پچھلے کالم میں مسئلہ بلوچستان کے تناظر میں قوم، قبیلے اور کلچر کا ذکر ہوا۔ اس موضوع کو بلوچستان سے ہٹ کر بھی قدرے تفصیل سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ ہمارے کلچر کو دو اطراف سے یلغار کا سامنا ہے۔ ایک تو لبرل دانشوروں کی جانب سے جن کا پرچار ہے کہ اپنا کلچر سرنڈر کرکے مغربی کلچر اختیار کرنا ترقی کی ضمانت ہے۔ دوسرا مذہبی طبقہ جس نے مذہب کے فروغ کے لیے ایسی دھول اڑائی ہے جس میں کلچر کی اہمیت ہی مشکوک کر دی گئی ہے۔ حالانکہ خدائی نظام تشکیل ہونے کے سبب اس کی بھرپور مگر تعمیری موجودگی لازم ہے۔ یہ نظام کمزور ہوگا تو ہم اپنی اجتماعی شناخت کھوتے چلے جائیں گے، جو ایک بڑا بحران ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں:ہم، وجاہت مسعود اور ٹرک کی بتی
ہمارے ہاں ماحول کچھ ایسا بن گیا ہے کہ اگر کسی چیز کی ترغیب یہ کہہ کر دی جائے کہ گوری اقوام ایسا کرتی ہیں تو لوگ قبول کرنے سے ہچکچاتے نہیں۔ بلکہ پھٹی جینز پہننے جیسی نہایت احمقانہ حرکت بھی محض اس لیے اختیار کر لیتے ہیں کہ گورے ایسا کرتے ہیں۔ عقل کے ہر پیمانے پر یہ ایک احمقانہ حرکت ہے مگر چونکہ یہ حرکت گوروں سے سرزد ہوئی ہے لہٰذا اسے اپنانا ہے۔ سو قوم قبیلے کی نسبت سے اپنی شناخت کے معاملے میں ترقی یافتہ اقوام میں اس کے باوجود پوری سنجیدگی نظر آتی ہے کہ وہ گلوبلزم کے نام پر عالمی یک رنگی کے بھی قائل ہیں۔ مثلاً آپ یہ دیکھیے کہ زبان وہ اساس ہے جس پر کوئی بھی کلچر کھڑا ہوتا ہے۔ زبان کی حیثیت اساسی یوں ہے کہ جب بھی کوئی شخص اپنی زبان ترک کرتا ہے، کلچر بھی خود کار طور پر کوچ کر جاتا ہے۔ ملتان اس کی سب سے نمایاں مثال ہے۔ اپنی تاریخ میں یہ ایک پشتون شہر ہے۔ آج بھی وہاں خاکوانیوں اور گردیزیوں سمیت کئی پشتون قبائل موجود ہیں۔ مگر یہ پشتون قوم سے کٹ چکے۔ صورت اس کی یہ بنی کہ ملتان ایک اہم تجارتی شہر تھا۔ صورتحال یہ تھی کہ تاجر پشتون تھے اور کسٹمرز سرائیکی۔ سو تاجروں نے کسٹمرز کی زبان سیکھ لی۔ وہ سرائیکی زبان کو صرف بازار تک رکھتے تو کوئی مسئلہ نہ تھا۔ مگر غلطی انہوں نے یہ کی کہ یہ زبان گھروں تک لے گئے۔ سو اپنی زبان چھوڑتے ہی ان کے ہاں سے پشتون کلچر بھی کوچ کرگیا۔ محض بلڈ لائن کے بل پر وہ اپنی قوم کا حصہ نہیں رہ سکتے تھے۔ یوں اب یہ سب وسیب کلچر کا حصہ ہیں۔ چنانچہ مغربی اقوام اپنی زبان کے معاملے میں اس اصول پر قائم ہیں کہ یہ کسی صورت ترک نہیں کی جائے گی، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ زبان گئی تو کلچر بھی جائے گا۔ کلچر گیا تو شناخت ہی ختم ہو جائے گی۔
آپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاسوں میں دیکھا ہوگا کہ چین، روس، فرانس، بھارت، اور جرمنی سمیت اکثر ممالک کے سربراہان اپنی قومی زبان میں تقاریر کرتے ہیں۔ ہمیں چونکہ علی گڑھ کالج والی اسکیم کی تحت بہت منظم انداز سے اس احساس کمتری کا شکار کیا گیا ہے کہ ہمارا مشرقی کلچر ایک نہایت پست درجے کی چیز ہے۔ لہٰذا ہم بھی ایک پست مخلوق ہی ہیں۔ اعلیٰ مخلوق بننے کے لیے ہمیں 2 کام کرنے ہوں گے۔ ایک یہ کہ اپنے کلچر پر لعنت بھیج کر ہمیں مغربی کلچر اختیار کرنا ہوگا۔ اور دوسرا یہ کہ اپنی زبان کی جگہ ہمیں انگریزی زبان میں گفتگو کو ترجیح دینی ہوگی۔ چنانچہ ہمارا وزیر اعظم ہو یا صدر، اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یہ ثابت کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ وہ ایسی قوم کا نمائندہ ہے جو اپنا کلچر سرنڈر کرچکی۔ چینی، روسی، یا فرانسیسی صدر کو یہ ٹینشن بالکل نہیں ہوتی کہ اس کی زبان تو برطانوی، امریکی یا دیگر اقوام کو سمجھ نہ آئے گی۔ حالانکہ یہ وہ صدور ہیں جن کا کہا عالمی سطح کا اثر رکھتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم کے ارشادات عالمی چھوڑیے علاقائی سطح کا اثر بھی کب کا کھو چکے، مگر یہ اپنی بات انگریزی میں کرکے گورے کو پتا نہیں کس چیز سے متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گورا اگر آپ کے خیالات اپنی زبان میں سن بھی لے تو اس سے اسے کیا فرق پڑتا ہے؟ اہمیت کیا ہے آپ کے خیالات کی؟
یہ بھی پڑھیں:’انقلابی فیلنگز‘
علی گڑھ تحریک کے نتیجے میں ہمارے ہاں ایک عجیب طرح کا مسخرا پن رونما ہوا۔ سرسید انکل نے سبق یہ پڑھایا تھا کہ جب تم اپنے کلچر اور زبان کی جگہ گورے کی زبان و کلچر اپنا لوگے تو تم بھی ترقی یافتہ ہوجاؤگے۔ کسی کو بھی یہ خیال نہ آیا کہ ترقی کلچر نہیں علم کی مدد سے ہوتی ہے۔ علم ترقی دیتا ہے اور ترقی کلچر کو ارتقا سے گزارتی ہے۔ اور علم کی صورتحال یہ ہے کہ اس ضمن میں سرسید کالج نے جتنے بھی انڈے بچے دیے، ان کی کارکردگی جاننے کے لیے سب سے موزوں ہستی پروفیسر ہودبائی ہیں۔ ذرا ان سے پوچھ لیجیے کہ ہمارا تعلیمی نظام کیسا ہے۔ پروفیسر پوری شام غریباں نہ برپا کر دیں تو کہیے۔ مگر اس شام غریباں کے بعد بات انہوں نے بھی وہی کرنی ہے جو سرسید نے کہی تھی کہ ہمیں مزید مغربی ہونا پڑے گا۔ گویا ہمارے ساتھ پچھلے ڈیڑھ سو سال سے فراڈ ہی یہ ہو رہا ہے کہ ترقی کے لیے درکار علم کی فراہمی کی جگہ ہمیں مزید گورا کرنے کی محنت جاری ہے۔
اب ذرا یہ ستم ظریفی بھی دیکھیے کہ برطانوی قوم اپنے بچے کو اپنی قومی زبان میں تعلیم فراہم کر رہی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بچہ کوئی بھی نئی چیز اپنی زبان میں زیادہ آسانی سے سیکھتا ہے۔ چنانچہ برطانوی ہی نہیں جرمن، فرانسیسی، روسی اور چائنیز سمیت تمام اقوام کے بچے اپنی ہی زبان میں علم حاصل کر رہے ہیں۔ اور ہم ؟ ہم اپنے بچوں کو غیرملکی زبان میں پڑھانے پر فخر کر رہے ہیں۔ اس اسکول کی فیس کئی گنا زیادہ ہوتی ہے جو یہ حماقت زیادہ زور و شور سے کر رہا ہو۔ اب اس طرح کے ماحول میں تو بس اتنی ہی قابلیت پیدا ہوسکتی ہے کہ اس نظام تعلیم کا پڑھا ہوا ہمیں اپنی پھٹی جینز اور انگریزی کمنٹس ہی سے متاثر کرنے کوشش کرسکتا ہے، علم سے نہیں۔
کیا ہمارا لبرل دانشور اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ سمجھدار قومیں کبھی بھی اپنا کلچر سرنڈر نہیں کرتیں؟ وہ تو اس مسئلے پر مسلح تصادم پر اتر آتی ہیں۔ ویلادیمیر پیوٹن نے 20 سال قبل یہ کیوں کہا تھا کہ سوویت زوال کا سب سے بڑا سانحہ یہ ہے کہ 40 ملین روسی اپنے وطن سے باہر رہ گئے؟ کیونکہ قوم ہی اصل اجتماعی وحدت ہے۔ چنانچہ جب یوکرینی بحران کے دوران یہ صورتحال پیدا ہوگئی کہ یوکرین میں آباد روسی قوم سے ان کی زبان اور کلچر چھیننے کا فیصلہ ہوا، اور خود زلنسکی نے ان روسیوں کو ٹی وی پر کیڑے مکوڑے قرار دیدیا تو جنگ کی نوبت آئی کہ نہیں؟ یوں یوکرین کے وہ پانچوں ریجن روس کا حصہ بنتے چلے جا رہے ہیں جہاں روسی آباد ہیں۔
اپنے کلچر کے معاملے میں ہمارے ساتھ ظلم صرف علی گڑھ تحریک یا اس سے پیدا ہونے والے ایک موسم کے کمیونسٹ، اور دوسرے موسم کے لبرل ہی نے نہیں کیا۔ بلکہ مولوی نے بھی ہمارے کلچر کی ایسی کی تیسی پھیرنے میں پورا پورا حصہ لیا ہے۔ مثلاً جب گورے نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو وہ جبری آقا اور ہم غلام ہوگئے۔ اس ماحول میں ایک کلچرل نوعیت کا فیصلہ آیا اور وہ یہ کہ ’انگریزی بال‘ یعنی ہیئر اسٹائل رکھنا ناجائز ہے۔ اس ماحول میں یہ ایک درست اقدام تھا۔ کیونکہ غلام کا اپنے آقا کی نقالی اختیار کرنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ گورے سے آزادی اختیار کرنے کی بجائے اس کے کلچر کو پسند کرنے لگا ہے۔ گویا اس کی حاکمیت کو دل و جان سے قبول کر رہا ہے۔ ایک دن آیا اور برٹش سرکار کوچ کر گئی۔ اس کے کوچ کو لگ بھگ 70 سال ہوگئے۔ اور ہمارا مولوی آج بھی قوم کو یہ فتوے دے رہا ہے کہ انگریزی ہیئر اسٹائل ناجائز ہے۔ مولوی کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ برٹش دور کا وہ فتویٰ مذہبی نہیں سیاسی تھا۔ مذہب کی رو سے تو انگریزی ہیئر اسٹائل تب ناجائز ہوگا جب دین اسلام نے کوئی ہیئر اسٹائل دیا ہو۔ ہے قرآن مجید کی کوئی آیت جس میں بتایا گیا ہو کہ مسلمان کا ہیئر اسٹائل کیسا ہوگا؟ یا کوئی حدیث جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہیئر اسٹائل کے حوالے سے کوئی حکم دیا ہو؟ حکم تو بس 2 ہی بالوں کا آیا ہے۔ ایک وہ جو بغلوں میں ہیں اور دوسرے وہ جو زی ناف ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:کون جنتی کون دوزخی؟
اسی طرح آپ کھڑے ہو کر کھانے پینے کا معاملہ دیکھ لیجیے۔ اگر آپ غور کریں تو دنیا کی تمام اقوام کھانا بیٹھ کر کھاتی ہیں۔ فرق بس اتنا ہے کہ کچھ قومیں ڈائیننگ ٹیبل پر تو کچھ فرشی دسترخوان پر بیٹھ کر کھاتی ہیں۔ بیشتر ایشین قومیں تاریخی طور پر فرشی نشست جبکہ مغربی قومیں ڈائیننگ ٹیبل کا کلچر رکھتی ہیں۔ اصل مسئلہ تب پیش آتا جب کوئی تقریب ہوتی۔ تقریب میں شامل ہر شخص کو درجنوں لوگوں سے ملنا پڑتا ہے۔ سو قدرتی سی بات ہے کہ بار بار اٹھنا بیٹھنا پڑتا تھا۔ گوروں نے اس کا حل یہ ڈھونڈ لیا کہ تقریب میں کھانا ہی کھڑے ہوکر کھاؤ تاکہ یہ بار بار کی اٹھک بیٹھک سے جان چھوٹے۔ اس نے صرف تقریب کے لیے یہ ترکیب اختیار کی۔ ورنہ گھر پر روز کا کھانا پینا اس کا اب بھی بیٹھ کر ہی ہوتا ہے۔ فرشی نشست والی اقوام نے جب یہ دیکھا تو ترکیب معقول لگی۔ یوں ہمارے ہاں بھی اس کا رواج یوں آسانی سے پڑ گیا کہ ہم تو سرسید کے نسخے کے مطابق انسانی تاریخ میں یہ کارنامہ کرنے جا رہے تھے کہ محض گورا کلچر اختیار کرکے ہی ترقی یافتہ ہونے کا پلان تھا۔ سو یہ کھڑے ہو کر کھانے کا سوال مولوی صاحب کے پاس بھی پہنچ گیا۔ دیدیا انہوں نے فتویٰ کہ کھڑے ہوکر کھانا پینا ناجائز ہے۔ حالانکہ ہیئر اسٹائل کی طرح یہاں بھی اسلام نے کوئی آرڈر پاس نہیں کیا کہ کھانا کھانے کے لیے بیٹھنا ضروری ہے۔ اگر کوئی نہ بیٹھا تو اس کا ٹھکانا جہنم کے فلاں فلور پر ہوگا۔
ہمارا مولوی کلچر میں مداخلت والی یہ وارداتیں ایک روایت کی مدد سے کرتا ہے۔ روایت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ جو شخص جس قوم سے مشابہت اختیار کرتا ہے وہ اسی میں سے ہو جاتا ہے۔ اس روایت کی تشریح مولوی یہ کرتا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم قوم کی مشابہت اختیار کرے گا تو وہ غیر مسلم ہوجائے گا۔ حالانکہ یہ روایت جو بات کہہ رہی ہے اس کی تو ہمارے ہاں سب سے بڑی مثال وہی ملتان کے خاکوانی اور گردیزی ہیں۔ یہ روایت یہ بیان کر رہی ہے کہ جب کوئی شخص اپنا کلچر چھوڑ کر دوسری قوم کی مشابہت یعنی کلچر اختیار کرتا ہے تو وہ اپنی شناخت کھو دیتا ہے اور اس نئی قوم میں سے ہو جاتا ہے۔ مثلاً خاکوانی اور گردیزی اب پشتون نہیں وسیب کلچر کا حصہ بن چکے۔ جو اس حدیث کی صداقت کی دلیل ہے۔ اس کے برخلاف اگر آپ مذہبی پہلو سے دیکھیں تو اتاترک کے جبر کے نتیجے میں ترک قوم نے مکمل طور پر مغربی کلچر اختیار کر لیا۔ کیا اس کے نتیجے میں وہ غیر مسلم بھی ہوئے؟ کسی نے مذہب ترک کیا ؟
سو کلچر کے حوالے سے ہمیں 2 یلغاروں کا سامنا ہے۔ ایک یلغار لبرل طبقے کی ہے جو مغربی کلچر کی فرنچائز کھولے بیٹھا ہے اور اس کی سرتوڑ کوشش ہے کہ ہم اپنا بچا کھچا کلچر بھی ترک کر دیں اور لنڈا اختیار کرلیں۔ جبکہ دوسری یلغار مولوی کی ہے جو اس کے باوجود کلچر میں دخل دیتا ہے کہ اسلام نے کلچر میں کوئی دخل ہی نہیں دیا۔ آپ چارپائی پر سونا چاہتے ہیں، بیڈ پر یا فرشی بستر پر اسلام کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ سو اس نے یہ انتخاب آپ کے کلچر پر چھوڑ دیا ہے۔ وہ مہمان نوازی کی ترغیب دیتا ہے۔ مگر اس کے لیے آپ رواج کیا تشکیل دیتے ہیں اس میں وہ کوئی دخل نہیں دیتا۔ ہر قوم کے کلچر میں آداب میزبانی اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ سو ایک قوم کی بیٹھک فرشی نشست والی ہے اور دوسری کی ڈرائنگ روم صوفوں والی۔ اسلام نے حلال غذا کا تو حکم دیا مگر پکانے کی ریسپی ایک بھی نہیں دی۔ سو ہم کو اپنے بچے کھچے کلچر کو ان دونوں یلغاروں سے بچانا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کلچر ملتان ہیئر اسٹائل مغربی کلچر اپنی زبان ہمارے ہاں کلچر بھی اسلام نے کلچر میں کی زبان کرتا ہے دیتا ہے کھڑے ہو کلچر کو نے کلچر ہے اور کے لیے یہ ایک کا حصہ
پڑھیں:
وزیراعظم محمد شہباز شریف اور بیلاروس کے صدر لوکا شینکو کے مابین دو طرفہ ملاقات، پاکستان سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد تربیت یافتہ اور ہنر مند نوجوانوں کو بیلا روس بھیجا جائے گا
منسک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 11 اپریل2025ء) پاکستان سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد تربیت یافتہ اور ہنر مند نوجوانوں کو بیلا روس بھیجا جائے گا۔ یہ فیصلہ وزیراعظم محمد شہباز شریف اور بیلاروس کے صدر لوکو شینکا کے مابین جمعہ کو بیلا روس کے ایوان آزادی میں ہونے والی دو طرفہ ملاقات میں کیا گیا۔ وزیر اعظم آفس کے میڈیا ونگ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق پاکستان سے ہنر مند اور تربیت یافتہ نوجوانوں کو بیلاروس بھجوانے کے حوالے سے لائحہ عمل جلد ترتیب دیا جائے گا۔ ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ زرعی شعبے اور زرعی مشینری کی تیاری کے حوالے سے مشترکہ طور پر کام کیا جائے گا۔ ملاقات میں الیکٹرک گاڑیوں ، بسوں کی تیاری اور غذائی تحفظ کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔(جاری ہے)
دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں دفاعی تعاون اور بزنس ٹو بزنس تعاون بڑھانے کا اعادہ بھی کیا گیا۔ ملاقات میں دونوں رہنماؤں کے مابین تجارت، سرمایہ کاری اور علاقائی امور سمیت مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور بیلاروس کے مابین تعلقات کے تمام پہلوؤں میں حالیہ مثبت پیشرفت پر اطمینان کا اظہار کیا۔ دونوں رہنماؤں نے باہمی فائدہ مند تعاون اور اقتصادی و تجارتی تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔ وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ اسلام آباد میں گزشتہ سال ہونے والے پاک-بیلاروس مشترکہ وزارتی کمیشن کے آٹھویں اجلاس اور اس سال پاکستان سے بین الوزارتی وفد کے دورہ بیلاروس کے بعد دونوں ممالک میں مختلف شعبوں میں تعاون میں نمایاں پیشرفت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان بیلاروس کے ساتھ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وزیراعظم نے بیلا روس میں پر تپاک استقبال اور شاندار مہمان نوازی پر صدر لوکاشینکو کا شکریہ ادا کیا۔