ ہی جدوجہد کرنا ترک کرتے ہیں۔ ایسے مثبت اور تعمیری کردار رکھنے والے لوگ کامیابیاں ملنے پر تفاخر محسوس نہیں کرتے ہیں بلکہ اس سے وہ احساس تشکر سے سرشار ہو جاتے ہیں جس سے وہ مزید مضبوط اور طاقتور بن جاتے ہیں۔
زندگی کے اس تعمیری نقطہ نظر کے مطابق جیسے روشنی کی اہمیت کا احساس اندھیرے کے بغیر ناممکن ہے اسی طرح غم برداشت کیے بغیر خوشی کو محسوس کرنا محال ہے۔ اصل بات یہ یے کہ ہمارے ناخوشگوار اور تکلیف دہ لمحات ہمارے اندر خوشی کے جذبات کو بیدار کرنے اور ابھارنے کے لئے آتے ہیں تاکہ ہم زندگی کے تاریک اور روشن دونوں پہلوں سے زندگی کا بھرپور لطف اٹھا سکیں۔ انگریزی زبان میں اسے Live life to its full extent کہتے ہیں یعنی زندگی جیسی یے اور جس حالت میں بھی یے اس سے مکمل استفادہ کر کے خوش و خرم زندگی گزاری جائے۔
دنیا میں بے شمار ایسے عظیم افراد گزرے ہیں اور اب بھی ہیں جنہوں نے جسمانی معذوری کے باوجود نہ صرف کامیاب اور بھرپور زندگی گزاری بلکہ دولت و ذرائع بھی جمع کیے اور پوری دنیا میں اپنی بلند استقامت اور جدوجہد کی وجہ سے نام بھی کمایا۔ ہمارے نظام شمسی کا سورج روزانہ نئی روشنی اور مواقع لے کر ابھرتا ہے۔ کچھ لوگ تکلیف دہ حالات و واقعات سے گزرتے ہیں تو زندگی سے تنگ آ کر ان کے منہ سے نکل جاتا ہے کہ، “اس زندگی سے تو موت بہتر ہے۔ لیکن یہ زندگی کے بارے میں ایک قنوطی اور پژمردہ نقطہ نظر ہے حالانکہ زندگی سے تنگ لوگ بھی اندر سے بہتر زندگی جینا چاہتے ہیں۔دنیا میں ایسا کونسا انسان ہے جو کامیاب، بہتر اور خوبصورت زندگی گزارنے کا متمنی نہیں ہے؟ زندگی کا تو مطلب ہی ’’دیکھئیے جا کر ٹھہرتی ہے نظر کہاں‘‘ کے مصداق حسن اور آسائش کی بہتر سے بہتر تلاش ہے۔ زندگی جیسی اور جیسے بھی حالات میں ہو اسے بھرپور طریقے سے جینا اور لطف اندوز ہونا آ جائے تو یہ ایسی عالیشان نعمت ہے کہ جسے لفظوں میں بیان کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ ہم عام انسانوں کا واسطہ عموما زندگی کے عام معمولات سے رہتا ہے اور ہم روزمرہ کی مصروفیات میں اتنے مگن ہو جاتے ہیں کہ ہم زندگی سے لطف تو اٹھاتے ہیں مگر اس طرف ہمارا دھیان ہی نہیں جاتا کہ زندگی کے ہر لمحہ میں ہم کیسی متنوع اور خوبصورت کیفیات سے گزرتے ہیں چہ جائیکہ ابھی تک انسان یہ تک معلوم نہیں کر سکا ہے کہ خود زندگی کیا چیز ہے یا اس کے قائم ہونے سے انسان یا دیگر جانداروں میں جو شعور پیدا ہوتا ہے وہ کیا چیز ہے؟
زندگی ایسی حسین اور یادگار ہے کہ اس کی ایک ایک کیفیت میں جاں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے۔ اس بات کو وہی محسوس کر سکتا ہے جس کا علم، ادراک اور شعور بدرجہا بیدار ہو جاتا ہے۔ زندگی کا یہ معیار ہر انسان کے تفکر اور آگہی کے لیول پر منحصر ہے۔ ایک یونانی فلسفی اور دانشور کا قول ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بھی بڑے کام کو انجام دینے کے لئے تھوڑے بہت پاگل پن کا ہونا لازمی ہے۔ اس مقولے کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ کوئی بڑا کام یا کارنامہ پاگل پن کے بغیر کیا ہی نہیں جا سکتا ہے۔
یہ 1929 ء کی بات ہے جب برلن کے ایک ہسپتال میں ایک نوجوان جرمن ڈاکٹر نے ایک ایسا تجربہ کیا جس نے طب کی دنیا کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ اس کا نام تھا: ڈاکٹر ورنر فورسمین (Werner Forssmann) تھا۔ تب تک میڈیکل ڈاکٹروں کا ماننا تھا کہ دل تک کوئی نلکی (کیتھیٹر) پہنچانا جان لیوا ہو سکتا ہے، لیکن فورسمین کے دل میں ایک اور ہی جستجو دھڑک رہی تھی۔ اس کو محاورتا یقین تھا کہ جان بچانے کے لئے پہلے خود جان دینا پڑتی ہے۔ہسپتال کی انتظامیہ نے اسے اس تجربے کی اجازت نہ دی، مگر وہ رکا نہیں۔ اس نے اپنی نرس کو قائل کیا کہ وہ اس پر یہ تجربہ کرے۔ جب وہ نرس نلکی لے کر پلٹی، تو فورسمین نے کہا، ’’نہیں، میں خود پر یہ تجربہ کروں گا۔‘‘ اور پھر اس نے خود اپنی کہنی کی رگ میں ایک لمبی نلکی داخل کی اور اسے دل کی طرف بڑھایا۔ وہ ہسپتال کے ایکسرے روم تک چلا گیا، جہاں اس نے خود اپنے سینے کا ایکسرے کروایا۔
تصویر میں صاف نظر آیا کہ نلکی سیدھی اس کے دل کے قریب پہنچ چکی تھی۔تصور کیجیے کہ ایک نوجوان ڈاکٹر، اپنے جسم پر تجربہ کر رہا ہے، صرف اس لئے کہ آنے والے وقتوں میں دل کی بیماریاں بغیر چاک کئے دیکھی اور سمجھی جا سکیں۔ اسے پاگل کہا گیا۔ ہسپتال سے نکال دیا گیا۔ برسوں تک کسی نے اس کی بات نہ مانی۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ وہ پاگل نہیں بلکہ پیش رو تھا۔ کئی سال بعد، اس کے تجربے کو بنیاد بنا کر کارڈیک کیتھیٹرائزیشن عام ہو گئی، وہی عمل جس سے آج لاکھوں جانیں بچائی جاتی ہیں۔اور پھر اسے وہ اعزاز ملا جس کا ہر سائنسدان خواب دیکھتا ہے یعنی اسے 1956 ء میں ’’نوبیل انعام‘‘ برائے طب سے نواز گیا۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: کرتے ہیں دنیا میں زندگی سے زندگی کے زندگی کا ہیں اور میں ایک سکتا ہے کی وجہ کے لئے
پڑھیں:
ٹرمپ، دنیا اور عالمی مالیاتی نظام
وہی ہوا اور ہورہا ہے جس کا ڈر تھا۔ ٹرمپ نے دنیا بھر میں عالمی تجارتی جنگ چھیڑ دی ہے۔ امریکیوں نے بھی چن کے وہ بندہ اپنا صدر بھرتی کیا ہے جو امریکا اور دنیا بھر کا دیوالیہ نکالے گا۔
ٹرمپ کا بنیادی مسئلہ ہی یہی ہے کہ وہ خود کو عقل کل سمجھتا ہے اور جو فیصلہ کرلیتا ہے تو بس اسی پر ٹک جاتا ہے۔ یہ خصوصیت ذاتی حیثیت میں ٹھیک ہے بلکہ خوبی ہے لیکن ملکی معامالات ایسے چل ہی نہیں سکتے۔ ٹرمپ اپنی ذاتی زندگی میں 3 مرتبہ صفر سے ملینیئر بنا ہے۔ یہ بھی ایک خوبی ہے اور اگر یہ صلاحیت کسی لیڈر میں ہو تو یہ خامی ہے کیونکہ ملک یا قوموں کےلیے صفر ہوکر دوبارہ پیروں پر کھڑے ہونے میں نسلیں گزر جاتی ہیں۔ ٹرمپ امریکا کو ٹیرف وار کے راستے جس ڈھلوان پر گھسیٹنے لگا ہے، اس کا اثر صرف امریکا پر ہی نہیں بلکہ دنیا بھر پر ہوگا۔
ٹرمپ نے دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ ٹیرف کی جنگ چھیڑ دی ہے اور جواب میں طاقتور ممالک نے امریکا پر بھی ٹیرف عائد کردیے ہیں۔ اس کے ساتھ دنیا بھر کی مالیاتی مارکیٹس گرنا شروع ہوگئی ہیں۔ خاکسار اس وقت دبئی میں موجود ہے اور یہاں کے معاشی ماہرین سے گفتگو کے بعد مجھے نجانے کیوں 2008 کے فنانشل کرائسز سے ملتا جلتا کچھ ہوتا ہوا محسوس ہورہا ہے۔ کچھ ایسا ہونے لگا ہے جو دنیا بھر کے مالیاتی سسٹم کو جھٹکا دے گا اور گلوبل فنائنسز یا جیو اکنامکس بدل جائیں گے۔ کیا یہ تبدیلی اچھی ہوگی؟ جی، نہیں!
سب سے پہلے یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ٹرمپ نے ٹیرف کی جنگ شروع کیوں کی ہے؟ اس کا بہت سادہ کا جواب یہی ہے کہ امریکی سادہ بدھووں کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ امریکی معیشت کو بیرونی خطرات سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جبکہ حقیقت میں مڈ ٹرم الیکشن میں اپنی سیٹ بچانے کےلیے اس نے اتنا بڑا محاذ کھول دیا ہے کہ اس کو اس کے بڑے بھی اب بند نہیں کرسکیں گے۔ اس اقدام کے بعد سے دنیا بھر میں امریکی اجارہ داری ختم ہوناشروع ہوگی اور دنیا اگلے 5 سال میں ہی کوئی نیا عالمی ٹھیکیدار دیکھے گی۔ ٹرمپ کی یہ پالیسی اس کے اچھے بزنس مین اور ایک نا کام لیڈر ہونے کی واضح نشانی بھی ہے کیونکہ اس نے معاشی تاریخ اوراپنے تجارتی فہم کو بطور بزنس مین تو دیکھا ہے لیکن اگر وہ یہ سب کچھ بطور لیڈر دیکھتا تو یہ احمقانہ قدم ہرگز نہ اٹھاتا۔
جو باتیں معاشی ماہرین سمجھ رہے ہیں، میرا پورا یقین ہے کہ وہ باتیں امریکی معاشی ماہرین بھی سمجھتے ہیں، وہ بھی جانتے ہیں کہ ٹرمپ کے اقدامات کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ واران بفے نے سب سے پہلے اپنے اسٹاکس مارکیٹ میں فروخت کرکے اس کو ڈالرز میں بھی بدل لیا تھا۔ لیکن ٹرمپ نے اپنی موجودہ فتح کو خدائی مدد سے تعبیر کرتے ہوئے خود سے یہ اخذ کیا ہے کہ وہ کچھ بھی کرنے کےلیے آزاد ہے اور عالمی المیہ یہ ہے کہ دنیا ڈالرز کے ساتھ بندھی ہوئی ہے اور کوئی بھی دوسرا مالیاتی نظام نہ تو اس کا متبادل ہے اور نہ ہی اس کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ اب دنیا کوئی افسانوی ناول تو ہے نہیں کہ 250 صفحات میں سب کچھ بدل جائے لہٰذا لمحہ موجود میں یہ صاف نظر آرہا ہے کہ دنیا ایک اور عالمی کساد بازاری کے در پر کھڑی ہے۔
ٹرمپ کی ٹیرف جنگ اب دنیا بھر کی معیشتوں پر اثر انداز ہوگی اور ظاہر ہے کہ ٹرمپ اس سے پیچھے تو ہٹے گا نہیں۔ اس کے نتیجے میں امریکا کو بھی نقصان ہوگا جس کا سارا الزام ٹرمپ چین اور یورپ کے سر منڈھ دے گا۔ اپنے مڈ ٹرم الیکشن 2026 میں اس کے ہاتھ میں یہی ہتھیار ہوگا کہ میں دنیا کی معیشت کا ٹھیکیدار نہیں ہوں، میں امریکی معیشت کو ٹھیک کرنے آیا ہوں اور میں نے دنیا بھر کے ٹیرف اس لیے بڑھائے تھے کہ مقامی لوگ امریکی مصنوعات کو بطور متبادل لیں۔
اس سب تماشے میں سب سے زیادہ نقصان اسٹاک مارکیٹس اور رئیل اسٹیٹ کا ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ دنیا بھر میں مالیاتی مارکیٹس اس طرح کے جھٹکوں سے اتنی جلدی ریکور نہیں ہوتی ہیں۔ اگر یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو پھر شاید دنیا دوبارہ سے 2008 جیسا بحران دیکھے کہ جب لے ہیمن برادرز نے اپنا ڈیفالٹ ڈکلئیر کیا تھا اور اس کے ساتھ مارٹگیج مارکیٹ ڈیفالٹ کی اور ساتھ ہی دنیا بھر کے بینکس اور مالیاتی نظام زمین بوس ہونا شروع ہوگیا۔ اس وقت اوباما تھا، ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ جن کے ہاتھ میں دنیا بھر کا مالیاتی نظام موجود ہے انہوں نے اوباما کو اس کی اوقات یاد دلانے کےلیے یہ حرکت کی تھی۔ خیر، دنیا بھر کی مارکیٹس کو اس جھٹکے سے نکلنے میں 3 سے 5 سال لگ گئے تھے۔ اب کیا ہوتا ہے، اس حوالے سے کوئی بھی بات حتمی طور پر نہیں کی جاسکتی۔
اس نقطے کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اثاثوں کی قدر میں کمی سے سب سے بڑا مسئلہ مارجن کالز اور لیکویڈٹی کا ہوتا ہے۔ امریکا میں پرائیوٹ ایکویٹی اور ہیج فنڈز اس مسائل سے پہلے سے ہی دوچار ہیں۔ اس وقت بٹ کوائن، کروڈ آئل کو بڑے نقصان کا سامنا ہے حتیٰ کہ رسک فری سمجھے جانے والے بانڈز پر دباؤ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ یہ صورتحال 2008 جیسی کریڈٹ کرنچ کو پیدا کر رہی ہے اور اگر صورتحال پر کسی بھی طرح قابو نہ پایا گیا تو کریڈٹ کرائسز جنم لے گا۔
پوری دنیا میں اس وقت صرف دبئی اس پوری صورتحال سے نمٹنے کےلیے بہتر طور پر تیار نظر آتا ہے۔ دبئی میں کریڈٹ ڈیفالٹ کے امکانات سب سے کم ہیں اور ڈیبٹ پیمنٹ کےلیے بھی سب سے بہترین اور منظم طریقہ کار مو جود ہے یعنی دبئی اکانومی کسی بھی قسم سے حالات سے نمٹنے کےلیے بہتر طور پر تیار نظر آتی ہے اور اس نے جو قرضے لیے ہوئے ہیں، اس کے پاس ان کی ادائیگی کا انتظام موجود ہے۔ دبئی میں مستحکم شرح سود بھی اس ضمن میں معاون ثابت ہوگی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دبئی نے گزشتہ سال کے اواخر میں ہی سب کچھ سمجھ کر پالیسی بنا لی تھی اور اب سب کچھ اسٹریم لائن ہے، لہٰذا دبئی کی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ بالخصوص تیار پراپرٹی مارکیٹ پر اس کے اثرات بہت کم ہوں گے۔ مزید یہ بھی ہے کہ دبئی نے 2008 کے فنانشل کرائسز سے بہت کچھ سیکھا ہے اور اپنا انحصار ایک دو کے بجائے اس کے دائرہ کار کو پھیلادیا ہے۔ لہٰذا اگر ایک سیکٹر پر ہٹ آتی ہے تو باقی ماندہ سیکٹرز مل کر اس کو بچائیں گے۔ لہٰذا بظاہر یہی لگتا ہے کہ دبئی اس وقت ٹرمپ کی ٹریڈ وار سے نکل جائے گا۔
اس پوری صورتحال میں اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ شاید دبئی اور پورا گلف مستقبل میں خود کو امریکی معیشت سے فاصلے پر کرلے۔ اس بات کے امکانات اگرچہ محدود ہیں، لیکن موجود ہیں۔ ایک ایسا ملک جس کی وجہ سے دنیا دو دہائیوں سے بھی کم عرصے میں دوبارہ سے گلوبل کرائسز کا سامنا کر رہی ہے اور اب کا گلوبل کرائسز قیادت کی ناسمجھی اور غلط فیصلوں کی وجہ سے ہے، وہ کسی بھی طرح سے اچھا معاشی شراکت دار نہیں ہوسکتا۔
اس سب کے ساتھ ایک اہم نقطہ جو اہم معاشی سرکلز میں زیر بحث ہے وہ یہ کہ کیا یہ سب کچھ اچانک ہو رہا ہے؟ گلوبل مارکیٹس میں ہلچل اور راتوں رات کھربوں ڈالرز کا مارکیٹ سے نکل جانا، عالمی مالیاتی اداروں کا گرنا اور اس کے ساتھ موجود دیگر عوامل۔ نہیں! یہ نہ تو اتفاق ہیں اور نہ ہی حقیقی معلوم ہو رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اسٹیج سجایا گیا ہے۔ دوسری جانب عالمی کاروباری خبروں میں جو خوف کا عنصر شامل ہوا ہے جس کی وجہ سے فروخت کنندگان ایک دم بہت زیادہ اور خریدار کم ہیں، یہ بھی مصنوعی ہے۔
اب ذرا یہ دیکھیں کہ خریدار کون ہیں؟ وارن بفے نے چند ماہ قبل اپنے شیئرز لیکویڈیٹ کیے اور اس کی دیکھا دیکھی بہت سے مالیاتی اداروں نے ایسا کیا۔ وارن نے تقریباً 134 ارب کے شیئرز کو لیکویڈیٹ کرکے 334 ارب کا کیش پائل کھڑا کیا ہوا ہے۔ اس کا مطلب کیا ہے کہ بفے کچھ وقت کے بعد دوبارہ سے مارکیٹ میں انٹری کےلیے تیار ہورہا ہے۔ اب ایک جانب تیل کی قیمت کم ہو رہی تھی اور دوسری جانب سونے کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ مصنوعی طور پر ماس پینک پھیلایا گیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ادارے مارکیٹ سے ایگزٹ لیں اور اہم شیئرز کی قیمتیں گرنا شروع ہو جائیں۔ ایسا شروع ہوچکا ہے۔
اب اگر بڑے فنڈز کچھ عرصے کے بعد شیئرز کو دوبارہ سستے داموں خریدنا شروع کرتے ہیں تو سمجھ لیجیے کہ یہ سب کچھ مصنوعی تھا اور امریکا کی ٹیرف وار کی آڑ میں گیم کھیل دی گئی ہے۔ اس کے قوی امکانات موجود ہیں۔ ایسا کرنے والے کون ہیں؟ وہی جو عالمی مالیاتی نظام کو کنٹرول کرتے ہیں۔ جو شرح سود کو کنٹرول کرتے ہیں۔ جو جنگوں اورعالمی وباؤں کو اسپانسر کرتے ہیں، جن کی ملکیت میں بڑے مالیاتی ادارے بھی ہیں اور جو میڈیا کے مالکان بھی ہیں۔ ان کا طریقہ واردات ہی انوکھا ہوتا ہے۔ یہ سب مل جل کر خاموشی سے چلتے ہیں اور جب دنیا جذباتی فیصلے لے رہی ہوتی ہے، یہ انہیں کیش کر رہے ہوتے ہیں۔ ذرا دیکھیں کہ بلیک راک اور وینگارڈ کیا کررہے ہیں۔ کیا اس سب کے بعد دنیا عالمی طور پر نئے ڈیجیٹل فنانشل سسٹم میں داخل ہورہی ہے؟ اس کے بھی قوی امکانات موجود ہیں۔
ایسی صورتحال میں کیا کیا جائے؟ انگریزی کا مقولہ ہے کہ ڈر کو مت خریدیں۔ جذبات کے بجائے ہوش مندی سے کام لیں۔ ایک دم گھبرانے کی اور بھیڑ چال کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگرآپ شیئر بازار میں ہیں تو ڈمپنگ میں ضرور خریدیں۔ دوسری جانب ٹوکنائزڈ اثاثہ جات پر نظر رکھیں، انڈر ویلیو بلیو چپس اور قیمتی دھاتوں کی قیمتوں پر نظر رکھیں۔ اب ڈیجیٹل دور ہے، سب کی کارکردگی کے چارٹس آن لائن دستیاب ہیں۔ بس اتنا سا کیجیے، ڈر کر فیصلہ مت کیجیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔