خیبر پختونخوا احتساب کمیٹی: کیا پارٹی میں مخالفیں کو دبانے کی کمیٹی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 10th, April 2025 GMT
عمران خان کی ہدایت پر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی جانب سے تشکیل کردہ احتساب کمیٹی نے صوبائی وزرا، معاونین اور مشیروں کو کرپشن کے الزمات پر طلب کرکے احتساب کا عمل تیز کر دیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت میں کابینہ میں شامل کابینہ ممبران، سابق وزرا اور دیگر کے احتساب کے عمل میں اس وقت تیزی دیکھنے میں آئی ہے جبکہ پارٹی کے اندر سابق صوبائی صدر اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے خلاف گروپ بندی ہو رہی ہے اور ان پر پارٹی کے اہم رہنماؤں کی جانب سے ‘pro establishment’ ہونے کے الزمات لگنے لگے ہیں جبکہ پارٹی کی کچھ رہنما احتساب کے عمل کو یک طرفہ اور مخالفیں کو دبانے کی کوشش بھی قرار دے رہے ہیں۔
احتساب کمیٹیوزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے عمران خان کی ہدایت پر اپنی حکومتی کارکردگی کو بہتر بنانے اور کرپشن کی روک تھام اور احتساب کے لئے 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی۔ پی ٹی آئی کے ذرائع بتاتے ہیں کہ عمران خان نے موجودہ صدر خیبر پختونخوا اور چئیرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی جنید اکبر کو کمیٹی میں شامل کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم ان کا نام نکال دیا گیا۔ پی ٹی آئی کی احتساب کمیٹی، 3 ارکان، وزیر اعلیٰ کے مشیر برائے احتساب مصدق عباسی، سابق گورنر شاہ فرمان اور سینیئر قانون دان قاضی انور پر مشتمل ہے۔
کمیٹی کو اختیار دیا گیا ہے کہ عوامی شکایت پر کسی وزیر یا رہنما کو طلب کیا جا سکتا ہے اور کمیٹی ان کی تفصیلی رپورٹ عمران خان کو پیش کرے گی۔ کمیٹی نے تشکیل کے بعد کئی کابینہ ممبران کو طلب کیا اور کمیٹی کی سفارش پر ہی پارٹی کے دیرینہ رہنما شکیل خان کو کابینہ سے فارغ کر دیا گیا جبکہ کمیٹی کی سفارشات پر کابینہ قلمدان بھی تبدیل کیے گئے۔
کمیٹی پر پی ٹی آئی رہنماؤں کے اعتراضات کیوں؟احتساب کمیٹی بننے کے بعد سے ہی متنازع ہوئی ہے اور اعتراضات اس وقت سامنے آئے جب جنید اکبر کو کمیٹی میں شامل نہیں کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے ایک سینیئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پی ٹی آئی اس وقت سخت اندرونی گروپنگ کا شکار ہے اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے اختلافات شدید ہو گئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ علی امین نے ہمیشہ مخالف گروپس کو دبانے کی کوشش کی ہے اور جنید اکبر کو اسی وجہ اسی کمیٹی میں شامل نہیں کیا کیونکہ وہ عاطف خان گروپ کے حامی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ احتساب کمیٹی نے سب سے پہلے شکیل خان کو نشانہ بنایا جو ہمیشہ منہ پر بات کرتے ہیں اور ان کا دامن کرپشن سے پاک ہے۔ ‘جس وقت شکیل خان کور ہیڈکورٹر نہیں گئے اور اختلافات شروع ہوئے تو علی امین نے کمیٹی تشکیل دی اور شکیل خان کو نشانہ بنایا اور کابینہ سے نکال دیا۔’
انھوں نے کہا کہ اگر شکیل خان کرپشن میں ملوث ہیں تو ان کی انسداد کرپشن یا نیب سے تحقیقات ہونی چاہئے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ شکیل خان کے ساتھ دیگر ممبران کو بھی طلب کیا گیا تھا ان کے خلاف کچھ نہیں ہوا اور شکیل خان کو خاموش کیا گیا۔
‘دس کروڑ اثاثے اور 75 کروڑ تقسیم، احتساب سب کا ہونا چاہئے’پی ٹی آئی کی احتساب کمیٹی نے سابق صوبائی وزیر تیمور جھگڑا اور اسپیکر صوبائی اسمبلی بابر سلیم سواتی سے کرپشن کے الزمات پر جواب طلب کیا اور 2نوں رہنماؤں نے تحریری جواب جمع کیا ہے۔ احتساب کمیشن کو تحریری جواب جمع کرنے کے بعد تیمور جھگڑا نے سوال اٹھایا کہ انھوں نے اپنا جواب دے دیا اب 2سروں کی باری ہے۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا ان کے دس کروڑ اثاثے ہیں انھوں نے ورکرز میں 75 کروڑ تقسیم کیے پیسے کہاں سے آئے جواب سب کو دینا پڑے گا۔ ‘عوام کو معلوم ہے کون ملا ہوا ہے۔’
تیمور جھگڑا اور بابر سلیم سواتی کو نوٹس پر پارٹی میں شدید بے چینی پیدا ہوئی ہے اور کچھ رہنما اسے ذاتی انتقام قرار دے رہے ہیں۔
اندرونی ذرائع بتاتے ہیں کہ پارٹی کے اندر بھی اس حوالے سے شدید تحفظات سامنے آئے ہیں اور علی امین مخالف گروپ اس حوالے سے حقائق عمران خان کے سامنے رکھنا چاہتا ہے۔ تاہم ان کو عمران خان تک رسائی نہیں ہے۔ پارٹی کے ایک رہنما نے بتایا کہ عمران خان سے ان لوگوں کو ملنے کی اجازت دے جا رہی ہے جو مقتدر حلقوں کے گڈ بک پر ہیں اور وہی لوگ اپنی بات خان تک پہنچاتے ہیں۔
‘احتساب کمیٹی نہیں علی امین کمیٹی ہے’
پشاور کے سنئیر صحافی علی اکبر سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی احتساب کمیٹی نہیں بلکہ علی امین کمیٹی ہے جو مبینہ طور پر پارٹی میں مخالف آواز کو دبانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ علی اکبر نے کہا کہ احتساب کمیٹی بالکل بھی آزاد نہیں ہے اور جو کمیٹی آزاد نہ ہو وہ احتساب کیسے کر سکتی ہے۔ انھوں نے کہا احتساب کمیٹی کا سربراہ وزیر اعلیٰ علی امین کے مشیر ہیں اور ایک مشیر وزیر اعلیٰ کی مرضی کے خلاف کیسے جا سکتا ہے۔ انھوں نے کہا ابھی تک جن کو احتساب کے نام پر طلب کیا گیا ہے یا کاروائی ہوئی ہے وہ علی امین مخالف گروپ کے ہیں جبکہ ان کے اپنے بن2ں کے خلاف کچھ نہیں ہو رہا۔ ‘اس آپ black mailing کمیٹی کہہ سکتے ہیں۔ جو حمایتی یافتہ اور مراعات یافتہ اس میں شامل ہیں۔’
علی اکبر نے کہا صوبائی حکومت میں احتساب کی ضرورت ہے لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں ہے جبکہ علی امین مخالفین کو دبانے پر مصروف ہیں۔
کابینہ ممبران سے پوچھ رہے ہیں کہ ایک سال میں کیا گیا؟پی ٹی آئی انٹرنل احتساب کمیٹی کے ممبر قاضی انور نے احتساب کمیٹی کے حوالے سے گزشتہ روز پشاور میں میڈیا سے بات کی اور بتایا کہ کابینہ ممبران کا احتساب جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ روزانہ 2 ممبران کو طلب کیا جاتا ہے اور وہ کمیٹی کو ایک سالہ کارکردگی پر بریفننگ دیتے ہیں۔ ‘کابینہ ممبران اپنے اسٹاف کے ساتھ آتے ہیں اور ملٹی میڈیا پر بریفننگ دیتے ہیں کہ سال میں کیا کیا اور سوالات کے جواب بھی دیتے ہیں۔ ‘
قاضی انور نے کہا ان کی کوشش ہے کہ عمران خان سے ملاقات ہو لیکن اجازت نہیں مل رہی ہے۔
احتساب کمیٹی کے حوالے سے انھوں نے کہا وہ کابینہ ممبران کی کارکردگی رپورٹ تیار کر رہے ہیں۔ جبکہ سابق صوبائی وزیر تیمور جھگڑا نے 2 ممبران پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ قاضی انور نے بتایا کہ تیمور جھگڑا نے مصدق عباسی اور شاہ فرمان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے جبکہ ایڈکیٹ جنرل آفس میں لا افسران کی تعنیاتیوں پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
پی ٹی آئی کے مطابق احتساب کمیٹی تمام ممبران کی کارکردگی رپورٹ اگلے ماہ عمران خان کو پیش کرے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
احتساب کمیٹی پی ٹی آئی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: احتساب کمیٹی پی ٹی ا ئی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور علی امین گنڈاپور کابینہ ممبران خیبر پختونخوا احتساب کمیٹی انھوں نے کہا تیمور جھگڑا شکیل خان کو احتساب کے پی ٹی ا ئی وزیر اعلی پی ٹی آئی نے کہا کہ حوالے سے بتایا کہ پارٹی کے کمیٹی نے کو دبانے کے خلاف ہیں اور رہے ہیں طلب کیا کیا گیا کیا ہے ہیں کہ ہے اور رہی ہے
پڑھیں:
خیبر پختونخوا میں پولیس سرٹیفکیٹ بنوانے کی فیس مقرر
کرایہ داری فارم کی فیس 2 ہزار، بیرون ملک جانے کے لئے پولیس کلیرئنس سرٹیفکیٹ کی فیس تین ہزار، سرکاری ملازمت کی ویریفکیشن فیس ایک ہزار جبکہ ویزہ پراسیس کی تصدیق کی بھی فیس مقرر کردی گئی۔ اسلام ٹائمز۔ خیبر پختونخوا حکومت نے پولیس کلیرنس، کریکٹر سرٹیفکیٹ اور ویزہ کلیرنس کے لیے 3 ہزار روپے سرکاری فیس مقرر کردی۔ تفصیلات کے مطابق کرایہ داری فارم کی فیس 2 ہزار، بیرون ملک جانے کے لئے پولیس کلیرئنس سرٹیفکیٹ کی فیس تین ہزار، سرکاری ملازمت کی ویریفکیشن فیس ایک ہزار جبکہ ویزہ پراسیس کی تصدیق کی بھی فیس مقرر کردی گئی۔ اس سے قبل پشاور پولیس لائن اور پال آفس یعنی پولیس اسسٹنس لائن سے یہ تمام سہولیات شہریوں کو مفت مسیر آتی تھیں لیکن صوبائی کابینہ کی منظوری کے بعد پہلی بار شہریوں کے لئے کسی بھی قسم کی پولیس ویریفکیشن یا ویزہ سمیت تصدیقی سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کےلئے فیس ادا کرنی ہوگی۔ پشاور میں پولیس سہولت مرکز میں فیس ادائیگی کا باقاعدہ آغاز بھی کردیا گیا محکمہ داخلہ خیبر پختونخوا نے فیسیں مقرر ہونے کے حوالے سے باقاعدہ اعلامیہ جاری کردیا۔