ایک صدی سے بھی طویل عرصے کے وقفے کے بعد لاس اینجلس اولمپکس 2028 کے لیے کرکٹ کو بھی دیگر گیمز کی طرح باقاعدہ طور پر اولمپکس کھیلوں کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔

 تفصیلات کے مطابق انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی بورڈ نے لاس اینجلس اولمپکس 2028ء میں مرد و خواتین کی 6، 6 کرکٹ ٹیمیں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ مردوں اور خواتین دونوں کے کرکٹ ٹورنامنٹس ٹی 20 فارمیٹ میں کھیلے جائیں گے۔

اس فیصلے کے تحت ہر شریک ملک کو 15 رکنی اسکواڈ میدان میں اتارنے کی اجازت دی جائے گی۔ لاس اینجلس اولمپکس میں کرکٹ کی واپسی 1900 کے پیرس اولمپکس کے بعد پہلی بار ہو رہی ہے، جہاں برطانیہ اور فرانس کے درمیان ایک واحد میچ کھیلا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 2028 کے لاس اینجلس اولمپکس میں کرکٹ سمیت 5 نئے کھیل شامل

اولمپکس ٹورنامنٹس کے ہر مقابلے کے لیے ٹاپ کی 6 ٹیموں کا انتخاب کیا جائے گا اس لیے افغانستان، آسٹریلیا، بنگلادیش، انگلینڈ، بھارت، آئرلینڈ، نیوزی لینڈ، پاکستان، جنوبی افریقہ، سری لنکا، ویسٹ انڈیز، زمبابوے اور دیگر ایسوسی ایٹ ممالک کی موجودگی میں پاکستان کو اپنی رینکنگ بہتر کرنی پڑے گی تاکہ کسی قسم کی الجھن سے بچا جا سکے۔

اس وقت پاکستان مینز ٹیم ساتویں اور ویمنز ٹیم آٹھویں پوزیشن پر ہے جبکہ بھارت اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں ٹی ٹو20 ورلڈ چیمپیئن کی حیثیت سے اولمپک سائیکل میں داخل ہو سکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لاس اینجلس اولمپکس 2028: بھارتی شائقینِ کرکٹ کے لیے مقابلوں کا مقام تبدیل کرنے کی تجویز

لاس اینجلس 2028 میں کرکٹ کے میچز کہاں کھیلے جائیں گے، اس کا اعلان ابھی باقی ہے۔ مکمل مقابلہ شیڈول بھی وقت کے قریب جا کر جاری کیا جائے گا۔

لاس اینجلس 2028 میں کرکٹ کی شمولیت اس بات کا مظہر ہے کہ یہ کھیل حالیہ برسوں میں عالمی ملٹی اسپورٹس ایونٹس میں تیزی سے جگہ بنا رہا ہے۔ مردوں کی کرکٹ 1998 میں کومن ویلتھ گیمز کوالالمپور میں کھیلی گئی تھی، جبکہ خواتین کی کرکٹ نے 2022 کے برمنگھم کومن ویلتھ گیمز میں ڈیبیو کیا۔ مردوں اور خواتین دونوں کی کرکٹ 2010، 2014 اور 2023 کے ایشین گیمز میں بھی شامل رہی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اولمپکس ٹی 20 کرکٹ لاس اینجلس.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اولمپکس ٹی 20 کرکٹ لاس اینجلس میں کرکٹ کے لیے

پڑھیں:

پاکستان: افغان مہاجرین کی جبری واپسی کے معاشی اثرات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 اپریل 2025ء) حالیہ چند روز میں پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی کے عمل میں تیزی لائی گئی ہے، جس سے خاص طور پر صوبہ خیبر پختونخوا کی معاشی مشکلات میں اضافے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عمل سے نہ صرف معیشت متاثر ہوگی بلکہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بھی داؤ پر لگ سکتے ہیں۔

افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت 30 لاکھ کے قریب افغان مہاجرین مقیم ہیں۔ عالمی اداروں کے مطابق ان میں سے تقریباً ساڑھے 13 لاکھ رجسٹرڈ ہیں، جبکہ ساڑھے آٹھ لاکھ کے پاس افغان سیٹیزن کارڈز موجود ہیں۔ دس لاکھ سے زائد افراد بغیر کسی قانونی دستاویز کے رہائش پذیر ہیں۔

(جاری ہے)

روزانہ 200 کے قریب افغان مہاجرین پاک-افغان سرحد طورخم کے راستے واپس جا رہے ہیں۔

گزشتہ روز پنجاب کے 10 اضلاع سے 1437 افراد کو بائیومیٹرک تصدیق کے بعد افغانستان روانہ کیا گیا۔

پشاور میں مقیم افغان باشندوں کی بڑی تعداد نے ڈیڈلائن سے قبل ہی پاکستان چھوڑ دیا تھا، لیکن بہت سے تاجروں کو یقین تھا کہ حالیہ ڈیڈلائن میں توسیع کی جائے گی۔ تاہم اب کاروباری طبقہ بھی واپسی کی تیاریوں میں مصروف ہے، جو معیشت پر منفی اثرات کا باعث بن سکتا ہے۔

معاشی اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟

افغان مہاجرین کی واپسی سے خیبر پختونخوا اور پاکستان کی مجموعی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے۔ پشاور کے تاجر برادری کا کہنا ہے کہ افغان تاجروں نے ہزاروں کی تعداد میں سرمایہ کاری کی، جس سے مقامی معیشت کو سہارا ملا۔ سرحد چیمبر آف کامرس کے سینئر نائب صدر عبدالجلیل جان نے جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان نے چار دہائیوں تک افغان مہاجرین کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کیا، انہوں نے یہاں کاروبار شروع کیے، جائیدادیں خریدیں، لیکن اچانک انہیں جانے کا کہنا دونوں ممالک کے دیرینہ تعلقات کو متاثر کرے گا۔

‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ صوبے کے زیادہ تر کاروبار افغان تاجروں کے ہاتھ میں ہیں اور ان کے اچانک انخلا سے معاشی بحران پیدا ہو گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پشاور کی گولڈ مارکیٹ میں 80 فیصد کاروبار افغان تاجروں کے پاس ہے، جبکہ کرنسی ایکسچینج، کارپیٹ، جیولری، قیمتی پتھروں، ہوٹلوں، الیکٹرانکس اور کپڑوں کے کاروبار میں بھی ان کا بڑا حصہ ہے۔

پاک-افغان جائنٹ چیمبر آف کامرس کے سینئر نائب صدر ضیاالحق سرحدی کا کہنا ہے، '' افغان تاجروں نے کراچی اور لاہور میں بڑے صنعتی یونٹس قائم کیے، جن سے سینکڑوں پاکستانیوں کو روزگار ملتا ہے۔ ان کے جانے سے نہ صرف سرمایہ کاری ختم ہو گی بلکہ روزگار کے مواقع بھی کم ہوں گے۔‘‘ حکومتی پالیسی پر تنقید

تاجر برادری نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ افغان مہاجرین کو نکالنے سے قبل متعلقہ اسٹیک ہولڈرز، جیسے سرحد چیمبر، پاک-افغان جائنٹ چیمبر اور افغان تنظیموں کو اعتماد میں لیا جائے۔

عبدالجلیل جان کے مطابق، ''حکومت کو چاہیے تھا کہ ایک جامع پالیسی بنائی جاتی تاکہ معاشی نقصان سے بچا جا سکے۔‘‘ ضیاالحق سرحدی نے تجویز دی کہ سرمایہ کاری کرنے والے افغان تاجروں کو ریلیف دیا جائے، جیسا کہ یورپ اور دیگر ممالک میں کیا جاتا ہے، تاکہ وہ اپنا کاروبار افغانستان منتقل کر سکیں۔ سیاسی و معاشرتی خدشات

ماہرین کے مطابق افغان مہاجرین کی واپسی سے بدامنی اور سیاسی عدم استحکام بڑھ سکتا ہے۔

افغانستان کی موجودہ صورتحال، جہاں انفراسٹرکچر تباہ حال ہے اور کاروباری مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں، افغان تاجروں کو دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کے لیے مجبور کر رہی ہے۔ اس صورتحال سے امتیازی سلوک اور تشدد کے واقعات بڑھنے کا خطرہ ہے۔

مزید برآں افغان تاجروں کی جبری واپسی سے غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی کا خدشہ ہے، جو پاکستان کے سرحدی علاقوں کے معاشی استحکام کے لیے اہم ہے۔

پشاور میں افغان تاجر اتحاد کے صدر حاجی نصیب شاہ کا کہنا تھا، ''ہمارا 40 سالہ کاروبار ایک ماہ میں سمیٹنا ناممکن ہے۔ ہمارے بچوں کی تعلیم یہاں جاری ہے، جبکہ افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہے۔‘‘ ثقافتی و سماجی نقصان

خیبر پختونخوا میں افغان کمیونٹی کئی دہائیوں سے معاشی اور سماجی طور پر فعال ہے۔ بہت سے افغان باشندوں نے پاکستان میں ہی شادیاں کیں اور ان کی تیسری نسل پاکستان کو اپنا وطن سمجھتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ان کی جبری واپسی سے دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں اوورسیز کنونشن میں آئی اے پی جے بھرپور شرکت کرے گی: شاہد چوہان
  • پاکستان میں پہلی بار بائنیل کانگریس ،18 ایشیاء پیسیفک ریجن سے اور 12 دیگر ممالک سے مقررین کی شرکت
  • پاکستان: افغان مہاجرین کی جبری واپسی کے معاشی اثرات
  • سنگاپور : پاکستانی ہائی کمیشن میں یوم پاکستان کی تقریب، سینئر وزیر مملکت ڈاکٹر کوہ پوہ کون سمیت اہم شخصیات کی شرکت
  • انسانی اسمگلنگ، 21 پاکستانی آج میانمار سے واپس وطن پہنچیں گے
  • 128 سال بعد کرکٹ کی اولمپکس میں واپسی؛ پاکستان مشکل میں!
  • کرکٹ کی اولمپکس میں واپسی؛ 2028 میں 6 ٹیمیں حصہ لیں گی
  • بیساکھی میلے میں شرکت کیلئے دنیا بھر سے ہزاروں سکھ یاتریوں کی آمد کا آغاز ہوگیا
  • اولمپکس میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی شمولیت کا سفر آسان یا مشکل؟