علیحدگی پسند تحریک

علیحدگی پسند تحریکوں کا مقصد کسی مخصوص علاقے، قوم، نسل، یا مذہبی گروہ کے لیے ایک علیحدہ خودمختار ریاست کا قیام یا کسی دوسرے ملک سے الحاق ہوتا ہے۔ موجودہ ریاست سے علیحدگی ان کا بنیادی مقصد ہوتا ہے۔ یہ تحریکیں بعض اوقات سیاسی مذاکرات، ریفرنڈم اور دیگر قانونی ذرائع اپناتی ہیں، جبکہ بعض صورتوں میں مسلح جدوجہد ان کا نصب العین ہوتی ہے۔

مزاحمتی تحریک

دوسری جانب مزاحمتی تحریکیں ریاستی جبر، قبضے، یا ناانصافی کے خلاف جدوجہد کے لیے چلائی جاتی ہیں۔ ان کا مقصد علیحدگی نہیں بلکہ آزادی، حقوق کی بحالی یا غیر پسندیدہ عناصر کے خلاف مزاحمت کرنا ہوتا ہے۔

مزاحمتی تحریکیں عام طور پر اس بنیاد پر عوامی پذیرائی پاتی ہیں کہ متعلقہ قوم یا نسل کو اپنے سیاسی، ثقافتی، لسانی یا معاشی حقوق پورے طور پر نہیں مل رہے ہوتے یا موجودہ ریاستی ڈھانچے میں وہ خود کو کمتر یا غیر مطمئن محسوس کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

دنیا میں علیحدگی پسند اور مزاحمتی تحریکوں کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ اگرچہ ان کی شکل اور مقاصد وقت کے ساتھ بدلتے رہے ہیں، لیکن بنیادی اصول ہمیشہ ایک جیسے رہے ہیں، یعنی سیاسی خودمختاری، آزادی، اور ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت۔

زمانہ قدیم میں رومی سلطنت کے خلاف اسپارٹیکس جیسی بغاوتیں ہوں یا چین اور دیگر علاقوں میں قبائلی بغاوتیں۔

13ویں صدی میں اسکاٹ لینڈ کی آزادی کی تحریک ہو یا صلیبی جنگوں کے خلاف مزاحمت، امریکہ کی برطانوی تسلط سے آزادی یا فرانسیسی انقلاب کا برپا ہونا۔ ویت نام کی آزادی کے لیے جنگیں ہوں یا فلسطین و کشمیر میں جاری مزاحمتی تحریکیں،1857 کی جنگِ آزادی یا برطانوی سامراجیت کے خلاف برصغیر کی تحریک آزادی کا ڈنکا بجنا ہو۔ ہر تحریک کے پیچھے طاقت ور حلقوں کا جبر، ملکی وسائل پر قبضہ، مقتدرہ حلقوں کی عوام کے پیسے پر عیاشیاں اور بدمعاشیاں اور غیرانسانی سلوک نمایاں محرکات ہوتے ہیں۔

حال ہی میں "بلوچ یکجہتی کمیٹی" کی دو رہنماؤں ماہ رنگ بلوچ اور سمی بلوچ کی گرفتاری کے بعد بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کا المناک مسئلہ ایک بار پھر شدت اختیار کر گیا ہے۔ سمی بلوچ کو ایک ہفتے کی قید کے بعد رہا کر دیا گیا، مگر ڈاکٹر ماہ رنگ تاحال ریاستی تحویل میں ہیں۔ ریاستِ پاکستان ان خواتین کو بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) سے منسلک کرنے پر مُصر ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں نوجوان خواتین بلوچستان کی ان ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی آواز ہیں، جن کے بھائی، شوہر اور بیٹے یا تو لاپتا کر دیے گئے ہیں یا ان کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہو چکی ہیں۔

یہ خواتین درحقیقت انسانی حقوق کی وہ علمبردار ہیں جو انصاف اور بنیادی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کر رہی ہیں کیونکہ دونوں ہی المناک حادثات سے گزر چکی ہیں۔ سن 80 میں رسول بخش پلیجو کی سربراہی میں جنرل ضیاء کی آمریت کے خلاف ''سندھیانی تحریک‘‘ پاکستانی خواتین کی پہلی ایسی تحریک تھی، جس میں ہزاروں عورتوں نے حصہ لیا اور اب بلوچ خواتین کی یہ مزاحمتی تحریک اپنے پیاروں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف پاکستان کی سب سے بڑی تحریک بن کر ابھری ہے، جس میں 10 سال کی بچیوں سے لے کر 80 سال کی عمر رسیدہ خواتین تک شامل ہیں۔

جب کسی ریاست کے کسی خطے میں علیحدگی پسند یا مزاحمتی تحریک جنم لیتی ہے، تو یہ ایک واضح اشارہ ہوتا ہے کہ ریاست وہاں کے عوام کو ان کے بنیادی حقوق فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ بلوچستان کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ یہ خطہ، جو زیرزمین معدنیات سے مالا مال ملک کا سب سے خوش حال صوبہ ہو سکتا تھا لیکن پچھلے 75 سال سے بدترین معاشی حالات، غربت اور بنیادی سہولتوں کے فقدان کا شکار ہے۔

بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریک، جو روز بروز پرتشدد ہوتی جا رہی ہے اس کی شروعات کب، کیسے اور کیوں ہوئی اسے سمجھنا بے حد ضروری ہے ـ

جیسا کہ عمومی طور پر یہ رائے پائی جاتی ہے کہ بلوچستان کی پسماندگی کا اصل سبب وہاں کے سردار ہیں، تو بظاہر یہ جواز کسی حد تک درست محسوس ہوتا ہے مگر یہ مکمل حقیقت ہرگز نہیں۔ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو برطانوی سامراج نے بھی اپنی عمل داری اور مفادات کو مستحکم رکھنے کے لیے انہی سرداروں، وڈیروں اور زمینداروں سے مفاہمت کی اور یوں اقتدار کی گاڑی کو آگے بڑھایا۔

بدقسمتی سے وہی نوآبادیاتی طرزِ حکمرانی آج بھی جاری و ساری ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ بلوچستان کے کہنہ مشق، صاحبِ بصیرت سیاست دان میر غوث بخش بزنجو پاکستان کے ساتھ الحاق کے حامی نہ تھے تاہم جب بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا تو انہوں نے نہایت دیانت داری سے جمہوری عمل کا احترام کیا اور کسی علیحدگی پسند تحریک کا حصہ بننے سے گریز کیا اور مرتے دم تک اس موقف پر قائم رہے۔

بلوچستان میں پنجابیوں یا دیگر غیر مقامی اقوام کے خلاف پائے جانے والے ردِ عمل کو سمجھنے کے لیے لازم ہے کہ 'ون یونٹ‘ کا ذکر کریں۔ 1955 میں ون یونٹ کے قیام نے جہاں مغربی پاکستان میں بسنے والی چھوٹی قوموں کو بے حد نقصان پہنچایا وہیں بلوچستان میں بھی احساسِ محرومی کو جنم دیا۔ اس سے قبل بلوچستان ایک مکمل صوبہ نہ تھا بلکہ برطانوی اور ریاستی بلوچستان پر مشتمل ایک نیم خودمختار خطہ تھا۔

ون یونٹ کے قیام کے بعد جب مغربی پاکستان کا دارالحکومت لاہور قرار پایا تو بلوچستان کے عوام کو اپنے مسائل کے حل کے لیے مقامی نمائندوں کی بجائے دور دراز مرکز کی جانب دیکھنا پڑا۔

اسی دوران ریاستی مشینری میں غیر مقامی افراد، بالخصوص پنجاب اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے افراد کی بھرتی شروع ہوئی، جو بعد ازاں بلوچستان کے ہر شعبے پر حاوی ہو گئے۔

جب سکیورٹی کے اداروں یعنی سول و عسکری بیوروکریسی، پولیس اور دیگر ایجنسیوں میں بھی مقامی افراد کی جگہ باہر سے آئے ہوئے لوگ تعینات ہونے لگے، تو بلوچ عوام کے دلوں میں اجنبیت اور محرومی کا احساس مزید گہرا ہوتا گیا۔ آج بلوچستان کے ہر شہر، ہر گلی، ہر موڑ پر سکیورٹی کے نام پر قائم چیک پوسٹوں پر تعینات غیر مقامی اہلکار جب مقامی بلوچوں سے ان کی شناخت طلب کرتے ہیں، تو یہ نہ صرف ان کی قومی شناخت بلکہ ان کی عزتِ نفس پر بھی سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔

بلوچستان کی مزاحمتی تحریک کی جڑیں بھی اسی عدم مساوات، اجنبیت اور استحصال میں پیوست ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ جس سرزمین سے گیس نکلی، وہاں کے باسی آج بھی لکڑیاں جلا کر چولہا گرم کرتے ہیں۔ سوئی کی گیس نے بڑے شہروں کو تو توانائی دی، مگر سوئی خود توانائی کی کمی کا شکار رہا ۔

بلوچستان کے قدرتی وسائل، خصوصاً ریکوڈک اور سیندک، مقامی ترقی کا ذریعہ بننے کے بجائے استحصالی پالیسیوں کی نذر ہو گئے۔

جب وسائل پر قابض قوتیں مقامی آبادی کو اعتماد میں لیے بغیر خفیہ معاہدے کرتی ہیں، تو یہ منصوبے عوامی فلاح نہیں بلکہ ریاستی جبر کی علامت بن جاتے ہیں تاہم، ان منصوبوں میں مقامی شرکت کے فقدان اور ریاستی سطح پر شفافیت کی کمی پر جب بلوچ عوام نے آواز اٹھائی تو انھیں لاپتا کر کے یا مسخ شدہ لاشیں پھینک کر ان آوازوں کو دبانے کی کوشش کی گئی۔

لیکن اب ماہ رنگ بلوچ اور سمی بلوچ کی صورت میں بلوچوں کو عوامی رہمنا میسر آئیں ہیں اور یہ تحریک اب بلوچستان ہی نہیں پاکستان میں عورتوں کی سب سے بڑی مزاحمتی تحریک بن چکی ہے، جس کے آگے ریاستی ہتھکنڈے بھی اب کوئی بند نہیں باندھ پارہے ہیں۔

وقت کا تقاضا ہے کہ ریاستی و حکومتی ادارے بلوچستان کے حقیقی عوامی و سیاسی نمائندوں کو قومی سیاسی دھارے میں شامل کریں اور ان کے ساتھ سنجیدہ و بامقصد گفت و شنید کا آغاز کریں۔

بلوچستان کے عوام طویل عرصے سے محرومیوں کا شکار ہیں، جنہیں دور کرنے کے لیے بنیادی انسانی، سماجی و اقتصادی حقوق کی فوری اور منصفانہ فراہمی ناگزیر ہے۔

حالات کا تقاضا ہے کہ لاپتا افراد کے مسئلے کو شفاف قانونی طریقے سے حل کیا جائے۔ اگر کوئی فرد کسی تخریبی یا دہشت گردانہ سرگرمی میں ملوث ہے تو اسے قانون کے مطابق عدالت میں پیش کیا جائے تاکہ عدالتی عمل کے ذریعے سچ سامنے آ سکے۔

امن و امان کی بحالی اور دیرپا استحکام کے لیے ضروری ہے کہ طاقت کے استعمال کے بجائے مفاہمت، مکالمے اور سیاسی شعور کو فروغ دیا جائے۔ بلوچستان کے مسائل کا حل طاقت سے نہیں، بلکہ افہام و تفہیم اور سنجیدہ سیاسی عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے اور یہی ملک میں پائیدار امن اور ترقی کی بنیاد بن سکتا ہے۔

دوسری اہم ضرورت دہشتگردی کا خاتمہ ہے چاہے وہ مذہبی بنیاد پر ہو یا قومیت کے نام پر۔

عام شہریوں کی ہلاکت اور دہشت گردی کی مذمت بلوچ عوام اور ان کے رہنماؤں کو بھی کرنی چاہیے کیونکہ دشت گردی کا شکار ہمیشہ معصوم اور بے قصور لوگ ہی بنتے ہیں۔ بی ایل اے کی حالیہ دہشت گردانہ کارروائیوں کی یک زبان ہو کر مذمت کرنا بھی ضروری ہے۔

امن و امان کی بحالی اور دیرپا استحکام کے لیے ضروری ہے کہ طاقت کے استعمال کے بجائے مفاہمت، مکالمے اور سیاسی شعور کو فروغ دیا جائے۔

بلوچستان کے مسائل کا حل طاقت سے نہیں، بلکہ افہام و تفہیم اور سنجیدہ سیاسی عمل کے ذریعے ہی ممکن ہے اور یہی ملک میں پائیدار امن اور ترقی کی بنیاد بن سکتا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے علیحدگی پسند تحریک مزاحمتی تحریکیں مزاحمتی تحریک بلوچستان میں بلوچستان کے کی بحالی ضروری ہے ہوتا ہے کا شکار کے خلاف حقوق کی کے لیے

پڑھیں:

موقع پرست سرداروں، جعلی کامریڈوں ،دہشتگردوں کا گٹھ جوڑ

بلوچستان میں آگ سلگ رہی ہے۔ دہشت گردی اور لسانی تعصب کا ایندھن استعمال کیا جا رہا ہے۔ کالعدم بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں سرگرم ہیں ۔ان دہشت گرد گروہوں کا نان نفقہ ازلی دشمن بھارت کے ذمے ہے۔ برسوں قبل اجیت دوول نے پاکستان کی بربادی کا یہی منصوبہ بیان کیا تھا ۔یوٹیوب پر موصوف کا یہ خطاب موجود ہے۔ ماضی میں معروف ٹی وی اینکرز اس زہریلی گفتگو کے کلپ نشر کر کے بھارت کے پاکستان دشمن منصوبے قوم کے سامنے رکھ چکے ہیں ۔اب بلوچستان کے موجودہ حالات پر نگاہ ڈالیں تو صاف نظر ارہا ہے کہ اجیت دوول کا منصوبہ عملی شکل دھارچکا ہے۔ کلبھوشن کی صورت ایک جیتا جاگتا ثبوت پہلے ہی پاکستان کی حراست میں ہے۔ علیحدگی پسند دہشت گرد بلوچوں کے ہمدرد نہیں بلکہ بھارت کے تنخواہ دارنمک خوار ہیں۔ ریاستی اداروں پر حملے دراصل بلوچستان کو میدان جنگ میں تبدیل کرکےپاکستان کو غیرمستحکم کرنے کی ناپاک مہم کا حصہ ہیں۔ عملی طور پر دہشت گردی کی وجہ سے بلوچستان میں ترقیاتی، معاشی اورتعلیمی سرگرمیاں تباہ کی جا رہی ہیں۔ یہ مذموم وارداتیں بلوچ عوام کو نقصان پہنچارہی ہیں۔ یہ سوال بہت اہم ہے کہ بلوچستان کا مفاد قومی دھارے میں شامل ہونے میں ہے یا لسانی تعصب کی بنیاد پر ریاست کی اکائیوں سے الجھنے میں ہے؟ یہ سوال اس لئے بھی بہت اہم ہے کہ حقوق کے نام پرجو سرگرمیاں بلوچستان میں جاری ہیں وہ دراصل بلوچ عوام کو رفتہ رفتہ تباہ کن تصادم کی جانب دھکیل رہی ہیں ۔سرکاری وظیفے پر ڈاکٹر بننے والی نوجوان ماہ رنگ کی زہریلی گفتگو میں بلوچستان کے مسائل کا کوئی حل کبھی سامنے نہیں آیا۔سوشل میڈیا پر بھارت کی زبان میں ریاستی اداروں کی تذلیل سے نہ بلوچ عوام کو کچھ ملےگا اور نہ ہی بلوچستان کے مستقبل پر کچھ مثبت اثر پڑے گا۔ بھارتی سرمائے سے یورپی ممالک میں مٹھی بھر بھاڑے کے اداکارجمع کر کے ریاست دشمن ڈرامہ کرنے والے مفرور دراصل دہشت گردی کی آگ پر اپنے ذاتی مفادات کی روٹیاں سینک رہے ہیں۔ حقوق کے نام نہاد علمبردار کالعدم دہشت گرد گروہوں کے خلاف چپ کا روزہ کیوں رکھے ہوئے ہیں؟ نام نہاد یکجہتی کمیٹی کی منہ پھٹ ڈاکٹر صاحبہ عملی طور پر کالعدم دہشت گرد تنظیم کی وکیل صفائی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ بلوچستان کی سرزمین پر نہتے بےگناہ پنجابی عوام کا خون ناحق بہائے جانے پر بھارت میں جشن کی کیفیت کیوں دکھائی دیتی ہے؟معصوم پاکستانی اور سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں کی شہادت پرجو سوشل میڈیا اکائونٹ بھارت کی طرح زہریلی زبان استعمال کرتے ہیں۔ وہی سب اکائونٹ نام نہاد یکجہتی کمیٹی کی ڈاکٹرصاحبہ کی زہر افشانی پر داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے ہیں۔ دہشت گردی کی آگ پر لسانی تعصب کا ایندھن چھڑکنے والے فتنہ گر دراصل مودی سرکار کے پاکستان دشمن عزائم کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں ۔ڈاکٹر ماہ رنگ کی گرفتاری پر ایک مخصوص طبقے میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ بھارت سے چلائے جانے والے سوشل میڈیا اکائونٹس پر انسانی حقوق کے خلاف ورزی کا واویلا مچایا جا رہا ہے۔ بلوچستان کے حقیقی خیرخواہ سیاسی اورجمہوری عمل کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں سلگتی آگ کو ٹھنڈا کرنے کا یہی طریقہ مناسب ہے ۔ ایک لانگ مارچ کی کال نے صورتحال میں مزید پیچیدگی پیدا کی ہے۔
خضدار سے متصل تحصیل وڈھ کے روایتی سردار اخترمینگل اپنے لانگ مارچ کے ساتھ متحرک ہوئے ہیں ۔یہ اقدام کافی معنی خیز اور مشکوک ہے۔ سونے کاچمچہ منہ میں لے کر پیدا ہونے والےسردار موصوف پسماندگی کا شکار رہنے والے بلوچ عوام کے حقوق کا علمبردار بن کر میدان میں کودے ہیں ۔مینگل صاحب کا خاندانی پس منظر اور سیاسی ٹریک ریکارڈ ان کے زبانی دعووں سے متصادم ہے۔ تعجب ہے کہ مینگل صاحب کو ماہ رنگ کی گرفتاری میں بلوچ خواتین و روایات کی پامالی تونظر آرہی ہےلیکن بلوچستان کی سرزمین پر ٹرین ہائی جیکنگ سمیت متعدد دہشت گرد حملوں میں بیوہ، یتیم اور لاوارث ہونے والی دیگر پاکستانی خواتین کےحقوق کا ذرہ بھر خیال نہیں۔ کسی پنجابی مزدور کے بے رحمانہ قتل پر ان کی زبان سے مذمت کا ایک لفظ نہیں نکلا۔ حقیقت یہ ہےکہ اختر مینگل صاحب کا تعلق اشرافیہ کے اس سرداری طبقے سے ہےجو صدیوں سے کمزور بلوچ عوام کا استحصال کرتا آرہا ہے۔ دہشت گردی اور لسانی تعصب کی اٹھتی ہوئی لہر پر اپنی ڈوبتی ہوئی سیاسی کشتی کو دریا پار لگانے کے لیےمینگل صاحب نے لانگ مارچ کا دائو کھیلا ہے۔ انہیں میڈیا پر شہرت مل رہی ہے۔ یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ وہ بلوچ عوام کے نمائندہ ہیں۔ وہ مزاحمت کی علامت بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کوشش ناکام ہی ثابت ہوگی۔ بلوچ عوام جان چکے ہیں کہ استحصالی طبقے کا امیر کبیر سردار ان کی محرومی کا ڈھنڈورا پیٹ کر اپناسیاسی مفاد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ نہتے عوام کاخون بہانے اورخواتین کو خودکش بمبار بنا کر صوبے میں عدم استحکام پھیلانے والے موقع پرست دراصل بلوچ روایات کو پامال کر رہے ہیں۔ بلوچستان کے مستقبل کو سب سے بڑا خطرہ دہشت گردوں، جعلی کامریڈوں اور استحصالی سرداروں کے پر فریب گٹھ جوڑ سے ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بلوچستان نیشنل پارٹی کے دھرنے کا سترھواں روز
  • بلوچستان میں مذاکراتی تعطل، بلوچ خواتین کی رہائی پر ڈیڈلاک برقرار
  • آٹھ فروری کو حقیقی نمائندوں کے بجائے جعلی قیادت مسلط کی گئی، تحریک تحفظ آئین
  • موقع پرست سرداروں، جعلی کامریڈوں ،دہشتگردوں کا گٹھ جوڑ
  • بلوچستان ہائیکورٹ : ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ
  • وادی کشمیر کے آزادی پسند رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن تیز
  • پاکستان تحریک انصاف کا مزاحمتی سیاست ترک کرنے کا فیصلہ
  • پارٹی رہنماوں کے ایک دوسرے پر الزامات، عمران خان نے وارننگ دیدی
  • پارٹی رہنماؤں کے ایک دوسرے پر الزامات، عمران خان نے وارننگ دیدی